عید الاضحیٰ : دکھاوے کی قربانی کیوں؟

عید لاضحی ہمارا مذہبی تہوار جسے ہم سنت ابراہیمیؑ کی یاد میں مناتے ہیں۔ اس اسلامی تہوار کی عالم اسلام میں تیاریاںپورے زور شور سے کی جاتی ہیں،گھر گھر قربانی کے جانورقربان ہونے کے منتظر ہوتے ہیں۔کئی ممالک میں تو اس حوالے سے خاصے بہتر انتظامات ہوتے ہیں مگر پاکستان سمیت کئی ممالک میں اس حوالے سے سخت بد انتظامی دیکھنے کو ملتی ہے۔تین دن قربانی کے بعد گلی گلی کا منظر ”قابل دید“ ہوتا ہے۔ہر جگہ جانوروں کی آلائشوں کا ڈھیر آپ کا منتظر ہوتا ہے جن سے بدبو بھی پھیلتی اور ماحول بھی آلودہ ہوتا ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ جانور سعودی عرب میں حج کے بعد قربان کیے جاتے ہیں مگر جانوروں کو مذبح کرنے کا ایسا شاندار انتظام موجود ہوتا ہے کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے، نہ کہیں تعفن، نہ کہیں الائشیں اور نہ ہی کہیں گلی گلی قربان گاہیں آپ کو نظر آئیں گی۔ خیر یہ تو ایک الگ بحث ہے مگر ہمارے اندر جو چیز سب سے زیادہ پروان چڑھ رہی ہے وہ ہے دکھاوے کی قربانی ۔ حالانکہ مقصد جتناعظیم ہوتاہے قربانی بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔ لیکن اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے قربانی کا پیغام دیا تھا ہم اس سے کس قدر کنارہ کش ہو چکے ہیں، دوسروں کے حقوق چھین کر اور جھوٹ بول کر ”قربانی“ دینے سے یا محض قرب و جوار میں اپنا سٹیٹس سمبل بحال رکھنے کے لیے نہ تو ثواب ملتا ہے اور نہ قربانی کے اصل مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ کہ پاکستان تیسری دنیا کا ملک ہے یہاں کی 60فیصد آبادی غریب ترین ہے، عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 70 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی لکیر کے لیے عالمی پیمانہ دو امریکی ڈالر روزانہ آمدنی ہے، یعنی تقریباً 4سو پاکستانی روپے۔اس رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کی 21 فیصد آبادی میں لوگوں کی روزانہ آمدنی 1.25 امریکی ڈالر سے بھی کم ہے۔ 30فیصد جو خط غربت سے اوپر زندگی گزار رہے ہیں ان کا معیار زندگی بھی دیکھ لیں.... ان میں سے ایک فیصد شاہانہ زندگی گزار رہا ہے 20فیصد تنخواہ دار طبقہ ہے اور 9فیصد چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے لوگ ہیں، اب ایسے حالات میں آپ مجھے بتائیں کہ ان میں سے کتنے فیصد لوگ اپنی ”ناک“ رکھنے کی خاطر قربانی دے رہے ہیں اور کتنے فیصد خالص اللہ کی رضا کے لیے؟ حالیہ عیدِ بقر میں 60ہزار سے تین لاکھ روپے تک کا بکرا، 80ہزار روپے سے 10لاکھ روپے تک گائے اور اونٹوں کے ریٹ اس سے بھی زیادہ ہیں اور میں حیران ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص یہ جانور خرید کیسے سکتا ہے؟ اپنے گلی محلے سے آپ کا گزر ہوا ہو گا تو یقیناََ آپ کو ہر دوسرے گھر میں ”قربانی“ بندھی ہوئی نظر آئی ہوگی۔ کیا غریب، کیا امیر، کیا سفید پوش، کیا سرخ پوش، کیا تاجر، کیا سرکاری ملازم، کیا دوکاندار، کیا بینکار، کیا سبزی فروش، الغرض سبھی قربانی جیسے فریضے کو ادا کرنے کی ”استطاعت“ رکھتے ہیں۔ میں حیران اس لیے نہیں ہوں کہ اللہ کی راہ میں زیادہ جانور قربان کیوں کیے جارہے ہیں؟ حالانکہ میں کون ہوتا ہوں قصائیوں و نیم قصائیوں قربانی سے منع کرنے والا۔ لیکن میں ورط حیرت میں ضرور اس لیے بھی ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص رزق حلال سے کیسے قربانی کا جانور خرید سکتا ہے؟ مجھے کوئی بتا دے کہ ایک شخص جس کی تنخواہ 50ہزار روپے ماہانہ ہے، اس نے انہی پیسوں میں سے گھر کا کچن چلانا ہے، بچوں کے سکول کی فیس ادا کرنی ہے، دودھ والے کو پیسے دینے ہیں، اپنا روز مرہ کی سواری کا خرچ چلانا ہے وغیرہ اور جب کوئی تہوار آتا ہے جیسے عیدین وغیرہ تو پورے خاندان کے لیے نئے کپڑے، جوتے وغیرہ خریدنے پڑتے ہیں یعنی 50ہزار روپے کا اضافی خرچہ اسے برداشت کرنا پڑتا ہے تو ایسے میں ایک ایماندار آدمی کے لیے یہ کیسے ممکن ہوتا ہے کہ وہ حلال کمائی میں سے 30سے 50 ہزار کا قربانی کا جانور خریدے۔ 50ہزار روپے یا اس سے کم تنخواہ والے کو چھوڑیں، کوئی 17ویں، 18ویں یا 20گریڈ کا آفیسر بھی اپنی حلال کمائی میں سے کیسے قربانی دے سکتا ہے؟ مثلاََ اگر آپ کی تنخواہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے بھی ہے تو ذرا بتائیں کہ اس تنخواہ میں گھر کا کچن چلے گا، بچوں کی فیسیں دیں گے، روز مرہ کے اخراجات و یوٹیلٹی بلز دیں گے یا قربانی کریں گے؟ اور پھر اگر آپ کی قربانی میں ایک پائی بھی حرام پیسوں کی شامل ہوگئی تو کس بات کی قربانی؟ ہمارے حالات تو بقول شاعر یہ ہیں کہ وہ جن کا شجرِ انا آندھیوں میں بھی نہ گرا بابِ ہوس کھلا تو ٹکڑوں پہ پل پڑے حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس معاشرے میں جہاں ہزاروں بچیاں غربت کی بنا پر اپنے ہاتھوں کے پیلے ہونے کی منتظر رہتی ہیں وہاں کئی کئی لاکھ کے پلے پلائے اور سجے سجائے جانور قربانی کے لئے خرید کر ٹی وی چینل کی بریکنگ نیوز کا درجہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یوں بھی فربہ پلے پلائے اور بھاری بھرکم سینگوں والا بکرا خریدنے کیلئے بندے کا اپنا بھی بھاری بھرکم اور جیب کا بھاری ہونا ضروری ہے۔لہٰذادنیا بھر میں بھی قربانی کا اہتمام ہوتا ہے مگر وہاں منظم انتظام کیا جاتا ہے۔ اگر بات ترکی کی کی جائے تو وہاں قربانی کرنے کے منظم طریقہ اور جدید سہولیات سے استفادہ کیا جاتا ہے.... آپ کہیں گلی محلے میں جانور کو ذبح وغیرہ نہیں کرسکتے....برطانیہ میں ان دنوں زیادہ مقبول طریقہ یہ ہے کہ اکثر حلال میٹ کی دوکانیں آپ کی طرف سے قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی سہولت فراہم کر دیتی ہیں۔پورے یورپ میں عید کے موقع پر عارضی ذبح خانے قائم کر دئیے جاتے ہیں جہاں لوگ قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، بلکہ اس مرتبہ تو یورپ کے بعض ملکوں میں عارضی موبائل ذبح خانوں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے قربانی دی.... آپ بھارت کی مثال لے لیں وہاں گائے کی قربانی کی تو ممانعت ہے مگر ہر ریاست کی جانب سے سرعام جانور کو ذبح کرنے پر بھی پابندی عائد ہے، آپ ریاست کی جانب سے مختص کیے گئے مذبح خانوں کے علاوہ کہیں جانور کو ذبح نہیں کر سکتے.... آپ اپنے ملک کے پرانے مشرقی پاکستان( بنگلہ دیش) کی مثال لے لیں وہاں ہر شہر کی انتظامیہ عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرنے کے لیے باقاعدہ کچھ جگہوں کا انتظام کرتی ہے ۔ تاکہ لوگ مخصوص جگہوں کے علاوہ کہیں قربانی نہ کریں ۔ وہاں بھی حکومت کی طرف سے رائج کردہ قربانی کا آن لائن نظام عوام میں مقبولیت اختیار کر رہا ہے ، اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ عوام کو سسٹم پر اعتبار آنا شروع ہوگیا ہے۔ بہرکیف ہم سب نے مل کر اس ملک کے سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے ، یہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی ذمہ داری ہے ، کہ ہم اپنی قربانی میں تقویٰ پرہیز گاری کو شامل کرکے جھوٹ اور کرپشن کو اس ملک سے نکال باہر پھینکیں، صفائی ستھرائی کا خود سے اہتمام کریں، ہماری حکومتوں کو اپنے عوام کے حالات بہتر کرنے کیلئے ایسے اقدامات بھی کرنا چاہئیں کہ وہ بے روزگاری اور غربت کے مسائل سے نکل کر عید کے تہواروں کی اصل خوشیوں کا بھی حصہ بن سکیں، قربانی میں بھی حکومتی سطح پر انتظامات ہونے چاہیئں ، حکومت کے پاس غریب عوام کا ڈیٹا موجود ہو۔ پھر حکومت کو تھر کے عوام تک گوشت پہنچانا چاہیے، اس کے علاوہ اُن جگہوں پر پہنچانا چاہیے جہاں ڈھیروں غربہ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ الغرض خدا کرے کہ ارض پاک پر خوشیوں کی جھومر اسی طرح ڈھلتی رہی اور امن وامان کے گہواروں میں عید کے تہوار کی طرح ہر آنے والا دن عید کی خوشیوں والا سورج طلوع کرتا رہے۔ اور حقیقی قربانی اس دن ہوگی جب لوگوں میں احساس پیدا ہوگا ورنہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ مار کرقربانی دی بھی تو کیا دی!!!