صدارتی نظام سے پہلے ’’اخلاقی نظام‘‘ کی ضرورت !

ہمارے ملک کی ایک عام روایت ہے ’’دھیان بٹانا‘‘ یا یہ کہہ لیں کہ یہ ایک عام مشغلہ بھی ہے۔ مطلب جب آپ کسی سنجیدہ مسئلے پر پھنسے ہوں تو آپ کے ماتحت عملہ یا افسران یا نچلا عملہ اُس مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے آپ کا دھیان بٹانے کی کوشش کرے گا۔ آپ کسی میٹنگ میں بیٹھے ہیں تو بسا اوقات ایک آدھ آفیسر آپ کو ٹریک سے ہٹانے کے لیے کوئی ایسا چٹکلہ چھوڑ دے گا کہ ساری میٹنگ کشت زعفران بن جائے گی اور جس مقصد کے لیے آپ اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہ مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔ یہی حال آجکل حکومت کا ہے کہ جب بھی حکمران کسی مسئلے پر پھنستے ہیں تو کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے آج کل ہمارے ہاں ’’صدارتی نظام‘‘ کی بحث جاری ہے۔ اس بارے میں بحث کورونا وائرس کی طرح پھیل گئی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، اور پرنٹ میڈیا میں بھی دھڑا دھڑ اظہارِ خیال ہو رہا ہے۔ایک نجی ٹی وی چینل نے تو باقاعدہ ریفرنڈم کرا ڈالا،صدارتی نظام کے فیوض و برکات کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے حق میں اپنی رائے ظاہرکرنے پر اکسایا، اور یقین دلایا کہ اگر بہت بھاری تعداد میں لوگ میدان میں نکل آئے تو پالیسی سازوں پر دبائو بڑھے گا،اور وہ سنجیدگی سے اس بارے میں غور کرنے لگیں گے۔ الغرض ہر ٹی وی چینل پر بحث جاری ہے۔ نامی گرامی اینکر صدارتی اور پارلیمانی نظام کی کشتی کرانے میں مصروف ہیں۔اپوزیشن اور حکومت دونوں کے زعما ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں،اس شوشے کی ایجاد ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔اور تو اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دھواں دھار تقریریں ہو رہی ہیں۔لیکن کسی کو علم نہیں کہ اس نظام کو کیسے لانا ہے؟ قانون کیسے تبدیل کرنا ہے؟ کس نے کرنا ہے؟ یا اس کا کون کون اسٹیک ہولڈر ہے۔ خیر آگے چلنے سے پہلے صدارتی نظام پر اگر ہم نظر ڈالیں تو اس وقت بہت سے ملکوں میں صدارتی نظام رائج ہے جسے کے مطابق صدر کو براہ راست عوام منتخب کرتے ہیں، جس کے بعد وہ تمام صوبوں یا ریاستوں میں سے اپنے لوگ منتخب کرتا ہے اور یوں وہ پورے ملک پر ایک خاص مدت کے لیے حکمرانی کرتا ہے۔ اس قسم کا نظام امریکا، افغانستان، ارجنٹائن، میکسیکو، میانمار، برازیل، چلی، کولمبیا، انڈونیشیا، کینیا، کولمبیا اور سوڈان وغیرہ میں رائج ہے۔ جبکہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے جس میں وزیراعظم ہی ملک کا سربراہ ہوتا ہے ، جبکہ صدارتی نظام کی باتیں یہاں اُس وقت زور پکڑتی ہیں جب الیکشن قریب آرہے ہوتے ہیں اور حکومت وقت کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی ہو۔ حد تو یہ ہے کہ اس کے علاوہ خلافت نظام اور اسلامی نظام کی باتیں بھی عام ہونے لگتی ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کا دھیان بٹانا ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھی جو ہم کچھ کر نہیں پائے اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمانی نظام خراب ہے۔ کیونکہ جن کو لایا گیا ہوتا ہے ان کے متعلق تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خراب ہیں یا کرپٹ ہیں اس لیے ملبہ نظام پر ڈال دیا جاتا ہے۔اور ویسے بھی پاکستان میں صدارتی نظام کی باتیں ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ کے دور میں ہوا کرتی ہیں، یعنی مکمل صدارتی نظام کا تجربہ ایوب خان نے ہی 1962 سے 1969 تک کیا تھا۔ باقی ادوار مارشل لا کے تھے جو کہ بذاتِ خود سینٹرلائزڈ یا سب کچھ مرکز کے تحت لانے والے ہوتے ہیں۔ ایوب خان کا 58 سے 62 تک مارشل لا، پھر یحییٰ خان، ضیاالحق اور مشرف کے مارشل لا، ان ساروں میں کمان ایک شخص میں مجتمع ہوتی ہے جو کہ صدارتی نظام میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ طاقت کی مرکزیت ہے۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے اور جہاں تک صدارتی نظام کا تعلق ہے اس میں کوئی برائی نہیں کہ اس نظام یا نئے نظاموں کے بارے سوچا جائے۔ لیکن جو سب سے زیادہ سوچنے کی چیزیں ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم نے پارلیمانی نظام کو موقع ہی کب دیا، یعنی کیا ہم نے اس نظام کو پوری طرح Implementکیا؟ آج بھی اسمبلیوں میں چلے جائیں وہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی کورم پورا نہ ہونے کا ہے۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نظام کے بدلنے سے عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا اس نظام سے ہم ایمان دار ہو جائیں گے؟ کیا ہم نوبل پرائز حاصل کرنے کے لیے تگ و دو شروع کر دیں گے؟ کیا ہمارا عدالتی نظام ٹھیک ہوجائے گا؟ کیا ہماری عدالتوں میں موجود 30لاکھ سے زیادہ زیر التواء کیسز کا فیصلہ ہو جائے گا؟ کیا ہماری معاشی حالت ٹھیک ہو جائے گی؟ کیا ہم اندر سے کرپشن ختم ہو جائے گی؟ کیا ہم دنیا میں سچ بولنے والی قوم گنے جائیں گے؟ کیا ہمارا سٹریٹ کرائم کم ہو جائے گا؟ کیا ہماری اصلاح ہو جائے گی؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا ہمارے ادارے ٹھیک کام کرنے لگ جائیں گے؟ کیا ہمارے بیوروکریٹ ٹھیک ہو جائیں گے؟ کیا ہمارا انکم ٹیکس آفیسر پرائیویٹ کاروباریوں کی نوکریاں کرنا چھوڑ دے گا؟ کیا ہماری پولیس ٹھیک کام کرنے لگے گی؟ کیا ہمارا پولیس کا سپاہی عام آدمی کے تحفظ کے لیے کھڑا ہوگا؟اور پھر کیا اس سے ہماری خارجہ پالیسی ٹھیک ہو جائے گی؟ کیا اس نظام سے ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا؟ کیا اس نظام کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر سے لوگ اس ملک میںانویسٹمنٹ کے لیے آنا شروع ہو جائیں گے؟ کیا سیاحوں کی بھرمار ہو جائے گی؟ کیا صدارتی نظام لانے سے ہمارے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک ہو جائیں گے؟ کیا مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا؟ کیا سی پیک دوبارہ اپنی سپیڈپکڑ لے گا؟ یا پھر کیا ہم ایک مہذب قوم گنے جائیں گے؟ اور پھر دنیا میں جتنے بھی حکومتی نظام متعارف کروائے گئے ہیں ان میں لوگوں کی معاشی حالت بدلنے کا دعویٰ سب سے پہلے کیا گیا۔ جہاں عام آدمی کا لائف سٹائل بہتر ہوا ہے اس نظام کو ہی کامیابی کا تاج پہنایا گیا ہے۔ چین کا نظام حکومت دنیا سے مختلف ہے لیکن اس نے پچھلے چالیس سال میں معاشی انقلاب برپا کر دیا ہے۔ دبئی میں بادشاہت کا نظام ہے اور اسی نظام کے تحت متحدہ عرب امارات کے صحرا امریکہ اور یورپ سے زیادہ جدید شہروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ترکی میں صدارتی نظام نافذ ہے جو کامیابی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ایران کا طرز ِحکومت باقی دنیا سے مختلف ہے۔ گو کہ وہاں معاشی انقلاب نہیں آ سکا لیکن دنیا بھر کی جانب سے عائد پابندیوں کے باوجود سوئی سے لے کر جہاز تک ایران میں تیار کیے جاتے ہیں۔ تہران دنیا کا سستا ترین شہر ہے اور ایران گلف ممالک میں سب سے بڑی پراکسیز کی مالی امداد کر رہا ہے۔ تقریبا ًسالانہ آٹھ ارب ڈالرز فلسطین، لبنان، شام اور یمن میں جنگجوئوں کی مالی امداد پر خرچ کیا جاتا ہے۔ یعنی قصور ہمارے نظام کا نہیں بلکہ ڈلیور کرنے والوں کا ہے۔ جو موجودہ سسٹم سے ہی اگر ہم فائدہ نہیں لے سکتے تو پھر نئے نظام میں کیسے تبدیلی لے آئیں گے؟ یا تو یہ ہو نا چاہیے کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ موجودہ پارلیمانی نظام سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ مگر ہمیں یہ سسٹم وہ فائدے نہیں دے رہا جس کی ہمیں ضرورت ہے تو ہم پھر بھی ایسا کرنے کے مجاز ہیں۔ لیکن اگر ہم خود ہی ٹھیک نہیں ہیں تو جتنے مرضی سسٹم آجائیں ، وہ سب وقت کو دھکا لگانے اور نظریہ ضرورت کے تحت ہی آئیں گے!اور پھرجب ہم بحیثیت قوم ہی کرپٹ ہیں تو کوئی بھی نظام آجائے تو یہاں چلنے والا نہیں ہے، یہاں تو گریڈ ایک سے لے کر گریڈ 22تک تمام افراد ہی کرپٹ ہیں تو نظام کس نے نافذ کرنا۔ یہاں تو سب سے پرکشش نوکری سی ایس پی آفیسر کی ہے۔ اور جوبندہ سی ایس پی آفیسر بھرتی ہوتا ہے، تو اُس کی محض 70ہزار تنخواہ ہوتی ہے لیکن اُس کے 7کروڑ روپے کے اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔ تو وہ کرپشن نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟ جب ہمارے لوگ پولیس، کسٹم، ایف بی آر یا کسی دوسرے پرکشش ادارے میں کہ ہم نے وہاں سے رشوت کے ذریعے پیسہ کمانا ہے تو پھر ہماری بحیثیت قوم تربیت کی ضرورت ہے۔ناکہ صدارتی یا پارلیمانی نظام کی۔ ہم اسلامی نظام لے کر آئے، اسلامی سزائوں کا نفاذ کیا تو کیا ہم اُس پر عمل درآمد کر پائے؟معذرت کے ساتھ یہاں تو اسلامی سزائوں کو بھی طاقتور طبقے نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا، جس میں دیت کا اسلامی قانون سر فہرست ہے، کہ اس میں ملزم پیسے کے بل بوتے پر مدعی پر دبائو بڑھاتا اور صلح کرتا ہے پھر ہم جھوٹے قرآن اُٹھا لیتے ہیں، پھر اپنے ذاتی مفادات کے لیے جھوٹے اسلامی پرچے کروا دیتے ہیں ۔ الغرض یہاں پر سب سے پہلے ہمیں ایک تھنک ٹینک بنانے کی ضرورت ہے۔ جو یہ چیک کرے کہ ہماری بے ایمانی کرنے کی آخر وجہ ہے کیا؟ جو یہ چیک کرے کہ آخر کیوں ہمارے گھر کے نوکر سے لے کرآفسز کے سٹاف تک سب لوگ کرپٹ ہو چکے ہیں؟ ہمارے ہاں اگر کوئی گھر کا ملازم ٹماٹر لینے جاتا ہے تو وہ بھی بے ایمانی کرتا ہے، ڈرائیور کو پٹرول ڈلوانے بھیجو وہ بھی بے ایمانی کرتا ہے اور جو آفس کے لیے کوئی سامان یا فیکٹری کے لیے مٹیریل خریدنے جاتا ہے تو وہ بھی بے ایمانی کرتا ہے۔ اور پھر ہمارے سرکاری افسران کا تو اللہ ہی حافظ ہے، دس ہزار روپے کے پراجیکٹ سے لے کر اربوں روپے کے پراجیکٹ تک سب میں بے ایمانی ہوتی ہے، حتیٰ کہ ہمارے ججز اور جرنیلوں پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں، اور پھر حیرانی کی بات دیکھیں ہمارے علماء کرام بھی اس الزام سے بری الذمہ نہیں ہیں۔ مثلاََ چند ماہ قبل انتقال کرجانے والے جامعہ بنوریہ ٹائون کے مہتمم کی چھوڑ ی گئی اربوں روپے کی رقم کے بٹوارے پران کے بیٹوں کے اختلاف کا انکشاف ہوگیا ہے اور معاملہ عدالت جا پہنچا ہے۔انہوں نے 5ارب،34کروڑ14لاکھ 27ہزار 147روپے چھوڑ کر جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے۔اب کوئی یہ بتائے کہ یہ رقم موصوف نے اپنے گھر میں حکومت سے چھپا کر رکھی تھی یا کیا اس کا کوئی ٹیکس وغیرہ بھی دیا گیا یا نہیں۔ اس بارے میں بھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ الغرض ہم 1977ء کے بعد بحیثیت قوم کرپٹ ہو چکے ہیں، پھر کوئی بندہ اس پر شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتا ۔ اور پھر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا بھر سے زیادہ عبادت گاہیں اسی خطے میں ہیں تب بھی ہم کرپشن سے باز نہیں آرہے، تب بھی ہم بے ایمانی کرنے والوں میں اول نمبر پر ہیں۔ لہذاہمیں سب سے پہلے اس پر مذاکرے کروانے چاہییں، سیمینارز کروانے چاہییں، ٹی وی پروگرام کروانے چاہییں بلکہ پی ایچ ڈی اور ایم فل طلبہ سے اس پر ریسرچ کروانی چاہیے کہ ہم بحیثت قوم کیسے بدل سکتے ہیں؟ ہمارے اندر کیسے انسانیت پیدا ہو سکتی ہے، یا ہمارے اندر اخلاقی نظام لا کر کس طرح تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔ لہٰذاسرکار سے گزارش ہے کہ وقت گزاری کی بجائے عوامی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے تا کہ عام آدمی کی حالت بہتر ہو سکے اور آپ کو اعدادوشمارآگے پیچھے کرنے اور صدارتی نظام جیسے ایشوز لانچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon