جے یو آئی ، پی ٹی آئی ملاقات :مولانا اعلیٰ ظرفی کا مظاہر کریں!

جیسے جیسے الیکشن قریب آتے ہیں، ویسے ویسے بڑے بڑے ”اپ سیٹ“ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہ اپ سیٹ سیاسی مفاہمت کے لیے بھی ہوتے ہیں، ہم آہنگی کے لیے بھی اور تیسرے سیاسی حریف کو پچھاڑنے کے لیے بھی۔ (یہاں قارئین کے لیے یہ بھی بتاتا چلوں کہ اپ سیٹ کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسا نتیجہ حاصل ہو،جس کی توقع کم سے کم یا نہ ہونے کے برابر کی جا رہی ہو) اس بار ابھی تک کا سب سے بڑا اپ سیٹ ہمیں دیکھنے کو ملا ہے ، وہ ہے گزشتہ روز ہونے والی ملاقات جو سخت ترین سیاسی حریفوں تحریک انصاف اور جے یو آئی(ف) کے درمیان تھی۔ان کے درمیان 2018 کے بعد پہلا باضابطہ رابطہ ہواہے۔ یہ ملاقات سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کے وفد سے مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ہوئی ۔ ملاقات کی وجہ بظاہر تومولانا کی خوش دامن(ساس)کے انتقال پر تعزیت تھی مگر اس ملاقات میں سیاسی مفاہمت کا دروازہ کھولنے پر بھی بات ہوئی۔ جبکہ مولانا نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کیا یہ ملاقات پورے مینڈیٹ کے ساتھ کی جارہی ہے، یا رسمی ملاقات ہے۔ تو وفد نے اُنہیں پورا یقین دلایا کہ اس ملاقات میں ”سب“ کی مرضی شامل ہے۔پی ٹی آئی کے وفد میں سابق اسپیکر اسد قیصر سمیت سابق وفاقی وزیر علی محمد خان اور بیرسٹر محمد علی سیف بھی شامل تھے۔اور اس ملاقات کا تمام کریڈٹ سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی کو جاتا ہے، محمد علی درانی نے ہی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ مولانا سیاسی مفاہمت کے لیے کردار ادا کرنے پر رضامند ہیں۔ خیر مولانا فضل الرحمن پر تنقید میرے اکثر کالموں کا حصہ رہی ہے، خاص طور پر وہ جن جن حکومتوں میں کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے اور فنڈز کا بے دریغ استعمال ہوتا رہا، اُس میں راقم نے اُنہیں خاصی تنقید کا نشانہ بنائے رکھا ہے۔ جبکہ اُن میں ایک اور بہت بڑا مسئلہ رہا ہے کہ وہ ہر دور میں وہی کردار ادا کرتے رہے جو آج کل مولانا طاہر اشرفی کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح مولانا بھی 90کی دہائی سے لے کر 2018تک ہر حکومت میں ایڈجسٹ ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔تبھی وہ 2018ءکا الیکشن بھی ہارے تھے،کیوں کہ عوام اُن پراقتدار میں رہ کر عوام کی خدمت بھول جانے کا الزام لگاتی رہی۔ اسی لیے اُنہیں اپنی آبائی سیٹ سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ بلکہ اُس کے بعد بھی چیئرمین تحریک انصاف نے کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن میں خود بھرپور مہم چلا کر سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی تھی اور مولانا پہلی کامیابی کے بعد دوسرے بلدیاتی مرحلے کو بھول گئے تھے اور اپنے آبائی حلقے ڈی آئی خان میں بھی بلدیاتی شکست سے دوچار ہوئے تھے مگر بلدیاتی شکست کے باوجود مولانا فضل الرحمن اپنے صوبے میں حکومت میں ہوتے ہوئے، پی ٹی آئی سے قومی اسمبلی کی کوئی شکست نہ چھین سکے کیونکہ جے یو آئی وزارتوں کے مزے لیتی رہی اوربھرپور انتخابی مہم نہیں چلائی جس سے اس کے دونوں امیدواروں کو عمران خان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا اور جے یو آئی کے بھرم کو زک پہنچی۔ لیکن اس بات سے بھی ہم نے کبھی انکار نہیں کیا کہ ملک بھرمیں اُن کے پیروکارہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں۔ اور وہ سیاسی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں، اور یہ بات بھی اُن کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ جب سے چیئرمین تحریک انصاف پابند سلاسل ہیں، مولانا نے ایک بیان بھی نہ اُن کی پارٹی کے خلاف داغا ہے، اور نہ ہی اُن کی ذات کے خلاف۔ بلکہ اُنہوں نے پچھلے دنوں برملا کہا تھا کہ کہ میرے ہاتھ کھلے ہیں تو میرے مخالف کے بھی ہاتھ کھلے ہونے چاہئیں، چاہتا ہوں ہر سیاستدان جیل سے باہر ہو۔ فضل الرحمان نے یہ سوال بھی اٹھایاتھا کہ کون لوگ ہیں کہ چار پانچ بندے کمرے میں بیٹھ کر ملک چلارہے ہیں۔پھر انہوں نے پشاور میں سوشل میڈیا کنونشن شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’مخالف قید میں ہو اور میں جلسے کروں، مزا نہیں آئے گا‘۔ لوگ اقتدار اور مفادات کی جنگ لڑتے ہیں۔جبکہ دوسری جانب مولانا پی ڈی ایم سے سخت نالاں دکھائی دے رہے ہیں، اُن کے مطابق ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے معیشت کا مزید بیڑہ غرق کر دیا ہے، اور ن لیگی قائد میاں نواز شریف بھی اُنہیں منانے کا پروگرام رکھتے ہیں، اور رہی بات مولانا کی سیاسی اہمیت کی تو پی ٹی آئی کے بعد کے پی کے میں جے یو آئی ف دوسری بڑی جماعت ہے، جبکہ تیسری بڑی جماعت اے این پی ہے۔ اور موجودہ صورتحال کے مطابق اگر اے این پی اور جے یو آئی مل گئے تو وہ تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں، اور مولانا کے اے این پی کے ساتھ بھی معمالات مثالی نہیں رہے ہیں، تبھی تو تحریک انصاف نے خالی پچ دیکھ کر مولانا کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا تاریخ کا سب سے بڑا رسک لیا ہے۔ اور پھر چونکہ اے این پی بیک پوزیشن پر ہے، اور تحریک انصاف اُس پر خاصے کرپشن کے الزامات بھی لگا چکی ہے تو ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ تحریک اانصاف اے این پی کے پاس جاتی؟ اور رہی بات اے این پی اور جے یو آئی کی تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ دونوں میں اختلافات خاصے بڑھ چکے ہیں، دونوں جماعتوں کے رہنماﺅں کے درمیان لفظی گولہ باری میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے ایمل ولی کو غیر سنجیدہ سیاستدان قرار دیتے ہوئے طعنہ دیا ہے کہ اے این پے صرف 2 اضلاع تک محدود ہو گئی ہے۔ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ باپ بیٹا گورنر ہاﺅس میں سیاسی وفا داریاں تبدیل کرانے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر دونوں جماعتوں کے کارکنان بھی آمنے سامنے آگئے ہیں۔اور صوبے کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کھل کر سامنے آگئی ہیں اور صوبے کا سیاسی ماحول انتہائی گرم ہو گیا ہے۔پشاور میں ہوٹلوں، تھڑوں اور گلی محلوں میں بھی دونوں جماعتوں کے کارکنان ایک دوسرے کے خلاف جملے کستے نظر آرہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی پشاور میں بلور خاندان کی وجہ سے کافی مقبول ہے۔ تاہم پشاور میں میئر جمعیت علمائے اسلام سے منتخب ہونے کے بعد جے یو آئی کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ تحریک انصاف کو صوبے میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید ترین اختلافات اور بیان بازی کا بھر پور فائدہ پہنچ رہا ہے۔تحریک انصاف سے پہلے اے این پی اور جے یو آئی صوبے میں حکومت کر چکے ہیں۔ جبکہ 9 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کی پورے ملک کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی پوزیشن انتہائی کمزور ہو گئی ہے۔ تاہم اے این پی اور جے یوآئی کے درمیان اختلافات کے بعد پی ٹی آئی کو کچھ حد تک ریلیف ضرور ملا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان جنہوں نے سوشل میڈیا سے دوری اختیار کرلی تھی۔ اب اے این پی اور جے یو آئی کے درمیان لفظی گولہ باری سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ تاہم ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ”ن“ نے خود کو معاملے سے فی الحال دور کر رکھا ہے۔ بہرکیف مولانا اور چیئرمین تحریک انصاف کے درمیان تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے، دونوں ایک دوسرے پر جلسے، جلوسوں میں سخت اور غیر مہذاب الزامات لگاتے رہے ہیں، لیکن مولانا نے کبھی خان پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا۔ اسے آپ خان کی ایمانداری کا ثبوت کہہ لیں یا کچھ اور مگر خان کی سیاست آج بھی کرپشن سے پاک ہے۔ بلکہ یہی نہیں اس وقت صدر پاکستان نے بھی حالیہ انٹرویو میں یہی کہا ہے کہ خان سے سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں، لیکن بندہ ایماندار ہے، لہٰذاکسی کی بھی ایمانت داری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے؟ کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیٹ پر بیٹھا شخص اُن کے ایماندار ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔ لہٰذااگر تحریک انصاف اس وقت مولانا سے ملاقات کر رہی ہے تو اس میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ کیا ن لیگ اور پیپلزپارٹی جو ماضی میں ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے رہے ہیں، اس وقت حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اکٹھے سیاست نہیں کر رہے؟ اور پھر مولانا کے نزدیک اگر خان صاحب سے اپنے دور اقتدار میں کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہیں تو کیا یہ غلطیاں اسٹیبشلمنٹ سے نہیں ہوئیں؟ کیا غلطیاں کبھی امریکا سے نہیں ہوئیں؟ امریکا نے تو عراق کو تباہ و برباد کر کے کہہ دیا تھا کہ ہم معافی مانگتے ہیں کہ صدام حسین کی حکومت سے اُنہیں کوئی کیمیکل ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔ اور پھر کیا غلطیاں ن لیگ سے نہیں ہوئیں؟بلکہ مولانا خود کہتے رہے ہیں کہ قوم کی ناراضگی بڑھ رہی ہے معیشت ڈوب رہی ہے، ہم نے تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا، ہمیں پتہ تھا کہ معیشت ڈوب گئی ہے، لیکن یہ علم نہیں تھا کہ مزید حالات خراب ہو جائیں گے، معیشت اٹھانا کسی کے بس کی بات نہیں، اب تک معیشت کا برا حال ہے وغیرہ وغیرہ ۔ لہٰذامیرے خیال میں مولانا نے بہترین پارٹی کا انتخاب کیا ہے، مستقبل میں ان کی خوب جم سکتی ہے، اس کے لیے انہیں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تبھی ملک میں استحکام بھی آسکتا ہے، اور سیاسی عمل عمل کو بھی آگے تک بڑھایا جا سکتا ہے۔