مسئلہ کشمیر کا حل بہت ضروری ، مگر معاشی مضبوطی بھی ضروری!

کشمیر ڈے، 5فروری ملک بھر میں جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے، یہ دن ہم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مناتے ہیں، تاکہ دنیا کو دکھا سکیں کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ ناصرف مخلص ہیں، بلکہ اُنہیں آزادی دلوانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور ایک دن آزاد دلوا کر ہی دم لیں گے۔ جبکہ دوسری جانب سنا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ اندر کھاتے تعلقات بھی بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی بھی جاری ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کیوں کہ آپ کے ہمسایوں کے ساتھ جیسے بھی تعلقات ہوں مگر ترقی کا عمل نہیں رکنا چاہیے۔ ابھی کل ہی یہ بات پاکستان کے ایک معروف تاجر نے بھی کہی کہ مستقل دشمنی کبھی نہیں ہوتی ، دنیا نے 2بڑی جنگیں لڑیں ، بالآخر امن کے راستے پر آنا پڑا ، پاکستان کو بھی بھارت سے تعلقات ٹھیک کرکے تجارت پر کام کرنا چاہیے، علم ہے بھارت سے پس پردہ بات چل رہی ہے اگر معاملات ٹھیک ہوجائیں تو مودی کو پاکستان کا دورہ کرنے میں ایک مہینہ نہیں لگے گا ، یہ بھی کہا کہ کرپٹ کرپٹ کی گردان چھوڑ کر ملک کو بچانا ہوگا ، معیشت ٹھیک نہ ہوئی تو خدانخواستہ ایک اور بنگلا دیش بن جائے گا وغیرہ ۔ یہ باتیں ایک تاجر کی نہیں بلکہ ایک ذی شعور پاکستانی کی ہیں جو نہ صرف پاکستان کے مسائل کو سمجھتا ہے بلکہ اُس کو حل کرنے کے لیے دل میںدرد بھی رکھتا ہے۔ اور پھر یہ بات میں اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بھی کہہ چکا ہوں کہ بھارت اور چین کے حالات کس قدر بھی کشید ہ ہوں مگر وہاں تجارت نہیں رکتی۔ بلکہ گزشتہ سال انڈیا اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت 100 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے لیکن دونوں طرف سے اس پر زیادہ بات نہیں کی جاتی ہے۔ پھر چین اور امریکہ عالمی سیاست کے میدان میں کھلے حریف ہیں امریکہ چین کے عالمی افق کی طرف اٹھتے قدموں کو روکنا چاہتا ہے اس کی عالمی برتری کی راہیں کھوٹی کرنا چاہتا ہے لیکن اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے اسکا بہت بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے بڑی بڑی امریکی کمپنیاں چین میں قائم ہیں امریکہ نے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے چین نے کھربوں ڈالر بطور قرض امریکہ کو دے رکھے ہیں مفادات بھی چل رہے ہیں اور دشمنی بھی نبھائی جا رہی ہے ۔ پھر امریکا میکسیکو کے تعلقات بھی کبھی نارمل نہیں رہے لیکن اُن کے درمیان تجارت کبھی معطل نہیں ہوئی، پھر جرمنی اور فرانس میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے، اور یہ نوک جھونک 200سال پرانی ہے، لیکن حالیہ دہائیوں میں کبھی کسی نے نہیں سنا کہ ان دونوں ممالک کی تجارت کبھی معطل ہوئی ہو۔پھر روس اور امریکا دنیا میں سب سے بڑے دشمن ہیں، لیکن ساتھ ساتھ وہ تجارت کے بھی بڑے ساتھی ہیں اسی طرح چین امریکا کے تعلقات سب کے سامنے ہیں مگر ساتھ ترقی بھی کر رہے ہیں اور آپسی تجارت بھی ۔ پھر اردن کی بیت المقدس کو آزاد کروانے کے حوالے سے کئی بار اسرائیل سے جھڑپیں ہوئیں ، مگر دونوں کے آپس میں تجارتی تعلقات قائم ہیں ۔ پھر ترکی اور ایران سائپرس پر آپس میں سخت دشمن ہیں، مگر تجارتی تعلقات قائم ہیں، تھائی لینڈ اور ملائشیا آپس میں سخت حریف ہیں، لیکن تجارتی تعلقات ابھی بھی چل رہے ہیں۔ مثلاََ بے شمار ملک ایسے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اپنے آپ کو مضبوط کیا ، پھر اُنہوں نے دوسرے ملکوں سے بدلے لیے اور بدلے یہ نہیں لیے کہ اُنہوں نے اپنے مخالفین پر توپیں سیدھی کر دی۔ بلکہ معاشی طور پر اتنی ترقی کر لی کہ مخالفین گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔ لہٰذامیں یہ نہیں کہتا کہ مسئلہ کشمیر پس پشت ڈال کر تجارت کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہیے ، بلکہ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں مسئلہ کشمیر پر کوشش نہیں کرنی چاہیے، ہمیں اُس کے لیے ہر ہر پلیٹ فارم پر جانا چاہیے، یواین او کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہےیے، امریکا و یورپ کو کشمیر کے حالات اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں بتانا چاہیے، ڈاکیومنٹریز بنانی چاہیے، اور ایسے ڈرامہ تشکیل دینے چاہیے جس سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اُجاگر ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں اور نہ پاکستان کی ترقی کے لیے کام ہو رہا ہے۔ بلکہ اُلٹا ہو یہ رہا ہے کہ بھارت کشمیر میں 50لاکھ مسلمانوں پر، انڈیا میں 30کروڑ مسلمان پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ اور تجارت نہ کرکے اور پاکستانی رسد روک کر 22کروڑ پاکستانیوں کے ساتھ بھی ظلم کر رہا ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ یہ ظلم دنیا کے بڑے بڑے طاقتور ممالک بھی دیکھ رہے ہیں ، اقوام متحدہ بھی دیکھ رہا ہے مگر بھارت میں چونکہ سب ممالک کی انویسٹمنٹ ہے اور وہ اقوام متحدہ کا بھی بہت بڑا ڈونر ہے اس لیے سبھی پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اور پھر ویسے بھی اقوام متحدہ نے آج تک کس بڑے مسئلے کو حل کیا ہے جو وہ کشمیر کو بھی حل کرنے کی کوشش کرے گا، جیسے اقوام متحدہ1948میں اسرائیلی قبضے کو روکنے میں ناکام رہا، جس طرح کمبوڈیا اور صومالیہ خانہ جنگی کو روکنے میں ناکام رہا، جس طرح 1994ءمیں روانڈا خانہ جنگی کو روکنے میں ناکام رہا، جس طرح 1995میں بوسنیا کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہا، جس طرح 2003ءسے آج تک سوڈان کے دارفور مسئلے سے نمٹنے میں شکست خوردہ رہا، جس طرح اقوام متحد عراق امریکا جنگ اور افغان امریکا جنگ کو روکنے میں ناکام رہا، جس طرح شام میں خانہ جنگی کو روکنے میں یکسر ناکام رہا، جس طرح یمن میں خانہ جنگی روکنے اور دیگر ہمسایہ ممالک کی یمن پر چڑھائی روکنے میں ناکام رہا، جس طرح برمی مسلمانوں (رونگھیا) کی نسل کشی روکنے میں ناکام رہا، جس طرح دنیا میں بھوک کو ختم کرنے میں ناکام رہا اور جس طرح ایران امریکا اور شمالی کوریا و امریکا جیسے ملکوں کی آپسی لڑائیوں کو ختم کرنے میں ناکام رہا بالکل ، بالکل اسی طرح یو این او 1948ءسے حل طلب مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں بھی پوری طرح ناکام رہاہے۔ حالانکہ بقول نامعلوم شاعر یہ لہو چھپائے نہ چھپے گا یہ بغاوت دبائے نہ دبے گی میرے خیال میں دنیا میں مفادات کی گیمیں جتنی اس وقت چل رہی ہیں، اتنی ماضی میں ہمیں مثال نہیں ملتیں، لہٰذاہمیں بھی اپنے مفادات کی گیمیں کھیلنی چاہیے، اپنے مفادات سامنے رکھ کر کام کرنا چاہیے، اگر ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت کرکے ہم اپنی 5، 10ارب ڈالر کی چیزیں فروخت کر سکتے ہیں تو یہ مارکیٹ بری نہیں ہے۔ کیوں کہ بھارت کے ساتھ تجارت کرنے سے بھارت کو شاید فرق نہ پڑے کیوں کہ وہ ایک بڑی مارکیٹ ہے، اس کے پاس بہت سی آپشنز ہیں مگر یہاں جو چیزیں (ادویات وغیرہ )ہم بھارت سے منگواتے ہیں اگر وہی چیزیں سری لنکا، نیپال یا کسی دوسرے قریبی ملک سے منگوائیں گے تو وہ ہمیں مزید مہنگی ملیں گے۔ جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور حکومت پر بھارت سے تعلقات بحال کرنے کے لیے دباﺅ بڑھے گا۔ اور پھر دلیل دینے کے لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر باقی دنیا نے بھارت کے ساتھ تجارت کا بائیکاٹ نہیں کیا تو ہم کیو ں کر کے بیٹھے ہیں، جیسے ترکی اور بھارت 15ارب ڈالر کی سالانہ تجارت کرتے ہیں۔ ملائشیابھارت کے ساتھ14ارب کے لین دین کرتا ہے۔ پھر یواے ای اور سعودی عرب بھارت کے ساتھ 100ڈالر سے زائد کی تجارت کر رہی ہیں ۔ قصہ مختصر کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی کسی کے بھی وارے میں نہیں اس لئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات جیسے فیصلوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔کتنی احمقانہ بات ہے کہ واہگہ بارڈر کےساتھ پیدا ہونے والی اشیاءوہاں سے ممبئی جائیں،ممبئی سے یو اے ای پہنچیں تو قیمت میں اس خاطر خواہ اضافہ کے بعد ہم انہیں یو اے ای سے امپورٹ کریں۔ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہم بھارتی اشیاءامپورٹ کر رہے ہیں، لیکن وہ براستہ دبئی ہمارے پاس آرہی ہیں۔ جس کی قیمت ہم دوگنا ، تین گناادا کر رہے ہیں۔ لہذاضرورت اس امرکی ہے کہ ہمیں اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہیے، تاکہ معاشی طور پر پاکستان مضبوط ہوگا تو اُس کی بات میں دنیا کو وزن بھی نظر آئے گا۔ اور جدید دنیا میں سب سے بڑا بدلہ ہی خود کو معاشی، خارجی اور اندرونی طور پر طاقتور بنانا ہے۔ اور اگر ہمیں یہ ادراک ہو جائے کہ ہم مضبوط نہیں ہو رہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنی تمام تر توانائیاں اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے صرف کرنی چاہیئں، ہمیں ہر کسی بلیک میلر گروپ سے قطعاََ بلیک میل نہیں ہونا چاہیے ، ہمیں جو چیزیں طاقتور بننے سے روک رہی ہیں اور جن چیزوں کے کرنے سے ہمیں طاقت مل سکتی ہے، ہماری معاشی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے، ہمیں وہ کرنی چاہیے۔ اس لیے ایک اچھی حکمت عملی بننی چاہیے، جو سب سے پہلے پاکستان کے مفاد میں ہو، اُس کے بعد کسی اور کے مفاد میں ہو، اُس کے لیے ہمیں اُس پالیسی پر کم از کم 20، 25سال کاربند رہنا چاہیے۔ ہمیں اپنے آپ کو کرپشن سے آزاد کروانا ہوگا۔ صحیح قیادت کو سامنے لانا ہوگا، کشمیر کمیٹی کے لیے صحیح لوگوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ورنہ ہم یونہی صرف پانچ فروری کو بطور ایک قومی دن کے مناتے رہیں گے، اور ایسا کرنے سے دنیا پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ! #Kashmir day #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan