خوش آمدید نواز شریف: سیاسی مقدمات ختم ہونے چاہیے!

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف 2019ءکے بعد چار سال بعد پاکستان آچکے ہیں، وہ عدلیہ میں بیان حلفی جمع کروا کرجیل سے سیدھا لندن علاج کی غرض سے گئے تھے، وہ اپنے محتاط خطاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر چکے ہیں کہ وہ یہاں امن کے سفیر کے طور پر آئے ہیں، اپنے خطاب سے پہلے انہوں نے جس انداز میں کبوتروں کا ”استعمال“ کیا ، اُس پر بھی خاصی لے دے ہو رہی ہے۔ کہ اس مرتبہ شیر کے بجائے جلسے میں کبوتر کا استعمال کیوں کیا گیا۔جو بادی النظر میں ایک ایسا پرندہ ہے جسے دنیا میں امن کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے مذہب اسلام میں اسے ایک پاک اور مقدس پرندے کا درجہ بھی حاصل ہے ۔ پھر میاں صاحب نے اپنے شعروں میں شکوے شکایات بھی کیں مگر دھیمے انداز میں جیسے شکیل بدایونی کے دو الگ الگ مصرعے جوڑے کہ کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں زرا نظر تو ملے پھر انہیں سلام کروں پھر انہوں نے کہا کہ ہم سب کو ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں، ’میں قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘ اور قوم کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں‘، نواز شریف نے اپنی تقریر میں تفصیل سے اپنے پرانے دور کا موجودہ حالات سے موازنہ کیا اور کہا کہ ماضی کی نسبت مہنگائی میں کئی گنا اضافہ اور ملک کی معیشت گھمبیر صورت حال سے دو چار ہوئی۔انہوں نے وعدہ تو کیا کہ وہ ملک کے حالات کو بدلیں گے لیکن اس لیے کوئی جامع حکمت عملی نہیں بتائی۔انہوں نے 9نکاتی پلان ضرور دیا، مگر یہ نہیں بتایا کہ اس پر عمل درآمد ممکن بھی ہے یا نہیں؟ قصہ مختصر کہ ان کی یہ تقریر وطن واپسی پر اپنی جماعت کے حامیوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ اگر انہیں آئندہ انتخابات میں کامیابی ملی تو ان کی ترجیحات مہنگائی کا خاتمہ اور ملک کو معاشی مشکلات سے باہر نکالنا ہو گا۔لیکن انہوں نے اپنی تقریر میں کہیں الیکشن کروانے کی تاریخ کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے مفاہمت کے حوالے سے بات کی۔ لیکن یہ ضرور کہا کہ اُن کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ چلیں مان لیاکہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر مقدمات سیاسی نوعیت کے تھے، یہ بھی مان لیا کہ اُن سے اقتدار زبردستی واپس لیا گیا، اور یہ بھی مان لیا کہ اُن کا ملک سے جانا ٹھیک تھا ورنہ اُن کی صحت کو یہاں کچھ بھی ہوسکتا تھا ۔ لیکن ان عدالتوں کا کیا کیا جائے جہاں موصوف کے خلاف اگر جھوٹے یا سچے مقدمات بنائے گئے۔ یعنی نظریہ ضرورت کے تحت اگر اداروں کو ماضی میں استعمال کیا گیا یا متوقع طور پر اب بھی کیا جائے گا تو کیا ایسے میں پاکستان ٹھیک ہو جائے گا؟ کبھی بھی نہیں، بلکہ سوچیے گا بھی نہیں۔ ایسا کرنے سے پاکستان عالمی سطح پر مزید رسوائی کا شکار ہوگا۔ لیکن خیر اب چونکہ حضرت تشریف لا چکے ہیں اور چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے لیے آئے ہیں تو لاکھوں کا سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس نیا پیکج کیا ہے؟ ٹھیک ہے تقریر میں آپ نے اپنے زمانے کے بہت سے کارنامے سنائے، لیکن یہ نہیں کہا کہ تمام موٹرویز گروی کس نے رکھوائے اور کس کے دور میں رکھوائے گئے ہیں؟ پھر یہ بھی نہیں بتایا کہ کس کے دور میں ریڈیو پاکستان کی تمام عمارتوں سمیت بڑی بڑی سرکاری بلڈنگز کو گروی کس کے دور میں رکھوایا گیاہے؟ پھر یہ بھی نہیں بتایا کہ تمام ائیرپورٹس کس کے دور میں گروی رکھوائے گئے ؟پھر یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حضرت کے دور میں پاکستان پر کتنا قرضہ بڑھا؟ 2013ءمیں پاکستان پر کتنا قرض تھا اور جب انہوں نے اقتدار چھوڑا تو کتنا قرضہ تھا۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ جب موصوف نے اپنے دور میں قرضہ لیا تو اُسے کتنے سال میں واپس کرنا تھا یا یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اُن کے لیے گئے قرضے کہاں استعمال ہوئے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ انہوں نے اپنے بعد میں آنے والے ادوار میں کتنا قرضہ ری شیڈول کروایا تھا ؟خیر اگر اللہ نے آپ کو دوبارہ پاکستان آنے کی توفیق دی ہے تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ منموہن سنگھ کو دوبارہ کوئی کتاب لکھنی نہ پڑے۔ کیوں کہ ہمیں تو اُن کی ابھی پچھلی کتاب ہی نہیں بھولی۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے نواز شریف کا فون آرہا تھا، اور میں پریشان تھا کہ شاید اُس کال میں کشمیر پر بات ہوگی، لیکن انہوں نے محض اپنے ذاتی مفادات کی بات کی۔ اور پھر میں یہاں یہ بات بھی کہتا چلوں کہ میاں محمد نواز شریف ایک بہادر انسان نہیں گردانے جاتے۔ مشرف نے جیل میں ڈالا تو پھانسی کا کوئی خطرہ نہیں تھا مگر معاہدہ کر کے سعودی عرب چلے گئے۔ 2017ءمیں اول نا اہل ہوئے اور بعد ازاں زندان میں ڈالے گئے تو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے لندن چلے گئے۔ گو یہ جیل عمران خان کے قید خانے سے سو گنا آرام دہ تھی۔ اے سی لگا ہوا تھا، جسے ایک بار عمران خان نے انتقامی انداز میں اتارنے کی دھمکی دی مگر نہیں اتارا۔ ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا۔من پسند کھانے پیش کیے جاتے مگر میاں صاحب کے اندر کی آزاد روح پھڑپھڑاتی رہتی، جو ہیلی کاپٹر اور جہازوں میں اڑنے کی عادی ہو چکی تھی۔ آخر آزاد کردیے گئے۔ پھر وہ پاکستان نہ آئے ؛حتیٰ کہ چھوٹا بھائی اٹھارہ ماہ کیلئے وزیرِ اعظم ہو گیا۔ اب آئے ہیں تو یہ یقینی بنا کر کہ ایک لمحے کیلئے بھی گرفتار نہ کیا جائے گا۔ گو اسٹیبلشمنٹ اب جس موڈ میں رہنے لگی ہے ، کسی کی کوئی ضمانت نہیں۔ فوج نے 70کی دہائی میں میاں محمد نواز شریف کو تخلیق کیا۔ پھر وہ دن بھی آئے کہ مشرف نے انہیں گرفتار کیا۔ بمشکل اس شرط پہ خلاصی ہوئی کہ دس سال سیاست میں حصہ نہ لیں گے۔2007ءمیں وعدہ خلافی کر کے پاکستان آئے تو جہاز سے باندھ کرجدہ بھیج دیے گئے۔ پھر وہ برسرِ اقتدار آئے۔ 2017ءمیں اگر وہ نکالے گئے تو فوج کی تائید کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ پھر جنرل قمر باجوہ نے انہیں نکل جانے میں مدد کی لیکن عمران خان کی حکومت کی سپورٹ بھی جاری رکھی۔ پھر عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے معاملات میاں صاحب سے ایک بار پھر طے پا گئے ہیں۔ اس عجلت میں انہیں گرفتاری سے بچانے کا بندوبست کیا گیا کہ عدل منہ چھپاتا پھرتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں اب چونکہ اُن کی عمر کا تقاضا ہے کہ اُنہیں سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے، اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنی آخرت کے بارے میں سوچیں۔ اپنے ملک کی بہتری کے لیے سوچیں اور اگر ہو سکے تو معاملات نئی نسل کو سپرد کرکے اُن کو یہ بتائیں کہ جنت جلسوں میں آنے سے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کرنے سے ملتی ہے۔ اور کیوں کہ آپ کو اگر اللہ نے عزت سے نواز ا ہے تو اُسے عوام کے لیے رکھیں، لیکن بظاہر ایسا کچھ نظر نہیں آرہا بلکہ ہمیں تو یہی لگ رہا ہے کہ شہباز شریف اور اُن کے حواری میاں نواز شریف کو ”دکھا دکھا“ کر لوگوں سے ووٹ مانگیں گے، کہ دیکھو پچھلے 16ماہ کو چھوڑو۔ ہم جو شاہکار آپ کے لیے لائے ہیں، اُسے دیکھو اور تصور کرو کہ 2017ءجیسا پاکستان آپ کے سامنے ہوگا ! بہرکیف میاں محمد نواز شریف کو اللہ نے بہت دولت دی ، اقتدار دیا ، مواقع دیے۔ انہوں نے اپنی دولت میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ کیا۔ ان کی مہلت بس اب تمام ہونے کو ہے۔ اپنی بے پناہ دولت میں سے کچھ وہ اپنے ملک و قوم پہ نچھاور نہ کر سکے۔ اگر یہ کہہ دیتے کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ بیچ کر پاکستان میں ، میں دس لنگر خانے بنا دوں گاتو ان کی سخاوت کا ڈنکا بجنے لگتا۔ سیاست میں مگر وہ دولت کمانے آئے تھے، لٹانے نہیں۔ اوپر سے عمران خان ایک آسمانی آفت بن کر میاں صاحب پہ نازل ہوئے۔کہ خان جیل میں پڑا ہے مگر چھوٹے چھوٹے بچے شریف خاندان کے پوسٹر پھاڑتے پھر رہے ہیں۔ انہیں یہ جرات کس نے بخشی۔خیر سوال یہ ہے کہ ہمارے کہنے یا چاہنے سے وہ کیوں سیاست کو خیر آباد کہیں گے؟ اگر انہوں نے کہنا ہوتا تو وہ لندن میں ہی یہ کام کر کے آتے لیکن ہم تو صحافی ہیں اذان دینا ہمارا فرض ہے، اس لیے ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کے آنے سے ملک میں حقیقی جمہوریت کا دور پھر سے آجائے۔ جو چند ماہ سے رکا ہوا ہے۔ اور آپ سے سبھی یہی اُمید رکھیں گے کہ آپ اس ملک کو مزید انتقامی سیاست کی طرف نہیں دھکیلیں گے، کیوں کہ جیسا آپ نے کہا ہے کہ میں انتقام لینے نہیں آیا تو یہ بات آپ کے کردار سے بھی جھلکنی چاہیے۔ جیسے تمام سیاسی لیڈر رہا ہونے چاہیے، کوئی سیاسی کارکن جیلوں میں نہ رہے، سانحہ 9مئی کے حوالے سے عام معافی ملنی چاہیے۔ کیوں کہ اگر آپ کے بقول آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو پھر انسانیت تو یہ ہے کہ باقی لوگوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں، اُنہیںبھی آپ کو محسوس کرنا چاہیے۔ بلکہ آپ کا تو پہلا کام ہی یہ ہونا چاہیے کہ آپ تحریک چلائیں کہ کسی پر کوئی سیاسی مقدمہ نہیں ہونا چاہیے۔ تاکہ یہ ملک مثبت انداز میں آگے بڑھ سکے!