بیوروکریسی کے انتظامی معاملات میں خواتین کی کارکردگی؟

خواتین کی تعلیم ،جنوبی ایشیاءکی خواتین کاسب سے بڑا مسئلہ رہا ہے، اسی لیے اس خطے کی خواتین ہر میدان میں پیچھے رہیں حتیٰ کہ دنیا بھر میں ان خواتین کو کارکردگی کے لحاظ سے آخری نمبر وں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تبھی جب یہ کسی میدان میں اپنا نام کماتی ہیں تو ان قوموں کی حیرت و خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ حالانکہ اس کے برعکس دنیا بھر میں خواتین خواہ کھیل کا میدان ہو یا میڈیکل یا انجیئنرنگ یا ملکی کی سلامتی کا ،خواتین مردوں کے شانہ بشانہ احسن انداز میں ہر وہ کارنامہ سرانجام دیتی ہیں جو مشکل ضرور ہوتا ہے مگر ناممکن نہیں ہوتا....لہٰذا کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یا مغربی اور ہماری خواتین میں فرق کس چیز کا ہے؟ کہ ہماری 90فیصد خواتین ”کارکردگی“ دکھانے سے محروم رہ جاتی ہیں۔یقینا نہیں سوچا ہوگا، لیکن مغربی ممالک ہماری خواتین کے بارے میں ضرور سوچتے ہیں، یہ اُن ہی کی تحقیق ہے کہ یہاں کی خواتین کا ہر میدان میں پیچھے رہ جانے کی اصل وجہ کوئی اور نہیں بلکہ تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے۔وہاں خواتین کی شرح خواندگی 100فیصد جبکہ یہاں 50فیصد سے بھی کم ہے اور تربیت تو نہ ہونے کے برابرہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ مغرب میں خواتین ایسے ماحول میں پلتی بڑھتی ہیں، جہاں اُنہیں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں، جبکہ جنوبی ایشیائی خواتین کے 95فیصد گھرانوں کا ماحول ہی خواتین کے لیے متاثر کن نہیں ہوتا۔ خاص طور پر زندگی کے آغاز میں ہی بچیوں کی تربیت اس انداز میں کی جاتی ہے کہ اُن کی زندگی کی دوڑ.... محض شادی کرنا، خاندان اور بچے سنبھالنا اور دیگر امور خانہ کو سرانجام دینے کا ہے۔تبھی ہماری بچیاں زندگی کے جس موڑ میں انہیں آگے بڑھنا ہوتا ہے وہ اسی سوچ میں گزار دیتی ہیں کہ اُن کی اگلی زندگی علم نہیں کہ کس کے بھروسے کیسے شخص کے ساتھ گزرے گی!پھر آپ ہر سال کی جینڈر گیپ رپورٹ پڑھ لیںجس کے مطابق ” کام کرنے کی عمر کی 6کروڑ خواتین میں سے صرف 20فیصد خواتین برسرروزگار ہیں“۔ یعنی ہر پانچ میں سے صرف ایک خاتون کو روزگار دستیاب ہے۔اسی لئے تو جینڈر گیپ سے متعلق 156 ممالک کی فہرست میں ہم 153ویں نمبر پر ہیں۔ اس رینکنگ میں جنگ زدہ افغانستان ،یمن اور عراق ہم سے نیچے ہیں۔لہٰذاہمارے ہاں جو خواتین آگے آتی ہیں یعنی مقابلے کا امتحان پاس کر کے یا اپنے ٹیلنٹ کی وجہ سے ۔ تو اُنہیں بیرونی ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں خاصہ وقت درکار ہوتا ہے۔اس کی ایک زندہ مثال ہمارے سول سروسز اداروں میں بیٹھی خواتین کی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اُن کے بارے میں عمومی طور پر عام شکایات یہی سننے کو ملتی ہیں کہ جس ایریا میں خاتون اسسٹنٹ کمشنر ، ایس پی یا اے ایس پی تعینات ہوئی ہیں اُس ایریا میں کرپشن اور انتظامی معاملات کے چیلنجز بڑھ گئے ہیں! ایسا کیوں ہوتا ہے؟اور اس کا حل کیا ہے؟ اس پرتو بعد میں آتے ہیں لیکن فی الوقت پاکستان میں خواتین کے انتظامی اور سیاسی کردار اور اسکی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ پاکستان کی مجموعی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کسی حکومت نے خواتین کی تعلیم کی بہتری یا اُن کے آگے بڑھنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا اور خاص طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جس دور میں خواتین کی اسمبلیوں میں نمائندگی زیادہ دیکھنے کو ملی اُسی دور میں بیوروکریسی میں بھی خواتین نسبتاََ غالب رہیں۔ اگر پاکستان کے آئین کی بات کریں تو 1956، 1962اور 1973ء کے آئین میں خواتین کو میدان عمل میں لانے اور اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئیں مگر یہ صرف آٹے میں نمک کے برابر تھیں۔ 1962ءکا آئین جو فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنایا تھا اس میں قومی اسمبلی میں دس فیصد اور صوبائی اسمبلی میں پانچ فیصد نشستیں خواتین کیلئے مخصوص کی گئیں۔ 1973ءمیں ذوالفقار علی بھٹو نے یہی طریقہ رکھا۔ جب ضیاءالحق کا مارشل لاءلگا اور 1985ءکا الیکشن ہوا تو قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستیں کر دی گئیں ڈبل یعنی بیس مگر چونکہ 1973ءکے آئین میں خواتین کی نشستیں دس سال یا دو الیکشن تک رکھی گئیں تھیں اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ 1988ءمیں خواتین کی نشستیں خود بخود ختم ہو گئیںاور اس طرح انتظامی معاملات میں بھی خواتین کا حصہ نہ ہونے کے برابر رہ گیااور پھردوبارہ کسی حکومت نے اس پر توجہ نہ دی۔ پھر جنرل مشرف جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے خواتین کے حقوق کیلئے ”کمشن آن دی سٹیٹس آف وومین“ کا قیام عمل میں لایا جو مستقل اور آئینی ادارہ تھا۔جس نے نیشنل، پروفیشنل اسمبلیوں میں 17 فیصد خواتین کی نمائندگی مناسب طریقہ انتخاب کے ذریعہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پہلی بار سینٹ میں خواتین کی 17 فیصد نمائندگی دی گئی جن کی وجہ سے قومی اسمبلی میں 60 خواتین سینٹ میں 17 خواتین ممبر بنیں جو خواتین کی بہت بڑی کامیابی تھی، اس سے بڑی بات یہ ہوئی کہ مشرف حکومت مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا جو اصل جمہوریت ہے وہاں خواتین کی نمائندگی 33 فیصد کی خاص بات یہ تھی کہ خواتین کا مقابلہ براہ راست خواتین سے تھا مگر ووٹر مرد اور خواتین دونوں تھے اسکا مطلب یہ تھا کہ نمائندہ خاتون صرف خواتین کی نمائندہ نہیں بلکہ پورے علاقہ کی نمائندہ ہیں۔ اسی کے ساتھ بیوروکریسی میں بھی خواتین کے آنے کا ٹرینڈ سیٹ ہوااور بہت زیادہ خواتین نے مقابلے کا امتحان دیا اور منتخب ہو کر انتظامی معاملات کو دیکھنے لگیں۔ لیکن مسئلہ پھر وہی رہا کہ مجموعی طور پر خواتین کی تربیت کا نہ تو اہتمام کیا گیا اور نہ ہی خواتین کی خواندگی کی شرح کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ جس کی وجہ سے نہ تو معاشرے نے خواتین کو قبول کیا اور نہ ہی خواتین اپنے شعبوں میں وہ مثالی کارکردگی دکھا سکیں جو عموماََ یورپی ممالک میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جیسے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسنڈا آرڈن نے مشکل حالات میں اپنے عوام کا دل جیتا اور عوام خصوصاََ مسلم کمیونٹی میں گھل مل گئیں ۔ اور دنیا بھر سے انہیں پذیرائی ملی۔ لیکن یہاں حالات اس کے برعکس ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر خواتین کو انتظامی معاملات چلانے کے لیے میدان میں لانا ہی تھا تو سب سے پہلے خواندگی کی شرح کو بڑھایا جاتا ، پھر آہستہ آہستہ اُنہیں دیگر شعبوں میں کھپا کر انہی کی اگلی کھیپ کو انتظامی معاملات میں لایا جاتا، تب اُنکی کارکردگی دیکھنے کے قابل ہوتی ۔ لہٰذااب ہو یہ رہا ہے کہ ہماری بہت سی خواتین بطور ایس پی، اے ایس پی، اے سی یا ڈی سی لگ چکی ہیں اور مذکورہ بالا عہدے خالص طور پر عوامی عہدے ہیں، جن کے لیے آپ کی 24گھنٹے کی دستیابی کے ساتھ ساتھ ملزمان، مجرمان، مدعیان اور عام عوام کے ساتھ گھل مل جانا ضروری ہوتا ہے۔جبکہ اس کے برعکس ایک مرد ایس پی ،یا اے ایس پی جس طرح مجرموں، مدعیوں یا عوام کے ساتھ گھل مل جاتا ہے ایک عورت ایسا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اور پھر ایس پی، اے ایس پی، اے سی یا دیگر عوامی عہدے کی ڈیمانڈ یہ ہے کہ ان کے در 24گھنٹے عوام کے لیے کھلے ہونے چاہیے، لیکن خواتین کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہوتا ہے، کیوں کہ وہ 8گھنٹے تو نوکری کر سکتی ہیں، مگر اس سے زیادہ وقت کے لیے وہ دستیاب نہیں ہوتیں، اُن کی فیملی ہوتی ہے، اُن کے بچے ہوتے ہیں، اور مردوں کی نسبت انہوں نے دیگر رشتوں کو بھی بخوبی نبھانا ہوتا ہے۔ اور پھر ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اُن کی عدم دستیابی کا فائدہ اُن کا ماتحت عملہ اُٹھاتا ، اور آفیسر کے نہ ہونے کی صورت میں اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ اور لوٹ مار کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔ اس سے عوام مشکلات کا شکار ہوتے اور شکایات کے انبھار لگ جاتے ہےں۔ پھر یہ شکایات عام نوعیت کی نہیں ہوتیں بلکہ براہ راست عوام کے متاثر ہونے کی ہوتی ہیں، جیسے جس ضلع میں خاتون افسر تعینات کر دی جاتی ہے، وہاں دیگر عملہ جیسے ہسپتال کا ایم ایس،واپڈا کا ایکسیئن،یا کسی پبلک ادارے کا سربراہ وغیرہ نا تو تندہی سے کام کرتا ہے اور نہ ہی اُسے کسی کا ڈر ہوتا ہے۔بلکہ اُس ضلع میں کوآرڈی نیشن کا فقدان بڑھ جاتا ہے اورتبھی اُن کی من مرضیاں اور کرپشن کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذامیرے خیال میں ان خواتین کو ایسے شعبوں میں کھپایا جائے جہاں براہ راست پبلک کم سے کم ملوث ہو۔ جہاں نہ تو اُن کے سامنے کسی مجرم کو پیش کیا جائے اور نہ ہی اُنہیں کسی پنچایت کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہو جیسے نیم پبلک شعبوں اکاﺅنٹس، کسٹم یا دیگر محکموں میں خواتین بہترین کام کر رہی ہیں اور جسے سراہا بھی جا رہا ہے۔ لہٰذافی الوقت جب تک جینڈر گیپ کم نہیں ہو جاتا تب تک ان خواتین کو انہی شعبوں میں کھپایا جائے اور دس سالہ تعلیمی منصوبہ بنا کر جینڈر گیپ کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور ویسے یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت جینڈر گیپ کو ختم کرنے کی بھی کوشش کر رہی مثلاََ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بھی صنفی برابری کیلئے کام کر رہا ہے، اس نے بھی جینڈر گیپ میں کمی کیلئے ”بینکاری برائے صنفی برابری“ کے حوالے سے ایک بینکاری پالیسی مرتب کر رہا ہے، جس پر سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کے تحت بینکوں کو پابند کیاجائے گا کہ وہ بھی قرضوں کی فراہمی کو ”جینڈر گیپ کی عینک “ سے دیکھتے ہوئے خواتین کی بہبود کاخیال رکھیں اور ان کے کیسز کو نظرانداز کرنے سے گریز کریں۔اگر اس پر عمل ہو گیا توخواتین کو مہنگے قرضوں سے نجات مل جائے گی۔ اور خواتین میدان عمل میں آکر اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں گی۔ تب ہر گھر کا ماحول آئیڈیل ہوگا ، خواتین کو دائمی سوچ سے بھی نجات مل جائے گی اور وہ ہر مشکل مرحلے کو پار کرنے میں خود کفیل سمجھی جائیں گی اور خاص طور پر وہ اپنے دوسروں کے فیصلے کرنے میں بھی پراعتماد ہوں گی اور کسی قسم کا دباﺅ قبول نہیں کریں گی! #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #bureaucratic management #West and our women #Gender Gap Report