حکومت کے تین سال ، مہنگائی اور حقیقت !

جمہوریت کی روح یہ ہے کہ ہر نئی حکومت عوام سے کئے گئے جن وعدوں اور اپنے پروگراموں کو ساتھ لیکر آتی ہے، تکمیلِ مدت کے بعداُس کا جائزہ لے اور کھلے دل سے اسے قوم کے سامنے رکھے۔ مگر انگریزی کہاوت ہے کہ :Goverments are supposed to lie to their citizensیعنی حکومتوں کا اپنے شہریوں سے جھوٹ بولنا معمول کی کارروائی ہے۔ یہاں بھی یہی حال رہا ہے، کہ ماضی میں ہر حکومت عوام کے ٹیکسوں کے قیمتی پیسے سے اپنی اس کارکردگی کا ڈھول پیٹتی نظر آئی ہے،جو عوام کو کبھی دکھائی ہی نہیں دی، تبھی عوام ہر بار ایسے حکمرانوں کو منتخب کرتی رہی جنہوں نے صرف جھوٹے سچے خواب دکھائے۔ اب چونکہ موجودہ حکومت کے بھی آخری سال چل رہے ہیں تو اس کی بھی کوشش ہے کہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے ایسا پیش کرے کہ لوگ داد دیے بغیر نہ رہ سکیں۔ کیوں کہ جب تحریک انصاف بھی 2018میں احتساب، عدل و انصاف، تعلیم، صحت، سماجی بہبود، تعمیر و ترقی کے شعبوں میں اصلاحات سمیت مہنگائی اور بدعنوانی کے خاتمے، زراعت، صنعت و تجارت ہاﺅسنگ، بیروزگاری، ملکی و غیر ملکی قرضوں ،توانائی کے بحران سے نمٹنے اور نوجوانوں کیلئے ایک جامع پروگرام لے کر آئی تھی، 26اگست کو اس کے تین سال مکمل ہو گئے اور ابھی دو سال کا عرصہ باقی ہے۔ اس تناظر میں حکومت اپنی کارکردگی کو تسلی بخش اور ماضی کی حکومتوں سے بہتر قرار دے رہی ہے جبکہ اسی حوالے سے حکومت نے گزشتہ ہفتے ایک بڑی تقریب کا بھی اہتمام کیا تھا، جس میں وزیر اعظم سمیت کئی وزراءنے اپنی تین سالہ کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھا اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا۔ خیر تحریک انصاف کو جو بہتر لگا اُس نے کیا۔ لیکن ناقدین ہیں کہ تنقید برائے اصلاح کے بجائے تنقید برائے تنقید کرکے حکومت کا مورال مزید ڈاﺅن کر رہے ہیں۔ مثلاََ حکومت کو پہلی تنقید کا نشانہ اس بات پر بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے مہنگی تقریب کا اہتمام کیا۔ لیکن ذرا غور فرمائیں تو سابقہ حکومتیں اس کام کے لیے کھربوں روپے کے اشتہار ہر سال پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دیتی تھی، جبکہ موجودہ حکومت نے میرے خیال میں ایک تقریب کا اہتمام کرکے جو مفت کی میڈیا کوریج حاصل کی اُس پر اُسے سراہنا چاہیے کہ اُس نے عوام کے اربوں روپے بچائے۔ دوسرا آج ہر شخص مہنگائی کے حوالے سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہے، اور یہ بات درست بھی ہے کہ مہنگائی ہوئی ہے لیکن کیا کوئی بتائے گا کہ کس دور حکومت میں مہنگائی نہیں ہوئی، آپ مشرف دور سے پہلے یا بعد کے ادوار اُٹھا کر دیکھ لیں، اسٹیٹ بنک کی رپورٹ نے آج تک یہ نہیں کہا کہ مہنگائی کم ہوئی ہے۔ اور رہی تحریک انصاف کی بات تو اُس کے دور میں مہنگائی میں 9فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جبکہ سابقہ ادوار میں یہ تناسب ساڑھے 10فیصد تک بھی دیکھا گیا ہے۔ اور پھر کورونا کے ادوار میں مہنگائی کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر 38واں آتا ہے۔ جیسے لبنان میں مہنگائی کا تناسب 101فیصد دیکھا گیا، شام میں 52فیصد، ارجنٹینا میں 51فیصد، ایران میں 47فیصد، ترکی میں 19فیصد، کرغستان میں 15فیصد، ازبکستان میں 14فیصد، یوکرین میں 11فیصد، تاجکستان میں 9فیصد ، برازیل، ملاوی، قازقستان اور پاکستان میں 9فیصد جبکہ اسی فہرست میں ہمسایہ ممالک بھارت میں ساڑھے 6فیصد، بنگلہ دیش میں 6فیصد اور سری لنکا میں بھی مہنگائی کا تناسب اتنا ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ مطلب کووڈ 19کی وجہ سے آپ اکیلے پاکستان میں مہنگائی کے حوالے سے حکومت پر تنقید نہیں کر سکتے، اور ہاں جن ممالک کے زر مبادلہ کے ذخائر بہتر پوزیشن میں تھے، وہاں کی حکومتوں نے سبسڈیز دے کر عوام کو ناصرف ریلیف دیا بلکہ اُنہیں ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا رہا ۔ اسی لیے چین میں مہنگائی کی شرح 1فیصدرہی، یورپ میں 1سے 2فیصد، جاپان، متحدہ عرب امارات، سعودی عربیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں مہنگائی کی شرح 0فیصد رہی۔ جبکہ ان ممالک کی نسبت پاکستانی معیشت قرضے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس لیے اگر آپ موجودہ حکومت کی بات کرتے ہیں تو یہ حقیقت ہے کہ آج سے تین سال قبل پاکستان تحریک انصاف نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک کی معاشی حالت نا گفتہ بہ تھی۔ حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کیمطابق مالی سال 2018-19کے دوران کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 19.2 ارب ڈالر تھا اور 210 سرکاری اداروں کا خسارہ 286 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس وقت کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 1.8ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد تحریک انصاف کو معاشی شعبے میں جس قسم کے نا موافق حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ یقینا غیر معمولی چیلنج تھے۔ ان حالات میں پاکستان کے گہرے دوست ممالک ہی کام آئے۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے ان ہنگامی حالات میں پاکستان کی زرمبادلہ کی صورت میں جو بھی امداد کی گئی، خواہ وہ قرضے کی صورت میں تھی یا اپنے ڈالر کے کھاتے پاکستان منتقل کرنے کی صورت میںڈانواں ڈول معیشت کو سہارا دینے میں اس سے بہت مدد ملی۔ پھر کورونا کے دور میں پاکستانی حکومت نے جیسے حالات کا سامنا کیا وہ بھی قابل تحسین ہے، جیسے 2020ءکو اس گمبھیر صورتحال کا نقطہ عروج کہا جا سکتا ہے مگر اس دوران پاکستان کیلئے جو بہتر امکانات پیدا ہوئے،ان میںکورونا وبا کا نسبتاً کم پھیلاﺅ سرِ فہرست ہے۔ یہ محض خوش قسمتی تھی کہ اس دوران جب خطے کے ممالک حتیٰ کہ یورپ، برطانیہ اور امریکہ تک میں اس عالمگیر وبا نے تباہ کن حالات پیدا کر دئیے تھے، پاکستان میں اس کا دباﺅ اس خطے کے بہت سے ممالک کی نسبت نمایاں طور پر کم رہا۔ اس دوران حکومت نے جو حقیقت پسندانہ فیصلے کئے وہ بھی اپنی جگہ پر اہم تھے جن سے کورونا وبا کی شدت کے دوران پاکستانی معیشت کو فعال رکھنے میں مدد ملی۔پھر کورونا وبا کے عین ہنگامے میں حکومت نے تعمیراتی صنعت کیلئے مراعات کا اعلان کر کے اس شعبے میں نئی سرگرمیوں اور اربوں روپوں کے منصوبوں کا آغاز کر دیا۔ تعمیرات کی صنعت، جس طرح معیشت کی فعالیت کا باعث بنتی ہے،حکومت نے اس شعبے پر توجہ دی اور لاکھوں افراد کو روزگار ملا۔اس دوران بعض برآمدی شعبوں کی حالت میں بھی سدھار پیدا ہوا جیسا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت، جس کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک سے رقم واپس بھیجنے کیلئے بہتر اورآسان بینکنگ چینلوں پر خصوصی توجہ دیکر حکومت نے جائز راستے سے ترسیل زر میں اضافہ کیا اور اسکے نتیجے میں سمندر پار سے بھیجی جانیوالی رقوم گزشتہ مالی سال 2020-21 میں 23 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں، جو ن لیگ کے دور حکومت کے آخری سال میں 16ارب ڈالر تھیں۔ اس طرح ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر جو تین برس قبل ساڑھے سولہ ارب ڈالر تھے، اب 27 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور ٹیکس ریونیو جو تین برس قبل 3800 ارب روپے تھا اب 4700 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ صحت کی ترقی اور مریضوں کو جدید طبی سہولیات ان کی دہلیز پر فراہمی موجودہ حکومت کی ترجیحات میں سر فہرست ہے۔صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی کا موجودہ پروگرام یعنی ”صحت کارڈ“ جیسے تاریخی پروگرام اورغریبوں کی بحالی کے لیے احساس کارڈ جیسے پروگرام شروع کیے۔ پھر جہاں تک توانائی کا تعلق ہے توملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 24200 میگاواٹ بجلی کی ترسیل کو یقینی بنایا گیا ہے۔ مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن جیسے منصوبوں سے بجلی کی فراہمی میں بہتری آئے گی۔قابل تجدید توانائی کے ذریعے 2030ءتک انرجی مکس کو بہتر بنایا جائے گا۔ پانی کی کمی پوری کرنے کیلئے موجودہ دور حکومت میں 10ڈیمز بن رہیں ہیں۔مہمند ڈیم سب سے پہلے پھر داسو ڈیم بنے گا۔مہمند ڈیم 2025ءتک مکمل ہوجائے گا۔ البتہ کچھ شعبے ایسے بھی رہے جو حکومت کی نظروں سے اوجھل رہےاور حکومت اس حوالے سے پوری طرح بلکہ سو فیصد قصوروار ہے اُن سے سب سے پہلے تعلیم، دوسرا سپورٹس اور تیسرا گڈ گورننس۔ اگر ہم تعلیم کے شعبے کی بات کریں تو بظاہر حکومت یہی دعوے کر رہی ہے کہ اُس نے سابقہ حکومت سے زیادہ تعلیم پر بجٹ خرچ کیا ہے لیکن اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اربوں کی کٹوتی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ الغرض تحریک انصاف کے منشور میں پہلی شکوں کے مطابق تعلیم اُس کی ترجیحات میں شامل ہوگی، مگر اس حوالے سے کہیں کوئی انقلابی قدم دیکھنے کو نہیں مل سکا۔ پھر اگر آپ سپورٹس کے حوالے سے بات کریں تو جب ”کپتان“ یعنی ایک کھلاڑی وزیر اعظم بن گیا تو سبھی کو اُمیدیں تھیں کہ پاکستان میں کھیلوں کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ جائیں گی اور پاکستان میں چھپے ٹیلنٹ کو باہر نکالنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے مگر خدا کی پناہ کہ کھیلوں کے حوالے سے ہم آج بھی دنیائے کھیلوں کی فہرست میں آخری نمبروں پر آتے ہیں۔ جیسے حالیہ اولمپکس میں بھی پاکستان نے کوئی تمغہ نہیں جیتا اور یہ ہمارے لیے باعث شرم بات ہے کہ ہم 29سال سے کوئی تمغہ نہیں جیت سکے۔ پھر کرکٹ میں3سال قبل ہم ٹی 20میں نمبر ون پوزیشن پر تھے، آج 4thپوزیشن پر ہیں، ون ڈے میں 2018ءمیں 5ویں نمبر پر تھے، آج ساتویں نمبر پر ہیں، ٹیسٹ کرکٹ میں اُس وقت بھی ساتویں پر تھے اور آج بھی ساتویں نمبر پر ہیں۔ پھر قومی کھیل ہاکی بری طرح تباہ ہوگیا ہے، اب ہم ورلڈ کپ، یا اولمپک کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کرتے، حالانکہ پہلے ٹوٹل 8ورلڈ کپ میں سے 4ورلڈ کپ پاکستان نے جیتے تھے۔ یعنی یہ ہماری ہاکی فیڈریشن اور اولمپک ایسوسی ایشنز فنڈز کھانے کے سوا اور کیا کرتی ہیں؟ اس پر خان صاحب کو توجہ دینے کی ضرورت تھی لیکن نہیں دی گئی۔ پھر لاہور کی گراﺅنڈز جہاں پلازے تعمیر ہو چکے ہیں، کو واگزار نہیں کروایا جا سکا۔ لاہور کی آبادی میں جس طرح سوسائیٹیاں بڑھ رہی ہیں، اُن پر بھی قابو نہیں پایا جا سکا۔ پنجاب کی زرعی زمین ہاﺅسنگ سوسائیٹیوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، حکومت اُنہیں روکنا تو دور کی بات اُس میں حصے دار بننے کی کوشش میں ہے۔ حالانکہ لاہور کی آبادی پہلے سے تین گنا بڑھ چکی ہے لیکن کہیں کوئی کھیلوں کے لیے گراﺅنڈز نہیں بنائے جا رہے، تبھی ہمارے نوجوان تباہ ہو رہے ہیں،اخلاقی اور تربیتی لحاظ سے برباد ہو رہے ہیںکیوں کہ اُن کے پاس کرنے کے لیے آﺅٹ ڈور گیمز نہیں ہیں ۔ لہٰذایہ حقیقت ہے کہ حکومت کی کارکردگی 70فیصد تک ٹھیک ہے، اگر تحریک انصاف اگلے دو سالوں میں 30فیصد کاموں کو بھی درست سمت میں ڈال دیں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے!! #3 year of Govt #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan