ریاست کیوں بدامنی چاہتی ہے؟

ایک سوال کہ کیا کوئی جمہوری حکومت اپنے 70فیصد سے زائدعوام پر پابندیاں لگا کر حکومت کر سکتی ہے؟ نہیں بالکل نہیں! اگر دنیا میں کہیں ایسی حکومت ملے تو ضرور بتائیے گا۔ کیوں کہ ڈکٹیٹر شپ کی حکومت میں اگر 100فیصد عوام بھی خلاف ہوں تو وہ ڈنڈے کے زور پر چل سکتی ہے مگر جمہوری حکومت قدرے مختلف ہوتی ہے۔ اور موجودہ حکومت جسے آپ ”نام نہاد جمہوری حکومت“ کہہ سکتے ہیں، مگر ہے تو جمہوری ہی۔تو کیا یہ اپوزیشن اور عوام پر پابندیاںلگا کر یا جبر کرکے حکومت کر سکتی ہے؟ یقینا ایسا ممکن نہیں ہے؟ آپ خود دیکھ لیں، اس وقت ریاست اپنے لیے خود مسائل کی بنیاد ڈال رہی ہے، وہ کبھی پرامن احتجاج کرنے والوں کو زدو کوب کر رہی ہے تو کبھی بغیر کسی مقدمے کے اپوزیشن رہنماﺅں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے افرادکو ہراساں کر رہی ہے۔ اور اب کل ہی کی خبر ہے کہ پنجاب حکومت نے ”سکیورٹی تھریٹس“ موصول ہونے کے بعد اڈیالہ جیل سمیت صوبے کی 5 جیلوں میں ملاقاتوں پرعارضی پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے، اڈیالہ کے علاوہ دیگر صوبوں سے ملحقہ سرحدی اضلاع اٹک، میانوالی، ڈیرہ غازی خان اور بھکر کی جیلیں شامل ہیں، اڈیالہ جیل میں قیدیوں سے ملاقات پر 2ہفتے کی پابندی عائد کردی گئی ہے،اڈیالہ جیل میں پابندی کا اطلاق بانی پی ٹی آئی عمران خان سمیت تمام اسیران پر ہوگاجن میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی،سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری سمیت سابق وفاقی وزراءاور ہائی پروفائل قیدی موجود ہیں.... اور اب بین الصوبائی جھگڑوں کا بھی آغاز ہونے والا ہے جس کے مطابق پنجاب حکومت نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کوسکیورٹی تھریٹ کے باعث بانی پی ٹی آئی کیساتھ ملاقات سے روک دیا ہے، اور پیاز و دیگر ضروری اشیاءکو مہنگا ہونے کے سبب پنجاب سے دوسرے صوبوں کو بھیجنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس سے بظاہر تاثر یہ جاتا ہے کہ حالات مزید خراب ہوں گے۔ لیکن یہ بات میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب تمام کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں تو پھر حکومت کیوں اپنے پاﺅں میں بیڑیاں ڈال رہی ہے۔ حکومت کیوں چاہتی ہے کہ حالات خراب ہوں ، اور پھر جب حکومت بن چکی ہے تو یہ کیوں چاہتے ہیں کہ حالات خراب ہوں؟ انہیں کس چیز کا خطرہ ہے ؟ یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے جیتی ہوئی ٹیم ہی اپنے خلاف گول کرتی رہے۔ اور ایسا کرنے سے آپکو علم ہے کہ جیت شکست میں بدل جایا کرتی ہے۔ لہٰذاجس نے میچ جیتا ہو، کیا وہ بھی کبھی لڑتا ہے؟ حکومت کا تو کام ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ریلیف دے، زیادہ سے زیادہ مفاہمت کی طرف جائے اور اپنے لیے کم سے کم مسائل کھڑے کرے۔ معذرت کے ساتھ فی الحال تو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ کا لب و لہجہ ہی ناقابل برداشت حد تک کر دھمکی آمیز ہے، ابھی گزشتہ روز ہی وہ فرما رہی تھی کہ اگر احتجاج کیا تو میں یہ کر لوں گی، وہ کر لوں گی.... میں یہ نہیں ہونے دوں گی، میں یہ کردوں گی۔ میرے خیال میں ایسے الفاظ کسی منتخب وزیرا علیٰ کے منہ سے اچھے نہیں لگتے۔لیکن اس کے برعکس اگر حکومت خود ہی اقتدار چھوڑنا چاہتی ہے تو وہ اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کرلے۔ کیوں کہ یہ ”وارداتیں“ اب پرانی ہو چکی ہیں۔ نہیں یقین تو آپ ن لیگ کے اقتدار کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں، کہ یہ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں تو سب سے چھیڑ چھاڑ شروع کردیتے ہیں۔ اُس کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ سال دو سال میں ان کے مخالفین کی تعداد اتنی بڑھ جاتی ہے، کہ ان کے لیے حکومت کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔ ابھی بھی کوئی شک ہے تو آپ خود دیکھ لیں کہ 1990ءکی حکومت اس لیے چلی گئی کہ نواز شریف کی غلام اسحاق خان سے نہ بن سکی، اور حکومت چلی گئی۔پھر 1997ءمیں جنرل پرویز مشرف سے نہ بن سکی۔ اور پھر 2018میں جنرل باجوہ کے ساتھ ان کی ان بن ہوگئی۔ اور ایک بار پھر انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اور پھر یہ صرف انہی کا مسئلہ نہیں بلکہ عمران خان کا بھی یہی مسئلہ رہا۔ انہوں نے ایڈمنسٹریٹو کام کرنے کے بجائے یہی کیا کہ اپنے مخالفین کی تعداد اتنی بڑھا لی کہ اُنہیںیعنی تمام پارٹیوں کو مقتدرہ قوتوں کے ساتھ مجبوراََ ملنا پڑا۔ لہٰذااگر ن لیگ نے اپنی تین حکومتوں کے ٹوٹنے سے کچھ نہیں سیکھا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ اور پھر اب ایک بار پھر اگر آپ اسی قسم کی سیاست کو آگے لے کر چلیں گے تو کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ حکومت ایک ڈیڑھ سال بھی چل سکے گی؟ آپ اس حوالے سے ”طیب اردگان ماڈل“کو استعمال کر سکتے ہیں، انہوں نے پہلے 10سال کسی کو نہیں چھیڑا ، صرف اور صرف کام پر فوکس کیا۔ 2003ءمیں انہوں نے اقتدار سنبھالا تو اُس وقت ترکی کے حالات بھی پاکستان جیسے تھے۔ یہ وہی طیب اردگان ہےں جس نے 2001 میں اپنی سیاسی جماعت ”جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی“ بنائی اور 2002، 2007 اور 2011 کے انتخابات میں مسلسل کامیابی حاصل کی۔ طیب اردگان 2003 سے 2014 تک مسلسل ترکی کے وزیراعظم رہے اور 2014 سے اب تک ترکی کے 4مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ اتنے کم عرصے میں کوئی ”سلطان “کیسے بن سکتا ہے؟یہ ہمارے حکمرانوں کے لیے سیکھنے کی بات ہے، اتنے کم عرصے میں سیاست میں آکر کوئی کیسے دنیا کی مضبوط ترین فوج کی بغاوت کو عوام کے ذریعے کچل سکتا ہے؟ کوئی کیوں کر طیب اردگان کے لیے سینے پر گولیاں کھانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور بیچ سڑک میں آکر ٹینک کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ طیب اردگان نے ہمیشہ دنیا بھر میں اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنی سرزمین کو بلند کرنے کے لیے کام کیا، امریکا و یورپ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کی۔ اگر مغربی ممالک نے ترکی کی معیشت کو دباﺅ میں لانے کے لیے اُس پر معاشی پابندیاں سخت کردیں تو اُس نے اس کے متبادل ممالک سے رابطے بڑھا کر اپنے ملک کی معیشت کو نہ صرف بچایا بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے چنگل سے آزاد بھی کروایا۔ اردگان نے سالانہ تقریبا 10 پوائنٹس کے حساب سے اپنے ملک کی معیشت کو 111 نمبر سے 16 نمبر پر پہنچا دیا، جس کا مطلب ہے کہ ترکی دنیا کی 20 بڑی طاقتوں جی20- کے کلب میں شامل ہوگیا ۔ 10 سالوں کے دوران ترکی نے جنگلات اور پھل دار درختوں کی شکل میں 3ارب کے قریب درخت لگائے، اردگان نے 10 سالوں کے دوران 125 نئی یونیورسٹیاں، 189 سکول، 510 ہسپتال اور 1 لاکھ 69 ہزار نئی کلاسیں بنوائیں تاکہ طلبہ کی تعداد فی کلاس 21 سے زیادہ نا ہو۔گزشتہ مالی بحران کے دوران جب امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں نے بھی اپنی فیسیں بڑھا دی تھیں ان دنوں میں بھی اردگان نے حکم نامہ جاری کیا کہ تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم مفت ہوگی اور سارا خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔ترکی میں بے روزگاری کی شرح 38 فیصد سے گھٹ کر 2 فیصد پر آگئی۔جبکہ میرے ملک کا 2کروڑ نوجوان فارغ بیٹھا ہے اور چھوٹی موٹی نوکریاں کرکے زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔ ترکی میں تعلیم اور صحت کا بجٹ دفاع کے بجٹ سے زیادہ ہے، جبکہ استاد کی تنخواہ ڈاکٹر کے برابر ہے۔الغرض بقول شاعر کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں ہزاروں ہی شکوے ہیں، کیا کیا سناﺅں لیکن یہ سب کچھ انہوں نے اپوزیشن اور اتحادیوں اور مقتدرہ کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے کیا۔ آپ یقین مانیں اگر موجودہ حکومت بھی اپوزیشن کو اگرفری ہینڈ دیتی ہیں تو دو چار مہینوں میں تحریک خود بخود کمزور ہو جائے گی۔ 1986ءمیں جب محترمہ بے نظیر پاکستان واپس آئیں تو انہوں نے تاریخی جلسے کیے۔ اُس وقت وزیر اعظم جونیجو تھے، انہوں نے بے نظیر کو فری ہینڈ دیا تھا، جس کے بعد اگلے چند ماہ میں ہی محترمہ کی تحریک ماند پڑگئی تھی۔ بہرکیف اگر حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنا چاہتی ہے، تووہ اپوزیشن اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلے۔ اور پاکستانیوں پر رحم کریں ۔ ملک مزید کسی نئی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میرے خیال میں حکومتی وزرا ایسے الفاظ کا چناﺅ کریں جس سے مفاہمت کی فضاءقائم ہو۔ ورنہ اس حکومت کے حوالے سے جس طرح دعوے کیے جا رہے ہیں کہ یہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گی، تو میرے خیال میں اس بات کو حکومت خود پورا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ جس کے بعد اس حکومت کا بچنا ممکن نہیں ہے۔ اور یہ حادثہ بھی حکومت کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہوگا۔ اس لیے یہ بات حکومت کو یاد رکھنی چاہیے کہ اپوزیشن کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی لڑائی ہو، حادثہ ہو جس سے حکومت کمزور ہو۔ مگر حکومت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لڑائی سے بچا جائے، مفاہمت کی پالیسی اختیار کی جائے۔ ہمارا مذہب بھی یہی کہتا ہے کہ معاف کرنا سب سے بڑی عبادت ہے، درگزر کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ لحاظ کریں، پرامن احتجاج کو نہ روکیں۔ دنیا کی کوئی تحریک آج تک کسی کے دبانے سے ختم نہیں ہوئی؟ امریکا نے افغانستان میں 20سال جنگ لڑی، تو کیا افغان جہادی ختم ہوگئے؟ اسرائیل فلسطینیوں کو ختم کر رہا ہے، تو کیا اس سے فلسطینی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ جائیں گے؟ کیا ویت نام جنگ کی تاریخ کسی کو یا دہے؟ الغرض کسی کو دبانے کوئی پارٹی ختم نہیں ہوتی۔ اگر ختم ہونا ہوتا تو ضیاءالحق کی زور زبردستیوں کے بعد پیپلزپارٹی کا نام ختم ہوجاتا۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ مفاہمت کرے اور بدامنی سے پرہیز کرے۔