گلگت بلتستان الیکشن :مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہار گیا؟

آج کل پاکستان کے اُفق پر گلگت بلتستان چھایا ہوا ہے، اس کی وجہ وہاں پر 24حلقوں پر عام انتخابات ہیں، یہ علاقہ پاکستان میں آزاد اور خود مختار حیثیت رکھتا ہے، جس کی ملکیت کا دعویدار بھارت ہے، اور عالمی معاہدوں کے تحت اس کی حیثیت تنازعات کے حل تک خود مختار ہی رہے گی، اس لیے یہاں الیکشن بھی جنرل الیکشن سے ہٹ کر ہی کروائے جاتے ہیں ۔ ان شمالی علاقہ جات کی آبادی 81لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے۔ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ گلگت و بلتستان تین ڈویژنز بلتستان ، دیا میراور گلگت پر مشتمل ہے۔ بلتستان ڈویژن ،سکردوشگر،کھرمنگ ،روندو اور گانچھے کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ گلگت ڈویژن گلگت،غذر، ہنزاورنگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ جب کہ دیا میر ڈویژن داریل،تانگیر،استورکے اضلاع پر مشتمل ہے۔۔ گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغورکا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر، جنوب میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر جبکہ مغرب میں پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ گلگت بلتستان کے زیادہ تر مقامی لوگ منگول قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو جسمانی خصائص کے اعتبار سے تبتی نسل کے مقامیوں سے قدرے مختلف ہیں۔ اشاعت اسلام کے دور میں کشمیر سے سید گھرانوں نے بھی بلتستان کا رخ کیا، سادات کے یہی خانوادے یہاں اسلام کی ترویج میں پیش پیش رہے۔ سادات کی نسلیں آج بھی یہاں مقیم ہیں۔ اگر سیاسی حوالے سے بات کی جائے تو یہاں مشہور سیاسی خاندانوں کا ذکر کم ہی ملتا ہے، جس کی بڑی وجہ یہاں کی 100فیصد خواندگی ہے، یہاں کے الیکشن پورے ملک کی سیاست پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں اس لیے اس دفعہ بھی گلگت بلتستان اسمبلی کے عام انتخابات اس مرتبہ پورے ملک کے اعصاب پر چھائے رہے، گزشتہ انتخابات کی نسبت اس دفعہ تینوں بڑی پارٹیوں کے چوٹی کے رہنماﺅں نے گلگت بلتستان میں ڈیرے ڈالے رکھے اور گلگت بلتستان کے 24حلقوں پر تین سو سے زائد امیدواروں کو کامیاب کروانے کے لیے ہر پارٹی نے سرتوڑ کوششیں کیں۔ اور تادم تحریر غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی9نشستوں کے ساتھ سب سے آگے، آزاد اُمیدوار 7نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ پیپلزپارٹی 4نشستوں کے ساتھ تیسرے اور ن لیگ2نشستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے، جبکہ ایک نشست وحدت المسلمین نے حاصل کی۔اس الیکشن میں وہی ہواجس کی سابقہ ادوار میں روایت رہی ہے کہ جس پارٹی کی مرکز میں حکومت ہووہی گلگت بلتستان میں حکومت بناتی ہے، حالانکہ اس الیکشن میں ن لیگ یا پیپلزپارٹی اس روایت کو توڑ سکتی تھی لیکن پاکستانی سیاست کی منافقت دیکھنی ہو یا یوں کہہ لیں کہ اس وقت اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے بیانئے کو تقسیم ہوتے دیکھنا ہو تو اس کیلئے گلگت بلتستان اسمبلی کا انتخاب لٹمس پیپر بنا ہوا ہے۔ پی ڈی ایم میں کوئی گیارہ کے قریب پارٹیاں ہیں اور جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کرنے اور ملک میں عوامی ترجمانی کی دعوے دار ہیں۔ گلگت بلتستان ان کے اتحاد کیلئے ایک ایسا میدان تھا جہاں وہ متحد ہو کر پی ٹی آئی کا صفایا کر سکتے تھے لیکن اقتدار اور طاقت کی ہوس نے انہیں وہاں جدا کر دیا ہے۔ مریم نواز جو پی ڈی ایم کے بیانئے کی اصل روح رواں ہیں وہاں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑ سکتی تھیں یاکچھ حلقوں میں ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی تھی لیکن نہ اس کیلئے کوئی کوشش کی گئی اور نہ ہی دونوں جانب سے اس پر کوئی غور ہوا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا اتحاد ایسے ہی ہے جیسے شیر اور بکری کی دوستی یا بھیڑ اور بھیڑیے کا یارانہ ہو۔یعنی اس اتحاد میں منافقت کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے،بقول شاعر زہر لگتا ہے یہ عادت کے مطابق مجھ کو کچھ منافق بھی بتاتے ہیں منافق مجھ کو خیر اس الیکشن میں ن لیگ کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اس کے ”بیانیے“ کی شکست ہے، کیوں کہ جس پارٹی کے پاس سابق دور میں 22سیٹیں (بشمول خواتین کی نشستیں) تھیں اُسے اب صرف 2پر ہی اکتفا کر نا پڑے گا۔ حالانکہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ صرف جماعت اسلامی نے الگ راہ اختیار کی،جماعت کے لوگ اپوزیشن کرنا چاہ رہے ہیں، مگر پی ڈی ایم کے مخصوص احتجاجی رنگ اور آہنگ کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی سوچ اور اپنے منشور کے مطابق۔پی ڈی ایم نے ایک خاص بیانیہ تخلیق کیا ، اے پی سی کی قرارد اد اس حوالے سے خاصی جامع ہے، اس میں بہت سے نکات کا حوالہ دیا گیا۔ پی ڈی ایم کے اس بیانیہ کو میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے اپنے ہی انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ میاں نواز شریف تواداروں کی قیادت پر براہ راست حملہ آور ہوئے ہیں۔ حالانکہ اُن کی اپنی پارٹی کے لوگ اس بیانیے پر اُن کے ساتھ نہیں ہیں، جیسے عبدالقادر بلوچ جیسے کئی سینئر سیاستدانوں نے ن لیگ کو خیر آباد کہہ دیا ہے، اور پھر اس جارحانہ انداز سے پیپلزپارٹی نے واضح طور پر فاصلہ اختیارکیا، بلاول بھٹو حالیہ دنوں میں کم از کم دو بار اس کا اشارہ دے چکے ہیں۔ لیکن ن لیگ کو اس حوالے سے سمجھ ہی نہیں آرہی کہ جب سینکڑوں میل دور گلگت بلتستان جسے ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں ن لیگ بری طرح پٹ گئی ہے تو باقی صوبوں میں آئندہ الیکشن میں کیا حال ہوگا؟ خیر گلگت بلتستان میں اکیلی پی ٹی آئی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے یا اُنہیں مرکز کی طرح دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنا پڑتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر یہ ضرور دیکھنا پڑے گا کہ گلگت میں ن لیگ کے الیکشن ہارنے کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُس نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں آئینی حوالے سے پیش رفت میں اضافہ کرنے کے بجائے مزید تنازعات میں گرا دیا۔ اور ویسے بھی جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے اب تک پاکستان کا یہ حصہ آئینی طور پر تنازعات کا شکار رہا ہے۔ جبکہ ان تنازعات کو کم کرنے کے لیے پیپلزپارٹی نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے جیسے ذوالفقار علی بھٹو کا اس خطے کی عوام کا سب سے پہلا تحفہ ”راجگی نظام “کا خاتمہ تھا۔ ذولفقار علی بھٹو نے اس خطے کے باسیوں کو راجوں کی غلامی سے نجات دلوائی، اس خطے میں جمہوریت کو متعارف کروایا۔ لوگوں کو یہ شعور دیا کہ ووٹ کے ذریعے عوام اپنے اچھے برے کا فیصلہ خود کر سکتی ہے۔ شہید بھٹو گلگت بلتستان جسے پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا تھا لوگوں کو اپنے حقوق پر بولنے کا شعور دیا اور اپنے دور میں کئی ایسی سیاسی اصلاحات کیں جس کا فائدہ اب بھی اس خطے کو ہو رہا ہے۔ اس عظیم خطے کو 2009 سے قبل شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 2009 میں جب پاکستان پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان کے عام انتخابات بھاری اکثریت سے جیتی تو آصف علی زرداری صاحب نے آئین میں ترامیم کر کے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009ءکے نفاذ کے بعد اس خطے کو اس کا نام اور شناخت ”گلگت بلتستان“ کے نام سے دی۔ قانونی اصلاحات کے ذریعے یہاں صوبائی طرز کی قانون ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ گلگت بلتستان کے عظیم جیالے سید مہدی شاہ صاحب کو گلگت بلتستان کا پہلا چیف منسٹر بنایا گیا۔ گلگت بلتستان کی عوام میں امید کی نئی کرن پیدا ہوئی اور یہ حوصلہ پیدا ہوا کہ پاکستان پیپلزپارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جو گلگت بلتستان کے حقوق پر نہ صرف آواز اٹھانے کی جرا¿ت رکھتی ہے بلکہ وقت آنے پر قانون سازی کے ذریعے اسے پاکستان میں باقاعدہ بنیادوں پر صوبہ بنانے کی مثبت تعمیری سوچ بھی رکھتی ہے۔ بہرکیف فی الوقت حالیہ الیکشن میں پیپلزپارٹی بھی شکست کھا چکی ہے، اور پی ٹی آئی پر الیکشن چرانے کا الزام لگا رہی ہے، جبکہ بلاول بھٹو نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی دھاندلی کے خلاف احتجاج میں گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ ہوں گے، حالانکہ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ انہوں نے ایک ایسی پارٹی کا ساتھ دیا ہے جس کی قیادت مجرموں کے ہاتھ میں ہے، اور جو قومی اداروں کے بارے میں غلط زبان استعمال کر رہے ہیں، اور ویسے بھی قانونی حیثیت سے اس وقت مریم نواز ایک ضمانت شدہ مجرم ہیں۔ ایک مجرم جو ضمانت پر ہو وہ کس حیثیت سے حکومتی اداروں سے اس طرح کے مطالبات کر سکتا ہے کہ وہ ان کی بات سنیں یا ان کے کہنے پر ایک منتخب حکومت کو جو عوامی ووٹوں سے برسر اقتدار آئی ہے ،گھر بھیج دیں۔جب ایک سیاسی طلب علم کی حیثیت سے ہم بلاول اور مریم نواز کے طرز عمل اور بیانات کو دیکھتے ہیں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ بلاول میں سنجیدگی اورمیچورٹی کا لیول مریم نواز سے زیادہ ہے۔اس کا ذکر میں اپنے گزشتہ ماہ کے ایک کالم میں بھی کر چکا ہوں، اور اس کی مثال آئی جی سندھ والے واقعے سے لی جا سکتی ہے کہ اس پر آرمی چیف کی جانب سے قائم کی گئی انکوائری کا انہوں نے خیر مقدم کیا ہے جب کہ وہ مریم نواز جو ایک جانب فوج سے بات چیت کرنے کی بھیک بھی مانگ رہی ہیں۔ خیر موجودہ انتخابات سے ایک بات تو واضع ہو چکی ہے کہ خواہ عمران خان کی گورننس سے عوام ناراض بھی ہوں تب بھی عوام میں ماضی کی دونوں حکمران جماعتوں کے لئے نرم گوشہ پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ شریف اور زرداری خاندان کو کرپٹ سمجھتے تھے، وہ آج بھی وہی سوچتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے طرز سیاست کو ناپسند کرنے والے آج مولانا کے مداح نہیں بن گئے؟ وجوہات کچھ بھی ہوں مگر ان جماعتوں کواپنے بیانیے، اپنی طرز سیاست اورلائف سٹائل کو یقینا تبدیل کرنا ہوگا ورنہ اقتدار اُن کے لیے ایک بھیانک خواب بن کر رہ جائے گا۔