یوم تاسیس :”تحریک انصاف“ کے 27سال !

مجھے اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ تحریک انصاف کی اس وقت ملک بھر کہیں حکومت نہیں مگر پھر بھی وہ سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ جسے 27سال قبل 25اپریل 1996کو اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ ملک میں موجود 2سیاسی جماعتوں کے جمود کو توڑا جاسکے، جس میں یہ جماعت خاصی حد تک کامیاب بھی رہی۔ مثلاََ اُس وقت ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی سیاست عروج پر تھی، دونوں ایک دوسرے کے خلاف ہر حد تک جانے کے لیے بے تاب رہتی تھیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی تھیں، بلکہ ن لیگ تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی character assassination کے لیے اُس وقت کروڑوں روپے استعمال کرتی تھی، اُن کے خلاف پوسٹر چھپوا کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے پھنکوائے جاتے تھے۔ زرداری صاحب کے اداکاراﺅں کے ساتھ سکینڈلز ، کرپشن کے سکینڈلز اور دیگر پراپرٹی سکینڈلز عام بات تھی۔ میں بذات خود اُس وقت ایک بڑے اخبار میں چیف رپورٹر کے فرائض سرانجام دے رہا تھا، ہم نے بھی کئی سکینڈلز رپورٹ کیے۔ اُس وقت سوشل میڈیا نامی کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوتا تھا۔ صبح کے چند اخبارات ہوتے تھے، پھر زیادہ ”ہاٹ “ خبر ہوتی تو ”ضمیمہ “نکال لیا جاتا۔ مگر قارئین کے پاس خبر حاصل کرنے کا واحد ذریعہ صرف اور صرف پرنٹ میڈیا ہی ہوا کرتا تھا۔ ایسے میں کئی خبریں دب بھی جایا کرتی تھیں یا کبھی کبھی اخبار مالکان کی بھینٹ چڑھ جایا کرتی تھیں۔ لیکن 90کی دہائی وہ دہائی تھی جب ہماری سیاست کا بیڑہ غرق ہو رہا تھا۔ ہر طرف پیسے کی ریل پیل ہو رہی تھی،ایسے میں ایک نئی پارٹی کا قیام خوش آئند بات تھی۔ اس پارٹی کا ابتدائی منشورانصاف کی فراہمی، صحت ، تعلیم ، شہری حقوق، عوامی فلاح و بہبود، اظہار رائے کی آزادی ، روزگار ، مذہبی ہم آہنگی اور مساوی ٹیکس کے نظام کے بارے میں شعور بیدار کرنا تھا۔پارٹی کے قیام کے بعد عمران خان کی سربراہی میں 6 ممبران کی مرکزی انتظامی کمیٹی کے ساتھ کام کرنا شروع کیا جن میں نعیم الحق، احسن رشید، حفیظ خان، مہید حسین، محمود اعوان اور نوشیروان برکی شامل تھے۔ پی ٹی آئی نے 1997 کے عام انتخابات میں نومولود پارٹی کی حیثیت سے حصہ لیا ، حالانکہ پی ٹی آئی عام انتخابات میں ایک بھی نشست جیتنے میں ناکام رہی تھی لیکن بعد میں عمران خان نے ثابت کیا کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف پاکستانی قوم کے لئے متبادل جماعت ہے۔پھر 2002 میں دوسری مرتبہ پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں حصہ لیا اور میانوالی سے عمران خان نے قومی اسمبلی کی ایک نشست اور کرک سے میاں نثار گل کاکاخیل نے کے پی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کی۔ پی ٹی آئی نے 18 فروری 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا جو این آر او (قومی مفاہمت آرڈیننس) متعارف کرانے کے فیصلوں کی مخالفت کرنے کے سبب کیا گیا۔ الیکشن 2008ءکا حصہ نہ بننے سے تحریک انصاف کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ اُسے ایک تو عوام کی توجہ حاصل کرنے کا بھرپور موقع ملا، جبکہ دوسری طرف پارٹی کے اندر سے دباﺅ کی وجہ سے 2011ءتک بھرپور مہم چلانے کا موقع ملا اور اس طرح پی ٹی آئی 2011 میں ایک سیاسی قوت بن کر ابھری، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے شاہ محمود قریشی، پاکستان مسلم لیگ (ف) سے جہانگیر خان ترین اور دیگر اہم رہنماو¿ں نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، اس کے علاوہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ان کی بھی ایک بڑی تعداد تھی جنہیں سیاسی حلقوں میں کوئی نہیں جانتا تھا، ان میں سرِ فہرست نام اسد عمر کا ہے۔ایک مضبوط الیکشن مہم کے بعد 2013ءکے الیکشن میں تحریک انصاف 85لاکھ ووٹ لے کر ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن گئی ، لیکن مرکز میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی، تاہم قومی اسمبلی میں 32 سیٹیں حاصل کے اپوزیشن کی نشستیں سنبھال لی۔اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف نے صوبہ خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل کی اور جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرکے صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اس دوران دھرنا سیاست کو بھی تحریک انصاف نے جنم دیا اور نیٹو سپلائی اور ڈرون حملے کے خلاف پی ٹی آئی کا پہلا دھرنا 24 نومبر 2013 سے 26 فروری 2014 تک پشاور میں ہوا۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کو بھی ایکسپوز کیا اور 2013ءکے انتخابات میں این اے 57 ، این اے 110 ، این اے 122 اور این اے 125 کے 4 حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔ پی ٹی آئی ریسرچ ونگ نے یہ ثابت کرنے کے لئے 2100 صفحات پر مشتمل کتاب تیار کی کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی نے انتخابی دھاندلی کی طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی توجہ مبذول کروانے کے لئے تمام قابل رسائی جمہوری ذرائع کا استعمال کیا۔ عمران خان کا مو¿قف تھا کہ سپریم کورٹ انتخابات کے نتائج کا نوٹس لے۔ تمام قانونی فورم سے مایوسی کے بعد پی ٹی آئی نے 22 اپریل 2014 کو دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف اپنی تحریک شروع کرنے کا باضابطہ اعلان کیا۔ پنجاب اور اسلام آباد کے تمام شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ بعدازاں پی ٹی آئی نے 14 اگست 2014 کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ اس دھرنے میں پی ٹی آئی کی جانب سے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا، یہ دھرنا تقریباً 5ماہ تک جاری رہا، تاہم اسے 16دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے دہشت گرد حملے، جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا، کے بعد دھرنا ختم کردیا تھا۔پھر 2016 میں پاناما پیپرز اسیکنڈل منظر عام پر آیا، جس کے بعد جب وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا، تو اس میں بھی پی ٹی آئی پیش پیش تھی، اس مرتبہ پی ٹی آئی اپنی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہوئی اور سپریم کورٹ نے نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا، جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ سے بھی نااہل ہوگئے تھے۔ اس دوران تحریک انصاف کئی ایک تنازعات میں بھی گری رہی جیسے پی ٹی آئی نے اپنے بانی کارکنوں کو کھو دیا، اور موسمی پرندوں نے اُن کی جگہ لے لی، ویسے تو اکثر ہی ایسے ہوتا ہے مگر تحریک انصاف کے اس اقدام کو مخالف سیاسی جماعتوں نے زیادہ استعمال کیا۔ جیسے پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر مخالفین کے ہتھے چڑھ گئے اور انہوں نے تحریک انصاف پر ہی مشہور زمانہ ”فارن فنڈنگ“ کیس کر دیا۔ پھر 2018ءکے الیکشن میں خان صاحب کو اپنی جماعت میں بہت سے Electablesکو بھی لانا پڑا جن کی وجہ سے تحریک انصاف نے 2018ءکا انتخاب جیتا اوربلاآخر یہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی اور قومی اسمبلی ، خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی میں اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔ پی ٹی آئی نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 22 ویں وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں مرکزی حکومت تشکیل دی۔ کے پی اسمبلی میں پی ٹی آئی نے محمود خان اور پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنایا۔جبکہ بلوچستان میں پی ٹی آئی نے مخلوط حکومت تشکیل دی۔ تحریک انصاف کے پاس یہ حکومت گزشتہ سال اپریل تک رہی ، یعنی مرکزی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیا گیا جبکہ صوبائی حکومتیں خان صاحب نے خود توڑدیں۔ لہٰذااس ساڑھے تین سالہ حکومت میں تحریک انصاف نے ملک میں بہت سے اچھے اقدامات بھی کیے جبکہ کئی کاموں کو نظر انداز بھی کیا گیا۔جیسے تحریک انصاف کی حکومت تعلیم کے لیے کام کر سکتی تھی مگر نہیں کیا۔ گورنر ہاﺅس کو وومن ایجوکیشن یونیورسٹی بنانا چاہتی تھی مگر نہ بنا سکی۔ پھر خان صاحب نے اپنے دور حکومت میں بہت سے سیاسی رہنماﺅں جن پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات تھے۔ پابند سلاسل کیا۔ مگر آﺅٹ پٹ کچھ بھی نہیں رہا۔ یعنی کرپٹ افراد اپنے اثرو رسوخ اور طاقت کی وجہ سے بچ گئے ،لیکن خان صاحب کو پھر بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ان کرپٹ افراد کو عوام کے سامنے ایکسپوز کیا، اور تمام سکینڈلز کے بارے میں بھی آگہی تھی۔ جیسے آج تحریک انصاف ہی کی وجہ سے پانامہ لیک سے شروع ہو کر ان کے باورچی ، ڈرائیور اور مالی کے اکاﺅنٹس میں اربوں روپے ڈالنے تک سب کچھ عوام جانتے ہیں، کہ یہ مال و اسباب کہاں سے آیا ۔پھر تحریک انصاف کی وجہ سے ہمیں ایک بڑا فائدہ جو ہوا ہے، و ہ یہ ہے کہ ہم دو جماعتوں کی موناپلی سے نکلے، دونوں جماعتوں نے جو باریاں لگائی ہوئی تھیں، ہم اُن سے باہر آگئے ، پھر کوئی مانے یا نہ مانے، سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا، بے شمار نئے سیاست دان سامنے آئے، عام لوگوں کو بھی سیاست میں آنے کا موقع ملا ، ہم خاندانی سیاست سے باہر آئے، اس کے علاوہ بھٹو کے بعد عام آدمی کو سیاسی سرگرمیوں میں لانے والی تحریک انصاف ہی ہے جس نے عام آدمی میں ووٹ دینے کا شعور پیدا کیا اور اسی وجہ سے 2013اور 2018ءکے الیکشن میں اُن لوگوں نے ووٹ ڈالے جو ووٹ ڈالنا وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔ بہرکیف آج 27سال بعد تحریک انصاف کے لیے مشکل ترین وقت ضرور ہے کہ اس وقت جن سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے دور کیا گیا وہ دوبارہ براجمان ہیں۔ مگر عمران خان کی جدوجہد آج بھی 27سال پرانی ہے۔ اس وقت مقتدرہ قوتیں اور 13سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ الیکشن کا التوا ہو مگر تحریک انصاف ان سب کی راہ میں رکاوٹ ڈالے کھڑی ہے۔ اور کسی کی جرا¿ت نہیں ہے کہ وہ یک طرفہ فیصلہ کرلے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی بقاءکی خاطر عمران خان بھی لچک دکھائیں اور اس لوٹ مار کرنے والے ٹولے سے مذاکرات کریں۔ کیوں کہ کبھی کبھی سیاسی یا جنگی میدانوں کے بڑے بڑے فیصلے ٹیبل پر بیٹھ کر حل ہوتے ہیں اور شاید یہی وقت اور ملک کی ضرورت بھی ہے!