پرویز الٰہی تحریک انصاف کو چھوڑنے کی غلطی نہ کریں!

اس وقت ملکی سیاست 90کی دہائی سے بھی کمزور،گھمبیر اور اُلجھی ہوئی نظر آرہی ہے، ایسا اس لیے بھی ہے کیوں کہ اُس وقت معاشی حالات بہت بہتر تھے، اس لیے سیاسی اٹھک بیٹھک سے معیشت پر فرق نہیں پڑتا تھا، مگر آج تو حد ہی ہو گئی ہے کہ ایک طرف برآمدات کی مد میں پیمنٹس کرنے کے لیے ڈالر نہیں ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار کی ہوس ستائے جا رہی ہے۔ لیکن کوئی یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہے کہ جب تک سیاسی طور پر ملک مستحکم نہیں ہوگا تب تک ہم معاشی طور پر بھی ٹھیک نہیں ہو سکتے۔اگر آج کے خراب سیاسی حالات کی بات کریں تو ملک بھر میں سیاسی ہلچل کے بادل دکھائی دے رہے ہیں، ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی تاریخیں دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب پی ڈی ایم اسمبلیاں بچانے کی آپشنز پر غور کر رہی ہے۔جبکہ اسٹیبلشمنٹ بھی نیوٹرل ہونے کے ”دعوے“ کے بعد نسبتاََ خاموش ہوچکی ہے، اور پھر مہنگائی کے مارے عوام ان سیاستدانوں کے لیے ایسے ایسے کلمات استعمال کر رہے ہیں کہ خدا کی پناہ! خیر بات ہو رہی تھی دو صوبائی اسمبلیاں( پنجاب اور خیبر پختونخوا) توڑنے کی تو اس حوالے سے خان صاحب نے اعلان کیا ہے کہ اگلے جمعے کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں گے اوراس کے بعد ایک ساتھ قومی اسمبلی میں اسپیکر کے سامنے کھڑے ہو کر استعفے منظور کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ جبکہ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان صوبائی اسمبلی نے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر دستخط کردیے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے گورنر سے رجوع کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو اُس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا یہی سیاسی سٹیج لگا رہے گا جس پر مختلف نوعیت کے ڈرامے جاری رہیں گے یا2023بھی اسی طرح سیاسی اُتار چڑھاﺅ کا شکار ہو کر ملک کو مزید کمزور کرے گا؟ ان تمام سوالوں کے جوابات ایک طرف مگر مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاستدان مسائل کو ”حل “کرنے کی طرف نہیں آرہا۔ حالانکہ ان تمام معاملات میں اس وقت جو زیرک سیاستدان ہیں وہ حقیقت میں سیاسی استحکام چاہتے ہیں۔ جیسے چوہدری پرویز الٰہی بظاہر تو یہی کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ خان صاحب کے ایک اشارے پر اسمبلیاں توڑ دیں گے مگر دوسری جانب وہ موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں نہ صرف ملکی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سیاسی لائن سے کھل کر اختلاف کر رہے ہیں بلکہ تحریک انصاف کے اکثریتی ایم پی ایز بھی بظاہر چوہدری پرویز الٰہی سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ اور اس ناراضی کا پارٹی میٹنگز میں اظہار بھی ہو رہا ہے۔اس حوالے سے تحریک انصاف کے پنجاب سے منتخب ایم پی ایز نے پارٹی چیئرمین عمران کے سامنے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار اسلام آباد میں پنجاب ہاو¿س میں ہونے والی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں کیا۔ایک دوست ایم پی اے کے مطابق اس اجلاس میں چیئرمین عمران خان کچھ زیادہ خوش دکھائی نہیں دیے شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ کوئی دو درجن کے قریب ایم پیز اس پارلیمانی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ خان صاحب کو ان مسائل کا تدارک ہے یا نہیں لیکن وہ اتنا ضرور جان گئے ہیں کہ اُن کے پاس پنجاب میں چوہدری برادران کے بعد کوئی دوسری آپشن نہیں ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی گراس روٹ لیول سے ملک کی قومی سیاست تک انتخابات کی باریکیوں اور نزاکتوں سے خوب آگاہی رکھتے ہیں،اور پھرچوہدری صاحب کے صاحبزادے مونس الٰہی نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی طور پر خاصے میچور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے محدود ق لیگ کو اپنے والد پر اثرانداز ہو کر نہ صرف پنجاب میں اسٹیٹس کو پالیٹکس کو توڑ کر تازگی اور جدت اختیار کرنے کی ٹھان لی، ملک بھر کے جوانوں کے بدلتے تیور سے آخر مونس الٰہی کیسے متاثر نہ ہوتے۔تحریک انصاف شکر کرے اسے ن لیگ کی حربہ سیاست اور انتظامی تجربے کے مقابل، باپ بیٹے کی مشترکہ اپروچ سے بننے والا پنجاب سیاست کے تازہ ماڈل کی معاونت مل گئی۔ لگتا ہے مارچ کے بعد چوہدری پرویز الٰہی فخر سے کہیں گے کہ کٹورے پہ کٹورا بیٹا باپ سے بھی گورا، میرا بیٹا ہی صحیح نکلا، وجہ انتخابی عمل کو موخر کرنا تو شاید حکومت کیلئے مزید بڑے سیاسی خساروں کے ساتھ ممکن ہو جائے، اب چوہدری پرویز الٰہی کی عمران خان کی سیاسی امامت کو حتمی قبول کرنے سے پنجاب میں پہلے سے سازگار ماحول میں جو نتیجہ خیز اضافہ ہو گا ، ن لیگ اور پوری پی ڈی ایم کسی بھی طور تحریک انصاف اور اسمارٹ اتحاد کے حق میں واضح امکانی نتائج کو بالکل روک نہ سکے گی۔ لہٰذاعمران خان کو انکے سیاسی تدبر کو بروئے کار لاتے ہوئے پارلیمان کی سیاست میں کردار جاری رکھنا چاہئے۔ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ پاکستان کی سیاست میں مزید توازن لانے کیلئے عمران خان کو قومی اسمبلی میں بھی واپس آنا چاہئے اور اپوزیشن جماعت کے طور پر ایک موثر اور متحرک کردار ادا کرنا چاہئے۔اب کوئی ذی شعور شخص اس حقیقت سے بے خبر نہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت اپنے ہی بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے،مہنگائی اور افراطِ زر کی شرح بلندترین سطح کوچھو رہی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر چکے ہیں، موجودہ صورتحال میں سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔پی ڈی ایم حکومت کے عوام دشمن رویے اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے سلسلے نے مسلم لیگ نون کے ووٹ بینک پر کاری ضرب لگائی ہے اور عام آدمی تو اس ساری صورتحال سے لاتعلق ہوگیا ہے۔اس نازک صورتحال میں عمران خان کی مقبولیت اور چوہدری پرویز الٰہی کا تدبر ملکی استحکام کا باعث بنے گا۔آئندہ انتخابات میں کون سی جماعت حکومت بنائے گی ؟یہ تو تب دیکھا جائے گا، تاہم آج کے حالات میں تحریکِ انصاف کو سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمانی سیاست کو مضبوط کرنا ہوگا۔اگر خان صاحب نے ایسا نا کیا تو بادی النظر میں پی ڈی ایم والے خان صاحب کی وکٹیں اُڑاتے رہیں گے، کیوں کہ ابھی بھی شنید ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی چوہدری پرویز الٰہی سے مسلسل رابطے بڑھا رہی ہے اور اُنہیں آفرز بھی دے رہی ہے کہ وہ پنجاب میں حکومت سنبھالے رکھیں اور پی ڈی ایم اُنہیں سپورٹ کرتی رہے گی۔ لیکن میرے خیال میں اگر پرویزالٰہی ن لیگ کے ساتھ ملتے ہیں تو چند ماہ مزید اسمبلیاں تو چل سکتی ہیں مگر پرویز الٰہی کے ایسا کرنے سے مونس الٰہی کا مستقبل ختم ہوجائے گا، ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں کہ تحریک انصاف موروثی جماعت نہیں ہے، لہٰذامونس الٰہی اُس میں ایڈجسٹ کر سکتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس ن لیگ یا پیپلزپارٹی میں تو پہلے ہی سے مریم نواز، حمزہ شہباز اور بلاول وغیرہ موجود ہیں تو وہاں جا کر مونس کی سیاست بالکل ختم ہو جائے گی۔ اس لیے پرویز الٰہی کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی اور چوائس نہیں ہے، یعنی پرویز الٰہی عمران خان کے ساتھ رہیں گے تو چوہدری صاحب اور اُن کے بیٹے مونس الٰہی کی سیاست زندہ رہے گی۔ اور پھر دوسری بات یہ کہ چوہدری شجاعت کے ساتھ پرویز الٰہی پہلے ہی بگاڑ چکے ہیں، زرداری کے ساتھ بھی اچھے تعلقات نہیں، ن لیگ اور پرویز الٰہی پہلے ہی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے تو ایسے میں اگر عمران خان بھی ساتھ نہ ہوئے تو مونس الٰہی اپنی سیٹ بھی نہیں جیت سکیں گے۔ لہٰذاانہیں اپنا مستقبل تحریک انصاف کے ساتھ ہی وابستہ کرنا چاہیے، اس کے لیے وقتی طور پر ق لیگ کے لیے مشکل آسکتی ہے مگر اسے لانگ ٹرم فائدہ ہو جائے گا۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تحریک انصاف کا مستقبل ہے۔ اس لیے چوہدری اس جماعت پر اپنی موناپلی بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اور پھر تحریک انصاف واحد پارٹی ہے۔جس میں چوہدریوں اور دیگر نوجوان جو سیاست میں حصہ لے رہے ہیں، اُن کا مستقبل بن سکتاہے۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں جتنی بھی محنت کر لیں آپ نے رہنا کارکن ہی ہے۔ لہٰذاپرویز الٰہی تحریک انصاف کو چھوڑنے والی غلطی نہ کریں! خیر دلوں کے بھید تو اللہ ہی جانتا ہے مگر فی الوقت تو خان صاحب سے بے نیاز ہو کر چوہدری صاحب ہر روز کسی نہ کسی نئے منصوبے کا افتتاح کر رہے ہیں۔ وہ شاید جانتے ہیں کہ اس وقت اُنہیں کیا کرنا ہے، تبھی وہ اپنے صوبے میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا کر آئندہ انتخابات میں اپنی جماعت کو بھاری کامیابی حاصل کرنے کے لیے بنیاد فراہم کر دی ہے۔ آخر میں اندر کی بات بتا دوں کہ اگر زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھا جائے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں دونوں صوبوں میں نوے روز میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے کیونکہ جب تک نئی مردم شماری کے حتمی نتائج سامنے نہیں آ جاتے تب تک ان دونوں صوبوں میں نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے بغیردونوں صوبوں میں انتخابات کرانا غیر آئینی تصور کیا جائے گا‘ لیکن اگر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو نظرانداز کرکے دونوں صوبوں میں الیکشن کرانا مقصود ہے تو پھر اس کے لیے پہلے آئین کے آرٹیکل 51میں ترمیم کرنا ہوگی۔ واضح رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اس فیصلے کی اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان منظوری دے چکے ہیں اور اُس فیصلے پر چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کے دستخط بھی موجود ہیں۔ لہٰذاقارئین کے لیے پریشانی کی بات صرف یہ ہونی چاہیے کہ جو بھی ہو ملکی عدم استحکام کا باعث نہ بنے ورنہ خاکم بدہن ہماری واپسی ممکن نہیں ہوگی!