سانحہ مشرقی پاکستان: ہم بھی دودھ کے دھلے نہیں تھے؟

یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔لیکن 1971ءسے لیکر آج تک51سالوں میں ہم نے اس سانحہ سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے، فرق صرف اتنا ہے کہ گزشتہ دور کی نسبت اس دور میں ”جمہوریت “ کا تڑکہ زیادہ لگایا جاتا ہے ۔اورپھریہ باتیں سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ اس سانحے کے پیچھے دشمن ملک کا ”بڑا ہاتھ“ تھا، لیکن وہ دشمن تو آج بھی ویسا ہی ہے،اور دنیا میں کونسا ایسا ملک ،شخصیت یا تنظیم ہے کہ جس کا کوئی دشمن نہیں ہے!دشمن تو سبھی کے ہوتے ہیں اور اُن کا کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ آپ کی حکمت عملی کیا ہے؟ آپ کس طرح سے اپنے آپ کو بچائیں گے؟، اور پھر متحدہ پاکستان کی تقسیم کے لئے سازگار حالات تو ہمارے حکمرانوں نے خود پیدا کئے۔ہم کسی اور پر یہ الزام کیوں عائد کریں۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمراں دشمن کی دشمنی کے آگے بند باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت ملک توڑنے کا سبب بنتی ہے اور علیحدہ وطن کے لئے کوشاں رہتی ہے کیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی۔ دنیا میں کیا کوئی اس قسم کی مثال ملتی ہے؟ جدید دنیا تو دور کی بات قدیم دنیا میں بھی ایسی ”جدوجہد“ کی مثال نہیں ملتی۔ اور چونکہ مشرقی پاکستان کی آبادی جو ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، وہاں اس احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اُن سے ناانصافی اور معاشی استحصال کیا جارہا ہے جو کسی حد تک درست بھی تھا کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔ حد تو یہ تھی کہ ایک جانب یہ اندوہناک سانحہ ہو چکا تھا کہ لاکھوں قربانیاں دیکر حاصل کی جانے والی مملکتِ خداد داد دو ٹکڑے ہو چکی تھی اور دوسری جانب اس سانحے کے اگلے روز ہی اقتدار کی بندر بانٹ شروع ہو چکی تھی۔اس سانحہ میں اسٹیبلشمنٹ اپنی جگہ قصور وار تھی، سیاستدان اپنی جگہ۔ایک اور حیران کن امر یہ تھا کہ اس سانحے کے بعد صرف اقتدار کی بندر بانٹ ہی نہ ہوئی تھی بلکہ سترہ دسمبر کی صبح سقوط مشرقی پاکستان پر آنسو بہانے کے بجائے سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں ہر کوئی بنگالی افسروں کے نکل جانے پر سینارٹی لسٹ میں اپنا نمبر چیک کرتا پھر رہا تھا۔ یہ تھا وہ سبق جو اقتدار اور طاقت کے ایوان چلانے والوں نے پلٹن گراو¿نڈ میں شرمناک ہزیمت اور سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیکھا تھا! قارئین !قوم وہ ہوتی ہے جو دوسروں کے بجائے اپنی غلطیاں درست کرکے آگے بڑھے اور ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو آئندہ سدھارنے کی کوشش کرے، افسوس تو اس بات کا ہے کہ اُس وقت ہم سے جو غلطیاں ہوئیں،آج بھی اہم اُسی قسم کی غلطیاں کر رہے ہیں۔ اُس وقت ہم نے سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین جن کا تعلق بنگال سے تھا کو نہ صرف برطرف کیا بلکہ انہیں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر بھی مجبور کیا، پھر ہم نے حسین شہید سہر وردی جو قائد اعظم کے قریبی ساتھ تھے اور بنگالی بھی تھے، کو ہم نے وزیر اعظم بنایا اور ”غدار“ کے خطاب سے نواز کر 1962میں قتل بھی کروا دیا۔یہ بالکل ایسے ہی جیسے رواں سال ایک منتخب حکومت سے اقتدار لے کر اُنہی سیاستدانوں کے حوالے کردیا گیا جن پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزام ہیں۔ اور جس سے اقتدار لیا گیا، اُس کی اس قدر ڈھٹائی سے کردار کشی کی جا رہی ہے کہ وہ آج نہیں تو کل پاکستان سے ضرور ”باغی“ ہو جائے گا۔ خیر ماضی میں واپس چلتے ہیں کہ پھر ہم نے انتظامی طور پر بھی جو زیادتیاں کیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بنگالی سیاستدانوں کو حقیر سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہم اُن کے بجٹ میںبھی کٹوتی لگانے سے گریز نہیں کرتے تھے، یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے آج کل سندھ اور بلوچستان شور مچا رہے ہیں کہ اُن کے وفاق اُن کے بجٹ میں کٹوتی کر رہا ہے، ہمیں آج تاریخ سے سیکھنا چاہیے ۔ مثلاََ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستا ن میں کیے گئے اخراجات کاپنج سالہ موازنہ جس میں 1950-55، کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مغربی پاکستان پر 1125 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جو کل اخراجا ت کا 65فیصد تھے، اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان پر کل اخراجات کا35یعنی 500 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔جبکہ ہر بجٹ میں اسی تناسب سے رقم خرچ کرکے احساس محرومی کو بڑھایا گیا۔ حالانکہ اُس وقت مشرقی پاکستان ”کماﺅ پوت“تھا کیوں کہ 1960ءکی دہائی اور اُس کے بعد بھی وہ متحدہ پاکستان کی کل برآمدات کا 70فیصد برآمد کرتا جبکہ مغربی پاکستان کا ملکی معاشی ترقی میں 30فیصد حصہ تھا۔ اور یہ سب کچھ ایوب دور (1969-1958) میں بھی جاری رہا بلکہ اسے یوں بھی کہا جائے کہ ایوب دور میں بنگالیوں میں سب سے زیادہ احساس محرومی پیدا ہوا تو غلط نہ ہوگا،صدرایوب خان کی پالیسیوں اور اقدامات کا خصوصی جائزہ لیا جائے تو پائیں گے کہ اُن کا بنیادی مقصد اپنی حکومت کو بحال رکھنا اور طول دینا ہی تھا، یوں اُن کی حکومت نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بیج کو مزید پانی دیا اور کھاد فراہم کی۔ اورپھر اگلے چند برسوں میں سقوطِ ڈھاکا کا واقع پیش آگیا۔اُنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے لیے مذہبی بنیاد پرستوں کو مضبوط کیا۔کئی لوگ اقتصادی ترقی کو اُن کی غیر معمولی کامیابی گردانتے ہیں مگراُس دوران آمدنی میں عدم مساوات کو فروغ ملنے سے ملک میں صرف22 گھرانوں کو عروج نصیب ہوا جنہوں نے قومی وسائل پر اپنا اختیار جما لیا اور اپنے پاس کالا دھن جمع کیا، اِس طرح باقی لوگوں میں غربت، بھوک اور مایوسی پھیلی رہی۔ خیر وقت گزرتا رہا، تحریک پاکستان کے قائدین اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی ایک ایک کرکے اس جہان فانی سے کوچ کرر ہے تھے، احساس محرومی اس حدتک بڑھ چکا تھا کہ اب مغربی پاکستان کے خلاف باتیں سر عام ہونے لگی تھیں،گلی کوچے پاکستان مخالف نعروں سے بھرے پڑے تھے،سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر ہم اُن کا استحصال کر چکے تھے، کپاس کی سب سے زیادہ پیداوار ہونے کے باوجود ہم انہیں وہ حصہ نہیں دیتے تھے جس کے وہ حقدار تھے، اور پھر رہی سہی کسر ہم نے کھیلوں میں بھی انہیں پیچھے کر کے نکال دی تھی جیسے اُن کے کرکٹر ہم سے زیادہ اچھے تھے،جیسے آج بھی اُن کی کرکٹ ٹیم بین الاقوامی سطح پر بہتر کھیل پیش کر رہی ہے، انڈر 19کے ورلڈ چیمپئین ہیں، اُس وقت بھی اچھے کرکٹر تھے، لیکن 1971ءتک کی پاکستانی کرکٹ ٹیم میں ہم کسی ایک کھلاڑی کو بھی نہیں جانتے جو متحدہ پاکستان کی ٹیم میں ہوگا۔ یہی حال ہاکی کا تھا، کوئی کھلاڑی اس کھیل میں مشرقی پاکستان سے نہیں لیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ ان کا ایجوکیشن ریٹ 80فیصد اور ہمارا نسبتاََکم تھا، مغربی پاکستان کی آبادی کم ہونے کے باوجود سی ایس ایس کی سیٹیں دونوں اطراف کی برابر رکھی گئیں، الغرض ہم نے اُن کے ساتھ ہر سطح پر دبانے کی پالیسی جاری رکھی، اور پھر آج تک ہم اس غلطی کو تسلیم کرنے سے عاری نظر آرہے ہیں، بات یہ ہے کہ ہم یہ غلطی مان لیں تو اس میں ہر ج ہی کیا ہے؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے اپنی غلطی تسلیم کی ، جرمنی نے بھی اپنی غلطی تسلیم کی دونوں آج بڑی طاقتیں بن چکی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس میں یہی کہوں گا کہ ہمیں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی بیماری ہے، یہ غلطی ہمارے سیاستدانوں میں بھی ہے، اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی ۔ جب تک ہم اپنے آپ کو ٹھیک سمجھتے رہیں گے تو Improvement کیسے آئے گی؟ پھربڑے بڑے عظیم بنگالی جن میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، ایم ایم عالم جیسے رہنماءسر فہرست تھے، کو ضائع کیا اور انہیں صحیح جگہ استعمال کرنے سے قاصر رہے۔ہم نے اُن کے ساتھ Insulting رویہ روا رکھا، پھر1970کا الیکشن کروایا گیا، عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی، لیکن ہم نے عوامی لیگ کو کسی سطح پر تسلیم نہ کیا، زیادہ سیٹیں عوامی لیگ کی تھیں، لیکن ہم نے انہیں اقتدار نہ دیا۔ اور جب انہوں نے اقتدار مانگنے کے لیے مظاہرے شروع کیے تو ہم نے وہاں ٹکا خان کو بھیج دیا۔ یعنی ٹکا خان کو بھیجنے کے بعد وہ دن تھا جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا تھا، ٹکا خان پاکستان کی تاریخ کے ایک انتہائی نازک دور میں سابق مشرقی پاکستان میں کمانڈر اور گورنر بھی رہے۔ اور ان کے اسی کردار نے ان کو ایک متنازع شخصیت بنا دیا۔ بہرحال مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے 51سال بیت چکے ہیں لیکن ہمارا ماتم، سینہ کوبی اور آہ و زاری بدستور جاری و ساری ہے۔ نصف صدی ہونے کو آئی ہے لیکن ہم آج بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے بنگالی عوام سے جو غیر انسانی سلوک روا رکھا تھا اس کا منطقی نتیجہ بنگلہ دیش کا قیام ہی تھا۔ہم بنگلہ دیش کی آزادی کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے بھارت کی سازش اور جارحیت قرار دیتے ہیں۔ہم بنگلہ دیش میں ہوئے فوجی آپریشن کا مختلف حیلوں بہانوں سے دفاع کرتے اور بنگالیوں کے قتل عام کو مبالغہ آرائی قرار دیتے ہیں۔ہمارا ریاستی بیانیہ اور میڈیا بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری کو مشکوک سمجھتا اور اسے بھارت کی’ نوآبادی‘ قرار دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک’ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بن گیا ‘ بارے کوئی تحقیقی کام نہیں ہوسکا اور اس بارے میں جو کچھ مواد ہمیں ملتا ہے وہ زیادہ تر اسٹیبلشمنٹ کا لکھا ہوا ہے۔ جہاں تک سویلین کنٹری بیوشن کا تعلق ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔سابق جرنیلوں نے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا کو فوجی نکتہ نظر سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔ انھوں نے اس معاملے کو”دشمن،غداری، اسلحہ کی کمیابی، فوجی قیادت کی نااہلی اور فتح و شکست“ کے سیاق و سباق میں بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔قصہ مختصر کہ سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا ملک کو دولخت کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ اس دن کے موقع پر ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے، اگر ملک کی سب سے بڑی پارٹی الیکشن کروانے کے حوالے سے بات کر رہی ہے تو مقتدر حلقوں کو سیاسی استحکام لانے کی غرض سے نئے الیکشن کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر لانا چاہیے تاکہ ہمارا ملک بھی دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح ترقی کی سیڑھیاں چڑھ سکے۔ ورنہ خدانخواستہ ہم مزید رسوا ءہوتے اور ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے رہیں گے! اللہ تعالیٰ اس ملک کا حامی و ناصر ہو!