انتخاب میں دیر، ملکی سالمیت کیلئے خطرہ!

کئی سالوں سے یہ سنا جا رہا تھا کہ 2023ءالیکشن کا سال ہوگا، مگر جیسے ہی 2023آیا یا آنے لگا تو حالات بگڑ گئے، یا بگاڑ دیے گئے، اور اب سین یہ ہے کہ اس وقت انتخابات ملک میں شغل میلہ بن کر رہ گیا ہے، اور روزانہ نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ حالانکہ انتخابات کسی بھی ملک کی سالمیت کے لیے بہترین ہوتے ہیں، بہترین قیادت میسر آتی ہے، اور سب سے بڑھ کر ملک ترقی کرتا ہے۔ تبھی ساری دنیا وقت پر انتخابات چاہتی ہے۔ لیکن یہاں چند معمولی چیزوں کو ”وجوہات“ بنا کر الیکشن ملتوی کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے جو الیکشن کے التواءکو بنیاد بنا کر کہا ہے کہ انتخابات کے لیے پیسے نہیں ہیں، تو آئیے اندازہ لگاتے ہیں کہ کل کتنے پیسے اس نیک کام کے لیے درکار ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کروانے کیلئے تقریباً بیس ارب پچاس کروڑ روپے کا بجٹ درکار ہے۔ اگر قومی اسمبلی کی 93سیٹوں پر بھی ضمنی انتخابات کروانا ہوں تو مزید پانچ ارب روپے کی ضرورت ہو گی۔ اس طرح انتخابات کیلئے تقریباً پچیس ارب پچاس کروڑ روپے درکار ہیں۔ یہ رقم ٹوٹل بجٹ کا صرف 0.18فیصد ہے۔ اگر ٹوٹل بجٹ میں سے صرف 0.18فیصد خرچ کرنے سے مالی بحران شدید ہونے کا خطرہ ہے تو یقینا حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ حالانکہ اس سے زیادہ پیسے روزانہ کی بنیاد پر ہم ڈالر کی قیمت میں اضافہ کرکے اور روپے کی قدر کھو کر ضائع کر رہے ہیں۔ چلیں یہ بھی نہ مانیں، اس طرف آجائیں کہ ایک طرف سرکار نوجوانوں کیلئے ایک سو پچاس ارب روپے کا ڈویلپمنٹ بجٹ منظور کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ انتخابات کروانے کیلئے اس کے پاس ساڑھے پچیس ارب روپے نہیں ہیں۔پھر رمضان ریلیف پیکج کے نام پر صرف پنجاب میں 60ارب روپے کا مفت آٹا تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اگر حکومت انتخابات کروانے کیلئے سنجیدہ ہو تو نوجوانوں کیلئے مختص کیے گئے ایک سو پچاس ارب روپوں میں سے ہی ساڑھے پچیس ارب روپے انتخابات کیلئے الگ کیے جا سکتے ہیں اور نوجوانوں کو بہتر مستقبل دینے کیلئے ایک سو پچیس ارب روپوں سے بھی بہترین منصوبے شروع ہو سکتے ہیںیا آٹا پیکج میں سے آدھی رقم جو مبینہ طور پر کرپشن کی زد میں جانی ہے اُسے الیکشن کے لیے اگر استعمال کر لیا جائے تو یہی ملکی استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہی نہیں بلکہ حکومت نے حال ہی میں ایک تیل کمپنی کو ادائیگی کرنے کیلئے ستائیس ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دی ہے لیکن انتخابات کے لیے اس کے پاس فنڈز نہیں۔ اس کے علاوہ اگر پچاسی رکنی کابینہ کے اخراجات اور پروٹوکول کو ہی کنٹرول کر لیا جائے تو انتخابات کے لیے فنڈز باآسانی نکل سکتے ہیں۔ بیوروکریسی کی شاہ خرچیوں میں کمی کرنے سے بھی انتخابات کیلئے فنڈز نکالے جا سکتے ہیں۔ ملک بھر کے سرکاری ملازمین کی صرف تین دن کی تنخواہ کاٹنے سے الیکشن بجٹ سے زیادہ فنڈز اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کی الیکشن کروانے کی نیت بھی ہو۔ چلیں نیت کو بھی چھوڑیں، پی ڈی ایم کے ذہن میں ہوگا کہ چند ماہ الیکشن میں تاخیر کرنے سے اُنہیں شاید دو فوائد حاصل ہو سکتے ہیں ، پہلا یہ کہ حکمران شاید اس ملک کے حالات قدرے ٹھیک کرلیں، دوسرا یہ کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی لائی جائے۔ مگر بادی النظر میں یہ دونوں کام ہوتے نظر نہیں آرہے۔ بلکہ مریم نواز نے اپنی ایک تقریر میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ عمران خان کے پس پردہ حامیوں کو بے نقاب کرنے جا رہی ہیں۔ میرے نزدیک یہ وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں۔ عوام عمران خان کے بیانیے میں اس قدر محو ہیں کہ اکثریت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیاسی مخالفین نے عمران خان پر سینکڑوں الزامات لگائے لیکن کوئی بھی سکینڈل ان کی ذات اور سیاست کو نقصان نہیں پہنچا پایا۔ یعنی سائیکل بالکل ہی الٹا چل پڑا ہے۔ ان حالات میں منصوبہ سازوں اور فیصلہ سازوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے ہیں اور حواس مختل ہیں۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ انہوں نے کیا کر دیا ہے اور اس سے زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اب وہ کیا کریں؟ ان کی ساری تدبیریں ان کیلئے مصیبت بن چکی ہیں اور جس طرح ان دنوں عمران خان کی ہر الٹی بات اور غلط تدبیر ان کیلئے مقبولیت کا نیا در وا کرتی ہے‘ اسی طرح منصوبہ سازوں کا ہر منصوبہ اور ہر تدبیر ان کے گلے پڑ رہی ہے۔ تبھی حکومت الیکشن سے گھبرائی ہوئی ہے اور اسے کسی نہ کسی بہانے ملتوی کرنے میں لگی ہوئی ہے، ایسے میں الیکشن کا التوا بہرحال ان کیلئے کسی قسم کا کوئی سیاسی ریلیف یا بہتری کی صورت پیدا نہیں کر سکے گا۔ انہیں اب کوئی پلان بی اور سی بنانا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ پلان بی یا سی عمران خان کی نااہلی سے لے کر ان کے جیل جانے تک ہو سکتے ہیں لیکن اب معاملہ اس سے کہیں آگے جا چکا ہے۔لہٰذاحل یہی ہے کہ الیکشن کرواد یں گے تو کم از کم 5سال تک ملک میں سکون ہوجائے گا۔ ورنہ حکومت کے خان صاحب کی پیشیوں پر ہی کروڑوں روپے خرچ ہوتے رہیں گے۔ مثلاََ پچھلی دفعہ جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں پیشی پر پولیس کا ڈھائی کروڑ روپے کا بل آگیا۔ پھر دیگر رہنماﺅں کی پیشیاں، حسان خان نیازی کو دیکھ لیں، پہلے پنجاب پولیس پھر کوئٹہ پھر دیگر اضلاع ۔ مطلب ماسوائے عوام کے پیسے کے ضیاع کے حکمران کچھ حاصل نہیں کر پا رہے۔ اور پھر جو تحریک انصاف کا جلسہ روکنے یا زمان پارک کے راستے بند کرنے کے لیے سینکڑوں کنٹینر لگائے جاتے ہیں، ان پر کروڑوں روپے کے اخراجات ہوتے ہیں، ان کا کون ذمہ دار ہے؟ اور پھر اگر عمران خان کو کھلا جلسہ کرنے دیا جاتا تو کون سی آگ لگ جانی تھی۔ جلسہ کرکے انہوں نے واپس آجانا تھا۔ اور پھر رانا ثناءاللہ کے بیانات جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔ کیا ایسے بیانات دینے کی ضرورت ہے کہ یا تو عمران خان سیاست کرے گا یا ہم کریں گے۔ لہٰذااب تو مریم نواز نے بھی یہی کہنا شروع کردیا ہے کہ الیکشن کے علاوہ مسائل کا کوئی حل نہیں، ہر 5 سال بعد انتخابات ہونے چاہئیں۔ انتخابات ہی ملکی مسائل کا حل ہیں، وغیرہ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر دیر کس بات کی ہے؟اگر دیر فیصلہ سازوں کے فیصلوں کی ہے تو ہمارے فیصلہ سازوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ جمہوری سیاست میں کسی سیاستدان کو صرف ووٹ کے ذریعے مائنس کیا جا سکتا ہے اور ووٹ بھی وہ جو عوام نے صندوقچی میں ڈالے ہوں‘ ورنہ ریفرنڈم والے ووٹ جنرل ضیا الحق اور پرویز مشرف کو دوامی مقبولیت بخش دیتے۔ بہرکیف میرے خیال میں اس وقت الیکشن ملتوی کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے، بلکہ بادی النظر میں الیکشن کا التواءملکی سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اگر 2013کے انتخابات اُس وقت ہو سکتے ہیں، جب ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی، انتخابات سے قبل سیاسی رہنماو¿ں پر خود کش حملے بھی ہوئے۔ کچھ سیاستدان جان کی بازی بھی ہار گئے۔ اس کے باوجود انتخابات میں تاخیر نہیں ہوئی تھی۔تو آج دہشت گردی کے حالات ماضی کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ اس لیے سکیورٹی کو وجہ بنا کر انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ بھی مناسب نہیں ہے۔ اور پھر کس وقت سیاستدانوں کی جان کو خطرہ نہیں ہوتا۔ ان کو سکیورٹی تھریٹ جاری ہونا ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہو سکتا کہ ملکی آئین کی پاسداری نہ کی جائے۔ سیاستدانوں کے آئین سے انحراف کی وجہ سے ہی نظام انصاف کو آئینی معاملات بھی دیکھنا پڑتے ہیں۔لہٰذاان حالات میں اگر الیکشن بروقت نہ ہوئے تو لوگوں کا قانون، انصاف اور اداروں سے لوگوں کا یقین اُٹھ جائے گا۔ بلکہ یہ لوگ خود کہتے رہے ہیں کہ اگر الیکشن میں دیر ہوئی تو یہ آئین سے بغاوت ہوگی۔ آپ نوازشریف کے سابقہ بیانات کو دیکھ لیں، موصوف خود فرماتے رہے ہیں کہ ہم الیکشن کو ایک مہینہ کیا ، ایک دن بھی آگے نہیں جانے دیں گے۔ تو کیسے ممکن ہے کہ اس ملک میں صرف الیکشن اس لیے ملتوی کر دیے جائیں کہ حکمرانوں اور فیصلہ کرنے والوں کو ڈر ہو کہ اگر الیکشن ہوئے تو فلاں شخص جیت جائے گا۔ لہٰذاحکومت بڑے حوصلے کا مظاہرہ کرے ،بلکہ تحریک انصاف بھی صدق دل سے حکومت کو تسلیم کرے دیگر سیاسی جماعتوں کو تسلیم کرے۔ اور مل بیٹھیں تاکہ کوئی ممکنہ اور عوام دوست حل نکل سکے۔ اور چونکہ سیاست اور نوکری ایسی چیز ہے جہاں آپ ایسے لوگوں کو بھی برداشت کرتے ہیں جنہیں دیکھنے سے بھی کراہت محسوس ہوتی ہے ، مگر کیا کریں ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ آخر میں نیلسن منڈیلا کا قصہ سناتا چلوں کہ نیلسن منڈیلا کو اس لیے ہیرو مانا جاتا ہے کہ انہوں نے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کی۔ سفید فام حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے انہیں 27 سال تک پابندِ سلاسل رکھا گیا۔ انہوں نے اس دوران بھی بنیادی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد جاری رکھی۔ 1993 میں جب امن کے نوبل انعام کا اعلان ہوا تو جیتنے والے دو لوگ تھے، نیلسن منڈیلا اور ڈی کلارک۔ ڈی کلارک اس وقت جنوبی افریقہ کا سفید فام صدر تھا جس کے بارے میں نیلسن منڈیلا کے حامیوں کی کوئی اچھی رائے نہ تھی۔ منڈیلا کے مشیروں نے انہیں یہ ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کرنے کی صلاح دی اور کہا کہ ایک ایسے شخص کے ساتھ نوبل انعام وصول نہیں کیا جانا چاہیے جس کی وجہ سے آپ کو جیل میں ڈالا گیا اور جس کی پارٹی کے لوگ ہمارے فالوورز کو آج بھی قتل کر رہے ہیں۔ اس پر نیلسن منڈیلا نے اپنے ایڈوائزرز کو جواب دیا کہ مفاہمت آسان نہیں ہوتی، بڑے مقصد کے لیے مخالفین کو گلے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے ڈی کلارک کے ساتھ ایک ہی تقریب میں ایوارڈ وصول کیا اور ذاتی انتقام پر اکسانے والوں کے مشوروں سے پرہیز کیا۔ منڈیلا اگر جیل سے باہر آ کر دشمنی اور بدلہ لینے پر اڑ جاتے تو انہیں کسی نے نہیں روکنا تھا، ان کی جماعت مضبوط ہو چکی تھی اور ملک کے سیاسی نقشے پر بتدریج اپنی موجودگی کو نمایاں کر رہی تھی۔ لیکن نیلسن منڈیلا نے لڑائی جھگڑے میں پڑنے کی بجائے مل جل کر کام کرنے کو ترجیح دی اور اسی وجہ سے پوری دنیا میں ان کا نام آج بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔قوم کا لیڈر بننا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے صرف ذہانت، تعلیم یا دیانتداری ہی درکار نہیں ہوتی۔ رواداری اور اخلاص وہ خصوصیات ہیں جو اگر رہنماﺅں میں موجود ہوں تو قوموں کے عروج اور دوام کو یقینی بناتی ہیں۔ لیڈرز کا رویہ نیلسن منڈیلا جیسا ہی ہوتا ہے۔ ان کی طبیعت میں خود غرضی، انا اور ضد کی گنجائش نہیں ہوتی۔ عظیم رہنما ذاتی رنجشوں کی بنا پر اجتماعی نقصان نہیں کیا کرتے۔