تحریک انصاف کو93ہزار ووٹ دینے والے کون تھے؟

این اے 75ڈسکہ کا الیکشن ن لیگ کی جیت پر اپنے اختتام کو پہنچا، نتیجہ وہی نکلا جو اس حلقے کے عوام چاہتے تھے۔ 19فروری کو اسی حلقے میں پی ٹی آئی کے امیدوار اسجد ملہی کامیابی سے ہمکنار ہوئے تھے لیکن بعض ناگزیر وجوہات اور چند ایک پریذائیڈنگ آفیسرز کے ”غائب“ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے اسجد ملہی کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن روک اور دوبارہ الیکشن کا اعلان ہوا۔ اس دوران تحریک انصاف کے اُمیدوار نے الیکشن کمیشن سے لے کر سپریم کورٹ تک ہر فورم کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر اُن کی ایک نہ چلی۔ دوبارہ الیکشن ہوا، اس بار تحریک انصاف کے اسجد ملہی کو 93ہزار ووٹ ملے جبکہ ن لیگ کی نوشین افتخار کو تقریبا ایک لاکھ دس ہزار ووٹ ملے اور وہ ساڑھے سولہ ہزار ووٹ سے جیت گئیں۔ اس ضمنی انتخاب میں ماضی کے برعکس دھاندلی کی کوئی شکایات نہیں آئی کیوں کہ پورے ملک کی نگاہیں اس حلقے پر تھیں، الیکشن کمیشن خصوصی طور پر لمحہ بہ لمحہ مانیٹرنگ کر رہا تھا۔ پولیس اور سیکورٹی کے ادارے چوکس تھے اور اس طرح ڈسکہ کے عوام کو ان کا جمہوری حق مل گیا۔ لیکن فی الوقت اس الیکشن کے دورس نتائج کا تو علم نہیں مگر الیکشن کمیشن کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے کافی دیر بعد ایسا الیکشن کروایا کہ دونوں اُمیدوار ایک دوسرے کو سراہ بھی رہے ہیں اور مبارکبادیں بھی دے رہے ہیں۔یقینا یہی جمہوریت کا حُسن ہے۔ اور اگر الیکشن کمیشن اسی سرعت سے ہر الیکشن کا انعقاد کروائے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے پاس حقیقی معنوں میں عوام کے منتخب نمائندے اسمبلیوں میں موجود ہوں، اور دھاندلی کا شور شرابہ کم ہوجائے۔ جبکہ دوسری طرف حیرانگی اس بات کی ہے کہ تحریک انصاف کے موجودہ حالات میں اُسے 93ہزار ووٹ مل کیسے گئے؟ کیوں کہ جب مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہو، گڈ گورننس برائے نام رہ گئی ہو، وزیروں کی آپس میں نہ بن رہی ہو، ان کے بیانات آپس میںنہ مل رہے ہیں، کوئی پورب تو کوئی پچھم کی طرف جا رہا ہو، عمران خان صاحب جنہوں نے ساری زندگی لگژری سٹائل میں گزاری ہو اور اب وہ مذہبی رجحانات کے بیان دے رہے ہوں،بلکہ انہیں خود سمجھ نہ آرہی ہو کہ اُن کی سمت کیا ہے، پھر انہیں اپنے منشور اور مقاصد ہی کا علم نہ ہو ، اس قدر آئی جیز تبدیل ہو چکے ہوں،کئی ایک چیف سیکرٹری تبدیل ہو چکے ہیں، معیشت کا اللہ ہی حافظ ہو، معیشت کے داتا، ان داتا، اور سارے مشیر مل کر بھی کوئی حل نہ نکال رہے ہوں، ملک کے مزید ادارے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھے جا رہے ہوں ، مہنگائی کا گراف ایشیا میں سب سے زیادہ 10فیصد کو پہنچ چکا ہو، ٹیکس کولیکشن میں ہزار ارب روپے پیچھے ہو تو ایسی صورت میں آخر کون لوگ ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دے دیا؟ اگر یہ لوگ مجھے مل جائیں تو کاش میں اُن سے پوچھ سکوں کہ آخر کس ”مجبوری“ نے انہیں پی ٹی آئی کو ووٹ دینے پر مجبور کیا، آخر کیا وجہ تھی کہ انہیں ایک بدحال جماعت کو ووٹ دینا پڑا، اور اگر ان ووٹروں کو ابھی بھی تحریک انصاف سے اُمید ہے تو میرے خیال میں پھر حکمران جماعت کو ان کا تھوڑا سابھرم رکھتے ہوئے شرم کرنی چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور عوام ابھی بھی اُن سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ خیر آگے چلنے سے پہلے حلقہ این اے 75کی سیاست پر دوبارہ واپس آتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس حلقہ کی سیاست نے آج تک کن لوگوں کو انتخاب کیا، یہ حلقہ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے بیشتر اور تحصیل پسرور کے 6پٹوار سرکلز پر مشتمل ہے۔1988 سے 1997 تک یہ حلقہ این اے 87 جبکہ 2002 سے 2013 تک این اے 113 کہلاتا تھا، جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد اب یہ حلقہ این اے 75کہلاتا ہے۔1990میں آئی جے آئی کے نذیر احمد خان جبکہ 93اور 97میں مسلم لیگ ن کے سید افتخار الحسن کامیاب ہوئے۔مسلم لیگ ن اور ق کی علیحدگی کے بعد 2002 میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر علی اسجد ملہی نے کامیابی حاصل کی۔مگر 2008، 2013 اور 2018 میں یہ نشست مسلم لیگ ن کے پاس ہی رہی۔اگر ووٹوں کے فرق کا موازنہ کیا جائے تو 2018ءکے الیکشن میں سید افتخار الحسن کو 1 لاکھ 1ہزار 617ووٹ پڑے تھے، جبکہ پی ٹی آئی کے علی اسجد ملہی کو 61432ووٹ پڑے تھے، یعنی کم و بیش 40ہزار ووٹوں کا فرق تھا۔ جبکہ اس بار سید افتخار الحسن کی صاحبزادی نوشین افتخار کوایک لاکھ 10ہزار 75 ووٹ پڑے جبکہ حکمراں جماعت کے امیدوار علی اسجد ملہی نے 93 ہزار 433 کو ووٹ پڑے جبکہ اس بار فرق 40ہزار سے کم ہو کر 16ہزار 642ووٹ کا رہ گیا۔ اس ”مسئلے“ کو اگر ہم آسان لفظوں میں بیان کریں تو یہ تحریک انصاف کے لیے میرے خیال میں خوش آئندہ بات ہے کیوں کہ اس نے اس فرق کو کم کیا ہے۔ اور اس قدر مہنگائی اورمقبولیت کا گراف نچلے درجے پر ہونے کے باوجود نہ صرف اس بار زیادہ ووٹ حاصل کیے بلکہ ووٹ کے فرق کو بھی کم کیا، اور رہی بات سرکاری مشینری کے الزام کی تو جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ جس قدر شور شرابہ اس حلقہ میں ہو چکا تھا، سپریم کورٹ تک اس حلقے میں Involveنظر آرہی تھی اور الیکشن کمیشن کے افسران پچھلے فروری والے واقعات کی وجہ سے دباﺅ میں تھے، اور افسران یہ بھی جان چکے تھے کہ تحریک انصاف اُنہیں تحفظ نہیں دے سکتی۔اس لیے تحریک انصاف کی جانب سے سرکاری مشینری کے استعمال کا آپشن محض 5فیصد رہ جاتا ہے۔ لہٰذامیرے خیال میں اس قدر برے حالات کے باوجود بھی عوام کا تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار اس بات کی گواہی ہے کہ ”اُمید ابھی باقی ہے“۔ بقول شاعر باقی ہے امید ذرا سی اے پردہ ور دید ذرا سی الغرض اُمید پر دنیا قائم ہے، لیکن یہ کریڈٹ حکومت کو ضرور جاتا ہے کہ ڈسکہ ضمنی الیکشن سے پہلے صبح شام تمام ٹی وی چینلز ، سوشل میڈیا ہاﺅسز تحریک انصاف کے خلاف رپورٹنگ کرتے رہے، کبھی چینی سکینڈل، تو کبھی آٹا سکینڈل، کبھی وزراءکی تبدیلی کا رونا، تو کبھی بیوروکریسی کی تبدیلی ، کبھی مختلف نام نہاد این جی اوز کے تحریک انصاف کے خلاف ”سروے“کی خبریں ، کبھی مہنگائی اور کبھی آنے والی مہنگائی جو ابھی کہیں راستے میں ہے، وہ دکھا دکھا کر عوام کا مورال گرا رہے تھے۔ اور پھر عین موجودہ ضمنی انتخاب کے دنوں میں جہانگیر ترین نے جو اپنی ”پاور“ شو کی، اُس سے تو تحریک انصاف کا مورال مزید زمین کو لگ گیا۔ اس کے باوجودانہیں 93ہزار ووٹ ملے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ یہ 93ہزار ووٹ ڈالنے والے کون تھے؟ تو میرا سادہ ساجواب ہوگا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو آج بھی ڈرتے ہیں کہ اگر ہم پر سابقہ کرپٹ حکومتیں دوبارہ مسلط ہو گئیں تو اس ملک کا کیا بنے گا؟ اس لیے کچھ لوگوں کو ابھی بھی تحریک انصاف سے اُمید ہے۔ لہٰذاکپتان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی الیکشن ہسٹری کے مطابق دو ڈھائی سال میں عوام کا جھکاﺅ تبدیل ہو چکا ہوتا ہے، لیکن اگر اُن کے ساتھ ان برے حالات میں بھی ایک ایک حلقے میں 90، 90ہزار ووٹر موجود ہے تو میرے خیال میں انہیں دن رات کام کرنے کی ضرورت ہے، تبھی وہ اگلا الیکشن آسانی سے جیت سکتے ہیں۔ اگر میرے اس موقف سے کسی کو اختلاف ہے تو وہ پاکستان میں الیکشن کی ”تاریخ“ کو کھنگال لے خود ہی سمجھ آجائے گی کہ کیا واقعی ہوا کا رُخ دو ڈھائی سال میں تبدیل ہو جاتا ہے یا نہیں۔ جیسے 1988ءکے الیکشن میں پیپلزپارٹی جیتی، پھر اُس کے 2سال بعد ہی 1990ءمیں مسلم لیگ کو 2تہائی اکثریت مل گئی ۔ صرف 2سال میں لوگوں کا ذہن اس قدر بدل گیا، کہ تمام ووٹرز مسلم لیگی ہوگئے۔ پھر1993ءمیں نواز شریف کو دوبارہ شکست ہوگئی، ووٹرز کی اکثریت کا جھکاﺅ پھر پیپلزپارٹی کی جانب ہوگیا، اور پھر تین سال بعد 1997ءکے الیکشن میں نواز شریف کو دوتہائی اکثریت حاصل ہوگئی۔ یعنی ہمارے ملک میں جو ٹرینڈ تبدیل ہوتا ہے، اُسے محض دو ڈھائی سال کا عرصہ ہی لگتا ہے۔ لہٰذاتحریک انصاف اگر ابھی بھی ہو ش کے ناخن لے لے ، مہنگائی کو کنٹرول کر لے، میڈیا وار سے اپنے آپ کو بچا لے، اس کی کوئی مناسب حکمت عملی بنا لے تو اس کا کام بن سکتا ہے، اگر آپ ابھی بھی انسان بن جائیں، اپوزیشن اور احتساب کی جان چھوڑ کر عوام کی خدمت کرنے کو اپنا فرض عین سمجھ لیں تو موسم بدل سکتا ہے ، اُس کے لیے بہت ضروری ہے کہ صحیح بندے کو صحیح جگہ پر لگایا جائے، جہانگیر ترین باہر سے نہیں آئے، وہ آپ ہی کی پارٹی کے فیملی ممبر ہیں، اس لیے جہانگیر ترین پارٹی کو جتنا نقصان پہنچائیں گے، اتنا شاید اپوزیشن نہیں پہنچا سکی۔ بادی النظر میں فیصلہ کرنے والی طاقتیں بھی، عین وقت پر فیصلے تبدیل کر رہی ہیں، اور انہی لوگوں کو لانے کی کوشش کریں گی، جو پہلے ہی کرپشن سے لتھڑے ہوئے ہیں، اس سے شاید یہی لگتا ہے کہ انہیں بھی شاید تحریک انصاف سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ بہرکیف تحریک انصاف برا ضرور کھیل رہی ہے لیکن شاید حالات اتنے برے نہیں ہےں، جتنی اُس کی تصویر دکھائی جا رہی ہے۔ اس لیے لگ یہی رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ناتواں کندھوں میں ابھی بھی تھوڑی بہت طاقت بچی ہے۔ لہٰذا وزیر اعظم ان 93ہزار ووٹروں کی خاطر محض اگلے ڈھائی سالوں میں صرف مہنگائی کو روک لیں، تو یقینا حالات عمران خان کے حق میں جا سکتے ہیں،اس کے علاوہ میڈیاپالیسی تھوڑی سی بہتر بنا لیںاور اپنے وزراءاور خصوصی طور پر اپنے ”اضافی“ بیانات جو اُن کی شخصیت کے بالکل خلاف ہیں، سے اجتناب کرنا شروع کردیں ، فرنٹ فٹ پر آکر کھیلیں، تو ابھی بھی کام کر سکتے ہیں ۔ کیوں کہ گزشتہ ڈھائی سالوں میں جتنا نقصان پی ٹی آئی نے اپنا کیا ہے، اُتنا کسی اور نے نہیں کیا!