کیا پاکستان کا مطلب : نواز شریف اور آصف علی زرداری ہیں؟

آج 9مئی کے بعد کی سیاست کے بعد بظاہر پوری سیاست نواز شریف اور جہانگیر ترین کے گرد گھوم رہی ہے۔ ادھر جہانگیر ترین ہر دوسرے روز تحریک انصاف کی کوئی نہ کوئی وکٹ گرا رہے ہیں، جبکہ بیرون ملک (دبئی) میں بیٹھے نواز شریف بھی آئندہ کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ جبکہ اس وقت دبئی کے حالات یہ ہیں کہ وہاں پی ڈی ایم کی صف اول کی قیادت اکٹھی ہو رہی ہے، نواز شریف وہاں شاہی پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں، زرداری اور بلاول بھی خصوصی طیارے پر وہاں پہنچ چکے ہیں، اور شہبازشریف بھی ایک دو دن میں وہاں پہنچ جائیں گے۔ ان سیاستدانوں کا یہ اکٹھ مستقبل کی حکمت عملی طے کرے گا اور فیصلہ کرے گا کہ نوازشریف کب تک ملک واپس آئیں اور تب ہی اگلے الیکشن اناﺅنس کیے جائیں، جبکہ ان دونوں پارٹیوں کے درمیان اندرون خانہ یہ معاہدہ بھی طے ہوگا کہ اگلا وزیر اعظم کون ہوگا ؟ اگر نواز شریف اس ملک کا اگلا وزیر اعظم ہوگا تو کیا بلاول کو وزارت خارجہ کی سیٹ پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا ۔ اور اگر یہ فیصلہ ہوا کہ اگلے وزیر اعظم کا اُمیدوار بلاول ہوگا تو نواز شریف کا کہنا یہی ہوگا کہ وہ ملک میں کیوں آرہے ہےں؟ خیر فی الوقت تو اندر کی خبر یہ ہے کہ ہوسکتا ہے نواز شریف کی واپسی کی تاریخ14اگست رکھی جائے اور اُن کا پرتپاک استقبال کیا جائے۔ جبکہ اس کے لیے اُن کی قانونی و پارلیمانی ٹیم اُن کے راستے میں پڑی رکاوٹیں ایک ایک کر کے ہٹا رہی ہے۔ جیسے گزشتہ روز سینیٹ میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل منظور کر لیا گیا ہے۔ ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول اور عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد اب نااہلی کیلئے وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جیسا آرٹیکل 62اور 63میں فراہم کیا گیا ہے‘ جہاں آئین میں اس کیلئے کوئی طریقہ یا مدت مقرر نہیں کرتاوہاں اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی۔ترمیم کے تحت زیادہ سے زیادہ پانچ سال کے لیے نااہلی ہو سکے گی۔ الیکشن ایکٹ کے بعد بظاہر میاں نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہونے لگی ہے‘ مگر دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس ترمیم پر کیا ردِعمل دیتی ہے۔ الیکشن ایکٹ کے ترمیمی عمل میں شامل جماعتوں کا موقف ہے کہ جس طرح قانون سازی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے اسی طرح اگر آئین کی کوئی شق مبہم ہے تو اس ابہام کو دور کرنا بھی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ خیر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں قانون کی کوئی اہمیت ہے؟ یا جس کا جی چاہتا ہے، وہ اپنے مطابق اس ملک کے آئین میں ردو بدل کر دے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو؟ اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہی نواز شریف اور زرداری اس ملک کے کرتا دھرتا ہوں گے، یہی اس ملک کی تقدیر سنوارنے والے، یہی ارب پتی ہوں گے، یہی کھرب پتی ہوں گے؟ کیا ان کی مرضی کے قانون بنیں گے؟ اور تو اور جو ان کو للکارے گا وہ جیلوں میں جائے گا، وہ رسوا ہوگا، وہ خوار ہوگا؟ یعنی ہمیں بتا دیا جائے کہ یہ ملک ان دو خاندانوں کا ہے، ہمارے بچے ان کے ہمیشہ غلام رہیں گے۔ نواز شریف ، شہباز شریف، زرداری ہم پر ہمیشہ حکومت کریں گے، پھر ان کے بچے مریم، حمزہ اور بلاول ہم پر حکومت کریں گے اور پھر اُن کے بچے ہم پر حکومت کریں گے۔ اور شاید ہمارا یہی مقدر رہ گیا ہے!بلکہ حد تو یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں، انہیں مکمل سپورٹ کر رہی ہیں۔ بادی النظر میں فیصلہ کرنے والی قوتوں کو محض اپنے بجٹ سے غرض ہے، وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں کٹ نہیں لگنا چاہیے۔ باقی جو مرضی کرو۔ اور پھر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ فیصلے کرنے والے ہر دفعہ ان سے متنفر ہوتے ہیں، مگر دوبارہ ان کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے یہاں بزنس ٹائیکون سب کو خرید لیتے ہیں۔ ویسے ہی ان سیاستدانوں نے سب کو خریدا ہوا ہے۔ لہٰذاپھر عام آدمی ان سے متنفر نہ ہو تو کیا ہو؟ پھر تبھی یہاں یونان و دیگر ممالک میں تارکین وطن جیسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اور پھر تب ہی ہماری عوام کی فرسٹریشن بھی 9مئی جیسے واقعات کی صورت میں نکلتی ہے۔ نہیں یقین تو خود سوچیں کہ اگر پنجاب اور کے پی کے کے الیکشن وقت پر ہوجاتے تو کیا 9مئی کے واقعات ہوتے؟ خیر چھوڑیں بقول شاعر آپ ہی اپنی اداو¿ں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی خیر واپس آتے ہیں کہ اس ملک کو ہماری اشرافیہ نے اپنے گھر کی باندی بنا کر رکھا ہوا ہے، پچاس برس کے عرصے میں آئینِ پاکستان میں پچیس ترامیم ہو چکی ہیں جبکہ امریکہ، جس کا آئین بنے سوا دو سو سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے، نے اب تک آئین میں صرف 27 ترامیم کی ہیں۔مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارا آئین درپیش مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے‘ مسئلہ یہ ہے کہ ہر حکومت اور ہر سیاسی جماعت اس سے صرف اپنی مرضی کے مطالب و نتائج اخذ کرتی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ محض ایک مثال ہی کافی ہے۔ قاسم سوری رولنگ کیس میں پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ آئین و پارلیمانی ضابطے کی پیروی نہیں کی گئی‘ اس لیے عدالت کو اس پر نوٹس لینا چاہیے جبکہ پی ٹی آئی نے موقف اپنایا کہ سپیکر کی رولنگ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم عدالتِ عظمیٰ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا بلکہ قومی اسمبلی کو بحال کر کے عدم اعتماد کی کارروائی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ بھی سنایا۔ بعد میں دوست محمد مزاری رولنگ کیس میں یہی پیپلز پارٹی تھی جس نے پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کی پٹیشن یہ کہہ کر مسترد کرنے کی استدعا کی کہ سپیکر کی رولنگ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی اپنے سیاسی مفاد کے مطابق اس نے اپنے چند ماہ پرانے موقف کو یکسر غلط اور پی ٹی آئی کے موقف کو درست مان لیا۔کراچی میں میئر کے الیکشن میں جو کچھ ہوا‘ اس پر زیادہ با ت کرنے کی ضرورت نہیں۔ میئر کی تقریبِ حلف برداری میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کو آئین کی خالق جماعت قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں بھی اسی طرح فتح یاب ہوں گے۔ قصہ مختصر کہ گزشتہ ایک سال سے قانون سازی کے ایوان بازیچہ اطفال بنے ہوئے ہیں جہاں واضح آئینی شقوں کے خلاف قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اتحادی جماعتیں اپنی تمام سیاست میں جس آئین کی تقدیس کے گیت گایا کرتی تھیںاب اسے ایک کتاب جتنی اہمیت دینے کو بھی تیار نہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے اسمبلی میں جس قسم کی قانون سازی ہوئی ہے اور جو بل پاس کیے گئے ہیں ان پر سبھی سنجیدہ حلقے حیران و پریشان ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی زرداری و نواز شریف کی سیاست کی تو یہ میرے خیال میں جو حالات بنائے جا رہے ہیں، اُن سے تو یہی لگتا ہے کہ اگلی حکومت پیپلزپارٹی یا ن لیگ کو دی جائے گی۔ تبھی میرے خیال میں پاکستان کے نام کر مطلب بدل کر ”زرداری و نوازشریف کا پاکستان“ رکھ دینا چاہیے۔ پھر سب کو علم ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں ذاتی مفادات کے لیے ہر بار اکٹھی ہو جاتی ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی ان کا سدباب کر لے۔ زرداری صاحب نے کئی بار کہا ہے کہ میا ں نواز شریف نے اُن کی نیک نیتی اور شرافت کا ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ میاں صاحب جنرل راحیل شریف سے اپنے معاملات سیدھے کرتے رہے اور ہمیں محاذآرائی اور تصادم پر اکساتے رہے۔ یہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے والا بیان بھی میں نے اُن کی چال میں آکر دیا تھا، وہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑا کر خود ہاتھ ملاتے رہے، انھوں نے ہر موقعے پر ہمیں بیچا۔ہم سیاست اور نواز شریف تجارت کرتے رہے۔ہم میاں صاحب کو جتنا بھولا سمجھتے رہے وہ اِس سے زیادہ چالاک اور موقع پرست ہیں۔ میموگیٹ بھی ہم نے نواز شریف کے مشورے پر کیا تھا۔گویا ہر غلط کا م انھوں نے میاں نواز شریف کے کہنے پرکیا۔کاش وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ سرے محل بھی ہم نے ا±ن کی باتوں میں آکر جلد بازی میں بیچ ڈالا تھا، ورنہ سوئس اکاﺅنٹس سمیت نجانے آج کتنے ایسے مقدمات قائم ہیں جن سے ہمارا آج تک کچھ نہیں بگڑا۔ خیر دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ واردات کے طریقے ہر دور میں مختلف رہے ہیں، لہٰذااب کی بار دیکھتے ہیں دبئی میں ہونے والا یہ کنبہ کیا گل کھلائے گا اور عوام میں نہ جانے کون کون سے جھوٹ بول کر اقتدار میں آئے گا۔ لیکن ایک بات کہہ دوں کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو کارنر کارنر کرنے سے نا صرف ملک مزید عدم استحکام کا باعث بنے گا بلکہ عوامی نفرت بھی بڑھ جائے گی جو کسی انقلاب کی صورت میں پاکستان کی راہ دیکھ رہی ہوگی۔ اور پھر یقینا کچھ نہیں بچے گا۔ آگے آپکی مرضی!