نیا محاذ کھولنے سے اجتناب کیا جائے!

بس اب سمجھ لیں کہ الیکشن ملتوی کرنے کا ایک جواز مل گیا ہے،،، وہ بھی پاک ایران کشیدگی کی صورت میں۔ تادم تحریر قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ نہیں ہوسکی۔ لیکن بادی النظر میں اشارے کنائے میں باتیں ہو رہی ہیں کہ شاید وزیر اعظم صدر مملکت کو ایمرجنسی کی سمری بھیج دیں۔ جس کے بعد الیکشن تو گئے!! لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ کیا واقعی پاک ایران تعلقات اس نہج تک آچکے تھے کہ دوست ممالک چند لمحوں میں تعلقات اس نہج پر لے آئے کہ ایک دوسرے کی سرحدی حدود کا بھی احترام نہ کیا۔ اور یقین مانیں ایران کا حملہ اتنا غیرمتوقع تھا کہ پاکستانیوں کیلئے یہ ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ واقعی ایران نے پاکستان کے اندر میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ جب یہ خبر بریک ہوئی تو میرا بھی کئی پاکستانیوں کی طرح خیال تھا کہ ایران تھوڑی دیر بعد اس خبر کو جھوٹا قرار دے دے گا یا بتائے گا کہ یہ حملہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھا یا میزائل مِس فائر ہو گیا تھا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو قمر جاویدباجوہ جب آرمی چیف تھے تو ایک انڈین میزائل پنجاب کے ایک شہر کے قریب گرا تھا۔ اس پر انڈیا نے معذرت کی تھی کہ دراصل سب کچھ غلطی سے ہو گیا تھا۔ اگرچہ اس پر بھی کئی سوالات اٹھے تھے کہ کیا میزائل کا فائر ہونا واقعی غلطی تھی یا انڈیا پاکستان کا دفاعی نظام چیک کرنا چاہتا تھا کہ وہ کتنا ایکٹو ہے۔خیر کچھ دن تک بادل چھٹ جائیں گے، تب حقیقت واضع ہو گی کہ یہ آخر ماجرہ کیا ہے کہ صرف دو دن میں امریکی وزارت خارجہ سے لے کر صدر جوبائیڈن تک سبھی نے اس مسئلے پر ایران کو برا بھلا کہا ہے، اور کہا ہے کہ ایران عالمی دہشت گرد ملک ہے۔ یہ یقینا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے لیکن اگر ہم دونوں ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان کے حالات ایسے کشیدہ کبھی نہیں ہوئے جیسے آج ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا۔ یہاں دونوں ممالک میں بسنے والے بلوچوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔ ایران اور پاکستان نے مختلف سیاسی تنازعات کے بارے میں اکثر مشترکہ لائحہ عمل اپنایا۔ ایران اور برطانیہ کے درمیان اینگلو ایران آئل کمپنی کو قومیانے کے فیصلے کی وجہ سے تنازع پیدا ہوا تو وزیراعظم لیاقت علی خاں نے ایرانی اقدام کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیا اور برطانیہ کی قطعاً کوئی پرواہ نہ کی۔ 1965ءاور 1971ءکی جنگوں میں ایران نے پاکستان کی بھرپور مدد کی اور اقوام متحدہ کے فورم میں بھی ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ 1971ءمیں شاہِ ایران نے سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کا دورہ کر کے پاکستانی قوم کے دکھوں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ بنگلہ دیش کو بھی ایران نے اس وقت تسلیم کیا جب پاکستان نے اسکو تسلیم کیا اور اسکے علاوہ کشمیر کا مسئلہ جب بھی اقوام متحدہ میں پیش ہوا ایران نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی۔ شاہِ ایران جب بھی پاکستان کا دورہ کرتے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو مشترکہ اعلامیے شامل کرواتے۔ ایرانی دفتر خارجہ بھی بار بار اس بات کا اعادہ کرتا کہ کشمیریوں کو اپنامستقبل خود طے کرنے کا اختیار ملنا چاہئے۔ایران نے پاکستان میں صنعتی اداروں کے قیام کےلئے وقتاً فوقتاً پاکستان کی مالی امداد کی اور کئی سال تک کم قیمت پر روزانہ 20 ہزار بیرل تیل فراہم کرتا رہا جبکہ 1982ءمیں پاکستان نے ایران کو سات لاکھ ٹن سالانہ گندم کی ترسیل کا سلسلہ شروع کیا جو کافی مدت تک جاری رہا۔ 1964ءمیں استنبول میں ایران‘ ترکی اور پاکستان کے سربراہان نے علاقائی تعاون برائے ترقی (R.C.D) کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور تینوں ممالک کے درمیان آر سی ڈی شاہراہ بنائی گئی جو کراچی سے شروع ہو کر ترکی کے شہر اوریسہ تک تعمیر کی گئی ہے،اس کی ایک شاخ ایران میں بندر عباس تک بنائی گئی ہے اور دوسری زاہدان سے بازرگان تک پھیلی ہوئی ہے اگرچہ شروع میں اس تنظیم کی کارکردگی بہتر رہی مگر ایران میں انقلاب کے بعد ایرانی حکومت داخلی مسائل میں الجھ گئی اور اس تنظیم کی کارکردگی اطمینان بخش نہ رہی۔ 29 جنوری 1985ءکو تہران میں تینوں ممالک کے اعلیٰ افسروں کے اجلاس میں اس تنظیم کو ختم کرکے نئی تنظیم ”اقتصادی تعاون“ کے نام سے بنا دی گئی۔ پاکستان کے ایران سے اختلافات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسکی بڑی وجہ ایران نے بھارت سے اقتصادی، صنعتی اور ثقافتی تعاون کی راہ اپنائی اور پاکستان نے بھٹو کے دور حکومت میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے اپنے روابط بڑھائے اور لاکھوں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک میں روزگار کمانے کےلئے چلے گئے۔ آج تیس لاکھ کے قریب پاکستانی افرادی قوت مشرق وسطیٰ کے ممالک میں موجود ہے اور اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ پاکستان بھیج رہی ہے، اسکے علاوہ پاک ایران تعلقات بگاڑنے میں را نے بلوچ قومیت کے قضیے کو ہوا دی اور گریٹر بلوچستان کے قیام میں ایران کی دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ 1971ءمیں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو شہنشاہ ایران سے ایک بیان منسوب کیا گیا کہ اگر پاکستان مزید ٹوٹا تو ایران اپنے پڑوسی علاقے بلوچستان کو اپنی تحویل میں لے لے گا۔ تاہم بعد میں شہنشاہ ایران نے ان خدشات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ اسکے علاوہ 1979ءمیں ایران میں جب اسلامی انقلاب آیا تو ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک سے اپنے سفارتی اور سیاسی رابطے ختم کر دئیے، چونکہ پاکستان امریکہ سے قریب تر تھا، اس لئے انقلاب کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں گرم جوشی نہ رہی اور زاہدان ریڈیو سے پاکستان کے خلاف امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا مگر اسکے بعد ایرانی حکومت کو پاکستان کی اہمیت کا احساس ہونے لگا اور اکبر ولایتی کے پاکستان کے دورے میں دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی ترویج اور معاشی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کئے گئے مگر بعد میں ایرانی انقلاب کو پاکستان ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے اسکو روکنے کی کوشش میں پاکستان مذہبی فرقہ بندی کی وجہ سے فرقہ پرستی کی دہشت گردی کا ایسا شکار ہوا ہے جس کا سلسلہ آج تک ختم نہ ہو سکا۔ اور اب جبکہ تہران کا الزام ہے کہ کچھ دہشت گرد گروپس پاکستان کی سرزمین استعمال کرکے ایران کے اندر حملے کر رہے تھے۔ انہوں نے صرف پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ شام اور عراق کے اندر بھی ایسے گروپس کے خلاف میزائل داغے ہیں۔ ایران ان گروپس کو اسرائیل کی پراکسی قرار دے رہا ہے۔ ایران نے دراصل امریکی انداز میں حملے کیے ہیں۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ جس ملک سے انہیں خطرہ محسوس ہو گا کہ وہاں سے امریکہ پر حملہ ہو سکتا ہے یا وہاں ان کے مفادات انڈر اٹیک ہیں تو وہ ڈرون یا میزائل سے حملہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ شاید ایرانی بھی اب یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ دنیا کے مختلف حصوں خصوصاً افغانستان‘ پاکستان‘ شام‘ یمن‘ عراق اور دنیا کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے اور اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تو یہ کام ایران کیوں نہیں کر سکتا جو خود کو امریکہ کی طرح مختلف گروپس کے ہاتھوں دہشت گردی کا شکار سمجھتا ہے۔ مطلب اب دنیا کا اصول یہ بن چکا ہے کہ پہلے کسی ملک کو بتاﺅ کہ آپ کے ہاں پناہ لیے دہشت گرد ہمارے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘ آپ ان کے خلاف کارروائیاں کریں۔ اگر وہ ملک کارروائی نہیں کر پاتا اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پھر اس وِکٹم ملک کو حق ہے کہ وہ ان گروپس کے خلاف اُس دوسرے ملک کے اندر جا کر کارروائی کرے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایران خود کو امریکہ کے ہم پلہ سمجھتا ہے جو جہاں چاہے کارروائی کر لے اور کسی کو جرا¿ت نہ ہو کہ اُس پر واپس حملہ نہ کرے یا انگلی اٹھائے؟اور اب جبکہ حالات ساز گار تھے تو ایران الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان میں موجود مذہبی تنظیم خاص تو پر جیش العدم ایران میں کارروائیاں کر رہی ہے۔ یہ الزام کس قدر درست ہے یہ تو ہم نہیں جانتے مگر انفارمیشن کا تبادلہ دونوں ملکوں کے درمیان اولین ترجیح ہونی چاہیے! خیر یہ ساری باتیں ایک طرف مگر سوال یہ ہے کہ ہم ایک نیا محاذ کیوں کھولنے جا رہے ہیں؟ اور ایسے وقت میں جب الیکشن سر پر ہیں۔ میرے خیال میں ایران سے سینگ پھنسانے کا جو ایجنڈا تیار کیا گیا ہے ، وہ کسی بھی صورت پاکستان کے لیے قابل قبول نہیںہے۔ ایسا اس لیے بھی میں کہہ رہا ہوں کہ یہاں پہلے ہی شیعہ سنی فسادات بہتری کی طرف گئے ہیں، اور دوسرا امریکا و اسرائیل ہمیں اپنی جنگوں میں ”پارٹی“ بنانا چاہ رہا ہے۔ ایسا کرنے سے یقینا ہم ڈالر تو حاصل کرلیں گے، مگر افغانستان و بھارت کی طرح ہم ایک اپنی سرحدوں میں ایک اور چھید کر لیں گے۔ پھر ہمارا ایران کے ساتھ 8سو کلومیٹر کا بارڈر بھی بھارت و افغانستان کی طرح غیر محفوظ ہو جائے گا۔ کیوں کہ پہلے ہی ہم الزام لگایا جا تا ہے کہ افغانستان کی مکمل تباہی میں پاکستان کا کردار اہم ہے۔ بھارت ہم پر الزام لگاتا ہے کہ ہم اُن کے خلاف جہادی تنظیموں کو پروموٹ کرتے آئے ہیں۔ اور اب ایران کا بھی یہی سوال ہے۔ خیر اب چونکہ پاکستان نے اپنی طرف سے ایران کے اندر کارروائی کر کے جواب تو دے دیا ہے مگر یہ اس کا مستقل حل نہیں ہے۔ لیکن یہ ہماری بھی وقتی خوشی ہے، کیوں کہ ہمیں بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے، ایران سے خراب تعلقات ہمارے مفاد میں قطعاََ نہیں ہو سکتے! اور رہی بات الیکشن کی تو اگر حالات نارمل نہ ہوئے تو ایسے ماحول میں الیکشن کا ہونا واقعی غیر معمولی ہوگا۔ لہٰذاہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکہ کی پہلی ترجیح ایران اور پاکستان کو آپس میں الجھانا ہے۔ ہمیں چین کی بات ما ن کر اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تیسری قوتیں فائدہ اُٹھائیں گی اور دونوں ممالک کے عوام منہ دیکھتے رہ جائیں گے!