”چھوٹا بھائی“ بنگلہ دیش کیسے آگے نکل گیا؟

بنگلہ دیش آجکل دو حوالوں سے موضوع بحث بنا ہوا ہے، ایک تو اسے پاکستان سے الگ ملک بنے 50سال ہوگئے، دوسرا معاشی ترقی میں وہ کئی ممالک کو زیر کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔اور اب حیرانی اس بات پر ہو رہی ہے کہ بنگلہ دیش بھی اس قابل ہو چکا ہے کہ وہ دنیا کوقرضے دے سکے، جیسے حال ہی میں سری لنکا کو 20کروڑ ڈالر قرضہ دے کر بنگلہ دیش نے خطے کے دیگر ممالک کے لیے الارم بجا دیا ہے کہ وہ جلد ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔ پہلے ہم ذکر کرتے ہیں کہ سری لنکا جو چند سال قبل ترقی یافتہ بننے کی دوڑ میں تھا، فی کس آمدنی بھی خطے میں سب سے زیادہ تھی تو اُسے آخر قرضے لینے کی ضرورت کیوں پڑگئی ؟ درحقیقت سری لنکا کی حالت کسی قدر پاکستان سے مِلتی جلتی ہے۔سری لنکا کی حکومت نے بھی پاکستان کی طرح بھاری بیرونی قرضے لیکر اپنے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کرلیاہے۔ گو اس نے گزشتہ برسوں میں تیز رفتار ترقی تو کی لیکن اسکے بیرونی قرضے اتنے زیادہ ہوگئے کہ اُنکی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ کی کمی ہوگئی۔پھرسری لنکا نے پاکستان کی طرح درآمدات کا پھاٹک اسی طرح کھول دیا تھا جیسا وزیراعظم نوازشریف کے زمانے میں پاکستان نے کیاتھا جس کے نتیجہ میں تین سال پہلے تک پاکستان بیرونی ادائیگیوں کے قابل نہیںرہا تھا۔ خیر سری لنکا کو زرمبادلہ کے بحران سے باہر نکالنے میںمدد دینے والا ملک وہی بنگلہ دیش ہے جس کے بارے میں اسکی پیدائش کے وقت امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہاتھا کہ یہ ملک خیرات مانگنے والے کی تھالی ہے۔بنگلہ دیش کی معیشت کی مضبوطی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اس نے نمائشی ترقی کے لیے لمبے چوڑے بیرونی قرضے نہیں لیے۔ اسکے برعکس پاکستان نے موٹرویز‘ میٹرو ٹرانسپورٹ اور بڑے بڑے ائیرپورٹ ٹرمینل بنانے کے لیے دل کھول کر قرضے لیے ہوئے ہیں۔ میں اپنے کئی کالموں میں ذکر کر چکا ہوں کہ پاکستان کی ترقی صرف لوکل انڈسٹری کو پروموٹ کرنے سے بہتر ہو سکتی ہے،بنگلہ دیش نے بھی اسی طرز پر اپنی معیشت کو بہتر بنایا ہے۔ 1990تک بنگلہ دیش میں ایسے ہی لگ رہا تھا کہ یہ ملک شاید ہی ترقی کرے مگر اسکے بعد اس ملک نے صنعتی ، زرعی شعبے میں کماحقہ ترقی کی طرف قدم بڑھائے۔ اس میں ایک مثال گرامین بینک کی دی جا سکتی ہے۔ اس کو شروع کرنے والے ، مسٹر یونس کو نوبل انعام بھی انکی اسی غیر معمولی کارکردگی کی وجہ سے دیا گیاہے۔ گرامین بینک نے گاﺅں اور مضافاتی علاقوں میں غریب اور مجبور لوگوں کو قرضے لینے پر قائل کرنے ، ان کو کاروبار کی نوعیت سمجھنے میں مدد دی اور خصوصی طور پر دیہاتی عورتوں کو ترغیب دی اور انہوں نے نہ صرف قرض واپس ادا کئے ،بلکہ کمال کامیابی سے اپنے گھروں کا چولہا جلانے میں کامیاب رہیں آج گرامین بینک کی 25 ہزار شاخیں، اور ہزاروں کی تعداد میں ملازمین ہیں اورکروڑوں لوگ اس سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ قرض لینے والی ستانوے فیصد خواتین ہیںاور قرض واپسی کی شرح بھی پچانوے فیصد سے زیادہ ہی ہے۔ سو لہ کروڑ آبادی والے ملک بنگلہ دیش جو 1971ءمیں ہم سے علیحدہ ہوا اوسط سالانہ جی ڈی پی سات سے زیادہ ہے اور یہ پچھلے کچھ سالوں سے تقریبا اسی سطح پر ہے۔ اس کے محفوظ ذرائع آمدن میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہو رہا ہے جو آج کہ تیس ارب ڈالرز سے زیادہ ہو چکے ہیں اور یہ پاکستان سے زیادہ ہیں۔ 2019میں، یہ دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ساتویں معیشت بن گئی اور جس کی سات اعشاریہ تین جی ڈی پی رہی۔آئی ایم ایف کے ذرائع کے مطابق بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان اور انڈیا سے زیادہ ہوچکی ہے، اس کی برآمدات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جن میں ریڈی میڈگارمنٹ ،فارماسیوٹئکلز ، فوڈ پراسیسنگ خصوصی طور پر سمندری فوڈ ،الیکٹرانکس، پٹ سن ، سٹیل وغیرہ شامل ہیں ،بیرونی ممالک سے ترسیلات زر اور زراعت سے انکم شامل ہیں۔ تقریبا ساٹھ فیصد عورتیں ، کام کاج ،مزدوری جو آئی ٹی سے لے کر زرعی شعبے تک شامل ہیں میں کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر پینتالیس ارب ڈالر ہیں جبکہ ہمارے 20ارب ڈالر۔ اسکی مجموعی داخلی پیدوار(جی ڈی پی) پاکستان کی نسبت ساٹھ ارب ڈالر زیادہ ہے۔ حالانکہ جب بنگلہ دیش بنا تھا تو اسکی معیشت کا حجم پاکستان سے بہت کم تھا۔ کوئی ایسا شعبہ زندگی نہیں جس میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو پیچھے نہ چھوڑا ہو۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت اسکی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔لیکن اسکے حکمرانوں نے آبادی پر قابو پانے کیلیے کامیاب حکمت عملی اختیار کی جسکے نتیجہ میں آج بنگلہ دیش کی آبادی ہم سے تقریباًچھ کروڑ کم ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے اسکی سالانہ معاشی ترقی کی شرح سات سے آٹھ فیصد ہے۔ ہماری دو سے پانچ فیصد رہتی ہے۔ ایک سال پہلے تو منفی میں چلی گئی تھی۔ اسکی فی کس مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) پاکستان کی فی کس پیداوارکی نسبت ساٹھ ستّر فیصد زیادہ ہوچکی ہے۔بے روزگاری پاکستان کی نسبت کم ہے۔ صحت اور تعلیم کے اشاریے پاکستان کی نسبت بہتر ہیں۔غربت موجود ہے لیکن اس میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ تیس سال پہلے اسکی تقریباً نصف آبادی غریب تھی۔ اب صرف بیس فیصد آبادی غربت کی سطح پر ہے۔ بنگلہ دیش کے انسانی ترقی کے تمام اشاریے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے اوسط اشاریوں سے بہتر ہیں۔ یہ وہی سابقہ مشرقی پاکستان ہے جو پچاس سال پہلے ہم سے الگ ہوکر الگ ملک بن گیا تھا۔ پچاس سال پہلے ہمارے ملک کے بعض لوگ بنگالیوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ انہیں کم تر سمجھتے تھے۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ وہ ہم سے بہترکارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ ایوب خان کے دور حکومت تک پاکستان جنوبی کوریا اور سنگاپور سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تھا۔لیکن اسکے بعد قوم سیاسی مداریوں اورمہم جو آمروں کے پیچھے لگی تو آج ہمارا مقابلہ افریقہ کے پسماندہ ملکوں سے کیا جاتا ہے جو ہر وقت دنیا کے سامنے قرض مانگنے کے لیے دھکے کھاتا پھرتا ہے۔ناقص پالیسیوں کے باعث ہماری حالت تو بعض افریقی ممالک سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔مثلاًافریقی ملک گھانا کا فی کس جی ڈی پی 1900ڈالر ہے۔ ہمارا 1550ڈالر ہے۔ خارجہ پالیسی میں بھی بنگلہ دیش نے کمال مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ کسی ایک ملک کی گود میں بیٹھنے کی بجائے اُس نے تمام بڑے ملکوں سے اچھے تعلقات قائم کیے ہیں۔ بنگلہ دیش کے امریکہ سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ انڈیا سے قریبی تعلقات ہیں۔ حال ہی میں انڈیا نے اسکو دفاعی سامان خریدنے کیلیے پچاس کروڑ ڈالر کی امداد دی ہے۔ جب انڈیا میںکورونا وبا کی شدت بڑھی اور دواﺅں کی قلت ہوئی تو بنگلہ دیش نے اسے کورونا کے علاج کی دوائیںعطیہ کیں۔ چین کے بھی بنگلہ دیش سے طویل مدتی‘ خوشگوار تعلقات ہیں۔ چین نے چٹاگانگ کی بندرگاہ کو ترقی دینے کیلیے اس میں خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے تحت بنگلہ دیش میں سی پیک کی طرز پر اربوں ڈالر کے منصوبوں میںسرمایہ کاری کررہا ہے۔ امریکہ اور بھارت کی خواہش ہے کہ بنگلہ دیش کواڈ نامی اتحاد میں شامل ہوجائے جو امریکہ کی سربراہی میں چین کو محدود کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ لیکن چین نے حال ہی میں بنگلہ دیش کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسا کرنے سے باز رہے۔ چین کے سرکاری میڈیا گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ امریکہ کوشش کررہا ہے کہ چین اور بنگلہ دیش کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جائیں۔ ابھی تک بنگلہ دیش نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ تاہم امکان یہی ہے کہ وہ اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت برقرار رکھے گا اور کسی ایک ملک کا یکطرفہ اتحادی نہیں بنے گا۔ اسکے مفادات چین اور امریکہ دونوں ملکوں سے وابستہ ہیں۔ وہ ان میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کرے گا۔ بہرکیف بنگلہ دیش جس رفتار سے معاشی ترقی کر رہا ہے، وہ قابل تعریف و تقلید ہے جبکہ جسٹس منیر کی کتاب ”فرام جناح ٹو ضیا“میں لکھا ہے کہ جب وہ ایوب خان کی حکومت میں وزیر قانون تھے، تو 1960ءکی دہائی میں اسی بنگلہ دیش کے خطے کو پاکستان کی اس وقت کی قیادت بوجھ سمجھتی تھی ۔ یعنی بڑا بھائی چھوٹے بھائی کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتا تھا۔ لیکن چھوٹے بھائی نے ثابت کیا کہ محنت لگن اور ایماندار سے کسی کام کو بھی کیا جائے تو اُس کے بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اگر عمران خان بھی ”چھوٹے بھائی“ کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی اپنی سمت متعین کرنا ہوگی۔ جس طرح ایوب خان نے ہمیں اپنے صنعتی اور زرعی انقلاب سے ہم کنار کروایا، ذوالفقار علی بھٹو نے غربا کو اپنے حقوق کی آگاہی دی، ضیاالحق نے ہمیں مدرسہ کلچر بخشا، بے نظیر بھٹو کی بعد از مرگ لیگیسی(میراث) نے بی آئی ایس پی (بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام) دیا (اس کے علاوہ مجھے ان کی کوئی دوسری لیگیسی نظر نہیں آتی) جبکہ نواز شریف نے ہمیں جیسے تیسے کرکے موٹرویز فراہم کیں۔لہٰذا عمران خان کو چاہیے کہ وہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کسی ایک خاص شعبے کی نشاندہی کریں اور اسے اپنی ترجیحات میں شامل کریں، ورنہ ان کے حصے میں صرف اور صرف یہ اعزاز ہوگا کہ ان کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی جانب سے مختلف شعبہ جات میں متعارف کروائے گئے متعدد منصوبے (جنگل کاری، احساس، یکساں نصاب، وغیرہ) پر کام تو اپنی جگہ جاری رکھا جاسکتا ہے لیکن اگر وزیرِاعظم ملک کی تقدیر بدل دینے والا کوئی کارنامہ انجام دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں تعلیم (بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم) کو فروغ دینے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھاتے ہوئے پاکستان کے دیہی علاقوں میں انقلاب لانا ہوگا۔اگر پاکستان خواتین کو بااختیار بنانا چاہتا ہے تو اسے بنگلہ دیش کے نقشِ قدم پر چلنا ہوگا۔ ورنہ چھوٹا بھائی ایک دن بلکہ سنا ہے کہ 10 سال بعد ترقی یافتہ ملک بن جائے گا اور ہم یونہی حسرت بھری تحریریں لکھتے رہیں گے! #Bangladesh #Pakistan #Sri Lanka #Prime Minister Nawaz Sharif #US Secretary of State Henry Kissinger #Bangladesh's economy #Nobel Prize #Grameen Bank #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon