”ہمارا پاکستان“نئے سلوگن کےساتھ نئی ”حکمت عملی“

ملکی حالات کے سیاسی دھاگے اس قدر الجھ چکے ہیں کہ آپ جتنا بھی ہاتھ پاﺅں ماریں، نظریں گاڑ کر رکھیں، رنگ برنگے دھاگوں کے یہ گچھے سلجھنے کے نہیں۔ دوجانوراگر جنگل میں لڑرہے ہوں‘ ان کے سینگ پھنس جائیں تو جلد ہی ایک ہار مان کر میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ زور آزمائی طویل ہوجائے تو دوسرے جانوروں میں سے کوئی اور ٹکر مار کر امن و آتشی قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پرندوں کی لڑائی تو گھونسلوں پر قبضہ جمانے کے لیے ہم تقریباً روز ہی دیکھتے ہیں۔ چند لمحوں میں وہ ختم ہوجاتی ہے، ا ور وہ اُڑ کر درخت کی کسی اور شاخ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں میدانِ سیاست کے نامور کھلاڑیوں نے اپنی زندگیاں سیاسی لڑائیوں کی نذر کر دی ہیں۔اُن میں سے اکثر کی جوانیاں گزر گئیں، ہماری طرح عمرکے آخری حصوں کی طرف اُن کا سفر جاری ہے، مگر خواہشِ اقتدار کا غلبہ دل و دماغ پر اتنا حاوی ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ان کی اپنی زندگی کے سیاسی تضادات جتنے بھی کھول کر ان کے سامنے رکھے جائیں اور پرانے انٹرویوز کی برقی پٹیاں انہیں دکھائی جائیں‘ کہیں گے کہ پہلے بھی ان کا موقف درست تھااور اب بھی درست ہے۔ عدالت عظمیٰ کی خود مختاری کے بارے میں ماضی کے بیانات کا جائزہ لیں یا ایک دوسرے کے خلاف زبان و کلام کا یا انتقام اور مقدمہ بازی کا ریکارڈ پیش کریں، ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ اگر ہے تو آج کے حالات میں اپنی سیاسی پوزیشن کو دوسروں کے مقابلے میں کیسے بہتر بنانا ہے۔ ان میں کوئی اصولی اتفاق نہیں، بس ایک خوف ہے کہ یہ سونامی ان کی سیاسی بستیاں بہا کر نہ لے جائے۔ اور یہ خوف بے بنیاد نہیں۔کیوں کہ جب کسی ملک کے حالات کے حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ ایک دوسرے سے روٹی کے نوالے چھیننے پڑجائیں یا لوگ 2وقت کے بجائے ایک وقت کا کھانا کھائیں، یاسفید پوش طبقہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائے ، یا لوگوں کے بینکوں میں پڑے پیسے ڈی ویلیو ہو جائیں، یا لوگ سر عام لٹنے لگیں، عزتوں کی سرعام بولیاں لگنے لگیں ، یا ہر طرف جھوٹ، کرپشن، زیادتی کا دور دورہ ہو، یا ادارے عوام کے بجائے شخصیات کے لیے کام کریں یا شخصیات قوم کے بجائے ذاتیات کے لیے کام کریں تو سمجھ جائیں کہ انقلاب نزدیک ہے ۔ کہ جب سب کچھ ملیا میٹ کر دیا جائے گا۔ اور پھر جمہوریت کا پہلا اصول یہ ہے کہ اصل طاقت عوام کی ہے جو ہمارے حکمرانوں کو منتقل ہوتی ہے‘لیکن ہمارے رہبر اس طاقت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت لڑائی اس بات کی ہے کہ سب سے برتر کون ہے؟ اور کون اپنی انا کی بقا سلامت رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں الگ سے اس وقت طبلِ جنگ بج چکا ہے۔ملک کے دو بڑے ادارے آمنے سامنے ہیں۔ سپریم کورٹ جو حکم دیتی ہے حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے اس کو مسترد کر دیتی ہے۔سارا جھگڑا‘ ساری لڑائی پنجاب الیکشن کے حوالے سے ہوئی‘ پھر ہم نے دیکھا کہ یہ تقسیم ‘یہ کشیدگی صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ عدلیہ بھی اس کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اندر تقسیم کو دیکھ کر سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی پھیلی کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال اور قاضی فائز عیسی کاجھگڑا ہوا ہے‘ یہ خبر اتنی پھیلی کہ ترجمان سپریم کورٹ کو اس کی تردید جاری کرنا پڑی کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ یعنی تصادم کا عالم دیکھئے کہ کوئی بھی افواہ اڑائی جاتی ہے تو وہ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔اگر سوچا سمجھا جائے تو یہی انقلاب کی نشانیاں ہوتی ہیں! خیر اللہ کرے حالات اس قدر خراب نہ ہوں کہ ہم ایک بار پھر دنیا کے سامنے تماشہ بنیں اور جو رہے سہے یہاں انویسٹر موجود ہیں وہ بھی نہ بھاگ جائیں۔ انہی متوقع حالات سے بچنے کے لیے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ میں ”ان کیمرہ “ اجلاس ہوا جس میں عسکری و سیاسی قیادت و خفیہ ایجنسیوں کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ اگر” ان کیمرہ اجلاس“ کے بارے میں بات کروں تو اس قسم کے اجلاس پاکستان میں ہر دور میں ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں جن سے مراد ایسی میٹنگ ہوتی ہے، جسے خفیہ رکھا جاتا ہے، اس میں صرف اسٹیک ہولڈرز ہی حصہ لیتے ہیں، اور اس کی کارروائی کو براہ راست مانیٹر نہیں کیا جا تا، بلکہ پوری کارروائی ہی خفیہ رکھی جاتی ہے اور پارلیمنٹ اس حوالے سے پابند نہیں ہوتی کہ وہ میڈیا کو اس کارروائی کے بارے میں آگاہ کرے۔ اگر اس اجلاس کی ضرورت کے بارے میں بات کریں تو اس کی ضرورت انتہائی حساس معاملات کو ڈسکس کرنے کے لیے محسوس کی جاتی ہے۔ دنیا بھرمیں اس قسم کی میٹنگ کا مقصد ملک بھر میں موجود مسائل سے نمٹنا ہوتا ہے اور اس کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل بنانا ہوتا ہے۔ یہاں بھی گزشتہ ہفتے اسی قسم کا اجلاس منعقد کیا گیا ۔ جس میں سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر اب ”ہمارے پاکستان“ کی بات کرنی چاہئے۔ قومی سلامتی کے اِن کیمرہ اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ نئے آپریشن کے بجائے ہول آف نیشنل اپروچ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مطلب یہ کہ نئے نام کے ساتھ آپریشن شروع کرنے کے بجائے انٹیلی جنس بیسڈ ٹارگٹڈ آپریشن ہو گا۔ خیر”نیا پاکستان“ کا سب سے پہلے تصور عمران خان نے 2011ءمیں اُس وقت پیش کیا جب پرانے پاکستان سے تنگ عوام جوق در جوق مینار پاکستان پہنچے تھے۔ اُس کے بعد نئے اور پرانے پاکستان کے بیانیوں نے اس قدر زور پکڑا کہ ملک تو آگے نہ بڑھ سکا مگر سیاسی افراتفری نے ضرور جنم لیا۔یعنی حالات یہ ہیں کہ تمام سیاستدانوں کے طرز سیاست کی وجہ سے ملک سیاسی‘ معاشی اور آئینی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ طویل مذاکرات اور کڑی شرائط کو پورا کرنے کے بعد پاکستان آئی ایم ایف پیکیج کے حصول کے قریب ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے نے دوست ممالک سے تین ارب ڈالر کی فنانسنگ کی ضمانت مانگی تھی‘ دو ارب ڈالر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ایک ارب ڈالر دینے کی تصدیق کر دی ہے۔ اس یقین دہانی کے بعد آئی ایم ایف پیکیج کا حصول ممکن ہو پائے گا۔غالب امکان ہے آئی ایم ایف پیکیج کے بعد معاشی حالات میں بہتری آئے گی مگر دوسری طرف ملک میں سیاسی انارکی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔اربابِ حل و عقد نے اپنی روش نہ بدلی تو ہم کبھی بھی مسائل کے گرداب سے نہیں نکل پائیں گے۔ لہٰذاوطن عزیز کو مسائل کی گرداب سے نکالنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ یہ سب ایک ٹیبل پر اکٹھے ہوں، اس حوالے سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پیش پیش نظر آرہے ہیں، جو گزشہ روز پہلے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملے اور بعد میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ سراج الحق کے مطابق اُن کی ملاقات کا مقصد سیاست کی موجودہ تلخی، جو دشمنی میں بدل چکی ہے، کو ختم اور پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کیلئے سیاستدانوں کو ایک میز پر بٹھانے کی کوشش کرناہے۔ اُن کے بقول اگر سیاستدانوں نے اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کیا، اپنی اپنی ذاتی انا اور سیاسی مفادات کو پیچھے رکھ کر پاکستان کے بارے میں نہ سوچا اور ایک ساتھ نہ بیٹھے تو ہمارا حال بھی خدانخواستہ عراق، لیبیا اور شام وغیرہ جیساہو سکتا ہے۔ چلو دیر آئید درست آئید کہ شاید سراج الحق ہی وقت کے فرعونوں کو الیکشن کے لیے آمادہ کردیں۔ جو کہ کسی صورت ہوتے نظر نہیں آرہے۔ جبکہ دوسری طرف عوام تو کیا جانوروں کا بھی یہاں برا حال دکھائی دے رہا ہے۔ نہیں یقین تو کراچی کے چڑیا گھر وزٹ کر لیں۔ وہاں کے چڑیا گھر کی ہتھنی نور جہاں مناسب دیکھ بھال اور علاج نہ ہونے کی بنا پر سخت بیمار ہے۔پاﺅں میں سوزش ہے۔ کھڑی نہیں ہوسکتی، سو بے سدھ پڑی ہے۔نورجہاں کی عمر صرف 17 سال ہے اور ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر اس کو مناسب خوراک دی جائے اور اس کا دھیان رکھا جائے تو یہ بیس پچیس برس اور زندہ رہ سکتی ہے۔مگر نورجہاں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستانیوں کے ہتھے چڑھ گئی۔تنہائی کا شکار کاﺅن کی کہانی کسے بھولی ہوگی جسے واپس کمبوڈیا کے جانوروں کے بحالی کے مرکز بھیج دیا گیا۔ سچّی بات ہے ایک طاقتور اور قوی الجثہ جانور کو اس طرح بے سدھ پڑا دیکھ کردل کو تکلیف ہوئی بیمار کمزور اور اپنے پاﺅں پر کھڑا نہ ہوسکنے والی ہتھنی کو دیکھ کر میرا دھیان اپنے ملک پاکستان کی طرف چلا گیا۔ پاکستان کا حال بھی حکمرانوں نے نور جہاں کی طرح کر دیا ہے اس کے گٹے گوڈوں میں بھی کرپشن کی سوزش ہو چکی ہے۔ ” نور جہاں“ کے حوالے سے تو بختاور زرداری نے یہ کہہ دیا ہے کہ اس چڑیا گھر کو بند کر دیا جائے۔حالانکہ بختاور زرداری کی یہ بات تو حکمران سوچ کی عکاسی کرتی ہے گزشتہ دو دہائیوں سے سندھ پر ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ان کا شہر لاڑکانہ جہاں سے ملک کے تین وزیراعظم آئے کی حالت یہ ہے کہ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں علاج معالجہ کی سہولیات اور ہسپتالوں کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ درجنوں بچے غلط انجکشن لگنے سے ایڈز کے مریض بن گئے اور اس پر عالمی سطح پر ایک ہلچل مچی۔ شاید یہ دنیا میں پہلا واقعہ تھا کہ بچے اتنی تعداد میں ایڈز کا شکار ہوئے۔ہمارے اہل اختیار طبقے کی سوچ یہی ہے چیزوں کو برباد کر دو تباہی پھیر دو ، تالے لگا دو بیچ دو۔نورجہاں تو ایک جانور ہے یہاں تو جیتے جاگتے انسانوں کے ساتھ بے حسی کا سلوک کیا جارہا ہے۔ آٹا لینے کی قطاروں میں لوگ مر رہے ہیں لیکن کسی پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ نئے پرانے پاکستان کے بعد ”ہمارا پاکستان“ والا لالی پاپ دینے کے بجائے ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالیںاس کے لیے تمام سیٹک ہولڈر زاور عوام مل کر کام کریں، اس کے لیے سٹیپ وائز آگے بڑھیں اور پہلا سٹیپ الیکشن کا ہی ہونا چاہیے !ورنہ ہم چھلانگیں لگانے کے چکر میں اوندھے منہ گر پڑیں گے!