پیپلزپارٹی کو صدارت مبارک ہو لیکن!

لیں جی! حکومت سازی کا کام آج 90فیصد تک مکمل ہو جائے گا، اس کے بعد سینیٹ الیکشن رہ جائیں گے، اور پھر ”ان“ کی مکمل حکومت بن جائے گی۔ اور پھر نہ تو قانون سازی میں مسئلہ ہوگا، اور نہ ہی کسی ترقیاتی یا دیگر پراجیکٹس کی تکمیل کے حوالے سے۔ مطلب اب یہ وہی 2008یا 2013ءالیکشن کے بعد والا دور آگیا۔ جس میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے نورا کشتیوں کے ذریعے ناصرف عوام کو بے وقوف بنایا اور ایسے ایسے کاسمیٹکس پراجیکٹس بنائے کہ ملک مزید ہزاروں ارب کے قرضوں تلے دب گیا۔ اور رہی سہی کسر پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت نے نکال دی، جس کا ذکر خیر تو بعد میں کریں گے مگر یہاں یہ بات پیشگی بتاتا چلوں کہ جس طرح پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت کے بعد پیپلزپارٹی نے ہاتھ کھڑے کر لیے تھے کہ وہ صرف اپنی وزارتوں کی ذمہ دار ہے اور سارا ملبہ ن لیگ پر پھینک دیا تھا ۔ نہ اُس وقت عوام بے وقوف بنی تھی اور نہ ہی اب بھی ہوگا۔ اگر ہم تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو 2007 میں مشرف نے بینظیر سے معاہدہ کیا کہ آپ آ سکتی ہیں، پاکستان! مگر بے نظیر نے کہا کہ آپ نواز شریف کو بھی پاکستان بلائیں۔یعنی پیپلزپارٹی دوبارہ ن لیگ کو واپس پاکستان میں لے کر آئی، پھر 2008ءمیں صدر بننے کے لیے زرداری صاحب نے ن لیگ سے صلح کی۔ اور اسی حرکت سے پی ٹی آئی وجود میں آئی اور پیپلزپارٹی پنجاب میں تباہ ہوگئی، یعنی تحریک انصاف نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی۔ حتیٰ کہ 2012ءمیں شہباز شریف ان کے وزیر وں کی تذلیل کر رہا تھے کہ استعفے دو، لیکن یہ ڈھیٹ ہو کر استعفے نہیں دیتے تھے۔ ان کی وجہ سے شہباز شریف کی پنجاب میں حکومت رہی۔ پھر انہوں نے پی ڈی ایم میں دوبارہ سپورٹ کی۔ الغرض یہ لوگ کرتے یہ ہیں کہ جب حکومت ختم ہوتی ہے تو ساتھ ہی یہ گولا باری شروع کر دیتے ہیں،،، اور جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو یہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں، ایک دوسرے کے کیسز ختم کرنے میں تعاون کرتے ہیں۔ لہٰذاپیپلزپارٹی اس بار ن لیگ کے ہر جرم ، ہر سچ ، ہر جھوٹ اور ہر قسم کی کارکردگی کی شریک کار ہوگی، پچھلے ڈیڑھ سال جب پی ڈی ایم کی حکومت رہی ہے تواگر کسی کو نہیں یاد کہ اُس وقت کیا کیا ہوا تھا تو میں بتاتا چلوں کہ ان 16مہینوں میں معیشت کا بھرکس نکال دیا گیاتھا، اسی اتحاد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کر کے ملک کو غیر مستحکم کیا گیاتھا، ملک تباہی کے دھانے پر کھڑا ہوگیا۔ جب اپریل 2022ءمیں تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کیا گیا تو اُس وقت ایک ڈالر 180ٹریڈ ہو رہا تھا۔ تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور یہ 316روپے کی حد کو چھو گیا۔ پھر اسی دور میں پاکستان کی دنیا بھر میں ”درآمدات“ کے حوالے سے جگ ہنسائی ہوئی، پاکستانی پورٹ پر ہزاروں کنٹینر کھڑے رہے مگر ہمارے پاس دینے کے لیے ڈالر نہیں تھے۔ اپریل 2022 میں موجودہ حکومت کے قائم ہونے کے بعد بیرونی فنانسگ کے شعبے میں مطلوبہ فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی تھی۔ویسے تو ملک کے لیے درآمد ات اچھی نہیں ہوتیں، مگر ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے اشیائے ضروریہ بھی ملک میں ناپید ہوگئیں جس کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب آگیااور یہ مہنگائی 49فیصد تک جا پہنچی۔ پھر ڈالروں کی کمی کی وجہ سے بینکوں کی جانب سے درآمدات کی ایل سی نہ کھولنے کی وجہ سے گذشتہ سال کی آخری سہ ماہی ملکی بندرگاہوں پر درآمدی کارگو کے کنٹینرز پھنسنا شروع ہو گئے اور پھرہزاروں کی تعداد میں ایسے کنٹینرز پھنس گئے جن کی ایل سیز ڈالر کی قلت کی وجہ سے نہ کھل سکی۔ پھر آپ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی بات کر لیں۔ اسٹیٹ بنک کے مطابق اپریل 2022 میں ملک کے پاس مجموعی طور پر 16.4 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر تھے جن میں سٹیٹ بینک کے پاس تقریباً ساڑھے دس ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ذخائر تھے۔ملک کے تجارتی اور جاری کھاتوں کے خساروں کی وجہ سے ان میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی اور مارچ 2023کے مہینے کے اختتام تک یہ ذخائر 7 ارب ڈالر رہ گئے۔پھر آپ شرح سود کی بات کر لیں تو اس وقت شرح سود ریکارڈ 22فیصد پر موجود ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں شرح سود 12.5 فیصد پر تھی جس میں ایک سال میں ساڑھے نو فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کسی بھی حکومت کے پورے پانچ سال یا اس سے کم مدت کے دور میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔پھر آپ پٹرولیم مصنوعات کی بات کرلیں تو شہباز حکومت نے اس کام میں بڑی مہارت اور سرعت دکھائی۔ موجودہ حکومت کے قیام کے وقت پٹرول کی قیمت 149.86 روپے لیٹر تھی جب کہ ڈیزل کی قیمت 144.15 روپے تھی۔لیکن پی ڈی ایم گورنمنٹ نے اس کی بھی ٹرپل سنچری مکمل کروائی۔ الغرض بقول شاعر کس کو سناو¿ں حال غم کوئی غم آشنا نہیں ایسا ملا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں اور اس تمام کارخیر میں پیپلزپارٹی برابر کی شریک رہی۔ لیکن جیسے ہی پی ڈی ایم کا دور ختم ہوا تو اُس وقت پی پی پی کہتی تھی کہ ہم صرف اپنی وزارتوں کے ذمہ دار ہیں، خیر اُس وقت جو کچھ ہوا سو ہوا، مگر میرے خیال میں اب یہ لوگ عوام کو پاگل بنانا چھوڑ دیں، اور یہ مت کہیں کہ اگر خدانخواستہ معیشت یا ملک کو کچھ ہوا تو یہ ذمہ دار ہوں گے۔ اور یہ بات پڑھی لکھی ہے کہ دونوں پارٹیاں 2008ءسے آپس میں گٹھ جوڑ کررہی ہیں، پہلے 2008ءمیں انہوں نے آپس میں وزارتیں بانٹیں، پیپلزپارٹی کا صدر بنایا گیا، 2008ءسے 2018تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے جتنی کرپشن کی، وہ سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ اور اس بار بھی اگر پی پی پی نے ایک دو سال بعد یہ کہا کہ ہم نے جمہوریت بچانے کے لیے ن لیگ کا ساتھ دیا تھا تو یہ لوگ یہ بات بھول جائیں کہ عوام انہیں معاف کریں گے۔ بلکہ ن لیگ کے ہر فعل کے یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے۔ اور اب چونکہ آج متوقع طور پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف زرداری صدر پاکستان منتخب ہو چکے ہوں گے ،،، اور جلد ہی سینیٹ کے انتخابات کے بعد چیئرمین سینیٹ بھی انہی دونوں پارٹیوں میں سے ہوگا تو پی پی پی یہ نہ کہے کہ اس دور کے غلط کاموں کے وہ ذمہ دار نہیں ہیں۔ الغرض جو کچھ جن جن کاموں میں آپ ن لیگ کو سپورٹ کر رہے ہیں، خواہ وہ پنجاب ہو، بلوچستان ہو، سندھ ہو، وفاق ہو یا کوئی اور پلیٹ فارم آپ ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں،حتیٰ کہ مریم نواز ، شہباز شریف، مریم نواز یا دیگر وزراءکی خراب کارکردگی بھی انہی کی خراب کارکردگی لکھی جائے گی اور اچھی کارکردگی بھی انہی کی۔ اور رہی بات قومی اسمبلی کی تو یہ یقین مانیں آج لکھ لیں کہ ان حالات میں یہ نہیں چلے گی۔ نہیں یقین تو آپ اسمبلی کی دو دن کی کارروائی دیکھ لیں ، خیر اس سے پہلے دیگر چیزوں کو چھوڑیے، عامر ڈوگر اور محمود خان اچکزئی کی تقاریر سن لیجیے۔ عامر ڈوگر نے الیکشن کا سارا حساب کتاب سامنے رکھ دیا اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اور جو باتیں محمود خان اچکزئی نے کیں وہ یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں کیونکہ کہنے کو تو اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے لیکن کتنی آزادی ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اچکزئی کی تمام باتیں پتے کی تھیں اور اس سادہ انداز میں انہوں نے کیں کہ دلوں میں اُتریں۔ لیکن اس امر کا افسوس ہی کر سکتے ہیں کہ ان باتوںکا ذکر کھلے عام یا کھلے انداز میں ہو نہیں سکتا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا ریاستی مزاج ہی ایسا بن چکا ہے کہ حقیقت کو نہ دیکھنا ہے‘ نہ سمجھنا ہے۔ ملک کو ہم نے کہاں پہنچا دیا ہے لیکن اب بھی افسانوں کی دنیا میں ہم رہتے ہیں۔ اپنے لیے ایک خول ہم نے بنایا ہوا ہے اورا سی میں رہ کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے سے کیا حقیقت مٹ جاتی ہے؟ آج ہمیں سچائی سے سب سے زیادہ خوف آتاہے‘ سچ سننے کی ہم میں ہمت نہیں۔ البتہ عوام ہر چیزکا ادراک رکھتے ہیں‘ اسی لیے ا±نہوں نے الیکشن میں وہ کیا اور ووٹ وہاں ڈالے کہ بڑے بڑے ستون ہل کے رہ گئے۔ اور اب تک انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ آٹھ فروری کو جس سیاسی زلزلے نے ہر ایک چیز ہلا کے رکھ دی‘ ا±س کے بعد کرنا کیا ہے۔ یہ دو تقاریر تو قومی اسمبلی میں ہوئیں اور جو تقریر خیبرپختوانخوا کے نومنتخب وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے وہاں کی اسمبلی میں کی وہ تو سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک تو آس آدمی کا انداز ایسا دبنگ ہے کہ دلوں پر اثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ انداز دبنگ ہو‘ باتیں بھی ایسی ہوں تو پھر اثر ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ میں ا±ن کی باتوں کو بھی یہاں بیان نہیں کرتا، آپ خود ہی یوٹیوب پر جائیں اور ساری تقریر سن لیں۔ اصل مسئلہ البتہ کچھ اور ہے۔ دو دن کی کارروائی سے پتا نہیں چل گیا کہ ان سے یہ قومی اسمبلی نہیں چلے گی۔ پی ٹی آئی ممبران جذبات سے بھرے ہیں اور جو دوسرے ہیں اُن میں اعتماد کا فقدان ہے۔ اسمبلی نہیں چلے گی تو حکومت کہاں چلے گی؟ اور یہ تو پتا ہے سب کو کہ معیشت کے بارے میں مشکل فیصلے لینے ہیں، تو اس کیلئے مضبوط حکمرانی ناگزیر ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ تھانیداری نظامِ حکومت چل جاتا تھا لیکن وقت بدل چکا ہے اور اڈیالہ جیل کے قیدی کی وجہ سے پاکستانی عوام کی سوچ بھی بدل چکی ہے۔ زور زبردستی کا کام اب زیادہ دیر نہیں چلے گا جیسا کہ پہلے چل جایا کرتا تھا۔ لوگ بپھر سے گئے ہیں‘ عوام کا مزاج کچھ اور ہو گیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو یہ الیکشن والا طوفان برپا ہونا تھا؟ بیشتر علاقوں میں تو معتوب جماعت اپنی مہم نہیں چلا سکی‘ جھنڈے ا±س کے کہیں دکھائی نہیں دیتے تھے‘ امیدواروں کو عجیب عجیب نشان دیے گئے۔ لیکن پھر بھی کیا ہوا؟ عقل آ جائے تو اور بات ہے لیکن تقریباً مکمل یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عقل نہیں آئے گی۔77سال ہو گئے ہیں‘ قوم کے معاملات میں کب عقل آئی ہے؟ تو پھر صورتحال یہ ہوئی نا کہ ایک طرف بپھرے ہوئے عوام اور دوسری طرف وہ جنہوں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ عقل پر لگے تالوں کو کبھی کھولنا نہیں۔ لہٰذا سوچنا پڑ جاتا ہے کہ پھر ہوگا کیا۔الغرض ن لیگ اور پیپلزپارٹی کوہم ایک ہی حکومت مانتے ہیں، اس لیے اُمید ہے کہ زرداری صاحب اس گزارش پر غور کریں گے اور ن لیگ کے غلط اقدامات پر اُنہیں روکیں گے تاکہ ملک کو مزید گہری دلدل سے بچایا جائے!