پاکستان کی عجیب و غریب قانون سازی !

یہاں جس طرح آئین و قانون ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں، بالکل اسی طرح ”قانون سازی “بھی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ یہاں حکومتیں جن دنوں اپنے ”آخری“ ایام پورے کر رہی ہوتی ہیں، اُنہی دنوں وہ کبھی سو سو ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کر دیتے ہیں تو کبھی درجنوں ایسے قوانین پاس کر وا لیتے ہیں جس سے یا تو اُن کو ذاتی فائدہ ہوتا ہے، یا اُن کے قائدین کو یا اُن کی جماعت کو۔ اب چونکہ پی ڈی ایم حکومت کے آخری ایام چل رہے ہیں تو اُن کی کوشش ہے کہ پارلیمان سے جتنا فائدہ ہوسکے وہ لے لیا جائے، نہ جانے دوبارہ کب اُنہیں یہ اختیارات نصیب ہوں کہ بقول شاعر کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا اس لیے پی ڈی ایم نے گزشتہ ہفتے 30سے زائد بل پارلیمان میں پیش کرکے اور اُسے منظور کروا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا۔ یعنی گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں دس پندرہ اراکین کی موجودگی میں ایک گھنٹے کے اجلاس میں 29 قانونی بل منظور ہونے کے پارلیمانی ”کارکردگی“ پر بلاامتیاز سیاسی وابستگی ملک کا ہر باشعور شہری حیران و پریشان ہے۔سوال تو بہت سے اُٹھے مگر یہ سوال سے اہم رہا کہ جناب! کورم کی نشاندہی والے کہاں تھے؟ اور پھر ساڑھے تین سو اراکین کی اسمبلی میں چند افراد کی موجودگی میں بل پاس ہوجانا کیا یہ اہمیت رکھے گا؟ کیا سپریم کورٹ ایسی قانون سازی کو اُڑا کر نہیں رکھ دے گی؟ پھر باقی اراکین اسمبلی کہاں تھے؟ کیا اُنہیں ایک بار پھر غائب کردیا گیا ؟ ان کے غائب ہونے کو ان کا بھی خاموش احتجاج سمجھا جائے، ضمیر جاگ گئے یا انتخابی مہم میں ”ابھی جاں باقی ہے“ ثابت کرنے کیلئے پارلیمانی تاریخ کی ریکارڈ سبک رفتار قانون سازی میں ”شریک جرم“ ہونے سے بچنے کی ہمت کرلی۔ اور یہ جو خلاف قواعد اپنوں سے بھی ایجنڈا (مسودہ ہائے بل) چھپا کر اراکین اسمبلی سے انگوٹھا لگوانے کی واردات اجلاس میں ہی رنگے ہاتھوں پکڑی گئی اور اپنوں نے بھی ایجنڈا (بلز) نہ بھیجنے یا وقت پر دوسرے کاغذات میں چھپا کر رکھنے کی شکایت کی۔ اس پر اسپیکر صاحب سے بھی کوئی جواب طلبی بنتی ہے یا نہیں؟ الغرض یہ وہ پارلیمان ہے جہاں وزیر اعظم ہی پیش ہونے سے گریزاں ہے، جس سے ایوان لاوارث لگ رہا ہے۔ تاہم پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین سراپا احتجاج بن گئے کہ ایوان میں وزرا کی صفیں خالی پڑی ہیں اور بے دھیانی میں قانون سازی جاری ہے۔یہ تو بھلا ہو رضا ربانی کا کہ انہوں نے سینیٹ کی لاج رکھ لی اور اکیلے ہی سینیٹ سے واک آﺅٹ کرتے کرتے کہہ گئے کہ کچھ بلز ہمیں آج صبح ملے ہیں، ان بلز کا تعلق آرمی ایکٹ، کنٹونمنٹس، ڈیفنس ہاو¿سنگ اتھارٹی ایکٹ سے ہے۔حالانکہ ان بلز کو متعلقہ قائمہ کمیٹی میں بھیجا جائے، قوائد و ضوابط کو بالائے طاق رکھا گیا ترامیم کو خاطر میں نہیں لایاگیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ابھی جو بل پاس ہوئے یہ پارلیمان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے، اس طریقے سے بلائنڈ قانون سازی ہوئی ہے، ہمیں نہیں پتا بل میں کیا ہے میں اسکے خلاف واک آو¿ٹ کرتا ہوں۔ دوسری جانب اسی مذکورہ ہفتے اور قومی اسمبلی کے الوداعی اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 224 سے بالاتر ہو کر الیکشن ایکٹ 2017ءکی دفعہ 230 میں ترامیم کرتے ہوئے نگران سیٹ اَپ کو بڑے فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ اب نگران حکومت روزمرہ کے امور نمٹانے تک محدود نہیں ہو گی بلکہ اسے عالمی معاہدے اور پالیسی فیصلے کرنے کا بھی اختیار ہو گا۔ نگران حکومت کو عام حالات میں تین یا چار ماہ کے لیے ملک چلانا ہوتا ہے لیکن ملک کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے انہیں اہم معاشی فیصلوں کا اختیار دیا گیا ہے، جس پر حکومت کے اہم اتحادیوں نے بھی اعتراض کیا ہے۔دفعہ230 میں ترمیم پر سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ نگران حکومت کو اضافی اختیارات دے کر ایک منتخب حکومت کے برابر لانا”آئین کے قتل“کے مترادف ہے۔لیکن آپ یہ دیکھیں کہ ماہرین اس سے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہو سکتا ہے نگران حکومت ”بوجوہ“ اپنا Tenureبڑھا لے۔ خیر سب کو سمجھ آرہی ہے کہ اس وقت ہو کیا رہا ہے؟ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی مخالفین کو ذہن میں رکھ کر قانون سازی کی، یا اُس میں معاونت کی۔ وہ اُس کے گلے پڑ گئی ہے، اگر حکمران یا فیصلہ کرنے والی قوتیں یہ ذہن میں رکھ کر فیصلے کر رہی کہ وہ کسی مخصوص جماعت کا ووٹ بینک توڑنے میں کامیاب ہو جائیں گی تو بادی النظر میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا کہ جب تک تحریک انصاف کا خطرہ نہیں ٹل جاتا، اُس وقت تک الیکشن نہیں کروائے جائیں گے تو یہ اُس کی بھول ہے۔ کیوں کہ اس وقت عوام مہنگائی سے تنگ ہیں، بے روزگاری سے تنگ ہیں ، امن و امان سے تنگ ہیں، انصاف نہ ملنے کی وجہ سے تنگ ہیں اور سب سے بڑھ کر اُن کی عقل سے بالا بالا ہونے والے فیصلوں سے تنگ ہیں، وہ کبھی موجودہ حکمرانوں کو ووٹ نہیں دیں گے۔عوام یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں ہر چیز کی رفتار بڑھ رہی ہے، عوام یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان صرف مہنگائی ہی میں نہیں تیز بلکہ قانون سازی میں بھی ورلڈ ریکارڈ بنا رہا ہے ۔ حالانکہ تحریک انصاف کے دور میں ایک دن میں سوا درجن کے قریب بل پاس ہوئے تھے، مگر اس بار تو اُس کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے، کہ فیصلہ کرنے والے ہر چیز کو باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔جو کہ ملک و قوم کے لیے خطرناک ترین ہے۔ بہرکیف میرے خیال پورے نظام کو اپنی منشا ءکے مطابق ڈھالا جا رہا ہے، اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہاں کوئی آئین اور قانون ہے تو وہ بہت بڑی غلطی کر رہا ہے۔ اب تو ہم سب نے دیکھ لیا ہے کہ پارلیمنٹ کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ اس نئے نظام میں پارلیمنٹ ، سیاسی جماعتیں اور آئین و قانون کے ضابطے ثانوی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔اہمیت کا حامل کس کا حکم ہے وہ راز عیاں ہوچکا ہے۔لگی لپٹی کی تو اب بات ہی نہیں رہی‘ سب کچھ واضح ہے ‘ کوئی پھر بھی نہ سمجھے اُس کا کیا علاج ہے۔اس سارے ماجرے کی وجہ کیا ڈھونڈنی۔ خیر ! اگر میری باتوں کا یقین نہیں آتا تو آپ خود نئی قانون سازی کو پڑھ لیں تو سب کچھ سمجھ آ جاتا ہے۔ جنہوں نے نظام کو اپنی منشا کے مطابق ڈھالنا ہے اُنہوں نے یہ کام تیزی سے کرلیا ہے۔جو دم چھلے ان کے ہاتھ آئے ہیں اُن کے اپنے چھوٹے چھوٹے مفاد ہیں‘ فلاں مقدمہ ‘ فلاں منی لانڈرنگ کا کیس۔ عدالتوں کو بھی ہم نے دیکھ لیا ہے۔ پہلے جبر کے ادوار میں باقاعدہ قانون سازی سے اعلیٰ عدلیہ کو تائب کیا جاتا تھا۔ قصہ مختصر کہ ہم بہت تجربات دیکھ چکے ہیں اوران کی بنیاد پر قوم کی یہ رائے بن چکی ہے کہ غیرجمہوری نظاموں نے اس مملکت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ویسے تو ہماری تاریخ سانحات سے بھری پڑی ہے لیکن ہمارے ساتھ جو بڑے سانحے ہوئے وہ سارے کے سارے غیر جمہوری ادوار میں ہوئے۔ جن بڑے فیصلوں نے قوم کو نقصان پہنچایا وہ سب فیصلے تب لئے گئے جب آئینی اور جمہوری تقاضوں کو ایک طرف رکھا گیا۔اگر انہی راہوں پر ہم نے پھر چلنا ہے تواس عمل کو دانائی کا نام کون دے گا؟ ایک اور المیہ بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ پہلے جب طالع آزما آیا کرتے تھے اور گھڑ سواری کرکے آئینی تقاضوں کو ایک طرف رکھتے تھے تو قوم میں ایک بڑی واضح تفریق آ جاتی تھی: آمریت کے حامی ایک طرف اور جمہوری قوتیں دوسری طرف۔ ایوب خان نے اپنی کنونشن مسلم لیگ بنائی ‘ ضیا الحق کے ساتھ کچھ سیاسی پارٹیاں تھیں ‘پرویز مشرف کے ساتھ (ق) لیگ تھی‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تینوں طالع آزما اکیلے رہ گئے ‘ جمہوری قوتیں ان کے خلاف کھڑی ہو گئیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اپنے مفاد کی خاطربڑی بڑی سیاسی پارٹیاں غیر جمہوری روشوں کی علمبردار بن رہی ہیں۔ایسے میں خدشہ تو یہی ہے کہ جمہوریت اور آئین مذاق بن کے رہ جائیں گے۔پچھلے پندرہ سولہ ماہ میں معیشت کا حال بھی ہم نے دیکھ لیا۔ ایسی تباہی پاکستان کے نصیب میں پہلے نہیں آئی۔بڑے بڑے فیصلے تو بڑے اعتماد سے کئے جا رہے ہیں لیکن کیا گارنٹی ہے کہ یہی نظام چلتا رہا جو ہم نے پچھلے پندرہ ماہ میں دیکھا ہے تو مزید تباہی نہیں ہوگی؟