میں ووٹ کس کو دوں؟

الیکشن جوں جوں قریب آرہے ہیں، ذہن کی سکرینوں پر پڑی گرد بھی آہستہ آہستہ چھٹ رہی ہے۔ اور سب چیزیں آہستہ آہستہ کلیئر بھی ہوتی جا رہی ہیں۔ اس الیکشن میں اعداد و شمار کے مطابق 2018ءکے الیکشن کے مقابلے میں اس مرتبہ 2024ءکے انتخابات میں 12 لاکھ زیادہ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ان نئے ووٹرز کے اندراج کے بعد پاکستان میں ووٹرز کی تعداد 127 ملین ہوگئی ہے۔جن میں خواتین ووٹرز کی تعداد 6کروڑ کے قریب جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد پونے 7کروڑ کے قریب ہے۔ ان ووٹرز میں سے 18 سے 35 سال عمر کے ووٹرزیعنی نوجوان ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو کہ 6کروڑ 70لاکھ ہے، اور یہ کُل ووٹرز کا 45 فیصد بنتا ہے۔جبکہ 56 سال یا اس سے زائد عمر کے ووٹرز کی تعداد ڈھائی کروڑ ہے جو کہ کُل ووٹرز کے تقریباً 19 فیصد ہے۔اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو بھی پارٹی یہ الیکشن جیتے گی اس میں ان نوجوان ووٹرز کا ووٹ اہم کردار ادا کرے گا۔ انتخابی مہم میں مصروف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نوجوانوں کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ تو ہر سیاسی جماعت کر ر ہی ہے لیکن حقیقت میں تاحال کسی سیاسی جماعت نے نوجوانوں کے لئے کوئی جامع پروگرام پیش نہیں کیا ۔ اگرچہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران مختلف حکومتوں نے لیپ ٹاپ اسکیم، انٹرن شپ پروگرام، ای روزگار اسکیم، یوتھ لون اسکیم اور اس طرح کے دیگر پروگرام متعارف کروائے ہیں لیکن کسی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ نوجوان طبقے کو وسیع پیمانے پر ہنرمند بنا کر اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے اور آگے بڑھنے کاموقع فراہم کیا جا سکے۔ اور نہلے پر دہلا یہ کہ اُن سے ایک مخصوص جماعت جس میں 80فیصد نوجوان ہی ہیں، اُنہیں الیکشن میں حصہ لینے سے ہی روک دیا گیا ہے، تو ایسے میں مجھے کوئی بتائے گا کہ یہ نوجوان کیا ن لیگ کو ووٹ دیں گے؟ یا استحکام پاکستان پارٹی کو یا پیپلزپارٹی کو؟ چلیں نوجوانوں کو چھوڑیں میں اپنی ہی مثال لیتا ہوں کہ جس نے گزشتہ 50سال کی سیاست کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ، جھیلا اور محسوس کیا ہے۔ تو کیا میں اس بار بھی ن لیگ کو ووٹ دوں جسے میں تین بار اقتدار میں دیکھ چکا ہو ں، کہ ہر بار جس نے کرپشن کے سینکڑوں کیسز بنوائے۔پھر کیا پیپلزپارٹی کوووٹ دوں جس نے اپنے آخری دور اقتدار میں اتوار کے روز بنک کھلوا کر کرپشن کی۔ جو کھربوں روپے کے جعلی اکاﺅنٹس بنا کر پیسہ بیرون ملک منتقل کرتی رہی اور 15سال سے سندھ کا بیڑہ غرق کر رہی ہے۔ یا میں استحکام پاکستان پارٹی کو ووٹ دوں جو تمام مفاد پرستیوں کی جماعت ہے۔ تو مجھے بتائیں میں ووٹ کس کو ڈالوں؟ جبکہ اس کے برعکس عمران خان کی حکومت ساڑھے تین سال رہی، آپ خود رپورٹس دیکھ لیں، کہ پچھلے دور اقتدار کی نسبت اس دور میں 70فیصد تک کم کرپشن ہوئی۔ ہاں مگر عوام سے براہ راست اداروں میں کرپشن کا محض 19،20 کا فرق ہی پڑا۔ لیکن اس حکومت نے صحت کارڈ دیا، ائیر پورٹ پر پروٹوکول ختم کیا، نئی یونیورسٹیاں بنائیں ،پاکستان کو سرسبز و شاداب کیا یعنی بلین ٹری منصوبے لگائے، جس کا تذکرہ عالمی گلوبل کانفرنسز میں بھی ہوتا رہا، پھر احساس پروگرام شروع کیا ، اس کی روح رواں ثانیہ نشتر تھیں، ان کی قابلیت اور ایمانداری مسلمہ ہے، پھر کورونا میں معیشت کا پہیہ رواں دواں چلتا رہا،،، اور بہت سے انویسٹرز نے پاکستان کا رُخ کیا۔ اور سب سے بڑھ کر خان صاحب کے نہ تو انگلینڈ ، نہ ہی سوئٹزرلینڈ اور نا ہی عرب ممالک میں اکاﺅنٹس نکلے۔ اب تو اس پارٹی کو الیکشن ہی سے باہر کر دیا گیا، تو میں ووٹ کس کو دوں؟ کیا میں ساری زندگی مہنگی گیس، مہنگے آئی پی پیز اور مہنگے ترین قرضوں کا بوجھ ہی اُٹھاتا رہوں گا؟کیا میری آنے والی نسلیں اُن قرضوں کا بوجھ اُٹھاتی رہیں گی جو میرے کسی کام نہ آسکے؟ بقول شاعر میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے بہرحال اگر میں ٹیکس دیتا ہوں تو مجھے یہ جاننے کا پورا حق ہے کہ اس ملک میں نام نہاد جمہوریت کیوں ہے؟ جب حکومت مجھے نادہندہ ہونے پر پکڑ لیتی ہے، یا اگر ایف بی آر میری ایک لاکھ آمدنی پر 15فیصد ٹیکس مجھ سے لیتی ہے، تو 50لاکھ آمدنی ہونے پر مجھ سے 35فیصد تک ٹیکس لیتی ہے،،، میں اتناٹیکس بھی دینے کو تیار ہوں، تو مجھے کوئی یہ بتائے گا کہ یہ ٹیکس میں کیوں دوں؟ کیا اس لیے دوں کہ یہاں نظریہ ضرورت کو فروغ دیا جاتا ہے، یہاں اُن لوگوں کو لایا جاتا ہے، جو میرا ٹیکس چوری کرکے بیرون ملک تجوریاں بھر رہے ہیں، کیا اس لیے ٹیکس دوں کہ یہاں غیروں کے کہنے پر حکومتیں تشکیل دی جاتی ہیں، کیا اس لیے ٹیکس دوں کہ یہاں میرے ووٹ کی کوئی اوقات نہیں ہے، کیا اس لیے ٹیکس دوں کہ ادارے جس چاہیں اوپر لے آتے ہیں اور جسے چاہیں گرا دیتے ہیں؟ یا اس لیے دوں کہ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جائیں اور اشرافیہ اپنی مستی میں لگی رہے ۔ الغرض آپ عوام کو بدلے میں کیا دے رہے ہیں؟ دنیا بھر میں سیاست ہوتی ہے، رشوتوں بھی لی جاتی ہیں، کرپشن بھی ہوتی ہے، سب کچھ ہوتا ہے،، مگر وہاں عام آدمی کا ان چیزوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، وہاں حکومتیں عام آدمی کی عزت کرتی ہیں، وہاں عام آدمی کو ریلیف دیا جاتا ہے، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں عام آدمی پر اگر طاقتور شخص مقدمہ دائر کردے تو وہاں ریاست عام آدمی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں ،،، یہاں تو بس جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا حساب ہے۔ لہٰذاایسی صورتحال میں عام آدمی کہاں جائے؟کیا وہ بیرون ملک چلا جائے؟ آپ اپنے ارد گرد دیکھ لیں، پہلے ہی ہر سال ملک سے 8سے 10لاکھ برین ڈرین ہو رہا ہے،،، یعنی بڑی تعداد میں بہترین دماغ رکھنے والے افراد ملک سے باہر جا رہے ہیں۔بیرون ملک اگر وہاں کوئی پاکستانی سیٹ ہو جائے تو اُس کی اگلی سات نسلیں سنور جاتی ہیں، وہاں اُنہیں عزت دی جاتی ہے، اور ایک عام شہری کے برابر اُسے حقوق دیے جاتے ہیں۔ لہٰذامیں ووٹ کس کو ڈالوں؟ اور وہ بھی ایسی صورتحال میں جب ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ 8فروری کا الیکشن ڈھونگ ہے۔ اگر یہاں آپ ووٹ بھی ایک مخصوص جماعت کو ڈالیں گے تب بھی آپ خطرے میں آسکتے ہیں۔ تو ایسی صورتحال میں جب مجھے پتہ ہے کہ میں مخصوص آزاد اُمیدوار جسے ووٹ ڈالوں گا،،، اور الیکشن کے بعد اُس شخص کا علم نہیں کہ وہ کدھر جائے گا ، یا اُس سے پریس کانفرنس کروالی جائے گی اور اُس کا رُخ تبدیل کرکے من پسند جماعت کی طرف کروا دیا جائے گا تو بھائی میں ووٹ کس کو دوں؟ اور کیوں دوں؟ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کو خود رو پودے کی طرح بڑھنے دیں، جب یہ پودا جوان ہوجائے اور میچور ہونے لگے تو اسے کاٹ نہ ڈالیں۔ بلکہ اسے فیصلے کرنے دیں، جب یہ خود فیصلے کرنے لگے گا تو اس میں پختگی آئے گی۔ اور رہی بات نوجوانوں کی تو خدارا اُنہیں مایوس نہ ہونے دیں۔ کسی ملک میں اگر نوجوان طبقہ ہی مایوس ہو جائے تو پیچھے کچھ نہیں بچتا۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ نوجوان سے صرف اور صرف ووٹ حاصل کرنے کی بجائے ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے بھی ٹھوس تجاویز اور پالیسیاں پیش کریں۔ تاحال کسی سیاسی جماعت کا منشور سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نے اس حوالے سے کہیں تفصیل سے اپنی پالیسی بیان کی ہے۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ صاحب الرائے افراد اور فیصلہ ساز قوتیں اس کمی کی نشاندہی کریں تاکہ نوجوان ووٹرز سیاسی جماعتوں سے اپنے لئے واضح اور قابل عمل پالیسیاں تشکیل دینے کے لئے آواز بلند کریں۔ یہ اقدام اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر ہمارے ملک میں آبادی کی تعداد میں اضافہ اسی طرح جاری رہا تو ہمارے وسائل اور ترقی اس بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے میں ہی خرچ ہو جائیں گے اور ہم کبھی بھی اپنے پاﺅں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔اس حوالے سے پاکستان کو جاپان اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد نوجوانوں کو سیاسی اجتماعوں میں بھیجا، اُن سے اپنے ملک کی سرگرمیوں کا بالکل بدل کر رکھ دیا۔ جبکہ ملک میں سیاست اپنے ڈگر پر چل پڑی تو ساتھ ہی حکومتوں نے اُنہیں مصروف رکھنے کے لیے ٹیکنیکل اور ووکیشنل ایجوکیشن پر فوکس کر کے نہ صرف اپنے لوگوں کو روزگار فراہم کیا بلکہ اپنے اپنے ملک کو دوبارہ صف اول کا ترقی یافتہ ملک بنایا۔ اس کے لئے پاکستان میں ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ کے اداروں کا بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے ، نوجوانوں کو سیاست میں حصہ لینے کے حوالے سے نصاب شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنہیں ہر گز مایوسی میں نہیں بھیجنا چاہیے، اُنہیں اگر آپ اعتماد دیں گے تو وہ یقینا ملک کی ترقی کا باعث بنیں گے ورنہ ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ رہ جائے گا اور یہ نوجوان نشے جیسی لت میں مبتلا ہو کر معاشرے پر بوجھ بن جائیں گے !