کیا الیکشن کمیشن آئین کی حدود سے باہر ہے؟

ہمارے ہاں جو اقتدار میں آتا ہے، اُس کا جانا ابہام کا شکار ہو جاتا ہے، یا اُسے جلدی گھر بھیج دیا جاتا ہے، یا جس نے جلدی جانا ہوتا ہے(نگران حکومت) اُسے روک لیا جاتا ہے، یا بسا اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اقتدار پر بیٹھا شخص خود ہی اپنے مطابق قوانین میں تبدیلیاں کروالیتا ہے، اور پھر 4،6مہینے اقتدار کے مزید مزے لوٹتا رہتا ہے۔ جبکہ اس بارے میں الیکشن کمیشن جسے انتہائی سخت طبیعت ہونا چاہیے وہ کٹھ پتلی بن جاتا ہے، اور سربراہ الیکشن کمیشن کی چونکہ تقرری سیاسی ہوتی ہے، اس لیے وہ اُسی جماعت یا شخصیت کا سہولت کار بن جاتا ہے جس کے ذریعے وہ مقررہ مدت کے لیے آتا ہے۔ اور حالیہ دور میں تو الیکشن کمیشن کے سیاسی ہونے کی تو انتہا ہی ہوگئی جب اُس کے سینگ سپریم کورٹ کے ساتھ پھنسے۔ سپریم کورٹ نے مئی کے مہینے میں انتخابات کی تاریخ دی لیکن الیکشن کمیشن ٹس سے مس نہ ہوا۔ کبھی حلقہ بندیوں کا رونا تو کبھی فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا۔ پھر صدر پاکستان نے الیکشن کی نومبر میں تاریخ دی تو اب الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ آئندہ سال جنوری کے مہینے کے آخری ہفتے میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا تاہم الیکشن کی تاریخ سے جڑے آئینی سوال اب تک باقی ہیں۔اگر حالیہ تاریخ میں جھانکنے کی کوشش کریں تو پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور اس کی پانچ سال کی مقررہ مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے مکمل ہونا تھی تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے مقررہ مدت پہلے نو اگست کو ہی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔آئین کے تحت عام انتخابات اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن بعد ہونا تھے تاہم سابقہ حکومت کی جانب سے مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کا انعقاد التوا کا شکار ہو گیا۔ ایسے میں ’الیکشن کب ہوں گے‘ کا سوال پاکستان میں اہم ہوتا چلا گیا۔بہرحال گزشتہ روز ایک اعلامیے میں الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اس نے ’حلقہ بندیوں کے کام کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023 کو شائع کر دی جائے گی اور ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات و تجاویز کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائے گی۔الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ اس کے 54 دن کے الیکشن پروگرام کے بعد انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں کروا دیے جائیں گے۔جبکہ حد تو یہ ہے کہ رواں سال تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اب تک ان دونوں صوبوں میں بھی انتخابات نہیں ہو سکے اور اب یہ انتخابات بھی دیگر صوبوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ ہی منعقد ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ مطلب !اس سارے عمل میں ہمیں تو کہیں ”آئین“ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ ہمیں تو آج تک یہ ہی نہیں پتہ چلا کہ آئین ہوتا کیا ہے؟ الیکشن کمیشن کبھی کہتا ہے، کہ اُس کے پاس مین پاور نہیں ہے، کبھی کہتا ہے وسائل نہیں ہیں، کبھی کہتا ہے فنڈز نہیں ہیں۔ حالانکہ مزے کی بات یہ ہے کہ پچھلے رمضان المبارک میں جب حکومت نے کہا کہ الیکشن کروانے کے لیے اُس کے پاس پھوٹی کڑی نہیں ، تبھی انہوں نے 80ارب روپے کا مفت آٹا تقسیم کیا۔ جس میں سے مبینہ طور پر 40ارب روپے کی کرپشن کی گئی۔ لہٰذاہم ایسی صورتحال میں پاکستان کا مستقبل کس طرح روشن دیکھ رہے ہیں؟ اور کس طرح یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہونے والا الیکشن فری اینڈ فیئر ہوگا، اگر الیکشن نومبر میں نہیں ہونے اور جنوری کے آخر میں ہونے ہیں تو پھر آئین کہاں ہے؟ ویسے یہ بھی الیکشن کمیشن کی مہربانی ہے کہ اُس نے کوئی تاریخ دے دی، ورنہ اگر وہ مارچ یا اپریل بھی کہہ دیتا یا عیدین کے بعد کہہ دیتا تو اُس پر بھی ہم کیا کر سکتے تھے؟ یا پھر ایسے کر لیں کہ آئین کو ہی بدل لیں اور ”نظریہ ضرورت“ کو ہی نیا آئین بنا لیں۔ یعنی جو طاقتور کہے گا پھر وہی ہوگا، اُس سے ٹس سے مس بھی نہیں ہوسکتے، کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ہر پل ایسا ہی ہوتا رہا۔اور اس نظریہ ضرورت کا بانی ہمیشہ جسٹس منیر کو ہی کہا جاتا رہے گا، کیوں کہ اُن کے بعد اسے زیادہ استعمال کیا جاتا رہا۔ جسٹس منیر کے بارے میں ان کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ اگر اس وقت اپنے فیصلے میں وہ نظریہ ضرورت کا سہارا نہ لیتے تو بعد کی تاریخ بہت مختلف ہوتی کیونکہ ان کے فیصلے سے پاکستان میں غیر آئینی فیصلوں اور مارشل لاﺅں کا راستہ کھل گیا جو آج تک بند نہیں ہوا۔1977 میں ضیاء الحق سے لے کر 2000 میں مشرف کے غیر قانونی اقدام کو آئین کی چھتری فراہم کرنے تک ہماری عدلیہ کے بعض سرکردہ جج نظریہ ضرورت کو قائم دائم رکھے ہوئے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ افتخار چوہدری کی بحالی تحریک کے بعد عدلیہ نے ایک کروٹ لی اور بعد میں مشرف جیسے طاقتور آدمی پر بھی مقدمہ چلا اور ان کے خلاف آرٹیکل چھ بھی لگا۔لیکن پھر آپ دیکھیں تو جنرل باجوہ کی توسیع کے موقع پر نظریہ ضرورت کی جھلک انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ تینوں فریقوں میں دیکھی گئی۔بہرحال اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے ہی چاہتی ہے کہ وہ آئین و قانون سے بالاتر ہو اور اس کے لیے وہ عدالتوں اور مقننہ سمیت ہر ادارے کو اپنے زیر اثر رکھنا چاہتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں نظریہ ضرورت اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک ہر ادارہ اپنی آئینی حدود کے اندر کام نہیں کرے گا۔ بہرکیف اداروں سے دست بستہ گزارش ہے کہ نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کیا جائے، قارئین کو یاد ہو گاکہ جب جنرل ضیاءالحق کے طیارے کو حادثہ ہوا تھا تب بھی الیکشن کمیشن نے الیکشن کی تاریخ آگے نہیں بڑھائی تھی، یعنی الیکشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق 1988 میں فوجی صدر ضیاالحق نے اپنے قوم سے خطاب میں ملک میں عام انتخابات کے لیے 16 نومبر 1988 کی تاریخ دی تھی۔ یہ الیکشن سیلاب یا ضیاالحق کے طیارہ حادثے کی وجہ سے ملتوی نہیں ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے 16 نومبر کو قومی اسمبلی اور اس کے تین روز بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے تھے۔آپ محترمہ کی شہادت کو دیکھ لیں، 2007 میں جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد الیکشن کمیشن نے خود انتخابات میں التوا کا اعلان کیا تھا کیونکہ ملک میں کمیشن کی عمارات جلا دی گئی تھیں اور حالات الیکشن کے لیے سازگار نہیں تھے۔لیکن پھر بھی الیکشن کروائے گئے۔ لیکن اس بار تو ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے، تو پھر الیکشن کیلئے اتنی لمبی تاریخ دینے کا مطلب آخر کیا ہے؟ اور پھر میرے خیال میں ہو سکتا ہے یہ تاریخ اس لیے دی گئی ہے کہ وزیر اعظم اس وقت امریکا میں موجود ہیں اور وہاں اُن سے الیکشن کے حوالے سے سوالات کیے جار ہے ہیں تو ہوسکتا ہے یہ تاریخ ان سوالات سے بچنے کے لیے بھی دی گئی ہو۔ اور یہ بھی کوئی پتہ نہیں کہ الیکشن دو سال تک موخر بھی ہو سکتے ہیں۔ بے یقینی کے اس ماحول میں کسی سیاسی جماعت نے باقاعدہ انتخابی مہم بھی شروع نہیں کی۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کا ابہام دور کرکے جلد از جلد الیکشن کا انعقاد کروائے تاکہ آئین کمزور دکھائی نہ دے۔ کیوں کہ اگر یہاں آئین کمزور دکھائی دیا تو اسی الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والے الیکشن بھی کمزور دکھائی دیں گے۔ اسی الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والے انتخابی نتائج کو لے کر ہر کوئی شکایت کرتا نظر آئے گا۔ ایسا کرنے ملک میں سیاسی استحکام کبھی نہیں آسکے گا۔ اور پھر بدقسمتی سے ملکِ عزیز میں اب تک جتنے بھی انتخابات منعقد ہو چکے ہیں‘ ان کی شفافیت پر ہمیشہ سوال اٹھتا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آئندہ انتخابات کے دوران جو مانیٹرنگ سسٹم استعمال کرے گا‘ وہ سسٹم بھی انتخابات میں دھاندلی کے تاثر کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ آئندہ عام انتخابات کے لیے جو آر ٹی ایس متعارف کروایا جا رہا ہے وہ بھی ٹھیک ہونا چاہیے۔2013ءاور 2018ءکی طرح اُس پر کسی کو شبہات نہیں ہونے چاہیے اور نہ ہی وہ عین وقت پر بند ہونا چاہیے۔ اور رہی سیاسی جماعتوں کی بات تو سیاسی جماعتوں کو بھی میرے خیال مین اپنی مہمات کا آغاز کر دینا چاہیے۔ خاص طور پر تحریک انصاف کو۔ کہ اُس کی جتنی بچی کھچی قیادت ہے، وہ انتخابات میں حصہ لے۔ اور جو بھی نتائج ہوں اُنہیں تسلیم کرے۔ لیکن یہ سب کچھ اُسی صورت ممکن ہوگا جب الیکشن کمیشن آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے خدشات کو دور کرے، تمام میڈیا کو اوپن ٹرائل کا موقع فراہم کرے۔ اور الیکشن کی مذکورہ بالا تاریخ دینے کے حوالے سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے تاکہ دنیا میں پاکستان کے حوالے سے مثبت پیغام جائے اور ہم سرخرو ہوسکیں!