ہمارا طرز عمل بھی ”کوفے “والوں سے مختلف نہیں!

واقعہ کربلا میں سب سے اہم کردار ”کوفہ“ والوں کا آتا ہے، یہاں سب سے بڑا طبقہ اُن عوام کا تھا جو جو اپنی وفاداری کے لحاظ سے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ہمدرد تھے مگر مصلحت پسندی، معاملے کی سنجیدگی سے لاعلمی یا خوف کے تحت خاموش رہے۔یہ وہ خاموش اکثریت تھی جن میں سے کچھ تو واقعہ کربلا کے بعد توابین کی شکل میں اور کچھ مختار ثقفی کی معیت میں اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کھڑے ہوئے۔ ایک بڑی تعداد پھر بھی ایسی رہی جنہوں نے اس ہنگامہ خیزی میں کسی قسم کے بھی مشکل فیصلوں سے گریز کیا۔یہ وہ بے حس ٹولہ تھا جو ایمان کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بزدلی کی وجہ سے کوفی کہلایا۔نہج البلاغہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخاطَب بھی یہی لوگ تھے، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا بازارِ کوفہ میں خطبہ بھی انہیں کے نام تھا اور امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا اشارہ بھی اسی مصلحت پسند اکثریت کی طرف تھا۔ لیکن آپ یہ دیکھیں کہ جس طرح کوفہ والے آج بھی تنقید کی زد میں ہیں، اور اُنہیں تاقیامت ہدف ِتنقید بنایا جائے گا ، اسی طرح امام حسین ؓ کے قاتلوں کو ظالم کے طور پر یاد رکھا جائے گا، یہ لوگ(یزید) وقتی طور پر تو کامیاب ہو سکتے ہیں مگر تا ابد انہیں ناکامی ہی رہتی ہے۔ جیسے جس خاندان نے حضرت امام حسین ؓ کو شہید کیا تھا، 100سال بعد اُس کا نام و نشان بھی نہیں تھا، وہ تمام بچوں سمیت قتل کر دیے گئے تھے، اس لیے یزیدیت کا انجام آخر برا ہے ۔ آپ یہی نہیں دنیا کے ظالم حکمرانوں کو دیکھ لیں جو وقتی طور پر کامیاب ہوئے مگر تاقیامت اُنہیں ظالمین میں گنا جائے گا۔ پھر آپ یہ دیکھیں آج ہٹلر کی اولاد کہاں پر ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ آپ ہٹلر کو نہیں بلکہ جوزف سٹالن کو دیکھ لیں، یہ سابقہ سویت یونین کا ایک انقلابی سیاست دان تھا۔ اس کا تعلق جارجیا سے تھا۔ وہ 1920ءکی دہائی کے وسط سے لے کر1953ءمیں اپنی موت تک سوویت یونین (روس) کا حکمران رہا۔اس نے دوکروڑ افراد کا قتل کیا۔ بعد میں اس کی اولاد کی اولاد تک کو قتل کر دیا گیا اور آج تک اس کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔آپ آندریا موسولینی کو دیکھ لیں جو اٹلی کے وزیر اعظم تھے جن کا دور اقتدار 1922ءسے 1943ءتک کے عرصہ پر محیط ہے۔ انہوں نے اٹلی میں فاشسٹ حکومت قائم کی اور نیشنلزم، فوجی طاقت پر مرتکز اور غیر کمیونزم حکومت کے ساتھ ساتھ سخت قوانین متعارف کرائے۔ ایک جیسے خیالات کے حامی ہونے کی وجہ سے وہ جرمنی کے آمر اڈولف ہٹلر کے قریبی ساتھی بنے۔آپ نادر شاہ ، حجاج بن یوسف کی تاریخ کو پڑھ لیں۔ الغرض آج جتنے بھی ظالم حکمران آئے ہیں، اُن کی اولادیں کہاں ہیں؟اُنہیں کوئی نہیں جانتا۔ لہٰذایزید کے لیے ساری زندگی لوگوں نے گالیاں ہی دینی ہیں جبکہ حسین ؓ کے لیے ہمیشہ سینہ کوبی ہی کرنی ہے۔ اس لیے پاکستانی یزیدوں کو بھی سوچنا چاہیے، اور چونکہ پاکستانی یزیدوں کی زندگیاں محض دس بارہ سال کی رہ گئی ہیں، اُس کے بعد بھی انہوں نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ اس لیے ابھی بھی وقت ہے کہ سوچیں اور خدا کا خوف کریں، اور یہ جو اربوں روپے کمائے ہیں، یہ ساتھ نہیں جانے ، یہیں رہ جانے ہیں، قارون اپنی ساری دولت چھوڑ کر مرا تھا۔ رہنا ہم نے بھی نہیں ہے۔ اس لیے کردار ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ تاقیامت ہمیں یاد رکھیں، تاریخ میں ہم زندہ رہیں۔لیکن اس کے برعکس ہم سب نے مل کر ایسا معاشرہ تشکیل دیا ہے جہاں صرف مفاد پرستی ہے، جہاں ہر کوئی اپنے مفاد کی خاطر کسی کو بھی نقصان پہچانے سے گریز نہیں کرتا۔ جہاں انصاف برائے نام رہ گیا ہے، جہاں غریب کے لیے انصاف اور ہے اور امیر کے لیے اور۔ جہاں امیر کے لیے رات 12بجے بھی عدالتیں کھل جاتی ہیں جبکہ غریب بے گناہ بیسیوں سال جیل کی سلاخوں میں رہتا ہے۔ جہاں درجنوں مسافروں کو بسوں سے اتار کر، فرقے کی شناخت کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے، لیکن زبانوں سے اف تک نہیں کی جاتی کہ قتل ہونے والوں کا تعلق اپنے مسلک سے نہیں۔جہاں پسند کی شادی پر لڑکیاں جلا دی جاتی ہیں اور ایف آئی آر کٹوانے سے اس محلے کا داروغہ انکار کر دیتا ہے، کہ غیرت کا مصنوعی معیار انسانی جان کے تقدس سے زیادہ پختہ تر ہے۔ قصہ مختصر کہ کوفہ زندوں کے اس خاموش قبرستان کا نام ہے جہاں قبروں کی تختیوں سے لفظ کھرچ دیے جاتے ہیں کیوں کہ اس قبر کے مردے نے مرنے سے پہلے اپنے ایمان کا سرٹیفیکیٹ فقیہہ شہر سے نہیں لیا تھا(ہر گز ہرگز یہ مثال میں نے فنکار امان اللہ کے لیے نہیں دی!) ۔بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ کوفہ اس بستی کا نام ہے جہاں محلے نظر آتش کر دیے جاتے ہیں کیوںکہ اس کے کسی ایک مکین نے مبینہ طور پر کسی دوسری بستی کے مکینوں کو ذہنی اذیت دی تھی۔بقول شاعر رہتے تھے دشت عشق میں کوفہ مزاج لوگ اور دشت کا بھی کرب و بلا سا مزاج تھا بہرحال ہم مانیں نہ مانیں مگر ہم سب کوفہ کے رہنے والوں کا عمل دہراتے ہیں۔ ہمارا کمال صرف یہ ہے کہ ہم ہر عہد کے یزید کے دربار میں بیٹھ کر گزرے یزید کو گالیاں دیتے ہیں۔جب بھی ہم کسی شادی میں شریک ہوتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ اس لڑکی کی شادی زبردستی، اس کی مرضی کے بغیر کی جا رہی ہے، تو ہم کوفہ کے رہنے والوں کا طرزِ عمل دہراتے ہیں۔ ہم کسی حافظ صاحب کی خوش الحانی کی تعریف میںزمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ اس کے مدرسے کے نلکے سے 9 سال کا بچہ ساری رات بندھا رہا کیوں کہ اس نے تجوید کے قاعدوں میں غلطی کی تھی، تو ہم کوفہ والے بن جاتے ہیں۔ جب ہم کسی عورت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے مار پیٹ کرنے والے شوہر کے پاس واپس چلی جائے کیوں کہ ہماری مشرقی روایات یہ کہتی ہیں، تو ہم کوفہ والوں کی صفوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔جب ہم بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہ ملتا دیکھیں، جب ہم ہاری کی زمین پر وڈیرے کو غاصب دیکھیں، جب ہم پردیس میں پھٹنے والے کسی بم پر خوشیاں منائیں، اپنے ہم عقیدہ قاتل کی ”شہادت“ کی برسیاں منائیں، پولیس والے کو بے گناہ کو پنکھے سے لٹکاتا دیکھیں، بچوں کا جنسی استحصال کرتے ”معززین“ کی کہانیاں دروازے کی دہلیز سے باہر نہ جانے دیں اور سب کچھ جانتے بوجھتے اور غلط سمجھے ہوئے بھی کچھ نہ کریں تو ہم سب کوفی بن جاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی عافیت کے کوفوں میں آباد ہیں، خاموش تماشائیوں کی طرح۔ ہماری باتیں، ہماری عبادتیں، ہماری ریاکار پارسائی کوفہ کے ان باسیوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چھپے خدا سے اپنی مرضی کے ان گناہوں کی بخشش مانگ رہے تھے جن کی شاید خدا کو پروا بھی نہیں تھی۔لیکن اس دوران ظلم دیکھ کر خاموش رہ کر اتنا بڑا گناہ کر گئے جس سے رہتی دنیا تک چھٹکارہ پانا ممکن نہیں۔اگر ہر دور کے کوفی خاموش رہنے کے بجائے اپنا اپنا فرض ادا کریں، تو شاید 61 ہجری کے بعد سے اب تک ہونے والی کئی کربلائیں وقوع پذیر نہ ہوئی ہوتیں اور آج ہم اس حال میں نہ ہوتے! بہرکیف آج 10محرم ہے اور اس دن کو ہر سال حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے غم میں منایا جاتا ہے، لیکن وہ مقصد جس کے لیے انہوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں قربان کیں اس کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کی یہ عظیم قربانی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اُس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس کے مخالف کام کرتے رہیں تو ان کی ذات اور خاندان کے لیے گریہ وزاری، ان کے قاتلوں پر لعن طعن سے نہ وہ قیامت کے دن خوش ہوں گے اور نہ دنیا و آخرت میں ربّ العزت ہمارے اس عمل کی قدر افزائی کرے گا۔ یہ ضروری ہے کہ اس کے بارے میں سوچ و بچار کے بجائے کہ شہادت حسین کا مقصد کیا تھا؟امام حسینؓ کو جس چیز نے بے چین و بے قرر کرکے مدینے سے کوفے کو روانہ کیا تھا وہ دین کی بنیاد میں تبدیلی تھی۔ خلافت کو بادشاہت میں بدلنے کی جسارت تھی۔ آج بھی ایسے حکمران یزید کے وارث ہیں جو سیاست اور ریاست کے نام پر دین کی خصوصیات کو بدلنا چاہتے ہیں۔ امام حسینؓ نے حق کے غلبے کے لیے جان دی۔ انہوں نے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خاندان کو حق کی راہ میں قربان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ امام حسینؓ نے تو اقبال کی زبان میں دنیا کو یوں حقیقت بتادی کہ برتراز اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا کہ اس کی حکومت بادشاہت کا آغاز تھی۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ اپنی قوم کو بچانے کے لیے بیش قیمت سیاسی نظام کو بچانے کے لیے یہ کوئی مہنگا سودا نہ تھا۔آج بھی ہم اگر حکمرانوں کے غلط اقدام کے خلاف اپنے آپ کو مضبوط کریں تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ مستقبل میں پاکستان کے استحکام کو شرف بخشے گا ۔ ورنہ ہم اگر مصلحت پسندی کی وجہ سے خاموش رہے اور کوفے والے بن گئے۔ تو تاریخ میں ہمارا مذاق بنے گا اور ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے!