کیا ہمارا ٹیکس نظام ہی ہمیں لے ڈوبا؟

نئے مالی سال کا بجٹ پیش ہوا تو وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے فرمایا کہ ہم خسارے کا بجٹ اس لیے پیش کرتے ہیں کیوں کہ ملک میں ہر سال 3000ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے، انہوں نے اس کا سدباب کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششوں کا اعلان بھی کیا۔لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے، گزشتہ روز میں ایک ملٹی چین بیکری پر گیا تو بیکری آئٹمز خریدنے کے بعد میں نے رسید طلب کی تو وہاں پر موجود کیش کولیکٹر نے کہا کہ سر! مشین خراب ہے، میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ اتفاق ہو۔ اور پھردیکھا گیا کہ مشین میں خرابی کا عمل مسلسل ہفتے میں کئی کئی بار جاری رہتا ہے ۔ مطلب اس دوران بیکری میں ہوئی خریدو فروخت (سیل)کا اندراج ہی نہیں کیا جاتا، اس طرح ٹیکس چوری کرکے سرکار کو چونا لگایا جاتا ہے۔ بات یہی رکتی تو کوئی بات نہیں تھی مگر ملک بھر میں موجود ایک لاکھ سے زائد ریٹیلر شاپس، بڑے چھوٹے سٹورز اور دیگر تجارتی مارکیٹوں میں نہ جانے دن میں کتنی بار یہ مشینیں خراب ہوتی ہیں اور کتنی بار ٹھیک ہوتی ہیں، اور پھر شاید اسی ٹیکس چوری کا ذکر ہمارے دوست مفتاح اسماعیل کر رہے تھے۔ لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ اس میں خرابی اُن کی اپنی حکومت کی بھی ہے کیوں کہ یہ کوئی نپی تلی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ پچھلی حکومت میں یہ مشین کم ہی ”خراب“ ہوا کرتی تھیں۔ خیر ہمارا ٹیکس سسٹم ہی خراب ہے ورنہ کسی کی کیا جرا¿ت کے وہ ٹیکس دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے۔ بلکہ اسی اثنا میں دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت بجائے اس سسٹم کو ٹھیک کرنے کے عوام پر ”ان ڈائریکٹ “ ٹیکس لگا کر اپنی بھڑا س نکالتی ہے۔ اور یہ ڈھنڈورا پیٹتی ہے کہ پاکستان کے عوام ”ٹیکس چور“ ہیں۔ ”ان ڈائریکٹ“ ٹیکس کا ذکر چھڑا تو آگے چلنے سے پہلے ہم اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کتنی قسم کا ٹیکس حکومت ہم سے لیتی ہے، تو اس وقت ہم سے لیے جانے والے ٹیکس کی دو اقسام ہیں: ڈائرکٹ اور ان ڈائرکٹ ۔ انکم ٹیکس ، کارپوریٹ ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس ”ڈائرکٹ ٹیکسوں “کی نمایاں مثالیں ہیں۔کسٹمز ڈیوٹیاں، سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں اور سیلز ٹیکس ان ڈائرکٹ ٹیکس ہیں۔ کسٹمز ڈیوٹیاں درآمدی سامان پہ لگتی ہیں۔سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں برآمدی مال پہ لگتی ہیں۔سیلز ٹیکس اندرون ملک اشیاکی خریدوفرخت پہ لگایا جاتا ہے۔اور پھر اس کے بعد کئی قسم کے نئے ٹیکس بھی دریافت کیے گئے جن میں ودہولڈنگ ٹیکس،ایڈوانسڈ انکم ٹیکس، ایف سی سرچارج، نیلم جہلم سرچارج وغیرہ ۔ ترقی یافتہ اور فلاحی ممالک میں حکومتیں ڈائرکٹ ٹیکسوں سے زیادہ رقم حاصل کرتی ہیں۔بلکہ ان کی 75 فیصد آمدن ڈائرکٹ ٹیکسوں پہ مشتمل ہے۔یہ منصفانہ اور انسان دوست ٹیکس نظام ہے۔وجہ یہ کہ ان ملکوں میں جس شہری کی آمدن جتنی زیادہ ہو، وہ اتنا ہی زیادہ انکم ٹیکس یا کارپوریٹ ٹیکس دیتا ہے۔یوں حکومت امرا سے بیشتر رقم اکھٹی کرتی ہے اور کم آمدن والے شہریوں پر مالی بوجھ نہیں پڑتا۔ان ڈائرکٹ ٹیکس مگر امیر اور غریب کے مابین تمیز نہیں کرتے۔ایک ارب پتی بھی اتنے ہی ڈائرکٹ ٹیکس دے گا جتنے چند ہزار ڈالر ماہانہ کمانے والا غریب(مغربی معیار زندگی کے لحاظ سے)ادا کرتا ہے۔گویا ان ڈائرکٹ ٹیکس غیر منصفانہ ہیں مگر انھیں لگائے بغیر چارہ بھی نہیں۔تاہم فلاحی ممالک کی حکومتیں انھیں کم سے کم رکھنے کے جتن کرتی ہیں۔ اور اگر ہم پاکستان میں ٹیکس کولیکشن کے حوالے سے رینکنگ کا جائزہ لیں تو ہم دنیا کے آخری نمبروں پر Surviveکررہے ہیں ، مثلاََ ایک رینکنگ میں ہم 80ممالک کی فہرست میں 77ویں نمبر پر ہیں، یعنی اس قدر خراب صورتحال میں ہم ٹیکس کولیکشن کرتے ہیں کہ دنیا کی کئی رینکنگ میں ہمارا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومتوں نے اس حوالے سے بہتری کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ لیکن اپنی ”کاروباری مجبوریاں“ بھی ہر حکومت کا خاصہ رہی ہیں۔ جیسے مجھے یاد ہے کہ نواز شریف کے دوسرے دور یعنی 1997ءمیں بھی یہی مسئلہ تھا کہ عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے اُس وقت اسحاق ڈار نے اپنے قائد نواز شریف سے سہمے سہمے انداز میں ایک لمبی چوڑی مشق کے بعد نتیجہ نکالا کہ پاکستان کی بیشتر صنعتیں اور تمام بڑے کاشتکار ٹیکس نہیں دیتے۔ اس کے بعد فیکٹریوں کے دورے ہوئے، فہرستیں بنیں اور پھر مذاکرات کا مرحلہ شروع ہوا۔زرعی ٹیکس کے لیے زمینوں کی زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم حدود پر بحث شروع ہوئی، بڑے زمینداروں نے نئے کاغذ بنانا شروع کر دیے اور زرعی اراضی کا سروے شروع کیا گیا کہ کتنا ٹیکس اکٹھا کرنے کی گنجائش ہے۔حسب توقع صنعتکاروں نے ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکسز دینے سے انکار کیا، زمینداروں کی فصلیں خراب پیداوار دینے لگیں۔ بات بڑھی تو صنعتکار اور تاجر وزیراعظم تک جا پہنچے اور سابق وزیر اعظم چونکہ خود بھی کاروباری تھے۔ اس لیے انہوں نے ”بریک“ لگا دی اور پھر فوجی بغاوت کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی۔یہ بحث چلتی رہی۔ جنرل پرویز مشرف نے تو اس بحث میں ایک نئی جان پھونک دی۔ انھوں نے ڈنڈا لہراتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے ان کے لیے اس ملک میں جگہ نہیں۔ایک بار پھر اصلاحات کا ایجنڈا تیار ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کو پتہ چلا کہ پاکستان میں 80 فیصد سے زائد کاروبار تو زبانی کلامی چلتا ہے۔ یعنی لین دین کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں۔ تو انھوں نے ’معیشت کی دستاویز بندی‘ کی مہم کا اعلان کیا۔اس مہم کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہر کاروبار اپنے آپ کو حکومت کے پاس رجسٹر کروا لے چاہے وہ ٹیکس دے یا نہ دے۔ وزیر خزانہ شوکت عزیز نے چاروں صوبوں میں گھوم پھر کر کاروباری اور تاجر طبقے سے ملاقاتیں کیں اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ٹیکس نہیں مانگ رہے مگر صرف اتنا چاہ رہے ہیں کہ کاروبار کو ریکارڈ پر لے آئیں۔اب اگر اتنے بھولے ہوں تو کاروباری کاہے کے؟ تاجروں نے جنرل مشرف کے اس ”جھانسے“ میں آنے سے انکار کر دیا اور وہ فارم سر عام نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جو حکومت نے انھیں اس حکم کے ساتھ بھیجے تھے کہ انہیں پر نہ کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہو گا۔ تاجروں اور کاروباریوں نے یہ جرم ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔ انھوں نے نہ صرف ایف بی آر کے ساتھ رجسٹر ہونے سے انکار کیا بلکہ ملک بھر میں ہڑتال اور مظاہرے شروع کر دیے۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ جنرل پرویز مشرف نے ’معیشت کی دستاویز بندی‘ کا عمل معطل کر دیا ۔پھر پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اس نے بھی اصلاحاتی ایجنڈے پر بحث شروع کی لیکن یہ بحث وزاتِ خزانہ کی راہداریوں سے باہر ہی نہیں نکل سکی اور کمال مہارت سے ٹیکس چوری کی گئی کہ حکومت مسٹر 10پرسنٹ کے نام سے مشہور ہوگئی۔ نواز شریف کی تیسری حکومت میں ٹیکس کے نظام میں بہت نمایاں تبدیلی لائی گئیں۔ ٹیکس کی شرح کم کی گئی اس امید کے ساتھ کہ نئے ٹیکس دینے والے ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں گے۔ مگر عملاََ ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ اور قرضوں پر ہی اکتفاءکیا گیا اور اس دور میں بھی ریکارڈ 40ارب ڈالر کے قرضے لیے گئے۔ پھر آجائیں تحریک انصاف کی سابقہ حکومت پر تو بلاشبہ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بہت سے نئے ٹیکس ادا کرنے والے رجسٹرڈ ہوئے مگر اُس کے بعد یہ ”بیکری“ والی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اس پر تو افتخار عارف یاد آ رہے ہیں: جیسی لگی تھی دل میں آگ ویسی غزل بنی نہیں الغرض سوال یہ نہیں کہ کاروباری حضرات ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ اُن سے ٹیکس وصول کرنے کا خاص میکنزم موجود کیوں نہیں ہے؟ سوال یہ بھی نہیں کہ ٹیکس دینے کا کلچر یہاں کیوں نہیں ہے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ جب ہمارے ملک کی 90فیصد کاروباری شخصیات کے خاندانی مراسم سیاسی شخصیات کے ساتھ ہیں تو بھلا وہ ٹیکس کیوں دیں گی ؟حد تو یہ ہے کہ کاروباری حضرات جنہوں نے ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے وہ ڈیڑھ ڈیڑھ کلومیٹر لمبا دسترخوان بچھا کر غریبوں پر رقم لٹا دیں گے مگر حکومت کو ایک پائی ادا نہیں کریںگے۔ عجیب قوم ہے جو خیرات و صدقہ دینے کے معاملے میں دنیا کی دس بڑی قوموں میں شمار ہوتی ہے، مگر ٹیکس کے معاملے میں دس سب سے نچلی قوموں میں شمار ہوتی ہے۔یعنی پاکستان میں 99 فیصد لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور جو ایک فیصد دیتے بھی ہیں وہ بھی پورا نہیں دیتے سوائے ان سرکاری ملازموں کے جن کا ٹیکس تنخواہ سے ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔ نجی شعبہ جیسا کیسا بھی ٹیکس دیتا ہے اس میں سے بھی 62 فیصد راستے میں ہی ٹیکس دہندہ، ٹیکس کلیکٹر اور ٹیکس پریکٹیشنر کے درمیان کہیں غتربود ہو جاتا ہے اور صرف 38 فیصد سرکاری خزانے تک پہنچتا ہے۔اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ جنہوں نے ٹیکس لینا ہے(ٹیکس کولیکٹر)، وہ خود چند ہزار روپے تنخواہ لینے کی وجہ سے بہت جلد رشوت خوری پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ٹیکس ریکوری کے لیے جو فیلڈآفیسر ہے اُس کا معیار بھی اس قدر ”ماشاءاللہ“ ہوتا ہے کہ کمرشل پلازوں سے اپنے 50ہزار کھرے کرنے کے لیے حکومت کو سالانہ کروڑوں کا ٹیکہ لگا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاسکتا ہے کہ دو چیزوں نے اس ملک کی نیا ڈبوئی ہے، پہلی چیز کرپشن اور دوسری ٹیکس نظام میں خرابی! لہٰذا ہمیں اگر آگے بڑھنا ہے تو صاف بات ہے کہ ٹیکس نظام کو بہتر بنا کر اور کرپشن ختم کرنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنا کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے، اس کے لیے حکومت کو سب سے پہلے تاجروں کا اعتماد دینے کی ضرورت ہے، عوام کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ اُن کا پیسہ کہیں غلط جگہ استعمال نہیں ہوگا بلکہ صحیح جگہ استعمال ہوگا۔ اس وقت موجودہ حالات میں بات سیدھی سادھی ہے۔ ریاست کو لوگوں پر اور لوگوں کو ریاست پر اعتماد نہیں ! سب سے پہلے اس اعتماد کو بحال کرنا ہوگا ورنہ تاجر حضرات کی جیبوں سے پیسے نکلوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اور رہے گا !