6ججز کا فیصلہ سپریم کورٹ کا فل بینچ کرے!

اگر کسی ملک کے دارالحکومت کی سب سے بڑی عدالت کے 8ججز میں سے 6ججز تحریر ی طور پر شکایت کریں کہ اُن کے صحیح فیصلہ کرنے میں سنجیدہ قسم کی رکاوٹیں آرہی ہیں تو یہ بات یقینی طور پر اُس ریاست، اداروں اور خود عدلیہ کے لیے بھی بڑی حد تک پریشان کن ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے 2018ءمیں بھی ایسی ہی باتیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہی تھیں، لیکن اُنہیں کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا، بلکہ اُن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ نہایت جذباتی شخصیت ہیں۔ لیکن اب کی بار اسلام آباد ہائیکورٹ کے 80فیصد ججز نے وہی باتیں کی ہیں تو ملک بھر میں ایسا طوفان آیا ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔لیکن ن لیگ نے اس کیس کو بھی بڑی ”احتیاط“ سے ہینڈل کرنے کوشش کی ہے۔ ویسے ساری تعریفیں البتہ (ن) لیگ نہیں سمیٹ سکتی۔ بہت سی داد توسپریم کورٹ کو بھی جاتی ہے‘ کس خوبصورتی سے مسئلے کو ہینڈل کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس صاحب سے وزیراعظم ملنے آئے اور ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا ا±سے لٹریچر کا ایک شاہکار سمجھنا چاہئے۔ اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی حملہ برداشت نہیں کیاجائے گا۔اس قسم کے اور جملے بھی اعلامیہ میں شامل کیے گئے اور پھر آخر میں اس انقلابی نکتے پر اتفاق ہوا کہ اسلام آباد کے جج صاحبان کے اٹھائے گئے نکات کی چھان بین کیلئے ایک جوڈیشل کمیشن مقرر ہونا ضروری ہے۔ اس کمیشن کی سربراہی کسی نیک نام ریٹائرڈ جسٹس صاحب کو سونپی جائے گی۔ پاکستان کے تناظر میں ایسے ہومیوپیتھک اقدامات کو انقلابی ہی سمجھنا چاہئے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان بھی سوچتے ہوں گے کہ اگر یہی کچھ ہونا تھا تو شاید بہتر تھا کہ کچھ نہ کیا جاتا۔ لیکن نہیں‘ کچھ ہونا ہوانا نہ بھی ہو پھر بھی ان ججوں کا لکھا خط یاد رہے گا۔ کوئی تو تھے جنہوں نے کچھ آواز اٹھائی۔ نہیں تو یہاںوہ کچھ ہورہا ہے جس کا چند سال پہلے تصور کرنا بھی مشکل تھا۔پاکستان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ تو اپنی جگہ ہے لیکن جو آئین اور قانون کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ سچ پوچھئے آج کل کے حالات سامنے رکھیں تو نواب آف کالا باغ قانون کی حکمرانی کے داعی اوربنیادی انسانی حقوق کے علمبردار لگتے ہیں۔ نوا ب صاحب سخت مزاج کے آدمی تھے لیکن شاید وہ زمانے اور تھے ،اس لیے وہ کچھ نہ کرسکے جو آج کا معمول بنتا جارہا ہے۔ خیر اس کیس کی تفصیل بتاتا چلوں کہ سب سے پہلے اس خط پر” ایکشن “کے طور پر چیف جسٹس سپریم کورٹ اور وزیر اعظم کے درمیان چیمبر میں ملاقات ہوئی،،، جس میں ججز کے مذکورہ خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اس کمیشن کو ناصرف ججز نے مسترد کیا بلکہ وکلاءتنظیموں نے بھی اسے یکسر مسترد کردیا۔ پھر اس کے بعد سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو کمیشن کا سربراہ نامزد کیا گیا، لیکن اس پر 300وکلاءجس میں تصدق حسین جیلانی کے بیٹے بھی شامل تھے نے خط لکھا جس میں سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ،،، اُن کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے والد کے حوالے سے پراعتماد ہوں، لیکن یہ الزام بڑا ہے، اس لیے سپریم کورٹ خود اس پر نوٹس لے۔ یہ ہمارا پرنسپل سٹینڈ ہے۔‘جبکہ خط کے متن کے مطابق ’انکوائری کمیشن کو تحقیقات کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ٹی او آرز کے مطابق کام کرنا ہوگا، مزید یہ کہ انکوائری کا ٹائم فریم اور رپورٹ کو پبلک کیا جائے گا یا نہیں یہ اختیار بھی حکومت کے پاس ہوگا۔ وفاقی حکومت کو دیے گئے اس طرح کے اختیارات کے پیش نظر انکوائری کمیشن عدلیہ کی آزادی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری اختیارات سے محروم ہو جائے گا۔‘خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ ’وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں کی جانے والی انکوائری ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے جن کا تحفط یہ انکوائری کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی انکوائری کمیشن اور اس کی کارروائی مکمل طور پر ساکھ کو متاثر کرے گی۔‘مزید لکھا گیا کہ ’ہم سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دے جو اس معاملے کی سماعت کرے اور کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے۔‘ قصہ مختصر کہ جس کمیشن اور اُس کے سربراہ کو اُس کا بیٹا ہی تسلیم کرنے سے عاری ہے،، تو اُس کی رپورٹ کو عوام نے تسلیم کرنا تھا؟ لہٰذاایسی صورتحال میں تصدق حسین جیلانی سیانے نکلے اور ذاتی مصروفیات اور ٹی او آرز پر اعتراض کرکے کمیشن کی سربراہی سے جان چھڑوا لی۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا اور کہا کہ 7رکنی بینچ اس کیس کا فیصلہ کرے گا۔ جبکہ بینچ کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔جبکہ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی شامل ہیں۔اور اس کیس کی سماعت کل یعنی بدھ 3اپریل کو مقرر کی گئی۔ او ر اب آخری خبریں آنے تک یہی بنچ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے،،، لیکن میرے خیال میں اگر فل کورٹ بینچ اس کا فیصلہ کرے تو تمام فریقین اس حوالے سے مطمئن ہو سکتے ہیں،،، اور یہ بات اچھی ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے ہی لوگوں کی داد رسی کے لیے قدم اُٹھایا ہے،،، لہٰذااس حوالے سے سپریم کورٹ کہیں پر بھی کمزور ی نہ دکھائے ۔ لیکن اس کے برعکس اگر کمیشن بنتا تو حاضر ججز کا ریٹائرڈ ججز سے انصاف لینے کے حوالے سے تو ہمارے ملک میں ویسے ہی بے شمار لطیفے بنے ہوئے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ آج ہماری عدلیہ کا ٹرننگ پوائنٹ ہے،،، یا تو آج عدلیہ سرخرو ہو جائے گی یا ہمیشہ کے لیے بیک سٹیج چلی جائے گی۔ اور اداروں کے نیچے لگ جائے گی۔ اس لیے میرے خیال میں سپریم کورٹ کو خود چاہیے تھاکہ ادھر اُدھر انکوائریاں چلانے کے بجائے اپنے احاطے سے اس کیس کو نہ نکلنے دے۔ اور چیف جسٹس صاحب نے ایسا ہی کیا،،، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اگر یہ کیس اس کے دائرہ اختیار سے نکل گیا تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اور رہی بات انکوائری کمیشن کی تو بتایا جائے کہ حالیہ سالوں میں کتنے کمیشن قائم کیے گئے اور کیا اُن سب کی رپورٹس منظر عام پر آئیں؟ آپ کمشنر راولپنڈی کے الزامات پر ہی بننے والا کمیشن دیکھ لیں،،، کیا اُس حوالے سے کسی کو کیس یاد بھی ہے؟ نہیں ہوگا یقینا ! اور پھر سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے کمیشن کا کیا بنا؟ اُس کی انکوائری بھی تو لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی نے کی تھی۔ پھر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو ہی پبلک کرنے سے منع کر دیا تھا، پھر جسٹس قیوم کمیشن رپورٹ میں ذمہ داران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ پھر ایبٹ آباد سانحے کا کیا بنا؟ حتیٰ کہ لیاقت علی خان کے قتل کیس میں انکوائری رپورٹ کا کچھ بنا؟ پھر’2013 کے انتخابات پر جو تحقیقاتی کمیشن بنا تھا اس کی رپورٹ آئی تھی جو سابق چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تھا اس نے اپنی فائنڈنگ لکھیں اور رپورٹ بھی منظر عام پر آئی ۔لیکن اُس کا کیا بنا©؟ پھر ساہیوال واقعہ کا کمیشن بنا؟ مگر تمام ذمہ داران بری کر دیے گئے۔ پھر لاپتہ افراد کے کمیشن کا کیا بنا؟ اور تو اورمیموگیٹ کمیشن کا کسی کو علم ہے کہ کیا بنا؟ کچھ نہیں ناں ! یعنی اگر عدلیہ کے اس ”نائن الیون“ پر بھی کمیشن بن جاتا تو یقینا کچھ بھی نہیں ہونا تھا۔ اور پھر اچنبھے کی بات یہ کہ کمیشن بنا کر حکومت نے خود ججز کو پریشان کر دیا کہ اب 6معزز جج صاحبان کے بیانات پر کیا انکوائری ہوگی،،، کہ آیا وہ بات درست کر رہے ہیں یا نہیں؟ یعنی ہمیں ابھی بھی شک ہے ، کہ وہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ ؟ مطلب! ہمیں اپنے 6ججز پر اعتبار نہیں ہے۔۔۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ بات ہے کہ انہوں نے سچ کہا ہے یا نہیں کہا تو پھر ان ججز کے تو سارے ہی فیصلے مشکوک ہوگئے ہیں،،، پھر اُن کے پرانے کیسز کھولیں اور چیک کریں کہ کیا انہوں نے فیصلے صحیح دیے تھے؟ الغرض سپریم کورٹ کو چاہیے کہ اس وقت ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ اگر ان ججز کا فیصلہ نہ کیا گیا تو آپ یقین مانیں کہ ہم مزید پیچھے چلے جائیں گے،،، اور کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اور اب جبکہ معاملہ سیٹلمنٹ کی طرف جا رہا ہے تو سپریم کورٹ کو چاہیے کہ فل بینچ بنا دے تاکہ کسی قسم کا شائبہ نہ رہے، اور اس معاملے کا باہمی افہام و تفہیم سے حل کر لیا جائے، اور جہاں تک بات ہے اداروں کی تو میرے خیال میں ملک اُسی وقت چلتے ہیں جب تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں،،، کوئی کسی کے دائرہ اختیار کو چیلنج نہ کر سکے۔ اور نہ ہی کوئی یہ کہہ سکے ہم کچھ نہیں کر سکتے! کیوں کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے!