ن لیگ مصدق ملک ، ملک احمد خان جیسے قابل چہرے آگے لائے!

8فروری کو ہونے والے الیکشن میں تحریک انصاف کے بعد ن لیگ دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے، جس کے پاس سیٹوں کی تعداد 80کے قریب ہے، ویسے تو اکثریت تحریک انصاف کی ہے جس کے پاس سیٹوں کی تعداد 97ہے، لیکن وہ اپنے ساتھ نہ تو پیپلزپارٹی کو ملانے کا ارادہ رکھتی ہے، نا ن لیگ اور نہ ہی ایم کیو ایم۔ اس لیے وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لہٰذاپیچھے بچتی ہے ن لیگ اور پیپلزپارٹی۔ لہٰذاان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان بالآخر ڈیڑھ ہفتے کی بیٹھکوں کے بعد معاملات طے پا گئے ہیں جس کے مطابق چیئر مین سینیٹ پیپلزپارٹی اور ڈپٹی چیئر مین ن لیگ کا ہوگا جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی ن لیگ اور ڈپٹی اسپیکر پیپلزپارٹی کا ہوگا۔جبکہ دوسری طرف بلوچستان کا وزیراعلیٰ پیپلزپارٹی کا ہوگاجبکہ صوبے میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی مل کرحکومت بنائیں گے۔ اس کے علاوہ سندھ اور بلوچستان کے گورنرزمسلم لیگ (ن) نامزدکریگی جبکہ گورنر پنجاب پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کی صوبائی کابینہ میں بھی شامل نہیں ہو گی اور ساتھ ہی پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوگی‘ پیپلز پارٹی وفاق میں پہلے اورنہ ہی دوسرے مرحلے میں وزارتیں لے گی۔ خیر وہی ہوا جس کی اُمید کی جا رہی تھی کہ ایک بار پھر 16مہینے والی حکومت بن گئی ہے، یاد رہے یہ وہی حکومت ہے جس نے مہنگائی کو 11سے 48فیصد تک پہنچایا تھا۔ اور ڈالر، پٹرول کی ٹرپل سنچریاں مکمل کی تھیں۔ بجلی و گیس کے نرخ اتنے بڑھائے کہ اُس کا جواب عوام نے 8فروری کو دیا۔ خیر اب 99فیصد یقین کامل یہی ہے کہ یہی حکومت وجود میں آئے گی ۔ اب اس حوالے سے جتنے مرضی خدشات کا اظہار کریں، وہ یقینا مایوسی پھیلانے کے مترادف ہوگا۔ اور اب جب کہ ن لیگ وفاق میں حکومت بنا رہی ہے تو اُس کے پاس ایک بار پھر موقع ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی ساکھ بہتر کرنے کی آخری کوشش کر لے۔ اور اپنی جماعت ہی میں موجود ایسے لوگوں کو سامنے لائے جو واقعی اس قابل ہیں۔ ان میں مصدق ملک، ملک احمد خان، اعظم نذیر تارڑ،مریم اورنگ زیب، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، شاہدخاقان عباسی(حالانکہ وہ ن لیگی قیادت سے ناراض لیکن وہ وفادار بھی ہیں) وغیرہ نمایاں ہیں۔ اگر ہم مصدق ملک کی بات کریں تو مصدق ملک کی باقاعدہ سیاست میں انٹری 2013ءکی نگران حکومت میں بطور پانی و توانائی کے وزیر ہوئی تھی، پھر 11مئی کے عام انتخابات کے بعد، میاں صاحب (تیسری بار) حکومت سنبھالنے کی تیاری کر رہے تھے، مصدق ملک توانائی کے مسائل پر بریف کرنے، جاتی امرا آئے اور میاں صاحب کو اتنا بھائے کہ انہوں نے انہیں اپنی ٹیم میں شمولیت کی دعوت دے دی۔ 23 جولائی کو ملک بھر سے مدیرانِ جرائد، سینئر اخبار نویس، کالم نگار، تجزیہ کار اورالیکٹرانک میڈیا کے ممتاز اینکر پرسنزانرجی کے مسائل اور ان کے حل کے لیے حکومتی پالیسی پر بریفنگ کے لیے مدعو تھے۔ وزیراعظم نے مہمانوں کا خیر مقدم کرنے کے بعد ”فلور“ مصدق ملک کے حوالے کیا۔ ڈاکٹر مصدق انرجی کرائسس اور اس کے حل کے لیے حکومتی اقدامات پر سلیس اور رواں اردو میں یوں بریف کیا کہ مدیران کے لیے یہ سب کچھ ایک دلچسپ کہانی بن گیا۔ ایک اُکتا دینے والے موضوع پر اپنی قومی زبان میں اس شستہ اور سلیس اظہارِ خیال کیا کہ جس کی ایک ٹیکنو کریٹ سے توقع نہیں تھی۔پھر اُس کے بعد اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے انہیں اپنا ترجمان مقرر کردیا تو یہ بات بھی حیرت کا باعث تھی۔ عمران خاں اور طاہرالقادری نے ملک میں سیاسی بحران کی فضاءپیدا کردی تھی۔ حکومت ورثے میں ملے گوناگوں مسائل سے نمٹنے میں مصروف تھی کہ اسے نئے سیاسی مسائل نے آلیا جس میں میڈیا کا محاذ بھی بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ کیا ایک ٹیکنو کریٹ(انرجی ایکسپرٹ) اس عالم میں وزیراعظم کی ترجمانی کا حق ادا کرپائے گا؟ یہ وزیراعظم کے ”حسنِ انتخاب“ کا امتحان تھا۔لیکن مصدق ملک اُس وقت بھی تمام اُمیدوں پر پورا اُترے۔ پھر 2018ءکے الیکشن سے پہلے مارچ 2018ءمیں اُنہیں ن لیگ کی طرف سے سینیٹر بنا دیا گیا۔ اور اب چند روز بعد وہ ریٹائرڈ ہو جائیں گے تو اُمید یہی کی جا سکتی ہے کہ ن لیگ اُنہیں دوبارہ کسی بڑے عہدے کے لیے منتخب کرے گی ۔ اُن کے بعد نام آتا ہے ، ملک احمد خان کا تو ملک صاحب یقینا سافٹ مزاج کی شخصیت ہیں۔ وہ خواجہ آصف، رانا ثناءاللہ یا عطاءاللہ تارڑ کی طرح متنازعہ شخصیت نہیں ہیں۔ بلکہ ملک صاحب نے پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کے دوران جب مہنگائی نے عوام کو دھر لیا تھا، اُس وقت قصور (کھڈیاں) میں ن لیگ کا بڑا جلسہ کرکے کھائی میں گرتی ن لیگ کو سہارا دیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک احمد خان پڑھے لکھے ہیں، اُن کا خاندانی بیک گراﺅنڈ بھی سیاسی ہے، وہ ایچی سن کالج میں پڑھتے رہے ہیں، انہوں نے 1998ءمیں ایل ایل بی آنرز کی ڈگری بکنگھم یونیورسٹی سے حاصل کی اور وکالت کی پریکٹس شروع کی۔ وہ عام انتخابات 2018ءمیں تیسری بار اس اسمبلی کے رکن کے طور پر دوبارہ منتخب ہوئے ، اس کے بعد اب وہ 2024ءمیں وہ چوتھی بار قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ ان کے والدمحمد علی خان، 1972ء سے 1977ءکے دوران رکن پنجاب اسمبلی رہے؛ اور 1985ء سے 1994ءکے دوران بطور سینیٹر۔ انہوں نے 1986ءسے 1988ءکے دوران ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے طور پر بھی کام کیا۔ملک احمد خان کے ماموں حاجی سردار خان تین دفعہ ایم پی اے رہے، اور دوسرے ماموں ملک رشید احمد خان مسلسل تیسری دفعہ ایم این اے ہیں جبکہ اُن کے کزن احمد سعید خان بھی قصور کے ایم پی اے ہیں۔ مطلب ! اُن کی خاندان سیاست میں دہائیوں سے حصہ لیتا رہا ہے۔ تبھی وہ کھڈیاں جیسے شہر میں اتنا بڑا جلسہ منعقد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بلکہ ن لیگی قیادت اُن پر اتنا یقین کرتی ہے کہ ن لیگ نے حالیہ الیکشن مہم میں اپنا آخری جلسہ کھڈیاں میں رکھا۔ حالانکہ سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی مہم کا اختتام اپنے ہیڈکوارٹر ضلع میں رکھتے ہیں ۔ لیکن شاید ملک احمد خان اور اُن کا حلقہ ن لیگ کی نظر میں بہترین چوائس تھے۔ پھر آپ مریم اورنگ زیب کی بات کریں، خواجہ سعد رفیق کی بات کریں یا اعظم نذیر تارڑکی تو یہ لوگ واقعتا ن لیگ کے وفادار لوگ ہیں۔ انہیں عوام کی فکر ہے، حالانکہ سعد رفیق اپنی پارٹی سے خفا خفا نظر آتے ہیں مگر وہ اختلاف رائے ہیں، جو کسی بھی سیاسی رہنما کو ہو سکتا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ موروثیت نے اس کا دل توڑ دیا ہے ، اس کے علاوہ مفتاح اسماعیل معاشی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں ’جوکر‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے؟حالانکہ مفتاح اسماعیل کو ن لیگ نے اس وقت متبادل معاشی مینیجرکے طور پر پیش کیا جب عمران خان کو حکومت سے الگ کر کے اقتدار سنبھالا گیا۔ پھر یہ کیا قصہ ہے کہ ایک دو ماہ میں وہ اتنے معتوب ہو گئے کہ شریف خاندان کے وہ نوجوان ان کی تضحیک کر رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق ہے نہ ان کے پاس کوئی منصب ہے؟ بہرحال مسلم لیگ ن کے پاس کارکنان کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی رومان باقی نہیں رہا،،، لیکن حکومت تو بالآخر اُنہیں مل ہی گئی ہے لیکن میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ جو پارٹی سیاست میں رومان برقرار نہ رکھ سکے وہ قصہ ماضی بن جاتی ہے۔لہٰذان لیگ کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ کی حد تک نہ رکھیں، بلکہ اُنہیں اپنی طرف راغب کرنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسیاں بنائے، روز گار کے مواقع فراہم کرے۔ میرے خیال میں ن لیگ کو ایسے ہی مذکورہ بالا قائدین کی ضرورت ہے۔ ایسے رہنماﺅں کی ضرورت ہے، جو ن لیگ کی باگ ڈور سنبھال سکیں، ایسے رہنماﺅں کی ضرورت نہیں جو براہ راست ”فلائیٹ“ سے اترتے اور جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کی لوگ باتیں سننا تو دور کی بات لوگ اُن کا چہرہ دیکھنے سے بھی کتراتے ہیں۔ یقین مانیں اس وقت کی صورتحال کے مطابق دیگر جماعتیں ن لیگی رہنماﺅں کو نفرت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، اس کی وجہ 9مئی جیسے واقعات ہوں یا بدلے کی سیاست لیکن یہ ہر جماعت کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔ اسی سے نکلنے کے لیے میرے خیال میں ن لیگ کو علاقائی سیاست کوفروغ دینا ہوگا۔ بہرکیف ن لیگی قائدین کو اپنے اوپر لگے مہنگائی کے داغ دھونے کے لیے کچھ کرنا ہوگا، عوام میں جانا ہوگا، اور بدلے کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔ بلکہ 9مئی کے حوالے سے گرفتار سیاستدان اور کارکنان کے لیے عام معافی کا اعلان کرنا ہوگا۔ کیوں کہ عوام یہ جانتے ہیں کہ عمران کو ہٹانے کے بعد کوئی ایک کام ایسا نہیں کیا جا سکا جس سے عوام کو کچھ ریلیف ملا ہو۔ مسلم لیگ ن کی مبلغ معاشی مہارت کوئی دانش اجتماعی یا ادارہ سازی نہیں تھی، صرف اسحاق ڈار تھے۔ معلوم نہیں ان سے کیوں نہ معیشت سنبھل سکی؟ اور اب بھی اگر اُنہیں خزانے کا شعبہ دینا ہے تو پھر بقول شاعر ذرا سنبھل سنبھل کر ہی چلنا ہوگاکہ جان ہی دیدی جگر نے آج پائے یار پر عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا