اچھرہ واقعہ: ہم چند ماہ میں جگ ہنسائی کا باعث ضرور بنتے ہیں!

اچھرہ میں گزشتہ دنوں جو واقعہ ہوا، اُس سے کون باخبر نہیں، دل تو چاہا کہ اس پر کچھ نہ لکھوں.... کیوں کہ پاکستان میں ایسے واقعات پر اب افسوس اور خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے۔ اور ہم دو چار مہینوں بعد ایسی حرکات کر نے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کہیں واقعہ نہ بھی ہو رہا ہو تو ہم اُسے خود کری ایٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیر اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں مگر سب سے پہلے اچھرہ واقعہ کا ذکر کر لیں .... آپ یقین مانیں میں نے جو ویڈیوز دیکھیں اُس میں اُس عورت کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا خوف دراصل ریاست کی بے بسی کی غمازی پیش کر رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ اس ملک میں متفقہ قانون نہیں بلکہ ہر ایک کا اپنا قانون ہے، اور وہ اُس کے مطابق اُس خاتون کو سزا دینا چاہتا ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا اسے سنگسار کر دو، کوئی کہہ رہا تھا کہ اسے گھسیٹ کر باہر لاﺅ، کوئی کہہ رہا تھا کہ اسے کہو یہیں کپڑے اُتار دے۔ بلکہ ایک شخص تو سخت اور نامناسب لہجے میں خاتون سے کہتا ہے کہ کھڑی ہوجائے، اور وہ ڈری سہمی کھڑی ہو جاتی ہے،سب نے اُس خاتون پر ایسے نظریں گاڑی تھیں کہ لگ رہا تھا کہ شاید یہ ابھی ان کا شکار ہوجائے۔ پھر ہم سب نے وہ ویڈیو بھی دیکھی جس میں خاتون معافی مانگ رہی ہے، اور چند لوگوں کی موجودگی میں تجدید ایمانی کر رہی ہیں۔ اللہ اللہ .... ہم کیسے معاشرے میں رہتے ہیں؟ لیکن ایسے میں بہادر اے ایس پی شہربانو کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کام کیا اور خاتون کو ہجوم سے زندہ سلامت نکالنے میں کامیاب ہوگئیں۔ لیکن اس کے برعکس ہمیں اس بارے میں کوئی فکر نہیں کہ دنیا میں ان جیسے واقعات سے ہم کتنا بدنام ہوں گے۔ بلکہ ہم تو دو چار مہینوں میں جب تک اپنے اوپر عالمی سطح کی کوئی بدنامی نہ اُٹھا لیں تب تک ہماری روح کو چین بھی نہیں آتا۔ نہیں یقین تو آپ گزشتہ ماہ میں ہونے والے عام انتخابات کو ہی دیکھ لیں ، ساری دنیا نے شور مچایا کہ ”یہ کیا تھا“ مگر ہم نے اُنہیں بتا دیا کہ ہم ”ایسے ہی الیکشن کرواتے ہیں“ اس سے ہم پوری دنیا کی شہہ سرخیوں میں رہے۔ کسی نے ہمارے نظام کو نیم جمہوری نظام کہا تو کسی نے ہمیں سیمی ڈکٹیٹر شپ کا خطاب دیا۔ اور پھر یہی نہیں آپ تھوڑا پیچھے چلے جائیں آپ کو 9مئی کا واقعہ ملے گا۔ اس 9مئی کے بعد میرے خیال میں دنیا نے ہمارے بارے میں جو رائے قائم کی ہوگی وہ یقینا بہت خطرناک ہوگی۔ اس واقعہ کے بعد ہر مہینے لاکھوں پاکستانی ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ ان ”گیموں“ سے مایوس ہو چکے ہیں، انہیں پاکستان کا مستقبل نظر نہیں آرہا۔ اُنہیں علم ہو چکا ہے کہ اُن کے بچے اس آلودہ ماحول میں ہی رہیں گے تو وہ جلد مر جائیں گے۔ بہرحال قومی کمیشن برائے امن و انصاف اور ادارہ برائے سماجی انصاف کے اعداد و شمار کے مطابق مسیحی بستیوں اور گرجا گھروں پر 1997 سے 2023 کے درمیان 100 حملے ہوئے ہیں جس میں سے 22 دہشت گرد حملے تھے جب کہ باقی حملے افراد اور ہجوم نے کیے ہیں۔ جن کے نتیجے میں سو سے زائد گرجا گھروں کی بے حرمتی ہوئی، بائبل مقدس اور مذہبی نشانات کو پھاڑا، توڑا اور جلایا گیا اور سینکڑوں گھروں کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ 2023 میں جڑانوالا کے اندوہناک واقعے میں وہی دہرایا گیا جو 1997 میں شانتی نگر، 2005 میں سانگلہ ہل، 2009 میں گوجرہ اور کوریاں اور متعدد دیگر واقعات میں ہوا۔ یہ تمام حملے پنجاب میں ہوئے ہیں ۔بلکہ معذرت کے ساتھ پنجاب ان واقعات کا مرکز بن چکا ہے، اعداد و شمار کے مطابق خاص طور پر 2011 کے بعد پنجاب میں توہین مذہب سے متعلق تشدد اور ہلاکتوں کے واقعات میں دس گنا اضافہ ہوا۔ ہجومی حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد پاکستان میں خاص طور پر پنجاب میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سری لنکن شہری پریانتھا کمارادیاﺅ ادنا کو 3 دسمبر 2021 کو سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ فروری 2022 میں خانیوال پنجاب میں ایک شخص مشتاق کو قرآن پاک کے اوراق جلانے کے الزام میں درخت سے باندھنے کے بعد مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ 11 فروری 2023 کو ننکانہ صاحب میں توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص وارث کو پرتشدد ہجوم نے قتل کر دیا۔لہٰذاان جیسے واقعات سے کچھ ہوتا ہے یا نہیں مگر ایک بات تو طے ہے کہ اس کانقصان ملک کے اندر تو ہوتا ہی ہے، لیکن بیرون ملک بیٹھے لاکھوں پاکستانیوں کو جو تکلیفیں اس حوالے جھیلنی پڑتی ہیں، آپ اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ درحقیقت ہوتا یہ ہے کہ جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں، وہاں دوسری قومیں خاص طور پر انڈین بھی رہتے ہیں، اور جب اس قسم کا واقعہ ہوتا ہے ، تو پھر کسی کو بھی سر چھپانے کی جگہ نہیں ملتی۔ اور پھر یہ مسئلہ بھی ہوتا ہے کہ وہ تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، اور پاکستانی تعداد میں کم ہوتے ہیں، اسی وجہ سے پاکستانیوں کو خوب خفت اُٹھانا پڑتی ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ بہت سی جگہوں پر انڈین، پاکستانیوں کے مقابلے میں اچھی پوزیشن پر ہوتے ہیں، اس لیے وہاں موجود پاکستانی زیادہ ان چیزوں کو محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذاہمیں کم از کم ہمیں صبر اور تحمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرکیف اس مذکورہ واقعہ کے حوالے سے خاتون نے بھی غلطی کی، کیا اُسے علم نہیں تھا، کہ وہ کیا پہن کر بازار میں گھوم رہی ہے، پھر پہننے والی کو خود نہیں علم کہ اُس نے کیا پہنا ہے؟ کیا اُسے علم نہیں تھا کہ پاکستان میں جہلا کی تعداد زیادہ ہے، اور یہ لوگ بغیر تحقیق کیے سوچتے اور چیزوں کو پرکھتے ہیں، ان لوگوں کو یہ نہیں علم ہوتا ، کہ واقعہ کیا ہوا ہے، یہ لوگ ہجوم بنتے دیر نہیں لگاتے،،، یہ لوگ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے میں دیر نہیں لگاتے، یہ لوگ مذہبی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچاتے دیر نہیں لگاتے ، یہ غیرت کے نام پر قتل کرکے خود کو پھانسیاں لگوانے کے شوقین ہیں، ان کے شوق کی حد یہ ہے کہ یہ کسی ان چاہے مسئلے میں پھنس کر اپنی پوری فیملی کو برباد کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ تو پیشاپ وہاں کرتے ہیں جہاں ”ممنوع“ لکھا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا جہالت ہوتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اولیائے کرام کے علاوہ بھی بہت سے بزرگان کی جھوٹی کرامات سنا سنا کر اُنہیں پروموٹ کیا۔ ان لوگوں کے باعث اس خطے میں درباروں اور گدی نشینوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ بلکہ ہم وہ جاہل قوم ہیں، جو خیرات کے نام پر تو اربوں روپے دے دیتے ہیں مگر بھوکے ہمسائے کا انہیں اُس وقت علم ہوتا ہے، جب وہ بیوی بچوں سمیت خودکشی کر لیتا ہے، بلکہ اُس خاتون کو علم ہونا چاہیے تھا کہ سیالکوٹ میں مارے جانے والے سری لنکن منیجر کو جس ہجوم نے ”کوئلہ“ بنایا ، اُس ہجوم میں سے 98فیصد لوگوں کو علم ہی نہیں تھا کہ اصل واقعہ ہوا کیا ہے؟ بلکہ ہم تو وہ جاہل قوم ہیں جنہیں اگر ”یوم محمد“ منانے کے لیے کہا جائے تو یہ مال روڈ کو عراق یا شام کا جنگ زدہ علاقہ بنا دیتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں میں اس خاتون کو کیا ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ عربی فونٹ کا کرتہ پہن کر مارکیٹ میں آجائے۔ قصہ مختصر اس لیے ایسی صورتحال میں خاتون کو نہیں چاہیے تھا کہ وہ اپنے آپ کو Saveرکھنے کے لیے ایسی حرکات سے ہی اجتناب کرے۔ کیوں کہ اس بارے میں تو دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں لوگ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ذرا برابر بھی نہیں جھجکتے ۔ عربی فونٹ سے یاد آیا میں اس حوالے سے بتاتا چلوں کہ جو لباس اُس عورت نے پہنا ہوا تھا وہ کویتی کمپنی کا ڈیزائن کردہ تھا، کویت الحمد اللہ ایک مسلمان ملک ہے، وہاں وہ کمپنی اب بھی کام کر رہی ہے اور یہ کپڑے دھڑا دھڑ فروخت کر رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اُس کمپنی میں کوئی نہ کوئی پاکستانی، ہندوستانی یا بنگلہ دیشی مسلمان ضرور کام کرتا ہو گا، مگر مجال ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ بات آئی ہو جو اچھرہ، لاہور کے مسلمانوں کے ذہن میں آئی اور انہوں نے ایک عورت کو یرغمال بنا کر کہا کہ یہ کپڑے اتارو۔ یہ نہ جانے وہ کون سے مسلمان تھے جو اِسلام کی حفاظت پر مامور تھے۔ اِس واقعے پر ہمارے معاشرے میں جو رد عمل آیا ہے وہ حوصلہ افزا ہے، ہر شخص نے، چاہے وہ مذہبی ہو یا آزاد خیال، اِس کی نہ صرف شدید مذمت کی ہے بلکہ پولیس کی بروقت مداخلت کو سراہا ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں،حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے عوامی تربیتی و آگہی کی مہم شروع کرے،،، مولانا حضرات ہر جمعہ کے خطے میں ایسی روش کو ختم کرنے کے حوالے سے خطبہ دیں۔ اور سب سے اہم کہ ریاست مساجد کو پابند کرے کہ وہ عوام کی تربیت کریں۔ اس کے علاوہ ہمیں بھی اپنے آپ میں سدھار پیدا کرنا ہوگا، ہمیں زیادہ نہیں تو کم از کم اپنی فیملی کو ایجوکیٹ کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے معاشرے میں تحقیق کوعام کرنا ہوگا۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے اندر تحمل پیدا کرنا ہوگا اور ایسی چیزوں کو ریاست پر چھوڑ دینا ہوگا۔ ورنہ ہم دنیا میں مزید بدنام ہوتے رہیں گے اور دنیا میں اکیلے رہ جائیں گے!