2022ءکا پہلا سورج !

آج گریگوریائی کیلنڈر کے مطابق 2021ءکا آخری دن اور آخری رات ہے، اور کل نئے سال کا آغاز نئی اُمید کے ساتھ ہوگا، دنیا میں کئی کیلنڈرز یعنی نظام تقویم رائج ہیں مثلاً اسلامی کیلنڈر، ایرانی کیلنڈر، ہندو کیلنڈر، جاپانی کیلنڈر وغیرہ ۔ ہر کیلنڈر کے مطابق سال گزرتے رہتے ہیں لیکن چونکہ زیادہ تر دنیا گریگوریائی کیلنڈر استعمال کرتی ہے، اس لیے ہم اپنی زندگیوں میں اسی کے مطابق اپنے برسوں کا حساب رکھتے ہیں، گزرے سال کو اپنے حالات کے مطابق اچھا یا برا قرار دیتے ہیں اور نئے سال کے امکانات پر بات کرتے ہیں اسی لیے سال کی تبدیلی افراد اور قوموں کی زندگی کا سنگ میل بن جاتی ہے۔ اور اگر ہم بات کریں کہ ہم پاکستانیوں کا سال 2021 کیسا گزرا اور 2022 کیسا ہوگا؟ اس سوال کا جواب ہر سال کی طرح وہی ہے کہ گزرا ہوا سال اچھا نہیں تھا اور آئندہ سال بہتری کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ اور بہتری کی اُمید بھی اُسی صورت کی جا سکتی ہے جب ہر شخص کوشش کرے، لیکن یہاں تو پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر حالات ہیں، سال کے شروع میں ڈالر 153روپے کا تھا اور آج 181روپے کا ہے۔ مہنگائی کی شرح سال کے آغاز میں 6فیصد تھی ، آج 13فیصد ہے، تعلیمی معیار پہلے سے زیادہ گرا ہوا ہے، کرپشن میں ہم مزید دو درجے نیچے آگئے ہیں، عدالتی انصاف میں ہم ایک درجے مزید نیچے چلے گئے ہیں، ایشیائی معاشی منڈی میں ہم تین درجے نیچے چلے گئے ہیں، اور تو ہم ترقی کے حوالے سے ممالک کی فہرست میں پچھلے سال 144ویں نمبر پر تھے آج یہ نمبر 146واں ہے۔ پھر ہم اداروں کی ترقی کے حوالے سے دیکھ لیں، پولیس کرپٹ تو تھی ہی لیکن پاکستان میں اس سال اُسے کرپشن میں اُسے پہلا نمبر نصیب ہوا ہے۔ بھلا اس ”شرف “میں سرکاری ادارے کیسے پیچھے رہتے جنہیں تیسرا نمبر نصیب ہوا ہے۔ بات سرکاری اداروں کی کریں تو بات سرکاری ملازمین کی طرف چل نکلتی ہے جنہیں ہمدردی، درد مندی اور امانت داری میں آخری نمبر ملا ہے۔ اور ترقی کرنے کے لیے یہی تین چیزیں سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہیں، اور بات بھی ٹھیک ہے کہ اگر ہم اپنے اندر ہمدردی، درد مندی اور امانت داری نہیں رکھیں گے تو ہم بہتری کی طرف کبھی نہیں جا سکیں گے۔ مطلب ہم آگے بڑھنے کی بنیادی چیزوں کو ساتھ لے کر نہیں چل پارہے ، بلکہ ہمارے طرز زندگی میں ایسا بدلاﺅ آچکا ہے کہ ادارے ٹھیک کرنا تو دور کی بات ہم چاہ کر بھی اپنے آپ کو نہیں بدل سکتے، اور پھر ہم ہر چیز میں نقائص تلاش کرتے نظر آتے ہیںاور پیچھے کی جانب چل نکلتے ہیں۔ جیسے ہم سے نئے سال کی خوشی دیکھی نہیں جاتی، ایک طرف دنیا ہیپی نیو ائیر منا رہی ہوتی ہے، اور دوسری طرف ہم دقیانوسی اور نفرت پھیلانے والی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ نیو ایئر پر خوشی منانے کی رسم قدیم زمانے کی ہے، تب یہ سمجھا جاتا تھا کہ پچھلا سال گزر گیا اور اگلا سال امید کا ہوگا کیونکہ دنیا امید پر ہی قائم ہے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ نیو ایئر منانے کی رسم مغرب نے شروع نہیں کی بلکہ یہ یونانیوں اور رومیوں کے عہدسے شروع ہوئی۔ یہ رسم مسیحیت سے بھی پہلے کی ہے۔ مسلمانوں میں یہ رسم ایران سے آئی ہے، جہاں نوروز کا جشن منایا جاتا ہے۔لیکن ہم نے اسے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ اورپھر یہی نہیں بلکہ ہم ہر اُس چیز کی مخالفت کرتے آئے ہیں جو جدت کی طرف جاتی ہے۔ مثلاََ حد تو یہ ہے کہ جب چھاپہ خانے جیسی مفید صنعت کا آغاز ہو رہا تھا تو ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اُسے غیراسلامی ثابت کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ بیسیویں صدی کے آغاز میں جتنی بھی عظیم الشان ایجادات ہوئی ہیں، ہمارے روایتی مذہبی علماءو فقہا نے اُنہیں اپنی قوم کے سامنے ”فتنہ دجال“ کے معنوں میں بیان کیا۔ جب ترکی میں پہلی مرتبہ اسپتال بن رہا تھا تو شیخ الاسلام اُس کی مخالفت میں فتاویٰ جاری فرما رہے تھے۔ انتقالِ خون جیسے زندگی بچانے والے کام کو غیراسلامی بتایا جاتا رہا۔ اعضاءکی پیوند کاری کی اب تک مخالفت کی جا رہی ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری مسلمان قوم نے سنت رسول اور بدعت کے فرق کو سمجھا ہی نہیں۔ ہر نئی چیز کے بارے میں بدعت کا لفظ رٹ لیا گیا ہے، حالانکہ بدعت سے مراد ایسی اختراع ہے، جو انسانیت کے لئے مضر یا نقصان دہ ہو، اِس تنگ نظری پر مبنی سوچ کا نقصان بھی سب سے زیادہ اِس امتِ مسلمہ نے اٹھایا ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ہمیں کشادہ ذہنوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، یقینا کل 2022ءکا پہلا سورج طلوع ہوگا، اور جیسا کہ میں نے پچھلے کالم میں بھی کہا کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ کو بہتر کرنے اور پھر اداروں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ادارے بہتر ہوں گے تو ملک بہتر ہوگا، ادارے بہتر نہیں ہوں گے تو ملک کبھی بہتر نہیں ہو پائے گا اور ہم شخصیات کی مرہون منت ہی رہ جائیں گے۔ اور پاکستان میں خاص طور پر شخصیات کا ہی کیا دھرا ہے کہ آج ہم 2021ءمیں ڈوبتی معیشت کا نوحہ پڑھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آج جب ملک کو چاروں طرف مہنگائی اور روپے کی بے قدری نے گھیرا ہوا ہے تو ایسے میں تحریک انصاف کے پاس وہ معاشی ٹیم ہی نہیں ہے جس کے خواب انہوں نے عوام کو دکھائے تھے۔ دو سو معاشی ماہرین صرف الیکشن سے پہلے کی تقرریوں میں موجود تھے۔ تقریباً تمام اہم اداروں کے سربراہوں کو ساڑھے تین سالوں میں پانچ سے چھ مرتبہ تبدیل کیا گیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت ابھی تک صحیح ٹیم ہی سلیکٹ نہیں کر پا رہی۔ اگر وزارتِ خزانہ پر نظر دوڑائیں تو تین سال، چار ماہ کے عرصے میں چھ سیکرٹری خزانہ اور پانچ وزیرخزانہ لائے جا چکے ہیں۔ 2021ءمیں ہی دو وزیرخزانہ بدلے گئے ہیں۔ شوکت ترین صاحب تیسرے ہیں۔ کامیاب سرکار چلانے کے لیے مستقل مزاج ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کرکٹ میچ کی طرح ہر اوور کے بعد کھلاڑیوں کی پوزیشن بدلنے اور ملک چلانے کے لیے کھلاڑیوں کی پوزیشن طے کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت شاید ابھی تک اس فرق کو نہیں سمجھ پائی۔ اسی لیے 2021ءکے اختتام پر بھی وزرا اور عوام میں بے یقینی اور اضطراب کی کیفیت نمایاں ہے۔ ایک طرف طرزِ حکومت عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہے اور دوسری طرف رواں سال کے معاشی اعدادوشمار عوام کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ میں نے اس حوالے سے متعدد مرتبہ لکھا کہ اگر حالات بہتر کرنے ہیں تو سب سے پہلے عوام کا مورال بلند کیا جائے، لیکن دکھ یہ ہے کہ حکومت مہنگائی بھی کرتی رہی اور عوام کا مورال بھی بلند نہ کر سکی جس سے عوام کا حکومت کے اوپر سے بھرم ٹوٹ گیا۔ور پھر راقم نے کہا تھاکہ کپتان صاحب خود احتسابی کریں اور اپنے ارد گرد دیکھ لیں، کیوں کہ ذرا غور کریں کپتان کے اردگرد توصرف خوشامدی نظر آئیں گے۔جنہوں نے اپنی غلطیاں چھپانے اور نئے سرے سے نئے ”ریٹس“ کے ساتھ بندے بھرتی کرنے کے لیے پارٹی کا آئین ہی معطل کروا دیا اور دوبارہ یہی لوگ تنظیم سازی کے لیے میدان میں آگئے، لہٰذاایسی صورتحال میں حالات کیسے درست ہو سکتے ہیں؟ بہرکیف وقت ایک عجیب شے ہے۔ دبے پاﺅں گزر جاتا ہے۔کسی سے بہت کچھ چھین لے جاتا ہے اور کسی کو بہت کچھ عطا کر جاتا ہے۔ گزرا ہوا وقت، سیلاب کی طرح اپنے نشانات چھوڑ جاتا ہے۔ کہیں یہ نشان موسم گل کا اعلان نامہ بن جاتے ہیں اور کہیں خزاں رسیدگی کی تصویر۔ ہر صبح نکلنے والا سورج امید کا پیغام لے کر آتا ہے اور ہر شام ڈوبنے والا سورج وقتی طور پر ہمیں ایک گھپ اندھیرے میں چھوڑ جاتا ہے اورموجودہ حکومت کے ساتھ بھی فی الوقت یہی معاملہ ہے بقول شاعر اترا مرے آنگن میں نئے سال کا سورج یاد آئے کئی عہد گزشتہ کے فسانے لہٰذانئے اور2022ءکے پہلے سورج سے ہمیں یہی توقع رکھنی چاہیے کہ ہم حکومت کو کوسنے کے بجائے خود کو بہتر کریں گے، ملک سے شخصیت پرستی کا خاتمہ کریں گے اور مایوس ہونے کے بجائے بہتری کے امکانات کی جانب توجہ دیں گے اور اگر ہم نے 2022کا پہلا سورج ہی نااُمید ی میں گزارا تو 2022ءکے آخری دن بھی کوئی خیر کی توقع نا رکھیے گا!!! #Pakistan #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon #2022