میرظفر اللہ خان جمالی بھی نہ رہے!

اقتدار ایک بے رحم کھیل ہے۔ اس کی آگ میں رشتے اور روایات، سب کو جلتے دیکھا گیا۔ لوگ صاف ہاتھوں کے ساتھ اس میدان میں اترے اور انہیں انسانی لہو سے تر کر کے نکلے۔شریف سے شریف آدمی کو بھی اپنا دامن بچائے بغیر نکلتے نہیں دیکھا، اسی لیے تو یہاں ایک دوسرے پر الزام تراشی کو اس قدر فروغ ملا کہ کوئی بھی وزیر اعظم یا چھوٹا موٹا وزیر بھی کرپشن جیسے الزامات سے اپنے آپ کو نہ بچا سکا۔ گزشتہ دنوں میر ظفرا للہ خان جمالی کا انتقال ہوا، تو اُن کے ساتھ گزرے چند لمحے یاد آگئے ، وہ گورنمنٹ کالج لاہورسے فارغ التحصیل تھے، وہ نہایت سادہ اور نفیس شخصیت کے حامل تھے، چونکہ میں بھی گورنمنٹ کالج کا فارغ التحصیل تھا تو اس لیے اُن سے ”اولڈ راوین“ ہونے کے ناتے ملاقات رہتی اور عقیدت کا رشتہ قائم ہو چکا تھا، وہ پاکستان ہاکی کے ساتھ بھی خاصے منسلک رہے ، وہ سیاست کے امور بھی ساتھ ساتھ چلاتے رہے اور 1977ءمیں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا، جس کے بعد وہ بلوچستان شفٹ ہوگئے اور وہیں سیاست کے ہو کر رہ گئے، بلوچستان میںچھوٹی سے چھوٹی سیٹ اور بڑی سے بڑی سیٹ کا مزہ بھی لیا اور وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بھی براجمان رہے لیکن 73سالہ تاریخ کھنگال کر دیکھ لیں آج تک جتنے بھی وزرائے اعظم کو اُن کے اقتدار سے الگ کیا گیا سبھی پر یا تو کرپشن کے الزامات لگے یا انہیں ”غدار“ قرار دے کر منصب سے الگ کر دیا گیا۔ پھر وہ لاہور آگئے، تو موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں بھی اُن سے ملنے چلا گیا، چائے شائے کا انتظام تھا، اکا دکا اور بھی دوست جمالی صاحب کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے، اُن کی باتوں سے مستفید ہو رہے تھے، جمالی صاحب سے میں نے دوستانہ ماحول میں ایک سخت سوال کیا، کہ جمالی صاحب آپ اس قدر بے ضرر انسان ہیں، آپ کے دور اقتدار میں کسی نے بڑی کرپشن تو دور کی بات حقیقت میں کسی نے ایک ”دھیلے“ کی کرپشن بھی نہیں کی۔ تو پھر اقتدار نوازنے والوں کو آپ سے کیا تکلیف پہنچی۔ وہ مسکرائے اور مذاق کے موڈ میں مخاطب ہوئے اور کہا کہ ایک شخص مجھ سے بھی زیادہ بے ضرر تھا، اُس کی بھی نہیں بنی تھی! اُن کا نام محمد خان جونیجو تھا، انہوں نے کہا، حقیقت میں ہوتا یہ ہے کہ وزات عظمیٰ ملنے کے بعد پہلے 6ماہ تو”ہنی مون“ پیریڈ ہوتا ہے ، مبارکبادیں دینے والوں کو تانتا بندھارہتا ہے، رشتے دار ، وزراءاور دوست احباب کی دعوتیں ختم نہیں ہوتیں، پھر ہنی مون پیریڈ ختم ہونے کے بعد جب بندہ کچھ کرنے کے لیے جدوجہد کاآغاز کرتا ہے تو یہ فیصل آباد کے ”گھنٹہ گھر“ کی طرح کا منظر ہوتا ہے، کہ آپ گھنٹہ گھر سے جس بازار میں جانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں سے آپ کو مایوس لوٹنا پڑتا ہے، مثلاََ آپ پہلے بازار میں داخل ہوتے ہیں تو کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد آپ کو وہاں کھڑا ”پہرے دار“ روک لیتا ہے کہ آپ کی حدود یہیں تک ہے، پھر آپ دوسرے بازار کا رخ کرتے ہیں وہاں بھی آپ کو روک لیا جاتا ہے، جبکہ تیسرے بازار میں تو آپ کا داخلہ ہی ممنوع ہوتا ہے۔ اور باقی بازاروں میں بھی آپ ایک حد تک اندر جا سکتے ہیں ، اس ہتک آمیز رویے کے بعد وزارت عظمیٰ جیسا منصب بھی آپ کو چبھنے لگتا ہے۔ اور رہی مجھ جیسے بندے کی بات کہ مجھ پر کرپشن جیسا کوئی الزام نہیں لگا تو یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ میں نے اپنی عزت اور ساکھ بچانے کی خاطر خود ہی استعفیٰ دے دیا ورنہ یہاں تو فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی، فراز احمد فراز ، بے نظیر بھٹو اور دیگر کئی معتبر شخصیات پر بھی کرپشن و غداری کے شکئی کئی الزامات لگ چکے ہیں۔ اور حیرت تب بڑھ جاتی ہے کہ جن شخصیات پر الزامات لگے ہوتے ہیں، اقتدار کا ہمہ اُن کے سر پر دوبارہ سجا دیا جاتا ہے، جیسے 88ءمیں بے نظیر آئیں اور اُنہیں کرپشن کا الزام لگا کر ہٹا دیا گیا، پھر 1990ءمیں نواز شریف اقتدار میں آئے ، اُنہیں بھی کرپشن کے الزامات لگا کر 1993ءمیں برطرف کر دیا گیا، پھر 1993ءمیں دوبارہ بے نظیر آگئیں اور 1996ءمیں انہیں اقتدار سے کرپشن کے الزامات لگا کر ہٹا دیا گیا، پھر 1997ءمیں نوازشریف دوبارہ آگئے پھر انہیں 1999ءمیں غداری کے الزامات لگا کر جیل بھیج دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ جن پر کرپشن کے الزامات لگے انہیں دوبارہ 2008اور 2013ءمیں مواقع دے دیے گئے۔ یعنی سیاست کے اندر سیاست ہوتی رہی ، ملک Surviveکرتا رہا اور کرپشن کی غرض سے فارغ کرنے والی اسٹیبلشمنٹ انہی کو بار بار اقتدار میں بھی لاتی رہی۔خیر بات کہیں کی کہیں نکل گئی اس پر پھر کسی دن بات کر لیں گے کہ غدار غدار کہتے اور ایک دوسرے پرالزام تراشی کو فروغ دیتے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔ لیکن اس وقت ہم میر ظفر اللہ خان جمالی پر ہی واپس آتے ہیں ، سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کی سیاسی جدوجہد نصف صدی کے لگ بھگ رہی،ضیا الحق کی کابینہ میں وفاقی وزیر رہے، وزیراعلی بلوچستان، کئی مرتبہ رکن قومی اسمبلی، وفاقی وزیر، سینئر اور بالآخر 2002 میں وزیراعظم منتخب ہوئے، تاہم صدر پرویز مشرف کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے دو سال بعد وزارت عظمی کے عہدے سے ہٹا دیے گئے، بطور وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی انہوں نے دو اہم کارنامے انجام دیے جو جمہوری وزیراعظم کے لئے ایک مثال کے طور پر چھوڑ گئے ہیں، انہوں نے دو مرتبہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف دوسرے لفظوں میں امریکہ کو ناراض کیا جس کی وجہ سے ان کی چھٹی ہوئی۔ مثلاََیکم اکتوبر 2003 میں میر ظفر اللہ جمالی بطور وزیراعظم امریکہ کے دورے پر گئے، جہاں انھوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ سے ملاقاتیں کیں۔ یہیں سے اُن کے اور پاکستان کی اسٹیبشلمنٹ کے آپسی تعلقات خراب ہوئے۔ اس امریکی دورے میں موجودہ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد بطور وفاقی وزیر اطلاعات ان کے ہمراہ تھے وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ وزیر خارجہ خورشید قصوری بھی ساتھ تھے، رمز فیلڈ کے ساتھ ملاقات میں جمالی نے کہا کہ میں نے اکیلے میں بات کرنی ہے اس طرح تقریباً تیس سے چالیس منٹ رمز فیلڈ اور جمالی کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ابھی میں باہر بیٹھا ہوا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احسان کا فون آیا کہ شیخ رشید آپ کہاں ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں میٹنگ کے باہر بیٹھا ہوں اور جمالی صاحب کا انتظار کر رہا ہوں انھوں نے پوچھا کہ اندر میٹنگ میں جمالی صاحب کے ساتھ اور کون ہے؟ خارجہ سیکریٹری اور وزیر خارجہ ہیں۔ تو میں نے کہا کہ کوئی نہیں حالانکہ سفیر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اگر وزیر خارجہ بھی ساتھ ہوں تو بہتر ہے، لیکن جمالی صاحب نے ون ٹو ون ملاقات کو ہی ترجیح دی۔ شیخ رشید کے مطابق دو تین منٹ منٹ ہی گزرے تھے کہ جنرل پرویز مشرف کا بھی فون آ گیا اور پرویز مشرف نے کہا کہ ”شیخو“ کدھر ہو، تو میں نے کہا جمالی صاحب کے ساتھ۔ انھوں نے کہا کہ جمالی صاحب کدھر ہیں تو میں نے کہا کہ رمز فیلڈ کے ساتھ۔ پھر پرویز مشرف نے پوچھا کہ رمز فیلڈ کے ساتھ اور کون ہے تو میں نے کہا کہ اور کوئی نہیں ہے تو انھوں نے کہا کہ خورشید قصوری اور سفیر کہاں ہیں تو میں نے بتایا کہ وہ دونوں میرے ساتھ کھڑے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ ”آل رائٹ، اوکے“۔ ایک دم میں کھنکا اور سمجھ گیا۔ اسی طرح چوہدری شجاعت حسین اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں صدر مشرف کو پہلی شکایت یہ تھی کہ وہ سست آدمی ہیں سرکاری فائلیں کئی کئی روز تک ان کے دفتر میں ان کے دستخطوں کی منتظر رہتی ہیں لیکن ان کو کوئی پرواہ نہیں۔ دوسری شکایت اس وقت پیدا ہوئی جب جمالی بطور وزیراعظم امریکہ کے دورے پر گئے اور واپسی پر انھوں نے صدر پرویز مشرف کو جو بریفنگ دی وہ اس بریفنگ سے مختلف تھی جو پرویز مشرف کو ذرائع سے ملی تھی۔چوہدری شجاعت مزید لکھتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف نے انھیں اور پرویز الٰہی کو بتایا کہ وزیراعظم اٹھتے ہی بارہ بجے ہیں دوسرا ان کا دورہ امریکہ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں بطور وزیراعظم وہ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں آپ ان سے کہیں کہ فوری مستعفی ہو جائیں۔صدر کا یہ پیغام لے کر جب وہ وزیراعظم ہاو¿س پہنچے تو جمالی نے کہا کہ آپ صدر صاحب سے کہیں انھیں اس طرح بے توقیر کر کے نہ نکالیں وہ خود ہی مستعفی ہو جاتے ہیں۔صدر مشرف کی خواہش تھی کہ جمالی خود شوکت عزیز کا نام تجویز کریں جمالی نے کہا کہ میں آپ کا نام تجویز کر سکتا ہوں شوکت عزیز کا نہیں۔اس طرح اُن کے دورہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ وہ ہمیشہ شان و شوکت کے بجائے سادہ زندگی گزارتے اور کسی کو ذاتی اور سیاسی طور پر رنج نہیں پہنچاتے تھے۔پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ سادگی کے معاملے میں وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کم نہ تھے عام دنوں کی طرح وزارت عظمی کے زمانے میں بھی ان کے مزاج اور رہن سہن میں سادگی برقرار رہی۔وہ جتنے عرصے وزیراعظم رہے ان کے بیوی بچوں نے وزیراعظم ہاو¿س کا رخ نہیں کیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہم ان کے گھر پہنچے تو وہاں کوئی ایسی چوڑی اور بڑی میز نہ مل سکی جس پر مناسب طریقے سے مائیکرو فون رکھ کر ریکارڈنگ کی جا سکتی۔ایک چھوٹے سے سٹول پر بہت سی کتابیں رکھ کر اس حد تک اونچا کیا گیا کہ اس پر مائیکرو فون لایا جا سکے۔ کتابوں کے سائیز مختلف تھے اس لیے عارضی طور پر بنائی گئی میز کی شکل چوکور یا مستطیل ہونے کے بجائے مخروطی بن گئی۔پھر جب امریکہ کی طرف سے ڈاکٹر قدیر خان کی حوالگی کا معاملہ آیا تو پرویز مشرف فوری طور پر تیار ہو گئے جبکہ وزیراعظم جمالی ڈٹ گئے پرویز مشرف نے اعلی عسکری قیادت کی موجودگی میں وزیراعظم پر دباﺅ ڈالا کہ ڈاکٹر قدیر کو امریکہ کے حوالے کرنا ہوگا انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اور کابینہ فیصلہ کرے گی بعد ازاں انہوں نے کابینہ کو مینیج کر کے صدر مشرف کو فیصلہ سے آگاہ کر دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔قارئین کے آپ اس سادہ لوح سیاستدان سے یہ توقع کر سکتے تھے، کہ وہ ایسا کرے گا، لیکن اُس نے کیا، البتہ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنے پیاروں کو اسی طرح کھو دیتے ہیں اور اُنہیں اُن کی زندگی میں کبھی یاد نہیں کرتے بلکہ ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگتے ہیں، تبھی ہمارے ہاں حقیقی سیاستدان ناپید ہوچکے ہیں جبکہ ”دیہاڑی باز“ سیاستدان اقتدار میں آنے کے لیے تڑپ رہے ہیں!