زندہ رہنا ہے تو ”ماحول“ کو زندہ رہنے دیں!

اگر آپ لاہوریا پنجاب کے کسی دوسرے شہر میں رہ رہے ہیں تو یقینا آپ اس دردناک کرب سے ضرور گزر رہے ہوں گے کہ ہم اپنے اندرسانس کے ذریعے زہر کا منبع لے کر جا رہے ہیں۔ اس قدر آلودگی تو ہم نے شاید زندگی میں کبھی نہیں دیکھی جتنی چند سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اور پھر یہ کس قدر ”اعزاز“ کی بات ہے کہ اس بار بھی ہم نے آلودگی میں ٹاپ کیا ہے۔ یعنی ہم کرہ ارض پر موجود 10ہزار شہروں میں سے آلودگی کے حوالے سے ایک بار پھر ”فشٹ“ آئے ہیں، اور ائیر کوالٹی انڈکس میں ہم نے ریکارڈ 372پوائنٹ حاصل کیے ہیں۔ حالانکہ نارمل ائیر کوالٹی انڈکس 0سے 50کے درمیان میں ہونا چاہیے، لیکن ہم تو پھر ہم ہیں۔اور ہم تو دریاﺅں میں آلودگی کا معاملہ ہو، نہری نظام میں فیکٹریوں کے زہریلے پانیوں کی ملاوٹ ہو یا سبزیاں کیمیکل والے پانی سے اُگائی جا رہی ہوں،ہم ہمیشہ سے ہی ”فشٹ “ آتے رہے ہیں۔ حالانکہ اس کے برعکس دنیا کے مصروف ترین شہر نیویارک کا ائیرکوالٹی انڈکس 41اور لندن جیسے شہر کا ائیر کوالٹی انڈکس 37ہے۔ جبکہ ہم ان شہروں سے آلودگی میں دس گنا آگے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں قصور محکمہ ماحولیات ، حکومتی پالیسیوں اور ان منصوبہ سازوں کا ہے جو اپنی دیہاڑیاں لگانے کے لیے انڈسٹری کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کروانے سے قاصر رہتی ہیں۔ تبھی آج 12کروڑ آباد والا صوبہ پنجاب دل، پھپھڑوں کے امراض کا مرکز بنا ہوا ہے۔ خیر ہمارا آج کا موضوع لاہور شہر کی فضائی آلودگی پر تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ دو ہفتوں سے جاری گلوبل وارمنگ پر ”کوپ 26“ یعنی ”یونائیڈ نیشنز کلائمیٹ چینج“ کی26ویں کانفرنس ہے،جس میں 200ممالک کے نمائندے شریک تھے، یہ کانفرنس گزشتہ روز نم آنکھوں کے ساتھ ختم ہوگئی،نم آنکھیں کیوں؟ اس حوالے سے تو بعد میں بات کریں گے مگر سب سے پہلے اس کانفرنس کے مقصد اور اس میں پاکستان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔درحقیقت ماحولیاتی تبدیلی سے مراد کہ جب سے انسان نے تیل، گیس، کوئلہ اور دیگر معدنیات زمین سے نکال کر استعمال کرنا شروع کی ہیں تب سے زمین پر موجود گیسوں کی مقدار کے تناسب میں فرق آگیا ہے، جیسے کوئلہ، گیس یا آئل جلنے سے دھواں( کاربن ڈائی آکسائیڈ) بنتا ہے جو فضاءمیں موجود آکسیجن کی مقدار کو کم کر دیتا ہے اور جب آکسیجن کم ہوتی ہے تو درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور پھر جب درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو زمین پر موجودہ بڑے بڑے گلیشئر پگھلنا شروع ہو جاتے ہیں اور جب گلیشئر پگھلتے ہیں تو سمندروں کی سطح بلند ہوجا تی ہے اور جب سمندروں کی سطح بلند ہوتی ہے تو بڑے بڑے طوفان ، سونامی یا سیلاب جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرمیوں میں درجہ حرارت جب نارمل سطح سے اوپر جاتا ہے تو یہ انسانی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ جو لوگ 45ڈگری سنٹی گریڈ تک گرمی برداشت کرنے کے عادی ہیں، انہیں جب 50ڈگری میں لے جایا جائے گا تو اُن کی ہیٹ ویو کی وجہ سے موت ہونے کے امکانات 90فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔پھر سائبیریا جیسی جگہوں پر منجمد زمین پگھل رہی ہے، جہاں سے میتھین جو ایک گرین ہاو¿س گیس ہے فضا میں خارج ہورہی ہے، جس سے موسمیاتی تبدیلی کی صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔پھر دنیا بھر میں درختوں کو جلایا یا انھیں بے دردی سے کاٹا جارہا ہے تو عام طور پر ان میں کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے، اُس کا اخراج ہوجاتا ہے۔ اور پھر سائنسدانوں کے مطابق اگر یہی صورتحال رہی تو سب سے پہلے دنیا بھر میں موجود چھوٹے چھوٹے جزیرے سمندر میں غرق ہو جائیں گے پھر سمندری ممالک جیسے برطانیہ انتہائی بارش کی وجہ سے سیلاب کے خطرے سے دوچار ہو جائے گا، یعنی بحر الکاہل کے نشیبی جزیروں والے ممالک بڑھتی سطح سمندر کی وجہ سے پانی کے نیچے غرق ہو سکتے ہیں، بہت سے افریقی ممالک خشک سالی اور خوراک کی قلت کا شکار ہوں گے، شمالی امریکہ میں بگڑتی خشک سالی کی وجہ سے مغربی حصے متاثر ہوں گے جبکہ دیگر علاقوں میں اضافی بارش اور زیادہ شدید طوفان آنے کا امکان ہے اس کے علاوہ آسٹریلیا کا سخت گرمی اور شدید خشک سالی کی لپیٹ میں آنے کا امکان ہے۔ یعنی خطرہ صرف پنجاب یا لاہور کو نہیں بلکہ پوری دنیا خطرے کی لپیٹ میں آچکی ہے اور پھر جب پوری دنیا کوئلے سے چھٹکارہ حاصل کر رہی تھی تو عین اُس وقت ہماری سابقہ حکومتوں نے کوئلے سے بجلی حاصل کرنے والے بجلی گھر مہنگے داموں خرید لیے اور اب جب دنیا کوئلے کو جلانے پر پابندی لگا رہی ہے تو ہمیں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ خیر انہی چیلنجز سے نمٹنے، امیر ممالک کو کوئلہ جلانے سے روکنے اور دیگر ممکنہ اور مہیب خطرے سے بچانے کے لیے ہی ہر سال یہ اجلاس منعقد کیا جاتاہے۔اس کے 197 شرکا اقوام متحدہ کے رکن ممالک ہیں،ان کے علاوہ چند دیگر شرکا بھی ہیں جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں۔ اس میںیورپی یونین کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ تمام شرکا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کی حمایت کرتے ہیں۔اس بار چونکہ کورونا وائرس کے بعد یہ اجلاس منعقد کیا گیا تھا اس لیے اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی تھی کیوں کہ اس بار یہ بات بھی زیر بحث آنا تھی کہ اگر ہم نے درجہ حرارت بڑھنے والی وجوہات کو کنٹرول نہ کیا تو ماحول میں بگاڑ پیدا ہوگا اور کورونا جیسی وبائیں انسانی زندگی کو ختم کر سکتی ہیں جس کا ثبوت سب نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا ہے۔ اور پھر اس لیے بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل تھی کہ 2021ءکی سٹیٹ آف کلائمیٹ رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلی کے اشاروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں بڑھتے درجہ حرارت، شدید موسمی حالات، سمندری سطحوں میں اضافے اور سمندروں کی صورتحال شامل ہیں۔اس میں کہا گیا ہے کہ دنیا ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہی ہے۔ 2002ءسے اب تک 20 سالہ اوسط درجہ حرارت صنعتی دور کے آغاز سے پہلے کے مقابلے میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہونے والا ہے۔ بہرکیف کوپ 26ختم ہوئی اور اعلامیہ جاری کیا گیا کہ تمام ممالک آہستہ آہستہ کوئلے کے استعمال کو ترک کریں گے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ کوئلہ ہر سال تقریباً 40 فیصد کاربن کے اخراج کا مو¿جب بنتا ہے اور اس لیے یہ درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھنے کے لیے مرکزی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔جبکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئلہ استعمال کرنے والے ممالک غریب نہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین ممالک سب سے زیادہ کوئلہ جلا کر کاربن بنا رہے ہیں جن میں چین سرفہرست دوسرے نمبر پر انڈیا، تیسرے پر امریکا، چوتھے پر روس، پانچویں پر جرمنی، چھٹے پر جنوبی کوریا، ساتویں پر جاپان، آٹھویں پر پولینڈ، نویں پر ترکی اور دسویں نمبر پر انڈونیشیا ہے۔ اب کوپ 26کا آرگنائزر اقوام متحدہ تھا اور کوپ 26کے صدر آلوک شرما تھے، جنہوں نے کانفرنس کے آخری دن اپنی نم آنکھوں کے ساتھ معاہدہ پڑتے ہوئے کہا کہ جس طرح واقعات رونما ہوئے اس پر انھیں ’بہت زیادہ افسوس‘ ہے۔انھوں نے آنسوو¿ں کو ضبط کرتے ہوئے مندوبین کو بتایا کہ مجموعی طور پر معاہدے کی حفاظت کرنا بہت ضروری تھا۔وہ افسردہ اس لیے تھے کہ کوئی بڑا ملک کوئلہ ترک کرنے کو تیار نہیں تھا، یعنی کوئی بڑا ملک جو اس وقت تباہی کا باعث بن رہا ہے یہ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا کہ اُس کی لاکھوں فیکٹریوں پر مشتمل انڈسٹری فضاءکو آلودہ کرنے میں کردار ادا کررہی ہے۔ تبھی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریز نے کہا کہ ہمارا نازک سیارہ(زمین) ایک دھاگے سے لٹک رہا ہے۔ ہم اب بھی موسمیاتی تباہی کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ خیر ہم واپس آتے ہیں وطن عزیز اور پنجاب میں پھیلی سموگ اور حکومتی کارکردگی کی طرف، تو یہ بات حکومت کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کی مذکورہ بالا کانفرنس میں تعریف بھی ہوئی ۔ خاص طور پر کے پی کے میں لگائے جانے والے درختوں کے منصوبے کو موضوع بنایا گیا۔ لیکن دوسری جانب پاکستان میں پچھلی ایک دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمیاتی واقعات بشمول سیلاب، قحط سالی، گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب، سائیکلون اور ہیٹ ویو کے باعث نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور ملکی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اور یہ نقصان ہماری اپنی غلطیوں کے باعث بھی ہے۔ جسے ہم آسانی سے دور بھی کر سکتے ہیں، جیسے ہم جو کوڑا اکٹھا کرتے ہیں اسے آگ لگانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، وہ چاہے بلدیاتی حکومت کے ادارے ہوں یا انفرادی طور پر عوام، ہم کوڑا جلا دیتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک پلاسٹک بیگز ہیں جو اگر جلتے ہیں تو ہوا کو زہریلا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے تمام چھوٹے ، بڑے شہروں کے قریب بڑی تعداد میں فیکٹریاں لگائی جا رہی ہیں اور اس عمل میں تمام ماحولیاتی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔جگہ جگہ فیکٹریاں بننے کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں کئی اقسام کے کینسر، پھیپھڑوں اور جگر کی بیماریاں عام ہیں۔ حکومت ان کرم کش کیمیکلز کے استعمال کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ لگ بھگ زراعت میں استعمال ہونے والی تمام کرم کش ادویات ملٹی نیشنل کمپنیاں بناتی ہیں۔ ادھر بے شمار ہاو¿سنگ اسکیمیں زرعی زمینوں کو ختم کرکے بنائی جارہی ہیں ، دولت کی ہوس میں لوگ اندھے ہوگئے ہیں ، بحیثیت قوم ماحول دشمنی میں ہم اپنا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔دھند جیسی نظر آنے والی اسموگ میں سلفر، لیڈ، میتھین سمیت بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتی ہے ، اسموگ کا مسئلہ پورے ملک بالخصوص صوبہ پنجاب میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی اور تباہ کن گلوبل وارمنگ کے حوالے سے عوام میں آگاہی اور شعور بیدارکیا جائے ، کیونکہ یہ مسئلہ ہماری نسلوں کی بقا سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم ”مردہ ماحول“ میں رہیں گے اور ہر سال ”ماہ اسموگ “ منا کر اور طفل تسلی دے کر خود بری الذمہ ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ یہ سب کچھ ”گلوبل وارمنگ“ کا ہی کیا دھرا ہے۔ #Pakistan #Smog #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan