تنخواہیں نہ لینے والے .... مگرکرپٹ سیاستدان؟

اتنی بری خبروں میں ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے بعد دو وفاقی وزراءمحسن نقوی اور عبدالعلیم خان نے تنخواہیں نہ لینے کا بہترین فیصلہ کیا ہے، اور وفاقی وزیر عبد العلیم خان نے تو تنخواہ کے علاوہ سرکاری گاڑی اور رہائش سمیت دیگر مراعات بھی نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔صدر مملکت اور وفاقی وزرا کے اس اعلان سے معیشت پر جو بوجھ ہے وہ تو نہیں ہٹے گا تاہم یہ ایک اچھی روایت ہے کیونکہ اس سے مستقبل میں ایک نئی اور بہترین حکمت عملی بن سکے گی۔ اور پھر ایک پارلیمانی لیڈر کی پانچ سال کی تنخواہ کروڑوں میں بنتی ہے، جیسے صدر اور 2 وفاقی وزرا کے تنخواہ نہ لینے سے قومی خزانے 5 سال میں مجموعی طور پر قومی خزانے کو 9 کروڑ 43 لاکھ روپے سے زائد کی بچت ہو سکتی ہے۔اور پھر اگر تمام ممبران اسمبلی جن کی تعداد کم و بیش ایک ہزار کے قریب ہے، اگر یہ تمام مراعات چھوڑ دیتے ہیں تو کروڑوں نہیں، اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے بچائے جا سکتے ہیں۔ مگر ایسا ہو ہی نہیں سکتا،،، کیوں کہ یہ ظرف ظرف کی بات ہے،،، آپ ایک دوسری خبر بھی ملاحظہ فرمائیں، جس کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی سرکاری گاڑی کے ٹائروں کی تبدیلی کے لیے محکمہ خزانہ سے 2 کروڑ 73 لاکھ روپے طلب کیے ہیں، سی ایم آفس کے مطابق گاڑیوں کی مرمت اور پارٹس تبدیل کرانا”معمول“ کی بات ہے ، اس میں کسی کو پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ ان دونوں خبروں کے تضاد کے بعد مجھے مشتاق احمد یوسفی کی بات یاد آگئی کہ انہوں نے خانساماں سے تنخواہ کی بابت دریافت کیا تو وہ بولا، ”35000 روپے ماہوارہوگی۔لیکن اگرسودا بھی مجھی کو لانا پڑا تو صرف 5000 روپے ہوگی!“۔ اب یہ صرف ٹائروں کا معاملہ تھا، اندر کھاتے اس قسم کے کتنے ”ٹائر“ تبدیل ہوتے ،ان کے سامنے تنخواہیں اور genuineمراعات تو یقینا معمولی ہوں گی۔ ویسے تو ایسی خبریں یقینا ہمارے لیے تعجب کی بات یا محض ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے ہوتی ہیں کیوں کہ پاکستان کی 76سال تاریخ میں ماسوائے کرپشن کے ہمارے سیاستدانوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ آپ خود دیکھ لیں کہ 1947 ءسے اب تک ہر دور میں پچھلے دور کی کرپشن کی لکیر چھوٹی ہی نظر آتی رہی ہے۔ مگر ہر بار نئی لکیر کھنچنے سے پہلے واویلا بھی کرپشن کی بیخ کنی کا ہی مچایا جاتا رہا۔ ایوب کے بعد جنرل ضیاءالحق، غلام اسحٰق خان اور فاروق لغاری کی محمد خان جونیجو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی منتخب حکومتوں کے چرچے سب کے سامنے ہیں۔ سادگی اور کفایت شعاری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے جنرل ضیاءالحق کے دور میں باضابطہ طور پر مالیاتی بد عنوانیوں کا آغاز ہوا۔ بھٹو کی مقبولیت کو کم کرنے، جمہوریت اور آئین کی بحالی کے عوامی مطالبے کو کمزور کرنے کے لئے مجلس شوریٰ کے نام پر ملک بھر سے اشرافیہ کے نمائندوں کو جمع کر کے قومی خزانے کا منہ کھول دیا گیا۔ غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کر واکر ایک سرکاری جماعت کی تشکیل کے لئے عوامی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر رقم مہیا کی گئی جو پارلیمانی کرپشن کی بنیاد بن گئی۔اُس وقت ان تنخواہیں نہ لینے والے سیاستدانوں پر دس سالوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 58ارب روپے کے کرپشن کے الزامات لگے۔ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو کرپشن کے الزامات لگا کر بر طرف کرنے کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لئے مہران بنک کے سکنڈل پر ایک عدالتی فیصلہ ریکارڈ پر موجود ہے جو ملک کے سیاسی نظام میں ادارہ جاتی کرپشن کی داستان بیان کرتا ہے۔ پہلی بار سرکاری اور دفاعی اداروں نے اپنی زیر سرپرستی شخصیات اور سیاسی جماعتوں کو بھاری رقوم مہیا کیں تاکہ پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس عدالتی فیصلے پر آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا البتہ ایوب اور ضیا الحق کے بعد ملک میں مالی بد عنوانی کی اس تیسری لکیر کے سامنے ماضی کی لکیریں چھوٹی نظر آنے لگیں۔ ماضی میں سرکاری مالی وسائل تک رسائی صرف منتخب نمائندوں تک محدود رہی تھی مگر اب کی بار غیر منتخب لوگوں کو بھی شامل کر کے سیاسی بد عنوانیوں کا ایک نیا باب شروع کیا گیا۔یعنی 1990 ءکی دہائی سرکاری وسائل کے زور پر بنائے گئے اسلامی جمہوری اتحاد اور ماضی کی مقبول سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی رسہ کشی اور ریشہ دوانیوں کا دور تھا۔ پیپلز پارٹی کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کے لئے احتساب کا ایک ادارہ بھی بنا دیا گیا جو کوئی الزام ثابت نہ کرنے کے باوجود پوری شد و مد کے ساتھ سرگرم عمل رہا۔اس ادارے نے ان سیاستدانوں کی 100ارب روپے سے زائد کی کرپشن کی نشاندہی کی۔ پھر مشرف کے دور میں جب ایک طرف احتساب کا دور دورہ تھا تو دوسری طرف ایک غیر منتخب آمر کے غیر آئینی اقدامات کو دوام دینے کی حکمت عملی کے طور پر مخصوص کاروباری لوگوں کو سرکاری مراعات اور سہولتیں دینے کی نئی ریت کا آغاز بھی ہوا۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں نئے کاروباری چہرے بھی سامنے آئے جنھوں نے ملک کی سیاسی بساط پر نمایاں کردار بھی ادا کیا۔ نجی شعبے میں پہلے صرف عمارتیں بنتی تھیں اب نئے شہر بسنے لگے، نجی بنک کھل گئے، نئی صنعتیں وجود میں آ گئیں۔ پہلے امیر لوگوں کا شوق قیمتی گاڑیاں رکھنے تک محدود تھا مگر اب نجی اور ذاتی جہاز اڑتے دکھائی دیے۔اور پھر یہی لوگ ایک بار پھر ”بغیر تنخواہوں والے “ سیاستدان بن گئے۔ پھر زرداری صاحب (پیپلزپارٹی) کا دور آیا جس میں مختصراََ ان سیاستدانوں نے ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ ہزارارب روپے کی کرپشن کی۔ جس کے بعد 2013میں ن لیگ کی حکومت آئی تو اُس دور میں بھی اتنی ہی کرپشن کے کیسوں کی بازگشت سنائی گئی اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ ہمارے ہر دلعزیز خان صاحب کے دور میں بھی جاری رہا۔ اُن کے دور میں انہی سیاستدانوں کی وجہ سے پشاور میٹرو بس منصوبے میں 70ارب روپے، ایل این جی سکینڈل میں بھی سینکڑوں ارب روپے (یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مہنگی گیس کی وجہ سے حکومت نے ایل این جی خریدی نہیں اور ملک میں آئی پی پیز ڈیزل پر پلانٹ چلا کر مہنگی بجلی پیدا کرتی رہیں۔ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر خود بھی آئی پی پی انڈسٹری کے بڑے کھلاڑی تھےکے خلاف ہوئی انکوائری کی رپورٹ یوں غائب ہو چکی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔پھر اسی دور میں چینی سکینڈل شروع ہوا جس میں 4سو ارب روپے کا غبن ہوا۔ اور پھر اس سکینڈل میں جن حضرات کے نام آئے، ان میں سرفہرست ان کے اپنے ہی قریبی دوست جہانگیر خان ترین سرِ فہرست تھے۔پھر اسی دور میں آٹا سکینڈل بھی آیا، جس میں ہمارے ان سیاستدانوں کی مرہون منت کھربوں روپے کی کرپشن کی بازگشت سنی گئی۔ الغر ض یہ کرپشن ابھی کی نہیںبلکہ ہمارے اندر صدیوں سے رچ بس گئی ہے، جیسے 1857 ءکی ناکام جنگ آزادی کے بعد انڈین معاشرہ انگریزی راج کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم ہو گیا۔ انگریزوں نے اپنے حامیوں کو مختلف طریقوں سے نوازا جن میں جاگیروں کی شکل میں زرعی اراضی کی بندر بانٹ سے لے کر اعلیٰ سرکاری عہدوں اور کاروباری مواقعوں، سرکاری ٹھیکوں کی صورت میں اپنے وفاداروں کو معاشی و سماجی سطحوں پر مضبوط کیا۔ اس طرح کی سماجی تقسیم ہندوستان کے ہر گھر یا ہر خاندان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ نتیجتاً ایک ہی فیملی کے کچھ لوگ امیر ہو گئے اور باقی ماندہ غریب رہ گئے۔ پھر ہندوستان کی تقسیم یا آزادی کی صورت 1947 میں ہی دیکھ لیں۔جب لاکھوں خاندانوں کی ہجرت اور لاکھوں عوام کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر لوٹ مار اور متروک املاک و کاروبار پر قبضہ گیری کا بازار بھی گرم ہوا۔ نتیجہ کے طور پر پھر کچھ لوگ یا خاندان امیر ہو گئے اور باقی غریب رہ گئے اور ہم نے اپنے ملک میں کرپشن کی داغ بیل ڈال دی اوراس کے بعد ہر قسم کی غیر اخلاقی اور غیر قانونی منافع بخش سرگرمیوں کو ”کاروبار“ کا درجہ دے دیا گیا۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، چور بازاری، ٹیکس چوری، بجلی و گیس چوری وغیرہ بھی امیر ہونے کے فارمولے ٹھہرے۔ اس طرح کی 75 سالہ مشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی اشرافیہ تو ایک طرف رہ گئی ملک کا عام آدمی یا غریب آدمی بھی راتوں رات امیر ہونے کی دوڑ میں شامل ہو گیا۔ لہٰذااگر صورتحال یہ ہے تو تنخواہ لیں یا نا لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں تو دنیا بھر کے اداروں کی رپورٹس دیکھنی ہیں، جو کہہ رہی ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں و دیگر نے ایک عشرے کے دوران 2000 ملین ڈالر کا غیر قانونی زرمبادلہ پاکستان سے منتقل کیا گیا،،، ورلڈ بینک کے مطابق دنیامیں ہر سال ایک ٹریلین ڈالر رشوت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ہر سال ملک میں 223 ارب روپے معمولی رشوتوںکی صورت میں ایک جیب سے دوسری جیب میں منتقل ہوتے ہیں۔ پھر ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر 3میں سے ایک فرد نے ایک سال کے دوران رشوت دینے کا اعتراف کیا ہے۔ رشوت کے بڑھتے ہوئے ناسور کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب لوگ بدعنوانی کے مرتکب ہو کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے اور معاشرے کا ایسے افراد سے سماجی قطع تعلق ماضی کی دھول میں کھوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں میرے خیال میں اگر صرف یہ لوگ تنخواہیں لے لیں اور چاہے اسے دوگنا کر لیں مگر یہ سیاستدان اگر کرپشن نہ کریں تو ہم سالانہ ہزاروں ارب روپے بچا سکتے ہیں اس لیے صاحب! ہمیں تنخواہوں کافریب نہ دیجیئے! ہم سادہ سے لوگ ہیں ہمیں جمع تفریق نہیں آتی۔ ہمیں اس جھنجٹ میں نہ ڈالیں۔ ہم متاثر ضرور ہوتے ہیں مگر اتنا نہیں کہ سب کچھ ”فیک“ لگناشروع ہو جائے۔ لہٰذاخدا کے لیے اس ملک کو بچائیں اور ایسے اقدامات کریں جس سے ملک حقیقی معنوں میں ترقی کرے!