تعلیم ہر مسئلے کا حل:مگر ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا؟

دنیا کہتی ہے کہ ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا! کوئی ہمارے بارے میں ایسی رائے کیوں رکھتا ہے؟ اس کا تو علم نہیں مگر ہمارے ہر کام میں بدعنوانی، بے ترتیبی، منافقت، دو نمبری، خود غرضی، خودنمائی یا خود فریبی کا عنصر ضرور ہوتا ہے۔ مثلاََہم ہر چیز میں سیاسی ، مالی اور معاشی فائدہ دیکھنے کے عادی ہیں ، آفس میں ہوں تو اپنے ماتحت یا جونیئر ترین افسر ، اگر گھر میں ہوں تو گھریلو ملازم کو کہیں سامان کی خریداری کے لیے بھیج کر دیکھ لیں، 95فیصد افراد کی نظر سب سے پہلے اپنے فائدے کی طرف جاتی ہے، کہ اُسے اس کام سے کیافائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ یہ شاید ہماری فطرت میں شامل ہو چکا ہے یا کوئی وجہ ہے لیکن ایسا ہے! آپ بطور قوم دیکھ لیں ہمیں جب تک کسی کام میں اجتماعی فائدے کے بجائے ذاتی فائدہ نظر نہ آئے ہم وہ کام کرتے ہی نہیں!پھر ہمار ے ملک کا ہر ادارہ بھی اسی طرح چل رہا ہے، خاص طور پر انتہائی حسا س اور ضروری شعبہ محکمہ تعلیم کو دیکھ لیں کہ ہم کس طرح اس شعبے کے ساتھ غیر سنجیدگی کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ ویسے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں بھی تعلیم کے فروغ کے لیے کوئی تھنک ٹینک بنایا جاتا، جو اس شعبے کو تواتر کے ساتھ لے کر چلتا، مگر یہاں ہر آنے والی حکومت پہلی حکومت کی پالیسیوں کو پاﺅں تلے روندتی اور نئے شوشے چھوڑتی ہے، جیسے پرویز الٰہی کی حکومت میں پنجاب کی سطح پر تعلیم پر بہتر کام ہوا تو نئے آنے والے خادم اعلیٰ نے اُن کے کام کو روک کر اپنی نئے سرے سے پالیسیاں بنائیں ، اور پھر اگلی آنے والی حکومتیں اس سلسلے میں اپنا لائحہ عمل طے کرتی نظر آئی۔ یعنی ہمیں علم ہی نہیں کہ ہم نے کرنا کیا ہے؟ حالانکہ دنیا بھر میں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی جرا¿ت کرے کہ وہ کسی پالیسی یا قانون کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرے۔ اگر کسی قانون میں تبدیلی ناگزیر ہو جائے یا کوئی نیا لائحہ عمل بنانا ہو تو کئی کئی مہینے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں ، پھر اُس کے مثبت اور منفی اثرات کو دیکھتے ہیں تب جا کر کوئی قانون ٹرائل بنیادوں پر لاگو کرتے ہیں۔ آپ موجودہ حکومت کی تعلیم پالیسی چیک کرلیں، اس حکومت کو اقتدار سنبھالے ہوئے ایک ہزار دن ہوگئے ہیں، مگر مجال ہے کہ تعلیم کا نعرہ لگا کرآنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے تعلیم کے لیے کوئی کام کیا ہو۔ اُلٹا گزشتہ سالوں کے مقابلے میں 40ارب روپے کی کٹوتی لگا کر انہوں نے اپنے کیے ہوئے وعدے کہ وہ تعلیم کے لیے قومی بجٹ کا 20فیصد مختص کریں گے کی نفی کر دی۔ آکسفورڈ سے فارغ التّحصیل وزیرِ اعظم سے سب اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ شایدان کے دَور میں تعلیم و تحقیق کی اہمیت کے پیشِ نظر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی گرانٹس میں اضافہ ہوگا، مگر اضافہ تو کیا ہوتا ،اُلٹا اس کے فنڈز میں بھی کٹوتی کر دی گئی۔ اور حالیہ بجٹ میں بھی شعبہ تعلیم کے بجٹ میں مزید کٹ لگانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں، جیسے خصوصی ایجوکیشن میں کروڑوں روپے کے کٹ لگا دیے گئے ہیں بالکل اسی طرح سکینڈری ایجوکیشن میں بھی کٹوتیوں کے بارے میں کوئی اچھی خبریں سامنے نہیں آرہیں۔ پاکستان تعلیم پر جی ڈی پی کا محض 2.14فی صد خرچ کرتا ہے، جو ایشیا میں سب سے کم ہے۔پھر ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور پھر اب تک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں شرحِ خواندگی 62.3فی صد ہے، جو آزاد ذرائع کے مطابق 64فیصد سے واپس آئی ہے۔ یہ سب بھی چھوڑیں، موجودہ حکومت نے تعلیم کے فروغ کے لیے ایک نعرہ لگایا ہے، جو آج کل ”ٹرینڈ“ بھی کر رہا ہے کہ ”ایک قوم ایک نصاب “۔ اس نعرے پر کسی حد تک کام بھی ہو رہا ہے اور اسے لاگو کرنے کے لیے تین مراحل بنائے گئے ہیں، مثلاََ پہلے مرحلے میں پہلی سے پانچویں کلاس تک ایک نصاب پڑھایا جائے گا، دوسرے مرحلے میں 2022میں چھٹی سے آٹھویں تک ایک نصاب اور تیسرے مرحلے میں 2023ءتک نویں سے بارہویں تک کے طلبہ کو ایک نصاب پڑھانے کی تیاری کی جارہی ہیں۔ میں ماہر تعلیم تو نہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس وقت ملک میں 4طبقات تعلیم حاصل کررہے ہیں، ایک غریب طبقہ جو سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے یعنی C کیٹگری، دوسرا درمیانہ طبقہ جو نہ زیادہ مہنگے اور نہ سستے سکولو ں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے یعنی Bکیٹگری، تیسرا طبقہ جس کے 30، 40ہزار روپے ماہانہ بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنا معمولی بات ہے یعنی Aکیٹگری۔ اور چوتھا طبقہ مدارس کی تعلیم ہے۔ اب اگر حکومت Aکیٹگری کے سکولوں کا نصاب پورے پاکستان میں لگاتی ہے تو بندہ پوچھے یہ نصاب بچوں کو پڑھانا تو دور کی بات ٹاٹ سکولوں کے اساتذہ اس نصاب کو کیسے پڑھیں گے؟ اور اگر ٹاٹ سکولوں کا نصاب پورے ملک میں نافذ کردیا جائے تو Aکیٹگری کے سکولوں کا کیا قصور؟ بھئی ! آپ پہلے تعلیمی نظام میں موجود خامیوں کو تو دور کر لیں، بجٹ بڑھا کر قابل اساتذہ تو تعینات کر لیں۔ تب آپ اپنی مرضیاں بھی مسلط کر سکتے ہیں ورنہ تو یہ مشق بے کار ثابت ہوگی۔ اب ایک اور لطیفہ بھی سُن لیں کہ موجودہ حکومت نے نصاب کی پڑتال کے لیے ایک متحدہ علماءبورڈ قائم کیا جس کے ذمہ نصاب میں شامل مسائل کی نشاندہی کرنا ہے۔ اب ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے جس چیز کی نشاندہی کی ، اُس طرف شاید مجھ جیسے بڑی عمر کے لاکھوں طلبہ کا بھی دھیان کبھی نہیں گیا۔ مثلاََپہلی نشاندہی یہ ہوئی کہ بائیولوجی (حیاتیات) کی کتاب میں انسانی اعضاءکی تصاویر بغیر کپڑوں کے شائع نہ کی جائیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ سائنس کی کتاب کو برقعہ پہنا کر سامنے رکھ دیں۔ بھلا تصور کریں کہ انسانی جسم کی سائنسی تصویروں کو کپڑوں کے ساتھ دیکھنا کیسا ہوگا؟ بلکہ ہمارا بس چلے تو یہ تک کہہ دیں کہ سائنس کے مضمون میں جو تصاویر دکھائی جائیں اُن کے سر پر ٹوپی ضرور ہونی چاہیے! پھر فوری طور پر میرے ذہن میں آیا کہ یا ”تولیدی نظام“ والے باب کا کیا ہوگا؟ اس کو تو نکال دینا چاہیے!خیر میں نے سر کو جھٹکا اور یہ سوچ ہی ذہن سے ختم کردی ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا،،، لیکن ذہن کو شرارتیں سوجھ رہی تھیں، فوری طور پر سوچ آئی کہ میڈیکل کالجز میں تو گائنی کا پورا ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے، پھر وہ کیا کریں گے؟ اُن کی میڈیکل کی کتابیں تو ہوتی بھی ”بے شرم“ سی ہیں۔پھراگر ہر تصویر کپڑوں کے ساتھ بنائی گئی توٹیچر بچوں کو شاید یہ بھی سکھانا شروع کر دیں کہ مریض کے دل کا آپریشن قمیض کی لیفٹ سائیڈ والی جیب کے نیچے سے شروع کرنا ہے۔۔۔ پھر ذہن میں یہ بھی خیال آیا کہ زچگی کا عمل کیسے مکمل ہوگا؟ فوراََ ذہن کو جھٹکا اور سوچا کہ اگر ان مضامین پر فوری پابندی لگانی چاہیے یا ہمیں انگریز نصاب کو چھوڑ کر اپنا نصاب تیار کرنا چاہیے جس کے لیے محلے کی ناپید ہوتی معروف”دائیوں“ کی خدمات لی جائیں کیوں کہ اُن کے تجربے کے سامنے تو ہماری سائنس بھی ختم ہے! اور ویسے بھی گائینی کی تو ہمارے معاشرے میں بالکل کوئی گنجائش نہیں ، کیا کوئی صالح اور پاک باز شخص اپنی بیٹی کو وہ تمام کتابیں پڑھنے کی اجازت دے سکتا ہے جو گائیناکولوجی کے نام پر اِس ملک میں پڑھائی جاتی ہیں ؟ کم از کم میری غیرت تو یہ گوارا نہیں کرتی!دوسرا میرے خیال میں ہم لوگ تو یہ سُن کر ہی جوان ہوئے ہیں کہ آسمان سے فرشتہ آ کر ماں کی گود میں بچہ ڈال کر چلا جاتا ہے ،اس لیے ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم گائناکالوجسٹ پیدا کریں !تیسرا میرے خیال میں یہاں 78فیصد لوگوں کا ماننا ہے کہ تعویز دھاگے ٹھیک ہوتے ہیں، لہٰذاخاموشی سے بچوں کو وہی سکھاتے ہیں، اسے ہم ”علم تعویز“ کا نام دے دیتے ہیں،جبکہ اس کا سب سے بڑا فائدہ ہوگا کہ گردے کی پتھری صرف کاغذ جلا کر بھاپ لینے سے ختم ہو جائے گی! لیکن سوال یہ ہے کہ کاغذ پر لکھی عبارت نصاب کے عین مطابق ہونی چاہیے ، ورنہ اللہ اللہ خیر صلا بھی ہو سکتی ہے! اور ہاں نصاب کی بات ہو رہی تھی تو قارئین کو بتاتا چلوں کہ ہم گیارہویں ، بارہویں کے نصاب کے بعد کی کلاسوں کے لیے نصاب میں اس قدر خود کفیل ہیں کہ اوپر کی کلاسوں کے لیے سائنسی مضامین کا 99فیصد مواد اور کتابیں یورپی ،امریکی اور بھارتی مصنفین کی استعمال کرتے ہیں۔ بھارتیوں کی اس لیے کیوں کہ اُن کی انگریزی سادہ اور آسان زبان میں ہے۔ لہٰذااللہ کے بندو! ایسی باتیں اُس وقت ہمیں زیب دیتی ہیں جب ہمارا اپنا نصاب ہو۔ یا ہم اپنا لکھا ہوا پڑھانے کے قابل ہوں۔ ہاں ایک اور بات یاد آئی کہ ہمارے علماءبورڈ نے حکم دیا ہے کہ ریاضی کی کتاب میں سے ”مارک اپ“ یعنی سود کے الفاظ ختم کر دیے جائیں! ویسے شاید کوئی بھی ایسا شخص نہیں جسے علم نہ ہو کہ ہم سود کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے! بھلا وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ اس وقت بینکنگ کا پورا نظام سود پر کھڑا ہے، ہم سود پر قرضے لیتے ہیں، اور سود ادا بھی کرتے ہیں، پھر اسلامی بینکنگ میں ہم نے کونسا سود ختم کردیا ہے؟ یہ بھی تو سود ہے، بس ”مارک اپ“ کے ریٹس اوپر نیچے کر دیے جاتے ہیں۔ اور پھر آپ کے گردو نواح میں بے شمار انسٹالمنٹس کی بڑی بڑی دوکانیں ہیں تو کیا وہ ہمیں اللہ کے واسطے چیزیں سستے داموں اور وہ بھی 12اقساط میں دے دیتے ہیں؟ لیکن دور اندیشوں نے اس سود سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا سب سے آسان اور سادہ طریقہ یہ تلاش کیا ہے کہ یہ لفظ نصابی کتابوں سے نکال دو ، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ الغرض دنیا آگے کو جا رہی ہے اور ہم معذرت کے ساتھ کھیرا چھیلنے کے اسلامی طریقوں میں پھنسے ہوئے ہیں، اگر کوئی آگے بڑھنے لگتا ہے تو ہم اُس کی راہ میں ایسے روڑے اٹکاتے ہیں کہ وہ کسی اچھے کام یا دنیا کے ساتھ چلنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں ہے ، تبھی تو دنیا کہتی ہے کہ ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اب تو مجھے بھی یقین ہوچلا ہے کہ اگر ہم حیاتیات کی کتابوں میں جنسیات اور فحاشی تلاش کرتے رہیں گے اور تعلیم کے بجٹ میں یہ کہہ کر کٹ لگاتے رہےں گے کہ بچت پالیسی اپنائی جا رہی تو واقعی ہم یونہی رسوا ہوتے رہیں گے اورہمارا کچھ نہیں ہوسکتا! #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon #Education #Pakistan #Pervaiz Elahi #Punjab #PTI