کراچی کچرا شہر! پیپلزپارٹی کو اور کتنا وقت دیا جائے!

”شیم آن سندھ گورنمنٹ.... سندھ حکومت میں کچھ نہیں ہو رہا، جس بلڈنگ کو اٹھاو¿ اس کا برا حال ہے، سٹرکیں ٹوٹیں، بچے مریں، کچھ بھی ہو، یہ کچھ نہیں کرنے والے، یہ حال سندھ حکومت کا اور یہی حال وفاقی حکومت کا بھی ہے، سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، سیاسی جھگڑے اپنی جگہ مگر لوگوں کے کام تو کریں۔ پورا کراچی گند میں بھرا ہوا ہے، گٹر ابل رہے ہیں، تھوڑی سے بارش میں شہر ڈوب جاتا ہے، کیا یہ کراچی شہر ہے؟ غیر قانونی قبضے اور سڑکیں بدحال، کچھ نہیں کراچی میں، یہ تو گاربیج دکھائی دیتا ہے، شہر اس طرح چلایا جاتا ہے؟ کراچی میں ایک انچ کا بھی کام نہیں ہوا ، یہ ہے سندھ حکومت؟ اور پھر کہتے ہیں پیسے نہیں۔“یہ ریمارکس کسی اور کے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کے ہیں، جو گزشتہ ایک ہفتے سے سندھ میں موجود تھے، اور سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف کیسز کی سماعت کر رہے تھے۔ظاہر ہے، اُن کے پاس مختلف نوعیت کے کیسز آتے ہیں، وہ چیزوں کو اور طریقے سے دیکھتے ہیں، اُنہیں دوران سفر بھی بہت سی چیزیں نظر آرہی ہوتی ہیں، اور دوران سکونت بھی وہ مختلف مسائل کا شکار رہتے ہوں گے، بلکہ اُن کی تو جائے پیدائش ہی کراچی کی ہے، اور وہ کراچی کے رہائشی بھی رہے ہیں، تبھی وہ اس شہر کی حالت غریباں کو دیکھ کر مایوس ہوجاتے ہیں، خیر جب کیسز کی سماعت کرتے ہوں گے تو اُنہیں ”دوردراز“ سے وزراءکو کراچی بلانا پڑتا ہوگا، تبھی اُنہیں بھی اندازہ ہوتا ہوگا کہ سندھ حکومت کا کراچی سے کوئی تعلق نہیں! اور موجودہ چیف جسٹس کے مذکورہ بالا ریمارکس پہلی مرتبہ منظر عام پر نہیں آئے بلکہ وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ سندھ کے حکمرانوں کو لتاڑ چکے ہیں، مگر معذرت کے ساتھ وہ انتہا کے ڈھیٹ پائے جاتے ہیںکہ اُن پر کسی سوموٹو یا کسی نوٹس یا کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ خیر اگر آپ نے مذکورہ بالا حالات کا بغور جائزہ لینا ہوتو آپ خود بھی سندھ خصوصاََ کراچی کو وزٹ کر سکتے ہیں، اور چونکہ میں اس حوالے سے استفادہ کرتا رہتا ہوں اس لیے راقم نے بھی کئی مرتبہ اس ایشو کو اپنے کالموں میں ڈسکس کیا ہے کہ سندھ حکومت(پیپلزپارٹی) کا نہ تو کراچی سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہاں سے پی پی کا کوئی وزیر، ایم این اے یا ایم پی اے منتخب ہوتا ہے، اور پھر کراچی جو دو کروڑ آبادی کا شہر ہے وہاں سے ملک بھر کا 60فیصد ریونیو اکٹھا ہوتا ہے، لیکن سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، بلکہ ”سہولتوں“ کا ذکر چیف جسٹس صاحب نے اپنے ریمارکس میں بھی کرہی دیا ہے۔ لہٰذاجیسا کہ میں پہلے بھی کہتا آیا ہوں کہ کراچی کو سندھ سے الگ کر کے نئے صوبہ بنادیا جائے تو بہتر ہوگا ۔ یہ بلکہ ایسے ہی ہوگا جیسے پنجاب کو بھی چار سے پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو انتظامات بہت بہتر ہو جائیںگے۔ اور ویسے بھی دنیا بھر کے ممالک میں ہمیشہ چھوٹے چھوٹے یونٹ یعنی صوبے بنائے جاتے ہیں(جیسے ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کے دو درجن سے زائد صوبے ہیں)، نا کہ 12کروڑ آبادی یا8کروڑ آبادی کا ایک ایک صوبہ بنا دیا جائے۔ ایسا کرنے سے یقینا نہ صرف چھوٹے اضلاع کی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ فنڈز کی منصفانہ تقسیم بھی ممکن نہیں ہوتی۔ خیر آپ کو شاید میری اس بات یقین نہ آئے کہ آپ کراچی چلے جائیں تو کراچی داخل ہونے سے پہلے آپ کے استقبال میں بڑے بڑے کوڑے کے ڈھیر کھڑے نظر آئیں گے جو آپ کا استقبال کر رہے ہوں گے۔ پھر وہاں پانی روزانہ صرف چند گھنٹوں کے لئے ہی دستیاب ہوتا ہے۔ بیشتر نکاسی شدہ پانی کو بغیر صاف کئے سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 60 فیصد سے زیادہ کچرے کو کھلے عام پھینک دیا جاتا ہے ، جس سے نکاسیءآب اور شہری ماحولیات پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ شہریوں کی آمدن کے مطابق سستے مکانات دستیاب نہیں ہیں۔جس کے باعث ایک اندازے کے مطابق 50 فیصد شہری بے قائدہ آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ سڑکیں اور عوامی مقامات ، جو کراچی کے بیشتر رہائشیوں کی روزی روٹی کمانے میں مدد کرتے ہیں ، آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں۔شہری ڈھانچے میں خلاءاور کمزور شہری منصوبہ بندی کا غیر مساوی بوجھ غریب رہائشی اٹھاتے ہیں۔ یہ آفات کے رحم و کرم پر بھی ہوتے ہیں اور ان سے حفاظت کی صلاحیت بھی کم رکھتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت کراچی میں ورلڈ بینک کے 11بڑے منصوبے بھی کام کر رہے ہیں جن میں سرفہرست پانی کی فراہمی ، سیوریج ، پبلک ٹرانسپورٹ ، عوامی مقامات ، شہری حکومت اور کچرے کے انتظام نمایاں ہیں۔ لیکن نتیجہ صفر! دراصل سندھ حکومت کا ایک اور سنگین مسئلہ کرپشن کا ہے جو ناسور کی طرح سندھ انتظامیہ کے رگ و پے میں سماگیا ہے۔ اس ہی بے لگام کرپشن کی وجہ سے ترقیاتی کام کی مد میں مختص ہونے والا روپیہ حکمرانوں کی جیب میں چلا جاتاہے اور عوام منہ تکتے ر جاتے ہیں۔ جب تک کرپشن اور ناقص کارکردگی کے عفریت کو بوتل میں بند کیا گیا ، اس وقت تک حالات میں سدھار لانے کی توقع صحرا میں اذان دینے کے مترادف ہوگی۔کیوں کہ سندھ کی حکومت کراچی میں گزشتہ 13سال سے قائم ہے،اور ایسا بھی نہیں ہے کہ سندھ حکومت بجٹ میں کراچی کو یاد نہیں رکھتی۔ بلکہ ہر بجٹ میں کراچی کے لیے اربوں روپے کا بجٹ رکھتی ہے مگر اُس پر عمل درآمد ہونا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ جیسے گزشتہ سال کراچی کی 100 سے زائد اسکیمیں ایسی ہیں جو مکمل نہیں ہوسکیں ، پھر محکمہ زراعت کے 35 منصوبے بھی آبادگاروں کو منہ چڑا رہے ہیں جن کی لاگت 9088 مختص ہے، صحت کے 169 منصوبے بھی ادھورے پڑے ہیں جن کی لاگت 48110 ملین روپے رکھی گئی تھی۔ پھر محکمہ جنگلات اور وائلڈ لائف کے 10 منصوبوں کے لیے 1851 ملین رکھے گئے ہیں، یونیورسٹی اور بورڈز کے لیے 39 منصوبوں پر 19401 ملین روپے رکھے گئے تھے۔پھر کراچی کے 7300 ملین روپے سے بننے والے میگا پروجیکٹ کی 17 اسکیمیں بھی مکمل نہ ہوسکیں، انڈسٹریز اینڈ کامرس کی 2226 ملین روپے کی 10 اسکیمیں، انفارمیشن اینڈ آرکائیو کی 300 ملین کی 11 اسکیمیں، انفارمیشن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی 3233 ملین کے 15 منصوبے بھی مکمل نہ ہوسکے۔اس کے علاوہ ”اللہ کی رحمت “ سے سندھ حکومت کی اپنی ویب سائیٹ کے مطابق لائیو اسٹاک اینڈ فشریز کی 9031 ملین کے 44 منصوبے، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی 16 منصوبوں پر 8616 ملین مختص ہیں جب کہ پبلک ہیلتھ انجیئرنگ اور دیہی ترقی کے 199 منصوبے مکمل نہیں کیے جاسکے جن کی لاگت 23121 ملین روپے ہے۔یوتھ افیئر اینڈ اسپورٹس کے 10 منصوبے نامکمل ہیں جن کی لاگت 3566 ملین لگائی گئی تھی، ورکس اینڈ سروسز کے 348 منصوبے بھی مکمل نہ کیے جاسکے جن کی لاگت 73916 ملین ہے۔پھر تھر کول انفراسٹرکچر کے لیے 14 منصوبے بھی سندھ حکومت مکمل نہ کرسکی جس پر 6690 ملین مختص کیے گئے تھے لیکن یہ منصوبے بھی ادھورے پڑے ہیں۔ الغرض جب ان منصوبوں کا یہ حال ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کس منہ سے پورے ملک کا اقتدار مانگ رہی ہے، بلاول بھٹو زرداری کو شرم نہیں آتی کہ اُن کی پیپلزپارٹی نے سندھ کو اور خاص طور پر کراچی کو کس حال میں رکھا ہوا ہے۔ وہاں معمولی سی بارشوں کے بعد ایسی سیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ آپ خلاءسے بھی پانی کے کھڑے ہونے کا نظارہ کر سکتے ہیں جیسے حالیہ برساتی بارش کا پانی کئی دنوں تک کھڑا رہا اور یہ کھڑا ہوا پانی کئی بیماریوں کا باعث بنا۔ ہزاروں کاروبار جو کورونا کی وجہ سے پہلے ہی مشکل میں تھے مزید متاثر ہوئے۔کون کہتا ہے کہ دوزخ گرم اور خشک ہی ہونا چاہیے؟ کراچی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ گیلی اور پانی سے بھری دوزخ بھی اتنی ہی اذیت ناک ہوسکتی ہے۔میرے خیال میں کراچی والوں کو بارش سے بد دل ہونے کا حق پہنچتا بھی ہے۔ ماضی قریب میں ہر سال ہونے والی بارش شہر کو تباہ کرجاتی ہے۔ بیٹھے بٹھائے بنیادی زندگی گزارنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔ ہر سال ایک بے حس وفاقی حکومت لوگوں کو مشکلات میں گھرا دیکھتی رہتی ہے۔ یہ سال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔تبھی دنیا کے پانچ بہترین شہروں شمار ہونے والا ”کراچی“ آج دنیا کے 16بدترین شہروں میں گنا جاتا ہے۔ یعنی کراچی کے نام نہاد سیاستدانوں نے اپنے سیاست کو چمکانے کے واسطے کراچی کو لاوارث بنا دیا ہے ۔ بہرکیف جب سے پی پی پی کی حکومت آئی ہے کراچی کی بدحالی بڑھتی جارہی ہے، اور تو اور سندھ کا وزیر اعلیٰ آج تک ضلع کراچی سے نہیں لیا گیا۔ آپ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو دیکھ لیںاُن کا تعلق سندھ کے ضلع جامشورو سے ہے، سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کا تعلق ضلع خیر پور سے تھا، سابق وزیرا علیٰ غلام ارباب رحیم کا تعلق ضلع تھرپارکر سے تھا، سابق وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی ضلع پٹارو سے تھے، سابق وزیر اعلیٰ مظفر حسین شاہ کا تعلق سندھ کے علاقے میر پور خاص سے تھا، سابق وزیر اعلیٰ آفتاب شعبان میرانی کا تعلق شکار پور سے تھا، سابق وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ شکار پور کے تھے، سابق وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو لاڑکانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان وزراءاعلیٰ میں سے کسی ایک تعلق بھی کراچی سے نہیں تھا۔ اور پھر حالیہ وزیر برائے لوکل گورنمنٹ ناصر حسین شاہ کا تعلق بھی سکھر سے ہے، وزیر ریوینیو اینڈ ریلیف ڈیپارٹمنٹ مخدوم محبوب زمان کا تعلق ضلع مٹیاری سے ہے، وزیر برائے ماس ٹرانزٹ اویس قادر شاہ کا تعلق سکھر اور سب سے اہم وزارت انڈسٹریل اینڈ کامرس جام اکرام اللہ دریجو کے پاس ہے جن کا تعلق بھی کراچی سے نہیں اور آپ کا تعلق بھی کراچی سے نہیں ہے۔ یعنی جب یہ تمام وزراءکراچی کو سرے سے جانتے ہیں نہیں ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ یہ کراچی کے مسائل کو سمجھ سکیں؟ خدارا آپ اس بات کو سمجھیں کہ کراچی بالکل اسی طرح پاکستان کا بزنس ہب ہے جس طرح امریکا کا نیویارک اور برطانیہ کا لندن ہے۔ اس لیے اسے سہولیات بھی اتنی ہی دیں جتنا وہ Deserveکرتا ہے۔ اور خدارا! پیپلزپارٹی یہ ضرور بتا دے کہ کراچی اور سندھ کو بہتر بنانے کے لیے اُسے مزید کتنے سال اور کتنے ادوار درکار ہیں تاکہ ہم عوام اس حوالے سے ذہن بنا لیں! #Sindh Govt #karachi kachra shehr #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan