جسٹس عبدالقیوم کی رپورٹ اور ہماری کرکٹ!

نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان آئی اور ڈرامائی انداز میں سکیورٹی کا بہانہ بنا کر واپس چلی گئی، کیوی ٹیم 2003ءکے بعد پہلی بار پاکستان کے دورے پر تھی۔ لیکن یوں چلے جانے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی پر خوشی مناتے عوام اور میڈیا سوگوار نظر آئے ۔ یہ خبر دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کےلئے بھی چونکا دینے والی خبر تھی، کیوں کہ گزشتہ 12،13سال سے تو ہم یہی سنتے آئے تھے کہ فلاں ٹیم نے پاکستان آنے سے انکار کردیا، فلاں نے متبادل مقام پر کھیلنے کی تجویز دی۔ لیکن برسوں بعد ایک بڑی ٹیم پاکستان آ گئی، پریکٹس کی، ایک ہفتہ تک مہمان بنی رہی اور میچ شروع ہونے سے چند لمحے قبل میچ کھیلنے سے قبل انکار کردیا ۔ وزیر اعظم پاکستان کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے بلاتاخیر وزیر اعظم نیوزی لینڈ جسنڈا آرڈن کو فون لگایا، مگر بات نہ بن سکی ۔اس بڑے ”سانحے“ کی اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اس میں بہت سے فیکٹر ز کو بھی آپ مسترد نہیں کر سکتے۔ جیسے” افغان فیکٹر“جس میں دنیا بھر کے بڑے ممالک پاکستان کے کردار سے نالاں نظر آرہے ہیں، یا ”بھارتی فیکٹر“ یعنی آئی سی سی خالصتاََ بگ تھری کے زیر اہتمام چل رہی ہے، اوربھارت بھی بگ تھری ہی کا رکن ہے، تو بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو، یا پھر ”لابنگ فیکٹر“ کہ پاکستان کو دنیا میں اکیلا کر دیا جائے، یا اس کے علاوہ ایک اور فیکٹر یہ ہو سکتا ہے کہ ”کمزور کرکٹ بورڈ فیکٹر“۔ مذکورہ بالا تین فیکٹرز پر تو کئی بار بات ہو چکی ہے کہ پاکستان کو اکیلا کرنے کی سازشیں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہی ہیں، اوریہ باتیں اُس وقت سے سنتے آرہے ہیں جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، لیکن کمزور کرکٹ بورڈ کا فیکٹر ہماری اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ بادی النظر میں اگر پی سی بی مضبوط ہوتا، یا نیوزی لینڈ کے کرکٹ بورڈ کو ہمارے بورڈ کا رتی برابر بھی خوف ہوتا کہ بدلے میں پی سی بی کا کیا رد عمل ہو سکتا ہے تو نیوزی لینڈ کا بورڈ کبھی ایسا فیصلہ نہیں کرتا، جس سے نا صرف پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی بلکہ ہم ناقابل تلافی مالی نقصان سے بھی بچ جاتے۔ خیر دکھ تو اس بات کا ہے کہ جس طرح پاکستان کے دیگر اداروں کا برا حال ہے اسی طرح پی سی بی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے؟ یہاں بھی میرٹ کو ایک طرف رکھ فیصلے کیے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ قومی ٹیم کے جو کھلاڑی یا عہدیدار چند ہزار یا چند لاکھ روپے کی خاطر پورا میچ فکس کر لیتے تھے، ہم آج بھی انہیں اپنا ہیرو مانتے اور نت نئے عہدوںسے نوازتے ہیں، اور پھر جب ادارے کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے تو پھر ہم سر پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔قصہ مختصر کہ جب ایک سزا یافتہ بندہ دوبارہ اُسی عہدے پر یا اُسی ادارے میں کام کرنے لگ جائے گا، یا قرآن پاک پر حلف لینے کے بعد بھی وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث نظر آئے گا تو آپ اُس سے کیسے خیر کی توقع کر سکتے ہیں؟ بہرحال بات نیوزی لینڈ کرکٹ سے شروع ہوئی تھی لیکن دل بجھے بجھے سے ہیں،دل تو چاہتاہے کہ اپنی ناکامیاں آج ہم کھول کھول کر بیان کریں کہ ہم کہاں کہاں غلط ہیں۔ اور رہی بات موجودہ معاملے کی غلط نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم بھی نہیں، نہ ہی انگلینڈیا امریکا غلط ہے، اور نہ ہی بھارتی لابنگ غلط ہے، غلط ہم ہیں جو خود احتسابی نہیں کرتے، جو میرٹ پر فیصلے نہیں کرتے، جو غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح نہیں کہتے۔ اور پھر اگر بات کرکٹ کے احتساب کی ہو تو جسٹس قیوم کی رپورٹ ہی ہمیں شیشہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔ جی ہاں قارئین آپ میں سے بہت سے لوگ جسٹس قیوم کی رپورٹ سے شاید زیادہ واقف نہ ہوں، میں بتاتا چلوں کہ90ءکی دہائی کرکٹ کے عروج کا زمانہ تھی۔پاکستان اور بیرونِ ملک بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ کرکٹ میں پیسے کی ریل پیل بھی بہت زیادہ ہوگئی اور یہیں سے فکسنگ نے بھی پنجے گاڑنے شروع کردیے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ معاملہ سنگین ہوتا گیا یہاں تک کہ پاکستان کے چند بہترین کھلاڑیوں پر فکسنگ کے الزامات لگے اور کچھ پر تاحیات پابندیاں بھی لگ گئیں۔ انہی الزامات اور خدشات کی وجہ سے جسٹس قیوم کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا ، انھوں نے ستمبر 1998میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کا آغاز کیا اور 18ماہ بعد رپورٹ تیار کر کے بورڈ کو دی، اس دوران انھوں نے 33افراد، 3آسٹریلوی پلیئرز، 4صحافیوں اور 13پولیس حکام و دیگر متعلقہ شخصیات کے بیانات لیے، مشکوک میچز کی فہرست میں شامل ایک ایک مقابلے پر غورکیا گیا، ایک ایک مقابلے کی ویڈیوز دیکھیں اور ہر کھلاڑی کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیا۔ جس کے بعد ایسے ایسے انکشافات سامنے آئے کہ دل کرتا تھا کہ ان کرکٹرز کو چوک میں اُلٹا لٹکادیا جائے جو ملکی وقار کی سودے بازی کرتے ہیں، جسٹس قیوم کی 150صفحات کی اس رپورٹ میں ایسے ایسے واقعات اور بیانات قلمبند کیے گئے کہ تاریخ شرما جائے، جب تحقیقات کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے سلیم ملک اور وسیم اکرم کے نام سامنے آئے، اور یہ بھی انکشاف ہوا کہ ان دونوں کے بھائی دنیا کے بڑے بکیز میں شمار ہوتے ہیں، کمیشن کے سامنے بیشتر کھلاڑی پیش ہوتے رہے، اور سب نے اپنے اپنے بیانات قلمبند کروائے اور راشد لطیف جیسے چند ایک پلیئرز نے چیکس اور آڈیو ریکارڈنگ سمیت کئی ایک ثبوت بھی فراہم کیے۔ اب کمیشن کے سامنے انکشافات کا انبھار لگ چکا تھا، سابق کرکٹرسرفراز نواز کے مطابق 1987ءکا پاک آسٹریلیا سیمی فائنل فکس تھا، پھر 1994ءمیں سری لنکا کے خلاف کھیلا گیا ایک میچ بھی کہ جس میں 79 رنز تک پاکستان کا صرف ایک کھلاڑی آو¿ٹ تھا اور کچھ ہی دیر میں پوری ٹیم 149 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔سرفراز نواز کے بقول اس میچ کے لیے سلیم ملک کو سٹے بازوں نے 40 لاکھ روپے دیے تھے۔ پھر سابق کوچ انتخاب عالم نے بتایا کہ 1994ءمیں شارجہ فائنل سے پہلے انہیں فون کالز موصول ہوئیں کہ میچ فکس ہے۔ اس موقع پر انہوں نے سب کھلاڑیوں کو اکٹھا کیا اور ان سے قرآن مجید پر حلف لیا۔ انتخاب عالم کا بھی کہنا تھا کہ کرائسٹ چرچ میں ہونے والا پانچواں ون ڈے فکس تھا۔ انہوں نے ان افواہوں کی بھی تصدیق کی کہ جنوبی افریقہ میں منڈیلا کپ کے 2 فائنل میچ بھی پاکستان جان بوجھ کر ہارا تھا۔پھر عامر سہیل پیش ہوئے جنہوں نے کمیشن کو بتایا کہ ورلڈ کپ 1996ءکا پاک بھارت کوارٹر فائنل وسیم اکرم کی وجہ سے ہارے تھے، انہوں نے بتایا کہ اس اہم میچ سے پہلے وسیم اکرم ایک نائٹ کلب بھی گئے تھے۔ جب عامر سہیل نے پوچھا تو وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ وہ میچ کھیلنے کے لیے فٹ ہیں اور اس اہم میچ کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے علاوہ ہر اہم مقابلے سے پہلے ایک ٹیم میٹنگ ہوا کرتی تھی، جو پاک بھارت کوارٹر فائنل سے پہلے نہیں ہوئی۔ عامر سہیل کے مطابق انہیں میچ سے صرف 5 منٹ پہلے بتایا گیا کہ قیادت ان کے ہاتھ میں ہوگی کیونکہ وسیم اکرم یہ میچ نہیں کھیلیں گے۔ عامر سہیل کے خیال میں وسیم اکرم ایک دن پہلے تک مکمل فٹ تھے، مگر میچ فکسنگ کی وجہ سے وہ نہیں کھیلے۔ اس معاملے کو سامنے لانے والے اہم کردار راشد لطیف کا کہنا تھا کہ دورہ نیوزی لینڈ 1994ءمیں کرائسٹ چرچ پانچویں ون ڈے سے پہلے سلیم ملک نے انہیں 10 لاکھ روپے دیے اور میچ ہارنے کی پیشکش کی۔ اس وقت کمرے میں 5 دوسرے کھلاڑی بھی موجود تھے۔ راشد لطیف نے تو یہ رقم لینے سے انکار کردیا لیکن پاکستان یہ میچ ہار گیا اور ان کے مطابق وہ میچ جان بوجھ کر ہارا گیا اور اس کے ذمہ دار وسیم اکرم اور سلیم ملک تھے۔راشد لطیف کے مطابق اس میچ کے دوران جب انہوں نے وقار یونس کی گیند پر برائن ینگ کا کیچ پکڑا تو سلیم ملک نے ان کی سرزنش کی اور کہا کہ ہمیں یہ میچ ہر صورت میں ہارنا ہے۔ راشد لطیف کے مطابق یہ میچ پاکستان جان بوجھ کر ہارا اور اس کے ذمہ دار وسیم اکرم اور سلیم ملک تھے۔ الغرض تحقیقات مکمل ہونے پر سلیم ملک اور عطا الرحمان تاحیات پابندی کے سزاوار ٹھہرے، وقار یونس، مشتاق احمد، وسیم اکرم، انضمام الحق، اکرم رضا اور سعید انورپر جرمانے ہوئے۔ شکوک کی زد میں آنے والے بیشتر کھلاڑیوں کو آئندہ پاکستان کرکٹ میں اہم ذمے داریاں نہ دینے کی بھی سفارش ہوئی تھی لیکن سب ایک ایک کرکے عہدے حاصل کرتے گئے، وقار یونس کئی بار کوچ بن چکے، ان کے بارے میں عاقب جاوید کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ بکیز سے پجارو جیپ لی تھی ۔لیکن وہ ایک عرصہ تک پاکستان کے کوچ رہے اور ابھی حال ہی میں انہوں نے رمیز راجہ کے آنے کے بعد عہدہ چھوڑا ہے۔ پھر مشتاق کئی بار قومی ٹیم کے بولنگ کوچ بنے اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی سے وابستہ رہے، وسیم اکرم پی ایس ایل کے سفیر اور اسلام آباد یونائٹیڈ کے ٹیم ڈائریکٹر ہیں جس کے تین کھلاڑی اسپاٹ فکسنگ میں پکڑے گئے،انضمام الحق بھی بڑے بڑے عہدوں پر براجمان رہے۔ اسی وجہ سے بورڈ کی کمزور پالیسی کے سبب 2010 کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل بھی سامنے آیا، سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف اسٹنگ آپریشن میں پکڑے جانے پر جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہوئے۔ بہرکیف باتیں بہت سی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم کب سدھریں گے؟ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پی سی بی کے بیک اینڈ پراصل چیئرمین آج بھی وسیم اکرم ہے جو باہر بیٹھ کر بورڈ کو چلا رہا ہے، مجھے وسیم اکرم، سلیم ملک یا دوسرے سزا یافتہ کھلاڑیوں سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں لیکن جب آپ ایسا کرتے ہیں تو یقینا آپ کے ادارے کی دنیا بھر میں عزت نہیں ہوتی، دنیا بھر میں آپ کا کوئی سٹیٹس نہیں ہوتا، آپ سے چیزیں مینج نہیں ہوتیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ ہماری کرکٹ اس لیے آج تک آگے نہیں بڑھ سکی، کیوں کہ ہم جواریوں کو عزت دیتے ہیں، اور جو ایمان دار تھے، اُنہیں کوئی صلہ نہیں دیتے۔ تبھی ہمارے بورڈ کی ناتو عزت ہے اور نہ ہی اُسے وہ وقار حاصل ہے جو دوسرے بورڈز کو ہے، حالانکہ بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کی صرف ایک دھمکی نے نیوزی لینڈ کو بم دھماکوں کے باوجود بنگلہ دیش کا دورہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن بات پھر وہی کہ جب حالات ہمارے اندر کے خراب ہوں اور جوا مافیا آج بھی سرگرم ہوتو آپ کسی دوسرے ملک سے کیا شکوہ کر سکتے ہیں؟ #Cricket #Justice Abdul Qayyum's report #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan