جگہ جگہ فنڈز اکٹھا کرنے والوں کا آڈٹ کون کرے گا؟

سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور جنوبی پنجاب سے جوں جوں سیلابی پانی اُتر رہا ہے، حقائق خوفناک سے خوفناک تر ہوتے جا رہے ہیں،ایسے لگ رہا ہے جیسے اگر سیلاب سے لوگ بچ گئے تو بھوک اور بیماریوں سے مر جائیں گے ۔بہت سے علاقوں میں ابھی تک بحالی کاکام شروع نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں، مردار جانور جگہ جگہ پڑے قحط و آفت کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ بہت سے مخیر حضرات، فلاحی تنظیمیں اور دیگر ادارے ان کی بحالی کے لیے کام کر رہی ہیںمگر بہت سی ایسی کہانیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ جیسے جیسے سیلاب زدگان کی مدد کو دنیا بھر سے طیارے اپنا سامان لے کر آرہے ہیں یا بیرونی امداد آرہی ہے،ویسے ویسے نت نئی کہانیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ کہیں آنے والے سامان اور امداد میں کھینچا تانی بھی شروع ہوگئی ہے،کہیں ایم پی اے حضرات لڑ رہے ہیں کہ سامان اُن کی چوکھٹ پر رکھا جائے تاکہ وہ خود تقسیم کریں، کہیں غیر رجسٹرڈ تنظیمیں میدان میں موجود ہیں جن کا فلاحی کاموں کے حوالے سے کہیں ریکارڈ بھی موجود نہیںاور کہیں امدادی پیسے کو کھڈے لائن لگانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے مگر کیا کریںانسان ہیں،پھر غیر تربیت یافتہ ہیں، پھر درد دل بھی نہیں رکھتے اور سب سے بڑھ کر احساس نام کی چیز بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ خیر قصہ مختصر کہ اس وقت سیلاب 2022ءکو ”کیش“ کروانے میں حکمران طبقہ سب سے آگے ہے، جبکہ اُس کے بعد دوسرا نمبر غیر رجسٹرڈ تنظیموں کا ہے ، جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ حالانکہ دنیا کے 90ممالک میں کسی بھی ہنگامی یا غیر ہنگامی صورت میں کسی کو عوام سے پیسہ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں ہے،حتیٰ کہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس چیز کی سختی سے ممانعت ہے، اور امریکا، کینیڈا، یورپ ، سعودی عرب ، دبئی ، قطر وغیرہ جیسے ممالک میں نجی سطح پر آپ فنڈز اکٹھا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہاں امریکا، کینیڈا یا دیگر جمہوری ریاستوں میں سیاسی پارٹیوں کو فنڈز اکٹھا کرنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن اُس کا بھی الیکشن کمیشن کو پائی پائی کا حساب دینا پڑتا ہے تاکہ شفافیت کا عنصر برقرار رہ سکے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں ایک اندازے کے مطابق پورے پاکستان میں 3300سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں فنڈز اکٹھا رکرہی ہیں۔ان 33سو میں سے محض 88تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی سب غیر رجسٹرڈ ہیں۔بلکہ اس حوالے سے چند ماہ قبل محکمہ داخلہ پنجاب نے کالعدم قرار دی گئی 79 جماعتوں اورتنظیموں کی فہرست جاری کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی تھی کہ جماعتوں اور تنظیموں کو زکوة وعطیات نہ دی جائے۔لیکن وہ پھر بھی دوسرے ناموں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ چلیں نہیں یقین تو نا کریں! لیکن آپ اس حوالے سے غور کریں کہ ان تنظیموں کی بڑی تعداد نہ تو ایس ایم ایس، نہ دیگر کمپنیوں کے ذریعے اور نہ بینک اکاﺅنٹس کے ذریعے پیسے بٹور رہی ہیںبلکہ وہ یہ پیسے نقدی یا راشن کی شکل میں وصول کر رہی ہیں۔ایسا شاید اس لیے کیا جا رہا ہے کہ نقدی یا راشن کا آڈٹ نہیں ہو سکتاجبکہ اس کے برعکس کسی اکاﺅنٹ میں آنے والے پیسوں کا FATFکی روشنی میں مکمل حساب رکھنا پڑتا ہے۔ تبھی تو اس بڑی عید پر قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے کے لیے اس قدر کھینچا تانی نہیں ہوئی جس قدر ماضی میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ سوال پھر یہی ہے کہ ان سارے غیر قانونی کاموں میں ریاست کہاں ہے؟اس بار پاکستان میں جذبہ خیر سگالی کے تحت میرے ادارہ نے بھی نسبتاََ چھوٹے لیول پر فنڈ ریزنگ کا کام کر رہا ہے، جتنے پیسے یا سامان اکٹھا ہو چکا ہے، یقین مانیں میں خرچ کروں یا نا کروں مجھے کسی نے نہیں پوچھنا، سوال یہ ہے کہ فنڈ ریزنگ شروع کرنے سے پہلے نا تو مجھے کسی نے پوچھا کہ آپ فنڈ کہاں استعمال کریں گے، فنڈ اکٹھا کیوں کر رہے ہیں اور فنڈ اکٹھا ہونے کے بعد بھی یقینا کوئی نہیں پوچھے گا کہ آپ نے اسے کہاں استعمال کیا ہے؟ یا کیا بھی ہے کہ نہیں! غیر سرکاری سطح پر عوام کا اس قدر اس ”فیلڈ“ میں آنے کی سب سے بڑی وجہ بھی شاید یہ لگ رہی ہے کہ عوام کو حکومتوں پر اعتبار نہیں رہا۔ کیوں کہ آج پاکستان میں جو تنظیمیں ٹھیک کام کر رہی ہیں وہ جس گھر کا دروازہ بجاتے، سب سے پہلے یہی پوچھا جاتا کہ آپ یہ امداد خود پہنچائیں گے یا سرکار کے حوالے کریں گے، اگر تو سرکار کے حوالے کریں گے تو ہم امداد نہیں دیں گے کیونکہ ہمیں سرکار پر قطعاً بھروسہ نہیں۔اس سے زیادہ سرکار کے لیے شرمندگی کی بات اور کیاہو سکتی ہے کہ یہ قوم اس پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں‘عوام کو یہ تاثر کس نے دیا کہ بیرون ممالک سے ملنی والی امداد جو حکومتی اداروں کو دی جاتی ہے ‘وہ متاثرین تک پہنچنے کی بجائے سرکاری گوداموں کی زینت بنتی ہے اور بعد میں اس کی بولیاں لگتی ہیں‘ ایک اسکینڈل 2010ءکے سیلاب کے بعد سامنے آیا تھا جب بٹر آئل پاکستانی مارکیٹوں میں مہنگے داموں فروخت ہوا اور لوگ یہ سوال پوچھتے رہے کہ یہ آئل یہاں کیسے اور کب پہنچا مگر پاکستانی سرمایہ داروں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔بعد میں پتہ چلا کہ وہ مہنگے داموں بعد میں فروخت کر دیا گیا تھا۔ پھر ان پر زلزلہ زدگان کے پیسے کھانے کے الزامات ہیں، جن سے یہ ابھی تک اپنے آپ کو کلیئر نہیں کروا سکے۔ میں اس وقت امریکا میں موجود ہوں، یہاں پر اچھا خاصا مذاق بنایا جاتا ہے کہ آپ کی حکومتیں سیلاب، زلزلہ ،زکوٰة وغیرہ فنڈز کو بھی نہیں چھوڑتیں، سرکاری سطح پر کوئی پیسے دینے کو تیار نہیں ہے۔ بلکہ وہاں تو یہ تاثر عام ہے کہ سیلاب وغیرہ کے آنے کے بعد ان کرپٹ حکمرانوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں ریاست ہی اگر شفاف انداز میں تمام امداد مخیر حضرات تک پہنچائے تو بہت سے مسائل حال ہو سکتے ہیں، حکومت عوام پر اعتبار ہی قائم کرلے تو ہم سالانہ 2ارب ڈالر پاکستان سے ہی اکٹھا کر سکتے ہیں، آپ کو شاید اس بات پر بھی یقین نا آئے کہ اس وقت پاکستان میں ہر سال ہمارے انسانیت نواز اور مخیر حضرات و خواتین اپنی نیک کمائی میں سے 200ارب روپے کی مالیت کے عطیات فراہم کرتے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ پیشہ ور بھکاریوں ،گداگروں اور غیر رجسٹرڈ تنظیموں کی تحویل میں چلے جاتے ہیں اور اصل، صحیح اور مستحق لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ جبکہ ان میں سے بعض تنظیموں کے ”مالکانہ حقوق“ تو بڑے بڑے آقاﺅں کے پاس ہیں جو فنڈ لینے کے لیے فوری طور پر این جی او رجسٹرڈ کرواتے ہیں اور رقم حاصل کرنے کے بعد ادارہ ہی ختم کر دیتے ہیں۔ بہرکیف یہ ملک اللہ توکل ہی چل رہا ہے، ساری دنیا میں ڈیزاسٹر آتے ہیں اور ان کی مینجمنٹ کا سسٹم ہوتا ہے۔میں حیران ہوں اس ملک میں پلاننگ نام کی کوئی چیز نہیں۔آپ سندھ ہی کو دیکھ لیں، ہم نے بارہا بذریعہ روڈ سندھ میں سفر کئے، ہم سندھ کے حالات پر روتے کہ کسی شہر کی سڑکیں سلامت نہیں ‘ انفرا سٹرکچر نہیں ‘میں اکثر کہتا تھا کہ نواب شاہ اور لاڑکانہ چھوٹے شہر ہیں، دونوں میں رہنے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں،15سال سے اقتدار پر براجمان پیپلز پارٹی چاہتی تو بہت کم خرچ میں ان دونوں شہروں کو ماڈل سٹی بنا دیتی، مگر گڑھی خدا بخش کو جانے والی سڑک تک سلامت نہیں۔اب دیکھیں سیلاب نے کیا حال کر دیا، ایک کروڑ سے زیادہ لوگ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں، حکومتوں کو کوئی پروانہیں۔ ابھی تک مزید سیلاب کا خطرہ موجود ہے ‘ پانی کی نکاسی ہو گی تو آبادکاری کا بھی سوچا جائے گا ‘رضا کار کہاں تک جائیں ؟ سندھ حکومت کے حالات تو یہ ہیں کہ حکومت مصیبت میں بھی 2لاکھ کی کشتی پر 4لاکھ روپے ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ حکومت نے چند روز قبل خود اعلان کیا تھا کہ اشیاءضروریہ پر کسی قسم کا ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا مگر اس کے باوجود چیز کی اصل قیمت سے دوگنا ٹیکس وصول کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔خیر امداد حقداروں تک پہنچ نہیں رہی‘وڈیرے‘ سردار اور سرکاری نوکر اپنے گودام بھر رہے ہیں۔حکومتیں اپنی مستیوں میں ہیں۔ کتنا بہترین موقع تھا مریم اور بلاول کیلئے‘ سیلاب زدہ علاقوں میں جاکر بیٹھ جاتے اپنے کچھ ممبر اسمبلی کے ساتھ۔خود ڈونیشن کرتے ‘ لوگوں سے مانگتے اور موجود رہتے لوگوں کے ساتھ۔لیکن اس کے برعکس میرے خیال میں لیڈروں کو یہ بات سمجھ میں آ چکی ہے کہ عوام گھاس کھاتے ہیں، یہ ان کے چنگل سے نہیں نکل پائیں گے۔ سندھی بھائی پورے پانچ سال زرداری صاحب کا شکوہ کرتے رہتے ہیں لیکن ووٹ والے دن وہ بھٹو کے نام پر اسی پارٹی کو ووٹ ڈال آتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی کو علم ہے کہ وہ کام کریں یا نہ کریں سندھی ووٹ بھٹو کا ہے تو وہ کیوں محنت کر کے ووٹ کمائیں‘ کام کریں۔ یہی کام ہمارے سرائیکی علاقوں میں ہوتا ہے۔ اب وقت ہے کہ سرکاری ادارے اور پاکستانی این جی اوزاپنا ٹوٹا ہوا اعتماد بحال کریں‘سرکاری اداروں‘اندرونی اور بیرونی این جی اوز یا تنظیموں کو جتنی امداد مل رہی ہے وہ بھی اور جو حکومت کو چھ ملکوں سے تیس سے زیادہ طیارے سامان پاکستان پہنچا ہے‘وہ سب انتہائی شفاف طریقے سے سیلاب زدگان تک پہنچایا جائے، اور غیر قانونی طور پر فنڈز اکٹھا کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کیا جائے تبھی ہمارا نام بھی ہو گا اور لوگ اعتبار کرنا شروع ہوں گے ورنہ ہم ہر آنے والی آفت پر کمزور سے کمزور تر ہوتے جائیں گے اور اُس وقت تک ہمارا ضمیر بھی مر چکا ہوگا!