ووٹنگ مشین :حرج ہی کیا ہے؟

ہمسایہ ملک بھارت کورونا کی لپیٹ میں اس قدر بری طرح پھنس چکا ہے کہ کسی مزید بڑی آفت سے اُسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے، کیوں کہ دنیا میں کورونا سے ہلاک ہونے والا ہر چوتھا شخص بھارتی ہے، جبکہ صرف ایک سرحد اور چند کلومیٹر دور پاکستان میں حالات کنٹرول میں ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے احتیاطی بھی برتیں اور بچ بھی جائیں ، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میرے خیال میں اگر ہم آج بچے ہوئے ہیں تو یہ بھی اللہ توکل ہی ہے ورنہ آج بھی (لاک ڈاﺅن سے پہلے) بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔ اور ایسے ہجوم میں اگر کوئی کورونا مریض بھی آٹپکے تو ایک تحقیق کے مطابق وہ دس منٹ بھی ہجوم میں رہے گا تو ایک ہزار افراد (بغیر ماسک) کو کورونا وائرس میں مبتلا کرنے کا باعث ہوگا۔ اس سارے ماحول میں حکومت کی پوری مشینری یا تو ضمنی انتخابات میں مصروف دکھائی دیتی ہے، یا انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اپنے آپ کو مصروف کیے ہوئے ہے۔ لہٰذااُسے کوئی فکر لاحق نہیں کہ کس طرح عوام کو ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کا پابند کیا جائے۔ خیر آج کا ہمارا موضوع کورونا تو نہیں مگر حکومت جس کام میں اُلجھی نظر آرہی ہے یعنی انتخابی اصلاحات، اور اُس میں سے بھی ”ووٹنگ مشین“ کا انتخابات میں استعمال ہے،آگے بڑھنے سے پہلے کراچی کے حالیہ ضمنی انتخاب برائے حلقہ این اے 249میں دوبارہ گنتی(Re-Counting) کے مراحل پر نظر ڈالتے ہیں کہ قانون کے مطابق اگر جیتنے اور ہارنے والے اُمیدوار میں جیتنے کا تناسب 5فیصد سے زیادہ نہ ہو تو کسی بھی اُمیدوار کی جانب سے ری کاﺅنٹنگ کی درخواست جمع کروائی جا سکتی ہے، جس پر عمل درآمد کروانا الیکشن کمیشن پر فرض ہو جاتا ہے۔ اب تادم تحریر مذکورہ انتخاب میں ابھی تک دوبارہ گنتی کا سلسلہ جاری ہے اور ابھی بھی کہا جا رہا ہے کہ اسے مزید دو دن کا وقت درکار ہے، یعنی آپ تصور کریں کہ ہمارے ہاں انتخابی معرکوں کے حوالے سے کس قدر پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ یہاں ایک تو انتخابات شفاف نہیں، دوسرا انتخابات پر کسی کو اعتبار نہیں، تیسراالیکشن کمیشن قابل بھروسہ نہیں، چوتھاالیکشن کمیشن کا سربراہ متنازع، پانچواں انتخابات کا طریقہ کار متنازع، چھٹابغیر فوج کی مدد کے انتخابات کروانا ایک خواب، ساتواں انتخابات کے دوران انتظامیہ امن و امان کی رٹ قائم کرنے میں ناکام، آٹھواں ریٹرننگ آفیسرز اور عملہ محفوظ نہیں، نواں ٹیکنالوجی کا فقدان جیسے آر ٹی ایس کا ”بیٹھ“ جانااور دسواں مسئلہ ووٹر بھی غیر تربیت یافتہ جس کی وجہ سے ہزاروں ووٹ ضائع ہوجاتے ہیں۔ یعنی جہاں انتخابات کروانے میں اتنے مسئلے سامنے کھڑے ہوں تو شفاف انتخاب کی اُمید کرنا ایک دیوانے کا خواب ہی نظر آتا ہے۔ان تمام مسائل میں اگر کہیں سے انتخابی اصلاحات لانے کے اشارے مل رہے ہیں تو ہمیں اس پر خلوص نیت اور ملک و قوم کی خاطر اس بحث کا نہ صرف حصہ بننا چاہیے بلکہ ملکی مفاد میں اس کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے کے حوالے سے کام کرنا چاہیے ۔ لیکن معذرت کے ساتھ ہماری فطرت میں شامل ہے کہ اگر کوئی شخص بھی کسی اچھے کام کے کرنے کی حامی بھرے تو مخالفت کرنے والا ہمیشہ اُس کام کے منفی پہلوﺅں کو تلاش کرے گا، جیسے حالیہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بات کی جائے تو اس میں ایک اہم اصلاح الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی ہے۔ ووٹنگ مشین کی تجویز حکومت نے پیش کی ہے لیکن پوری اپوزیشن اس کی مخالفت کر رہی ہے، یہی وہی اپوزیشن ہے جو اپنے ادوار میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بطور سیاسی نعرے کے استعمال کرتی رہی اور جب کسی اور نے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو پوری کی پوری ٹیمیں اس مشین کے ناکام ہونے کے جواز ڈھونڈنے میں لگا دیں۔ تاکہ الیکشن میں ہونے والی مبینہ ہیراپھیریوں کو پکڑا نہ جا سکے۔ درحقیقت پاکستان میں ایک طبقہ کبھی نہیں چاہے گا کہ یہاں انتخابی اصلاحات ہوں، کیوں کہ اُس طبقے کو بیلٹ پیپر الیکشن سے انڈر گراﺅنڈ سپورٹ ملتی ہے ۔ ورنہ 1970سے لیکر آج تک اس سسٹم کا ہر الیکشن دھاندلی زدہ قرار دیا جا چکا ہے تو پھر یہ لوگ اس سسٹم کو تبدیل کیوں نہیں کرتے؟ لہٰذاہوتا یوں ہے کہ ان ”تجربہ کار“سیاستدانوں نے اپنے اپنے حلقے میں 10سے 15ہزار جعلی ووٹ بنا رکھا ہے جسے آپ تلاش بھی کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ اس لیے جن بااثر لوگوں نے دھاندلی کا ایک مکمل میکنزم ترتیب دے رکھا ہے، وہ بھلا کیوں چاہیں گے کہ اس خطے میں شفاف الیکشن کے ذریعے تبدیلی آئے اور یا اچھی قیادت میسر آئے۔ میرے خیال میں جس طرح ہر پارٹی کا میڈیا ہاﺅس کا م کر رہا ہے اس طرح ہر پارٹی کا ایک ”دھاندلی ہاﺅس “ بنا ہوا ہے، جو پوری پارٹی میں دھاندلی کو مینج کر رہا ہوتا ہے۔ اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ کس بات پر اور کب کتنا شور مچانا ہے۔ جیسے 2018ءکے الیکشن میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا کو خود نوازشریف اور خورشید شاہ نے تعینات کیا، لیکن بعد میں دونوں بڑی پارٹیاں اُن کے بھی خلاف ہوگئیں، اور بڑے پیمانے پر دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیا۔ خیر اگر مشین کے حوالے سے ماہرین کی رائے لی جائے تو دنیا بھر میں مشین ووٹنگ سسٹم مینوئل ووٹنگ سسٹم سے 80فیصد بہتر ہے، یعنی دھاندلی کے چانسز 20فیصد ہیں جبکہ مینوئل سسٹم میں دھاندلی کے چانسز 60فیصد ہوتے ہیں۔اس لیے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا بنیادی مقصد ووٹوں کی گنتی کو تیز اور موثر بنانا ہوتا ہے۔عالمی سطح پر آسٹریلیا، بلجیم، برازیل، ایسٹونیا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، بھارت، اٹلی، ناروے، سوئٹزرلینڈ، متحدہ عرب امارات اور امریکا سمیت کئی ممالک الیکٹرانک ووٹنگ سے انتخابات کرا چکے ہیں۔اور پاکستان الیکشن کمیشن بھی اس کا خواہاں نظر آتا ہے۔ تبھی رواں ہفتے وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور ہونے والے دو نئے آرڈیننس الیکٹرانک ووٹنگ اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق ہیں۔ جب دھاندلی کا اس قدر شور مچا ہوا ہے تو پھر الیکٹرانک ووٹنگ کروانے میں کیا مسئلہ ہے؟ یعنی ہم کسی گاڑی میں سفر کرنے سے گریز کرنا شروع کردیں کہ اس کا ٹائر پنکچر ہو جائے گا، تو میرے خیال میں یہ بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ لہٰذااگر ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو ہمیں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو یقینی بنانا ہوگا، اگر مشین کے استعمال میں کسی قسم کی دھاندلی کا خدشہ ہے تو اُس کے لیے احتیاطی تدابیر استعمال کی جا سکتی ہیں، جیسے بھارت میں الیکٹرانک مشین کے ساتھ مشین سے نکلی ہوئی پرچی بھی بیک اپ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ بھارت میں آج سے 40سال قبل 1982 میں کیرالہ کے ریاستی انتخابات میں پہلی بار الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا گیا تھا۔ بھارت مقامی طور پر تیارکردہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کرتا ہے۔ بھارتی انتخابی عمل میں انتہائی سادہ انداز میں بیٹری پر چلنے والی ان مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ووٹر پولنگ سٹیشن پر انتخابی عملے کو اپنا شناختی کارڈ پیش کرتا ہے۔ انتخابی عملہ چیک کرتا ہے کہ وہ ووٹر لسٹ میں ہے یا نہیں۔ اس کے بعد ووٹر کی باری آنے پر پولنگ افسر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بیلٹ یونٹ ان لاک کر کے اس کے حوالے کرتا ہے۔ ووٹر کے سامنے مشین کی سکرین پر مختلف بٹن روشن ہو جاتے ہیں جن پر امیدواروں کے نام اور ان کے سامنے انتخابی نشان ہوتے ہیں۔ ووٹر اپنے پسند کے امیدوار کے سامنے والے نشان کو دباتا ہے اور اس کا ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے۔ ہر ووٹ کے بعد ایک پرنٹر سے نکلنے والی چھوٹی سی پرچی کے ذریعے ووٹر کو دکھایا جاتا ہے کہ اس نے ووٹ کس کو کاسٹ کیا ہے۔ اس کے بعد یہ پرچی ایک مقفل بکس میں ڈال دی جاتی ہے۔ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بکس میں ڈالی گئی پرچیوں کو انتخابی عملہ اپنے دستخط کے ساتھ سیل کر دیتا ہے۔ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کا عملہ سیل کی گئی ووٹنگ مشینوں اور بیلٹ باکس کو کھول کر ووٹوں کی گنتی کرتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور پرچی کے ووٹ کو ایک دوسرے سے ملا کر گنتی مکمل کی جاتی ہے اور ہر حلقے کا رزلٹ مرتب کیا جاتا ہے۔ بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے لیے خصوصی طور پر تیارکردہ سافٹ وئیر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سکیورٹی کے کوئی مسائل جنم نہ لیں۔ ووٹنگ مشین کو انٹرنیٹ یا کسی کمپیوٹر نیٹ ورک سے بھی جوڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سسٹم کے ذریعے انتخابات میں کسی قسم کی ممکنہ دھاندلی سے بچا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکا میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ کے لیے مختلف طرح کی مشینیں استعمال ہوتی ہیں۔ ٹچ سکرین مشینوں پر ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ بیلٹ پیپر کے لیے سکینرز کا استعمال ہوتا ہے۔ ووٹرز کے دستخط کی شناخت کے لیے بھی سکینرز استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ویب سرورز کے ذریعے ووٹوں کی گنتی بتائی جاتی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے باوجود انتخابی عمل کا پیپر پر بیک اپ بھی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کچھ یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑ بھی ہو سکتی ہے یا انہیں ہیک کرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایسے میں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال بھی اٹھ جاتے ہیں۔ بہرکیف جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے ہمیشہ سے فوائد ہی سامنے آئے ہیں، لیکن پاکستان میں جس انداز سے اس مشین کی مخالفت کی جا رہی ہے وہ جہالت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں جہاں اس قدر دھاندلی کے مسائل کا سامنا ہے تو ایک بار الیکٹرانک مشینری کے استعمال پر بھی توجہ دے دینی چاہیے، اور رہی بات فنڈز کی تو ایشین بنک، ورلڈ بنک وغیرہ اس حوالے سے فنڈنگ کرنے کو بھی تیار ہیں۔ بشرطیکہ کہ ہماری نیت صاف ہو۔ ورنہ ہمیں ماضٰ کی طرح لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں!