قائد اعظم اور موجودہ پاکستان !

ٓآج بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا 145واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔انہوں نے الگ مملکت (پاکستان) کے لیے جیسا مقدمہ لڑا ویسا دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی نے نہ لڑا۔ اُنہوں نے اپنی مدلل گفتگو سے نہ صرف لفظی جنگ لڑی بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ ”پاکستان“ کوئی مذہبی ریاست نہیں بننے جا رہی بلکہ یہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کی نمائندہ ریاست ہوگی جہاں سب کومذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ تبھی انہوں نے 11اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا کہ ”آپ کا تعلق کسی مذہب سے ہوسکتا ہے۔کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدہ کے ساتھ ہوسکتا ہے،یہ صرف اور صرف آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاستِ پاکستان کا ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے....پھر فرمایا کہ میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ہم اپنے تاریک دور سے آغاز نہیں کررہے ہیں۔بلکہ ہم تو ایک ایسے عہد میں اپنے ملک کی بنیاد رکھ رہے ہیں جس میں ذات پات اور برادریوں ،مذاہب اور عقائد کے درمیان کوئی فرق ،کوئی امتیاز اور کوئی دوری نہیں ہے۔ہم ایک ایسے یقین اور بنیادی اصول سے اپنی جدوجہد کا آغاز کررہے ہیں جس کے مطابق پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے ہم سب برابر ہیں۔ہم سب ایک قوم ہیں۔ مزید فرمایا ”میرے خیال میں عقیدے ،رنگ و نسل کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق بھارت کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہوچکے ہوتے۔ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔آپ آزاد ہیں ،آپ آزاد ہیں ، آپ پاکستانی ریاست کے آزاد شہری ہیں۔آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔آپ کو اپنی مساجد میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔پاکستانی ریاست کے تمام شہریوں کو انکے مذاہب اور عقیدوں کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔میں ایسا مذہبی بنیادوں پر نہیں کہہ رہا ہوں۔کیونکہ مذہب تو ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے۔لیکن ہم سب لوگوں کے درمیان سیاسی طور پر مذہب اور عقائد کا فرق ختم ہو جانا چاہیے۔“ الغرض قائد اعظم بہت زیادہ سوشل ہونے کے ساتھ ساتھ کشادہ ذہنیت کے مالک تھے، لیکن اس کے برعکس ہم نے اقلیتوں کے ساتھ ظلم روا رکھا ہے،آپ یقین مانیں کہ راقم نے اپنی نئی کتاب ”پاکستان کی روشن اقلیتیں“ بھی اسی غرض سے لکھی تھی کہ اُن غیر مسلم شخصیات کو اہمیت دی جائے جنہوں نے پاکستان کے لیے کام کیا ہے، جنہوں نے اس دھرتی کے لیے جانیں قربان کی ہیں، اُنہیں خراج تحسین پیش کیا جائے، لیکن بعض لوگوں کو یہ ”موضوع“ بھی ہضم نہ ہوسکا اور طرح طرح کے تنگ ذہن خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ لہٰذاہمیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ پاکستان جب قائم ہوا تو یہاں اقلیتوں کا تناسب 14فیصد سے زائد تھا، جبکہ آج یہ تناسب ساڑھے تین فیصد سے بھی کم ہے۔ پھر جب پاکستان بنا تو اداروں کی حالت آج سے بہتر تھی، آج ہم نے اداروں کے ساتھ بھی ظلم روا رکھا ہے، اسمبلی کی حیثیت کم کر دی گئی ہے، اداروں میں کرپشن سرائیت کر چکی ہے، جب پاکستان بنا تب تو پاکستان کی ”کرپشن رینکنگ“ کا علم نہیں مگر 70کی دہائی میں پاکستان ایماندار ملکوں کی فہرست میں 22ویں نمبر پر تھا، مگر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ آج 131ویں نمبرپر ہے۔ اس کے علاوہ ہم آج کے پاکستان میں مذہبی آزادی رکھنے والے ممالک میں 107ویں نمبر پر موجود ہیں۔ حالانکہ 1946 میں رائٹرز کے نمائندے ڈول کیمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے قائد اعظم کا کہنا تھا کہ” نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں اختیارات کا سرچشمہ عوام ہوگی۔نئی ریاست کے ہر شہری مذہب ،ذات یا عقیدے کی بنا کسی امتیاز کے یکساں حقوق ہونگے۔“الغرض قائد کی تقاریر کا ایک ایک لفظ پڑھ یا سن لیں اور سوچیں کہ ہم کس قدر ”بے وفا “نکلے، ہم تو اس متن کے ایک جملے پر بھی پورا نہ اُتر سکے۔ہم توگھڑے کے مینڈک بن گئے، آگے کیا بڑھنا تھا ہمارے ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے، ہم تو ایک دوسرے کو کافر کافر اور غدار غدار کہنے لگ گئے۔ خیر ہمیں کم از کم یہ تو علم ہونا چاہیے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف ایک روشن خیال سیاستدان تھے جو جمہوری اقدار، آئین اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے بلکہ وہ آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے زبر دست حامی تھے۔لیکن ابھی تو انتقال کو ایک سال نہیں گزرا تھا کہ ان کی مذکورہ بالاتقریر(11اگست 1947کو آئین ساز اسمبلی کی تقریر )کو متنازع بنا دیا گیا۔ بہت سی سازشیں ہوئیں، ایک سازش کے نتیجے میں قائد کے دست راست اور پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو لیاقت باغ (نام بعد میں رکھا گیا) راولپنڈی میں جلسے کے دوران شہید کردیا گیا۔یہ سازش آج تک بے نقاب نہیں ہو سکی کیونکہ بات اندر تک پہنچ گئی تھی لہٰذا کیس دبا دیا گیا۔ بعد میں جس طرح خواجہ ناظم الدین کی حکومت کا خاتمہ ہوا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ، نوکر شاہی اور عدلیہ بھی شریک جرم رہیں اور پھر وہی ہوا جس کا شاید تصور بھی قائد کے پاکستان میں نہیں تھا، یعنی مارشل لائ۔دیکھتے ہی دیکھتے پھر دوسرا اور پھر تیسرا مارشل لاءلگ گیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سیاستدانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو گئی جنہیں ملکی مفاد کے ساتھ کوئی سرو کار نہیں تھا، انہیں صرف ذاتی مفادات سے غرض ہے، انہی کی بدولت یہاں کوئی لانگ ٹرم پالیسی نہیں بن سکی، کوئی لانگ ٹرم پلاننگ جنم نہ لے سکی، کوئی تھنک ٹینک نہ بن سکا، کوئی حقیقی لیڈر پیدانہ ہو سکا۔ جو سر اُٹھاتا ہے اُسے مافیا اپنے گرد ایسا جکڑ لیتا ہے کہ وہ ٹریک سے ہٹ جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مافیاز کی بدولت ہم 70سالوں میں ایک ایسا ہسپتال نہیں بنا سکے جہاں اشرافیہ اپنے بچوں کا یا اپنا علاج کروا سکیں ، یہاں تو ہر سیاستدان، حکمران، جج، جرنیل علاج کی غرض سے باہر جاتا ہے اور ان کے بچے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں، پھر ہم نے تو قائد کے پاکستان کو ملاوٹ شدہ پاکستان بنا دیا ہے، یہاں کے چینی ، آٹے سے لے کر جان بچانے والی ادویات میں ملاوٹ ملتی ہے، ہم پر دنیا بھر میں اعتبار کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے، حالانکہ دنیا بھر میں اسلام اپنے کردار کی وجہ سے پھیلا تھا، قرآن کریم کی تو بعد میں تدوین ہوئی تھی، سب سے پہلے تو مسلمانوں کا کردار، قول، فعل اور اُن کا رکھ رکھاﺅ دیکھا گیا تھا۔ لیکن آپ قسم اُٹھا کر بتائیں کہ آج ہم مسلمانوں کے کردار کو دیکھ کر کون اسلام کی طرف راغب ہوگا؟ خیر چھوڑیے! معذرت کے ساتھ یہاں تو ہر شخص گلا گھونٹنے کے چکر میں بیٹھا ہے ، ہر شخص سوچوں پر پابندی لگا کر بیٹھا ہے، ہم تو اپنے پرچم کی جس میں سفید سبز رنگ ہے کی بے حرمتی کررہے ہیں، حالانکہ قائد کے دور میں وزیر قانون ہندو تھے۔ وزیر خارجہ کا تعلق اقلیتی فرقے(احمدی) سے تھا۔ اُن کے قریبی ساتھیوں میں بیشتر عیسائی، ہندو اور دیگر فرقوں سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آج ہم کسی فرقے سے کسی کو وزیر نہیں بنا سکتے، کسی کو اعلیٰ عہدہ نہیں دے سکتے اور تو اور اب ہم انہیں اقلیتوں کے حقوق دینے سے بھی عاری آتے ہیں ۔ آپ ملکی سلامتی کے اداروں کا سیاست میں اثر و رسوخ دیکھ لیں، قائد تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ملک میں تین دفعہ مارشل لاءلگے گا۔ مگر دھڑلے سے لگایا گیا اور آج بھی ویسے ہی حالات پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی کے مصداق قائد کے پاکستان میں شراب پر پابندی نہیں تھی، ہم نے پابندی لگا دی اور معذرت کے ساتھ اب اُس سے زیادہ لوگ چھپ کر پیتے ہیں، اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جس حکمران نے پابندی لگائی وہ خود پیتا تھا، اوراُس نے اس حوالے سے 1977ءکے جلسے میں کہا تھا کہ ہاں میں شراب پیتا ہوں۔ویسے ہمیں اس پابندی سے تو سروکار نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ ملک سمگلنگ کی مد میں ہر سال 10سے 12ارب روپے کا چونا لگایا جاتاہے، پھر آپ یہ دیکھیں کہ قائد کے پاکستان میں چائے بسکٹ کا خرچ بھی وزراءجیب سے ادا کرتے تھے، مگر آج وزراءہاﺅسز، گورنر ہاﺅسز، صدارتی محل اور بیشتر کیمپ آفسز کا سالانہ خرچ ہی کھربوں روپے بنتا ہے۔ قائد کے پاکستان میں پروٹوکول کے نام پر عوام کو تنگ کرنا عوام کی تضحیک سمجھا جاتا تھا جیسے ایک مرتبہ گل حسن نے آپ کی گاڑی گزارنے کے لئے ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا تھا، آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، پھاٹک بند کرانے کا حکم دیا اور فرمایا ”اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا، تو پھر کون کرے گا؟“ بہرکیف قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف یہ کہ ایک روشن خیال سیاستدان تھے جو جمہوری اقدار، آئین اور قانون کی بلا دستی پر یقین رکھتے تھے بلکہ وہ آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے زبر دست حامی تھے۔قائداعظم ایک انتہائی صاف گو، شفاف سیاستدان تھے مگر ہم نے سیاست کو ہی گالی بنا دیا۔ اب تو کرپشن آپ کو سیاست کی میراث تک لے جاتی۔ معاشرہ میں جو جتنا کرپٹ ہوگا اس کی اتنی ہی عزت ہوگی۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب اجتماعی سیاست دم توڑ رہی ہے۔ آج کوئی حسن ناصر، نظیر عباسی نہیں ہے کوئی فیض احمد فیض۔ حبیب جالب یا احمد فراز پیدا نہیں ہو رہا۔ کوئی انقلابی پیدا نہیں ہو رہا جوملک کو آگے لے کر چلے۔ لہٰذاآج کا قائد کا یوم پیدائش ہمیں یہ سبق ضرور دیتا ہے کہ ہم کس طرح انفرادی طور پر اپنے تئیں اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں، کیوں کہ ملک اجتماعی ترقی تب ہی کرے گا جب ہم انفرادی طور پر ایماندار اور قانون کی پاسداری کرنے والے بنیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو(آمین)