کون کہتا تھا پرویز الٰہی کی سیاست ختم ہوگئی !

ضمنی الیکشن کے بعد پنجاب کی سیاست آج ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن چکی ہے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ PTIاور اتحادیوں کے پاس 188سیٹیں موجود ہیں جبکہ ن لیگ اور اتحادی 180کے قریب سیٹیں ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔ اس لیے بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف اور ق لیگ مل کر پنجاب میں حکومت بنائیں گے اور حمزہ شہباز فارغ ہو جائیں گے۔لیکن سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، کبھی کبھی تو سیاسی تجزیہ کار بھی بدندان زبان ہو کر سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ اور پنجاب تو ویسے ہی بھٹو سے لے کر عمران خان تک سب کا لاڈلا صوبہ رہا ہے ، یہاں پسند نہ پسند ہمیشہ ہی سے چلتی رہی ہے۔ کبھی کبھی تو آپ کو اندرون خانہ نا پسندیدگی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے اور کبھی کبھی آپ عوام کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تو کبھی کبھی آپ فیصلہ کرنے والی قوتوں کے زیر اعتاب رہتے ہیں ۔ جیسے ایک وقت تھا جب پنجاب کی وزارت اعلیٰ ایک کسان کے بیٹے کے نصیب میں آئی مگر شاید وہ سیاسی رومانس کا زمانہ تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک معراج خالد کو نامزد کیا تو پارٹی میں موجود بہت سے جاگیرداروں کو فیصلہ پسند نہ آیا اور انہوں نے اُن کو ناکام بنانے کا فیصلہ کرلیا اور پھر کچھ ایسا ہی ہوا۔یہ 1972ءکی بات ہے ایک سال بعد ہی گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر سے اختلاف کے باعث انہوں نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ پنجاب اسمبلی آئے تو بہت سے ممبران کی آنکھیں نم تھیں، اُن سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”مجھے اس مسند پر کام کرتے ہوئے لگا کہ ایک انقلابی کو اقتدار نہیں جدوجہد ہی راس آتی ہے“۔ پھر حنیف رامے دانشور تھے پنجاب کے مزاج کو بھی سمجھتے تھے بعد میں ایک مشہور کتاب ”پنجاب کا مقدمہ“ بھی لکھی مگر وہ بھی اس مسند پر کامیاب نہ ہوسکے۔ 1977ءمیں مارشل لا لگ گیا دو سال بعد بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور پھر ایک منظم پلان کے تحت پنجاب میں پی پی پی کا اثر ختم کرنے کیلئے پارٹی کے اندر اور باہر سے کوششیں ہوئیں جو خاصی حد تک کامیاب رہیں اور آج یہ حال ہے کہ پارٹی کوپنجاب میں الیکشن لڑنے کیلئے اُمیدوار نہیں ملتے۔ 1993ءمیں پی پی پی الیکشن جیتی تو وزارت اعلیٰ ”لوٹوں“ کی مدد سے میاں منظور وٹو کے نصیب میں آئی۔ وہ بھی پسند اور ناپسند کے چکر میں چلی گئی۔ اب مسلم لیگ (نواز) کی کہانی بھی سنتے جائیں ، بقول شخصے یہ بھٹو کی پھانسی کے بعد کی بات ہے جب ایک ملاقات میں جنرل ضیاءکے دستِ راست پنجاب کے گورنر جنرل غلام جیلانی نے ایوب خان کے زمانے کے ایک بریگیڈیئر عبدالقیوم کے کہنے پر میاں محمد شریف سے ملاقات کی اور اُنہیں سیاست میں آنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا ”میں تو کاروباری آدمی ہوں ،سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں“ جواب ملا ”سیاست بھی کریں اور بزنس بھی“پھر 1985ءکے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن نے مجموعی طور پر پورے ملک کا خاص طور پر پنجاب کی سیاست کارُخ بدل دیا ،جس سے ملک اور صوبہ ذات پات اور برادریوں میں مزید بٹ گیا۔ یہ ملک سے نظریاتی سیاست کے خاتمہ کی ابتداءتھی۔ ابتدائی طور پر سندھ سے ہی تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو کو وزیراعلیٰ بنایا اور میاں شریف کے بڑے بیٹے میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب۔ جب جونیجو میں کچھ ضرورت سے زیادہ سیاسی جراثیم پائے گئے تو اُنہیں فارغ کر دیا گیا۔ 1990ءمیں بینظیر بھٹو کی حکومت فارغ کی گئی تو طے ہوا کہ نواز شریف تو وزیراعظم ہونگے اورپنجاب کی وزارت اعلیٰ کی لاٹری غلام حیدر وائیں کی کھل گئی۔ملک معراج خالد کی طرح غلام حیدر وائیں بھی سادہ لوح انسان تھے۔ میاں صاحب کی حکومت 1993ءمیں فارغ ہوگئی۔ پھر 1997ءکے الیکشن سے پہلے کہتے ہیں ”تخت پنجاب“ کیلئے چوہدری شجاعت حسین کا نام آیا تھا یا شاید پرویز الٰہی کا۔ مگر جب مسلم لیگ (ن) کو دو تہائی اکثریت ملی تو اس نے شہباز شریف کو وزیراعلیٰ کیلئے نامزد کر دیا اور یوں سیاست میں اُن کا اصل ڈیبیو ہوا۔ پھر 2002سے 2007تک پنجاب کی وزارت اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے حصے میں آئی، اور پھر اگلے دس سال شہباز شریف کی حکمرانی رہی ، پھر آگئے عمران خان صاحب کے ”لخت جگر“ عام آدمی عثمان بزدار۔ بعض لوگ اسے عمران خان کی سب سے بڑی غلطی کہتے ہیں مگر میری نظر میں وہ ایک عام آدمی تھا، جو ہم جیسے غلاموں سے ہضم نہ ہوسکا۔ مگر رواں سال 10اپریل کو عدم اعتماد کی تحریک کے بعدجب وزیر اعظم شہباز شریف بنے تو اُن کو فکر یہ تھی کہ پنجاب میں عثمان بزدار کو کیسے فارغ کیا جائے۔اس کے لیے انہوں نے پنجاب میں ایسا سیاسی بحران پیدا کیا کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پھر دو ماہ کی ”جدوجہد “ کے بعد وفاق کی مدد سے حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوا دیا۔ لیکن وہ مکمل وزیر اعلیٰ نہیں بن سکے اور پھر چوہدری پرویز الٰہی نے اُنہیں پنجاب میں ایک دن سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ سازش سے بننے والی حکومت پنجاب کے عوام کا بیڑہ غرق کر دے گی۔اس حوالے سے حالانکہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت بھی ہمت ہار چکی تھی مگر پرویز الٰہی واحد شخصیت تھے جنہوں نے سب سے پہلے پنجاب کا معاملہ سپریم کورٹ میں لے جانے کے لیے تمام اتحادی سیاسی جماعتوں کو قائل کیا۔ لہٰذااب جبکہ ویسا ہی ہوا ہے جیسا پرویز الٰہی چاہتے تھے تو اب پوری قیادت اُن کے دربار میں ”حاضری“دینے پہنچ گئی ہے۔ جبکہ دوسری جانب حالیہ ضمنی الیکشن کے بعد سیاسی ناقدین کی رائے میں اب شہباز شریف اخلاقی طور پر وزیرِ اعظم رہنے کا جواز کھو چکے۔ پنجاب ہاتھ سے گیا، کے پی کے میں آپ کی حکومت نہیں، سندھ میں آپ حکمران نہیں، بلوچستان بھی آپ کا نہیں تو وفاق میں آپ کے وزیرِاعظم رہنے کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔ شہبازشریف صاحب کو عام انتخابات کا اعلان کر کے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اور جہاں تک رہی بات پنجاب کی تو اگر وفاق نے یہاں 22جولائی کو روپیہ پیسہ متوقع طور پر چلایا تو میرے خیال میں ن لیگ مزید ایکسپوز ہوگی، لہٰذافی الوقت میری نظر میں ابھی تک پنجاب کے جتنے بھی وزراءآئے اُن میں غلام حیدر وائیں، عثمان بزدار اور پرویز الٰہی بہترین تھے۔اوربادی النظر میں ان میں نمبر ون پرویز الٰہی تھے۔ اب ناقدین یہ کہیں گے کہ بھئی شہباز شریف کہاں گئے تو میرے خیال میں اُن کے دور میں پنجاب جتنا مقروض ہوا، جتنا بیوروکریسی کو نقصان ہوا اور جتنی کرپشن ہوئی شاید ہی کسی اور دور میں ہوئی تھی۔اس لیے اُنہیں معذرت کے ساتھ فی الوقت ڈسکس ہی نہیں کرنا چاہیے۔ خیر میں یہ دعویٰ ہوا میں نہیں کر رہاکہ پرویز الٰہی دور میں پنجاب کے عوام خوشحال تھے، بلکہ آپ دیکھیں گے کہ آنے والے دنوں میں پنجاب میں حقیقی تبدیلی آئے گی، اور اسی تبدیلی کی بنیاد پر اگلے پانچ سال بھی ہو سکتا ہے چوہدری برادران ہی پنجاب پر حکومت کریں۔ اس کی بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اُن کی ٹیم کے ساتھ بہترین بیوروکریٹس کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ ظاہر ہے وہ سب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، مگر پرویز الٰہی اپنی مشاورت میں اُنہیں ضرور شامل کریں گے، ان میں سلمان صدیق، سلیمان غنی اورجی ایم سکندر، خالد سلطان،تیمور عظمت عثمان، احمد نسیم ،صفدر جاوید سید ،نجیب اللہ ملک، سہیل احمد، حسن نواز تارڑ، شیخ احمد فاروق اوراخلاق احمد تارڑ، کامران رسول، سبطین فضل حلیم جیسے ایماندار آفیسرز سرفہرست ہیں۔ جن پر نہ کوئی کرپشن چارجز لگے اور نہ ان کی گرفتاریاں ہوئیں۔ اور پھر ہم پرویز الٰہی کے ممنون کیوں نہ ہوں، پہلی دفعہ کسی نے صحافیوں کو بھی گلے لگایا، اُنہیںانسان سمجھا، اُن کے مسائل سنے، اُن کے لیے صحافی کالونی بنائی، لاہور، پنڈی، ملتان کے صحافی اُن کے دل سے شکرگزار ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے صرف یاتو ججز کو ، یا پاک آرمی کے جوانوں کو، یا بیوروکریسی کو یہ سہولت حاصل تھی۔لہٰذاہر قسم کی پارٹی کی سیاست سے بالاتر ہو کر پنجاب کے عوام کی فلاح کے لیے ہماری تو پہلے دن سے ہی چوائس یہی تھی ، یقین جانیے! کیوں کہ اُن کے لگائے گئے منصوبوں سے آج بھی پنجاب کے عوام مستفید ہو رہے ہیں، ان پراجیکٹس میں 1122،پی آئی سی، ہائی وے پٹرولنگ، رنگ روڈ، وغیرہ جیسی سہولیات شامل ہیں ۔چوہدری پرویز الٰہی نے 2007 میں جب پنجاب حکومت کا اپنا دور مکمل کیا تو اُس وقت پنجاب کا خزانہ 100 ارب روپے سرپلس میں تھا۔جبکہ2018 میں پنجاب پر 2000 ارب روپے سے زائد کا قرض تھا۔انہوں نے وزیرآباد، لیہ، ننکانہ اور ملتان بہاولپور جیسے دور دراز کے شہروں میں دل و دیگر بیماروں کے ہسپتال شروع کیے جو آج بھی ادھورے ہےں، جنہیں وہ یقینا مکمل کرکے عوام کے دلوں میں گھر کرنے کی کوشش کریں گے۔ پھر پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس کا قیام بھی پرویز الٰہی کا شاندار منصوبہ تھا۔ جس سے مسافروں کو خاصا تحفظ حاصل ہوا۔انڈر گراﺅنڈ میٹرو ٹرین کا بھی منصوبہ بنایاگیا، جس پر محض 30ارب روپے اخراجات آنے تھے اور شہر کی محض 6مقامات سے کھدائی ہونی تھی اور ماحولیات پر بھی کم سے کم اثر پڑنا تھا،اور پھر سابقہ دور حکومت یعنی چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب کے عوام کو ریسکیو 1122،انڈسٹریل اسٹیٹ اور ٹریفک وارڈنز کے تحفے دیے۔ پھر فرانزک لیب ،جنوبی پنجاب میں برن یونٹس کا قیام ،سیالکوٹ کی ترقی کا 34 ارب کا منصوبہ ۔ اور اس جیسے بیسیوں منصوبوں کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ لہٰذااگر عمران خان یہ شروع میں فیصلہ کرلیتے تو آج مشکلات کا شکار نہ ہوتے، ، اس لیے دیر آئید درست آئید کے مصداق انشاءاللہ پنجاب کے عوام ایک بار پھر خوشحال ہوں گے اور پنجاب ترقی بھی کرے گا اور آگے بھی بڑھے گا!اور سب سے بڑھ کر اگلے جنرل الیکشن تک پنجاب کو ایک اچھی قیادت نصیب ہوگی!