موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (کوپ27): پاکستان کی جیت ہے!

”کلائمیٹ چینج کانفرنس “ہر سال اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منعقد کی جاتی ہے، اور یہ سلسلہ 1995سے چلا آرہا ہے۔اقوام متحدہ اب تک 27کانفرنسز کا انعقاد کروا چکاہے۔ اس مرتبہ”موسمیاتی تبدیلی“ پر عالمی کانفرنس مصر کے ساحلی شہر، شرم الشیخ میں منعقدہوئی۔ رواں سال اور گزشتہ سالوں سے گلوبل وارمنگ نے جو رنگ دکھائے ہیں، اس سے شاید ہی کوئی ملک بچا ہو کہ اس کے سبب انسان کی توقعات سے زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں،جو عوام اور حکومتوں کے لیے ایک نئی آزمائش ہیں۔اس سال پاکستان میں 2ماہ تک مسلسل بارشیں ہوئیں اور ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا، یورپ، جہاں گرمی کا تصوّر بھی نہ تھا، نہ صرف شدید گرمی کی لپیٹ میں رہا، بلکہ موسمِ سرما کی طوالت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔برطانیہ جیسے ملک میں درجہ حرارت چالیس ڈگری سے بلند ہوا، جس کی وجہ سے حکومت کو کئی بار ہیٹ ویو الرٹ بھی جاری کرنا پڑا، تو دوسری جانب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات میں باقاعدہ شدید سردی کی لہر آئی۔رواں برس کے لیے بھی پیش گوئی کی گئی ہے کہ نومبر کے اختتام اور دسمبر کے آغاز میں سعودی عرب میں شدید سردی پڑے گی۔ اب صحراﺅں میں سردیوں کی شدید لہر اور برف باری سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کی بڑی دلیل اور کیا ہوگی، مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتِ حال بارشوں اور سمندری طوفان کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کے انتہائی جدید شہر نیویارک کو سمندری طوفان نے اس بری طرح نقصان پہنچایا کہ وہاں کا نظامِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔ذرا سوچیں کہ اگر نیویارک جیسا جدید شہر موسمیاتی تبدیلی کے وار سے نہ بچ سکا، تو پھر پاکستان کس کھاتے میں آتا ہے۔اس سال ملک میں غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے جو تباہی ہوئی، وہ ناقابلِ بیان ہے۔اسی طرح سالِ رواں کے آغاز میں مری میں جس نوعیت اور شدت کی برف باری ہوئی، اس سے بھی بڑی تعداد میں جانوں کا نقصان ہوا۔ حالاں کہ گزشتہ کئی برس سے مَری میں بس علامتی طور ہی پر برف باری ہو رہی تھی۔ خیر حالیہ ”گلوبل کلائمیٹ چینج کانفرنس کوپ 27“بھی انہی موضوعات کا گڑھ تھی۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اس دو روزہ تاریخی عالمی کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور امریکی صدر جوبائیڈن سمیت دنیا بھر کے 90سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت اور 35ہزار مندوبین (delegates) نے شرکت کی جس سے کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کیلئے یہ بھی اعزاز کی بات تھی کہ وزیراعظم شہباز شریف اس اہم کانفرنس کے ”کوچیئر “تھے۔ کانفرنس شہباز شریف نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ کلائمیٹ چینج ایک عالمی ذمہ داری ہے، موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہئے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ ہماری منصوبہ بندی سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم نے پاکستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کے باعث 30ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑااور پاکستان” موسمیاتی انصاف“کا منتظر ہے، عالمی برادری کو چاہئے کہ مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرکے کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں تباہ حالی کے شکار ملک پاکستان کی مالی مدد کرے۔ جہاں اچھا کام ہو وہاں اُسے سراہا جانا ہی ہماری روایات ہیں، لہٰذاتو راقم کبھی ن لیگی اور پیپلزپارٹی کی پالیسیوں کا معترف نہیں رہا مگر اس کانفرنس میں شیری رحمن نے اچھا کام کیا، انہوں نے اس کانفرنس کو یقینا پاکستان کلائمیٹ کانفرنس میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے لیے اُنہوں نے دوست ممالک کے ساتھ مل کر بہترین لابنگ کی۔ اس کا فائدہ ہمیں یہ ہوا کہ وہاں پاکستان کے لیے خاصی ہمدردیاں پائی گئیں۔ جبکہ وہاں حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان سے گئے ہوئے وفود اور سول سوسائٹی کے اراکین نے بھی اس میں خاصا حصہ ڈالا۔ مثلاََپاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق اور اُن کی ٹیم نے شرم الشیخ مصر میں کانفرنس کے دوران 7دن گزارے۔ وہاں انہوں نے روزانہ کی بنیاد پر مظاہرے کیے، مظاہروں میں جن مطالبات کو سامنے رکھا گیا اُنہیں دنیا بھر کے میڈیا نے خاصی کوریج دی۔ ان مطالبات میں سرفہرست پاکستان کے سیلاب متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی،پاکستان پر قرضوںکے خاتمے، تباہ شدہ فصلوں سے ہونے والے نقصان کے ازالے اور دنیا بھر میں استعمال ہونے والے ایندھن (کاربن) کی روک تھام جیسے مطالبات دنیا کے سامنے رکھے۔ فاروق طارق اور اُن کی ٹیم نے اپنے مطالبات میں دنیا کو اس حوالے سے بھی خبردار کیا کہ اگر دنیا نے توانائی حاصل کرنے کے متبادل ذرائع استعمال نہ کیے تو یہ دنیا جلد یا بدیر تباہ ہو جائے گی۔ اس حوالے سے اُن کے انٹرویوز نے عالمی میڈیا پر کوریج بھی حاصل کی، ٹائم میگزین، گارڈین ، وائس آف امریکا، بی بی سی اور دیگر عالمی نشریاتی اداروں نے اُن کے احتجاج کو بھی بھرپور کوریج دی۔ قصہ مختصر کہ اس کانفرنس کے اختتام تک دنیا بھر سے آئے ہوئے سربراہان اور مندوبین کے دل میں پاکستان کے لیے ہمدردی دیکھی گئی۔ بہت سے عالمی لیڈروں نے اپنی تقریروں میں پاکستان کا ذکر کیا اور کہا کہ حالیہ تباہ کاریوںنے پاکستان کو مزید کمزور کر دیا ہے، اور اس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ امیر ممالک کا ہے جو بے دریغ گلوبل وارمنگ کے خطرے سے نمٹے بغیر اندھا دھند کوئلے، گیس اور تیل کو جلا کر انرجی حاصل کر رہے ہیں۔ بلکہ ایک لیڈر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان اُن جرائم کی سزا پارہا ہے جو اُس نے کبھی کیے نہیں۔ بہرحال حالیہ کانفرنس جو سب سے اچھی چیز دیکھنے کو ملی وہ یہ تھی کہ وہاں حکومت اور سول سوسائٹی کے کمبی نیشن نے مثبت نتائج دکھائے۔ لہٰذاسوال یہ ہے کہ یہ معاوضہ پاکستان کو اب کون دے گا؟ اس حوالے سے ”فالواپ“ کون کرے گا؟ کیوں کہ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ ہم ”کلیم“ کرنے کے بجائے ذاتی فائدے حاصل کرنے میں ہی اکتفا کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر کہیں سے پاکستان کو کوئی فنڈ ملتا ہے تو یہ امیر ممالک کی طرف سے کوئی احسان نہیں ہوگا بلکہ وہ یہ فنڈ گلوبل وارمنگ میں اپنے حصے کے بدلے دے رہے ہوں گے۔ اور پھر ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ امیر ممالک فاسل فیول اور کاربن کے اخراج کے ذریعے گلوبل وارمنگ کا سبب بنتے ہیں جس سے پھر ماحولیاتی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، جیسا کہ پاکستان کو بڑے پیمانے پر سیلاب، ہیٹ ویو اور گلیشیئر کے پگھلاو¿ جیسی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس حوالے سے میں نے فاروق طارق سے پوچھا تو انہوں نے برملا جواب دیا کہ اب امیر ممالک ہر اس نقصان کو پورا کرنے کے ذمہ دار ہوں گے جو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کسی بھی غریب ملک کو تباہ کن سیلابوں، سونامی، یا شدید بارشوں سے ہوا ہو۔ ان کے مطابق اس فنڈ کا ابھی طریقہ کار طے ہوگا مگر پاکستان اس وقت توجہ کا مرکز ہے۔ بہرکیف اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے جس کی بڑی وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاﺅس گیسز کا بڑی مقدار میں اخراج ہے جس سے درجہ حرارت میں تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے بڑھتی ہوئی صنعتی و اقتصادی ترقی اور پٹرولیم مصنوعات کے بے دریغ استعمال کے باعث فضامیں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار مسلسل بڑھتی جا رہی ہے جو موسموں میں یک لخت او رغیر یقینی تبدیلیوں کا سبب بن رہی ہے۔ کرہ ارض کے قطب اور بلند پہاڑی سلسلوں میں پائی جانےوالے برف اور گلیشیرز ماحولیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت بڑھنے کے باعث تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے نتیجے میں سیلابوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا جس کیلئے غیر معیاری ایندھن کا استعمال، زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں سے گیسوں کے اخراج کی روک تھام کو یقینی بنانا ہوگا۔ اسی طرح جس مقام پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ نصب کئے جائیں، وہاں پلانٹ کے اطراف میں بڑی تعداد میں شجرکاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرسکیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنی آٹو موبائل انڈسٹری کی پالیسی میں بھی ترمیم کرنا ہوگی اور الیکٹرک گاڑیاں بنانے اور امپورٹ کرنے والی کمپنیوں کو سہولتیں اور مراعات دینا ہوںگی۔ حکومت کو چاہئے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں ملک گیر سطح پر آگاہی مہم کا آغاز کرے جسے تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے جبکہ ماحولیاتی تحفظ اور موسمی تغیرات کے منفی عوامل کی روک تھام کیلئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے،اگر ہم نے اس اہم مسئلے پر توجہ نہ دی تومستقبل میں زمین پر رہنے والی مخلوق کی زندگی اجیرن ہوکر رہ جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اجتماعی نقطہ نظر اپنایا جائے تاکہ پاکستان سمیت ان ممالک کی مدد کی جاسکے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کرہ ارض کی بقا کیلئے بنی نوع انسان کو غیر معمولی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اگر اس میں کوتاہی یا تاخیر کی گئی تو اس کا مزید نقصان بھی بنی نوع انسان کو ہی اٹھانا ہوگا۔اور رہی بات پاکستان کی حکومت کے لیے یہ واقعی جیت ہے، اور پھر جہاں شہباز شریف کی ٹیم نے اتنا ظرف دکھایا ہے وہاں یہ بھی دکھا دیں کہ اس کا فالو اپ کرتے رہیں ورنہ ہم اس کانفرنس کے ثمرات سے یقینا محروم رہ جائیں گے کیوں کہ ملکی سیاسی صورتحال میں حقیقتاََ کو ئی اس ملک کے بارے میں نہ سوچ رہا ہے اور نہ ہی کسی کو فکر ہے!