ضمنی الیکشن : طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں!

پنجاب میں ضمنی الیکشن ہوگئے،تحریک انصاف نے بڑے بڑے اپ سیٹ کرکے 20میں سے 15نشستیں حاصل کیں! ضمنی الیکشن کیا تھے، جنرل الیکشن ہی لگ رہے تھے، ایسے لگ رہا تھا جیسے ہر پولنگ سٹیشن پر عوام کسی مسیحا کو تلاش کررہے ہوں، کسی ایسے شخص کو تلاش کررہے ہیںجو پاکستان کو مسائل کے بھنور سے نکالنے میں اُن کی قیادت کر سکے۔اور پھر عوام نے اپنا فیصلہ دیا اوربغیر کسی دباﺅ کے مرضی کا ووٹ کاسٹ کیا۔ اپوزیشن نے بھی پہلی مرتبہ اپنی شکست کو تسلیم کیا، اور جیتنے والی جماعت کو کھلے دل سے مبارکباد یں پیش کیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حالیہ الیکشن میں نیوٹرلز” نیوٹرلز“ ہی رہے، انہوں نے بھی عوام کے سامنے اپنا سرخم تسلیم کیا ورنہ کیا مجال تھی کہ ”الیکٹیبلز “ پیچھے رہ جاتے ۔ یقینا یہ عوام کا ہی فیصلہ تھا کہ بھکر میں مسلم لیگ کے مضبوط اُمیدوار سعید اکبر نوانی کو شکست ہوئی، اور 11ہزار کے فرق سے تحریک انصاف کے عرفان اللہ نیازی جیتے۔ جنہیں 2018ءکے الیکشن میں شکست ہوئی تھی۔ پھر پی پی 97 فیصل آباد سے اجمل چیمہ کو کون ہرا سکتا تھا، انہیں عوام کے ووٹوں نے شکست دی اور تحریک انصاف کے اُمیدوارعلی افضل ساہی جنہیں 2018ءکے الیکشن میں شکست ہوئی تھی نے یہ مقابلہ 12ہزار ووٹوں سے جیتا۔ پھر جھنگ کے حلقہ 125میں ن لیگ کے مضبوط اُمیدوار فیصل حیات جبوانہ تھے، جو 2018میں کامیاب ہوئے تھے، اُنہیں تحریک انصاف کے اعظم چیلہ نے 30ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ پھر آپ شیخوپورہ آجائیں، یہاں حلقہ پی پی 140میں ن لیگ کے مضبوط اُمیدوار میاں خالد محمود کو تحریک انصاف کے خرم شہزاد ورک نے 19ہزار کے مارجن سے شکست دی۔ پھر آپ لاہور کی 4سیٹوں کو دیکھ لیں، جن میں سے 3پر تحریک انصاف نے فتح سمیٹی، یہاں بھی عوام نے حقیقی تبدیلی کا فیصلہ سناتے ہوئے، ن لیگ کے اُمیدواران رانا احسن شرافت، نذیر چوہان، محمد امین ذوالقرنین کو شکست دی۔ حیرت اور تشویش اس بات پر ہوئی کہ لاہور میں ووٹرز کا ٹرن آﺅٹ انتہائی کم یعنی 34فیصد رہا جبکہ اوورآل ٹرن آﺅٹ 49فیصد رہا۔ حالانکہ لاہور شہر کا ٹرن آﺅٹ 60فیصد سے زائد ریکارڈ کیا جاتا رہا ہے، لیکن شاید اس بار لاہوریے اس لیے بھی گھروں سے نہیں نکلے کہ وہ ذہنی طور پر یہ قبول کر چکے تھے کہ ن لیگ اس بار بھی دھاندلی کے ذریعے جیت جائے گی۔ کیوں کہ لاہوریے جانتے تھے کہ ن لیگ الیکشن کو ہائی جیک کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔میرے خیال میں اگر زیادہ لوگ باہر نکل آتے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں تھی کہ لاہور کی چوتھی سیٹ جس میں ن لیگ کے اسد کھوکھر کامیاب ہوئے وہ بھی پی ٹی آئی کے حصے میں آتی۔ خیر لاہوریے جتنے بھی نکلے اُنہوں نے یہ ضرور ثابت کر دیا کہ اب وہ ن لیگ کے جھانسے میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی اُن لوگوں کو ووٹ دیں گے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اُنہیں ووٹ کے نام پر بے وقوف بنا رہے ہیں۔اور دوسری بات کہ ابھی بھی ووٹوں کے حوالے سے تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ یعنی پاکستان تحریک انصاف 46.08 فیصد ووٹ لیکر پہلے نمبر پر رہی۔ پی ڈی ایم کو39.05 فیصد ووٹ حاصل کئے اور دوسرے نمبر پر رہی۔ آزاد امیدواروں نے 7.7 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ تحریک لبیک پاکستان 5 فیصد ووٹ حاصل کر سکی۔نیز اگر باقی حلقوں کی بات کریں تو کسی کو علم نہیں تھا ن لیگ کے مضبوط اُمیدوار نعمان لنگڑیال کو شکست ہو سکتی ہے،اور نہ ہی یہ علم تھا کہ پی پی 224 لودھراں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار زوار حسین وڑائچ 56214 کو زبردست شکست ہو سکتی ہے۔ پھر اس کے علاوہ لیہ میں رندھاوا خاندان کو تحریک انصاف نے شکست دے کر ثابت کیا، کہ اب حکمرانی صرف عوام کی ہوگی۔ الغرض ہر جگہ عوام نے یہ ثابت کیا کہ اگر 70سے زائد ملکی چینلز، فیصلہ کرنے والی قوتیں، تمام سیاسی جماعتیں، تمام پٹواری، تحصیل دار، ذیل دار، ڈی سی، اے سی، پولیس، سکیورٹی ادارے اور پوری ریاستی مشینری ایک طرف ہو جائے اور عوام دوسری طرف ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت عوام کو شکست نہیں دے سکتی۔ آپ شہباز گل کو گرفتار کر لیں، آپ سپورٹرز کو جگہ جگہ روک لیں، الیکٹرانک میڈیا کو اپنی طرف مائل کرلیں، آپ ”غیبی قوتوں“ کو اپنی طرف کر لیں لیکن الیکشن کا ایک اصول ہے کہ اگر فیئر الیکشن ہوں تو اُس میں عوام ہی سر چشمہ ہوتے ہیں۔ یقین مانیں 70میڈیا چینلز میں سے پانچ سات نیوٹرل تھے، ایک آدھ پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہا تھا جبکہ باقی سب حکومت کو سپورٹ کر رہے تھے۔ لیکن پھر بھی ن لیگ ہار گئی! کیا اس پر ن لیگ کے بڑوں کو سر جوڑ کر نہیں بیٹھنا چاہیے کہ آخر اُنہوں نے ٹکٹ دیتے وقت 80 فیصد لوٹوں کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ خیر یہ تو ن لیگ کا اندرونی معاملہ ہے، اُمید ہے وہ اس حوالے سے ہنگامی اجلاس طلب کرکے اس میں حلقہ بہ حلقہ اپنی غلطیوں کی نشاندہی کریں گے اور یہ ضرور سوچیں گے کہ عوام کو کس طرح اپنی جانب مائل کیا جائے۔ کیوں کہ بادی النظر میں لگتا یوں ہی ہے کہ اب پاکستانی عوام کسی کے پریشر میں نہیں آئے گی، اب وہ اپنے فیصلے خود کرے گی۔ بلکہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بتادیاہے، تمام سیاسی جماعتوں کو بتا دیا ہے، عالمی فیصلہ کرنے والی قوتوں کو بتا دیا ہے کہ اب فیصلہ اُن کا ہوگا۔ وہ غلامی سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ غلامی کرکر کے تھک گئے ہیں ۔ وہ تھک گئے ہیں مسائل سے نمٹتے ہوئے، وہ تھک گئے ہیں قربانیاں دیتے ہوئے، وہ بیسیوں ٹیکسز سے تنگ آچکے ہیں، وہ بلاوجہ کی حکومتی اٹھکیلیوں سے تنگ آچکے ہیں۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا 1970ءمیں ہم نے بھٹو کی جماعت کو دیکھا تھا جب تمام قوتیں ایک طرف اور بھٹو کی جماعت پیپلزپارٹی ایک طرف تھی۔ اُس وقت بھی پیپلزپارٹی نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کوشکست دی تھی، ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں اپوزیشن کو آج تک اس قدر سیٹیں نصیب نہیں ہوئیں جس قدر آج ہوئی ہیں۔ وہ صرف اسی لیے کہ یہ عوام کا فیصلہ ہے! آپ 1971ءمیں چلے جائیں جب پاکستان سے کلکتہ چلے جانے والے عوامی لیگ کے 78منتخب نمائندوں کی جگہ ضمنی انتخاب کرانے کا اعلان ہوا۔ ضمنی انتخابات میں دسمبر 1970 کی شکست خوردہ سیاسی جماعتوں میں مفروضہ نشستوں کی بندر بانٹ پر کیا تماشے ہوئے اس کے لئے جنرل راﺅ فرمان علی اور صدیق سالک کی کتابیں دیکھئے۔ یہ ضمنی انتخابات تو زمینی حالات کے باعث منعقد نہ ہو سکے البتہ 30 اکتوبر کو 35 امیدواروں کے بلامقابلہ منتخب ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ ہماری تاریخ میں یہ ضمنی انتخابات کی سب سے بڑی مشق تھی جو ایک مضحکہ خیز انجام کو پہنچی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں دو بڑے ضمنی معرکے ہوئے۔ لائل پور میں مختار رانا کی بہن زرینہ رانا پیپلز پارٹی کے امیدوار افضل احسن رندھاوا سے شکست کھا گئیں۔ 19اکتوبر 1975کو پیپلز پارٹی کے سابق گورنر پنجاب اور وزیراعلیٰ غلام مصطفیٰ کھر آزاد امیدوار کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے امیدوار شیر محمد بھٹی سے ہار گئے۔ یہ دونوں الیکشن انتخابی بے قاعدگیوں اور سرکاری وسائل کے بے جا استعمال سے جڑے ہوئے تھے۔ اس سے یہ تاثر عام ہو گیا کہ ضمنی انتخابات میں برسراقتدار جماعت کے امیدوار کو شکست دینا کارے دارد ہے۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں لاہور کے حلقہ 99میں ضمنی انتخاب کو بہت شہرت ملی تھی کیونکہ آئی جے آئی کے قیام اور آپریشن مڈ نائٹ جیکالز کے پس منظر میں پیپلز پارٹی اور مقتدرہ کی کشمکش سامنے آ چکی تھی۔ پھر ن لیگ کے تیسرے دور میں ایاز صادق اور علیم خان کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا، جس میں بھی سرکاری مشینری یعنی ایازصادق جیتے۔ پھر جولائی 2018 کے گزشتہ عام انتخابات کے بعد 14 اکتوبر کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کل 35نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے جن میں تحریک انصاف نے بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ بقول شاعر جو صاحب اقتدار رہا وہی جیتتا رہا۔ جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ پیکاں سے تیرے جلوہ زخم آشکار تھا بہرکیف اس وقت اگر پارٹی پوزیشن کی بات کی جائے تو تحریک انصاف اس وقت پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے، حالیہ ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی 15 نئی نشستوں کے بعد 178 پر پہنچ گئی۔ ن لیگ 4 سیٹوں پر کامیابی کے بعد 167 پر پہنچ گئی۔ ق لیگ 10، پیپلز پارٹی 7،آزاد ارکان کی تعداد 6 ہو گئی۔ پاکستان راہ حق پارٹی کا ایک ممبر بھی اسمبلی کا حصہ ہے۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کا حکومتی اتحاد 179 نشستوں کا حامل جبکہ اپوزیشن اتحاد کے اراکین کی تعداد 188 ہو گئی ہے۔لہٰذاضرورت اس کی امرکی ہے کہ ”بڑوں“ کو بھی عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے، ہر ادارے کو اپنی حدود کا خیال ہونا چاہیے، کارل مارکس نے بھی یہی کہا تھا کہ اگر کسی نے عوام پر راج کرنا ہے تو سب سے پہلے اُس کے مینڈیٹ کا احترام کرنا ہوگا۔ کیوں کہ عوام ہی طاقت کا اصل سرچشمہ ہی ہوتے ہیں اور جو ان پر مسلط ہوتے ہیں یاکیے جاتے ہیں وہ لیڈر نہیں بلکہ ”ڈکٹیٹر“ کہلاتے ہیں!