بلاول جیتی بازی ہا ررہے ہیں!

8فروری کے جنرل الیکشن کی آمد میں محض چند روز ہی باقی ہیں، سیاسی پارٹیوں میں ماضی جیسی گہما گہمی تو نہیں مگر سیاسی جماعتیں ، رہنما اور اُمیدوار اپنے تئیں عوام کو راغب کرنے کی گھٹن والے ماحول میں بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اور خبروں میں سب سے زیادہ وہی حلقے آرہے ہیں جہاں پارٹی قیادت یا تو خود کھڑی ہے یا زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔ ایسے ہی لاہور کے ایک حلقہ این اے 127کی بات کرتے ہیں جہاں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کھڑے ہیں۔ اس حلقے میں کس کا پلڑا بھاری ہے اور کون یہاں سے میدان مارے گا؟یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر بلاول کی مہم جو دو لوگ چوہدری سرور اور فاطمہ ملہی چلا رہے ہیں اُن کا لاہور کی سیاست سے بہت کم تعلق ہے۔ خیر اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں مگر پہلے اس حلقے کا تعارف کرواتا چلوں کہ حلقہ این 127 ہے جو 2018میں 133 تھا، نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہ حلقہ این اے 127ہوگیا،اس حلقے کا شمار لاہور کے اہم سیاسی حلقوں میں ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم اور بلاول بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے بعد سے یہاں مسلم لیگ ن کا قبضہ رہا ہے۔ لاہور سے گذشتہ کئی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی صوبائی یا قومی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہیں کر سکی اور اب مسلم لیگ ن کے گڑھ سمجھے جانے والے اس حلقے میں پیپلز پارٹی نے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ہی میدان میں اتارا ہے۔ اس حلقے سے مسلم لیگ ن نے اپنے ایک نئے کھلاڑی عطا تارڑ کو میدان میں اُتارا ہے،پی ٹی آئی کے امیدوار شبیر احمد گجر میدان میں ہیں، شبیر احمد گجر کو حقہ کا نشان الاٹ۔قومی اسمبلی کے اس ایک حلقے میں 5 صوبائی اسمبلی کی نشستیں جن میں پی پی 157، 160، 161، 162، 163 شامل ہیں۔حلقہ این اے 127 کی کل 9 لاکھ 72 ہزار آبادی میں سے 5 لاکھ 27 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے عام انتخابات 2024 کے لیے جاری کی گئی حلقہ بندیوں کا جائزہ لیا جائے تواس حلقے کا مرکزی حصہ ٹاﺅن شپ، گرین ٹاﺅن، کوٹ لکھپت اور چونگی امرسدھو کی گنجان آبادیوں پر مشتمل ہے۔ صرف یہی نہیں اس علاقے میں دو گنجان آباد مسیحی بستیاں مریم کالونی اور بہار کالونی بھی واقع ہیں۔قائداعظم انڈسٹریل اسٹیٹ بھی اسی حلقے میں ہے جبکہ ماڈل ٹاﺅن، جوہر ٹاﺅن اور فیصل ٹاﺅن کے کچھ علاقے بھی حلقہ این اے 127 میں شامل ہیں۔ دو دہائیوں پر محیط سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو سال 2002 میں جب پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت زیر عتاب تھی اور چوہدری برادران کی مسلم لیگ ق کا دور دورہ تھا۔ عام انتخابات 2002 میں اس حلقے سے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری منتخب ہوئے۔ انہوں نے ق لیگ کے اس وقت کے امیدوار عبدالعلیم خان اور ن لیگ کے نصیر بھٹہ کو شکست دی تھی۔ 2008 کے انتخابات میں ن لیگ کی قیادت جلاوطنی کے بعد وطن واپس پہنچ چکی تھی تو اس حلقے سے نصیر بھٹہ نے پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر ریاض اور ق لیگ کے عبدالعلیم خان کو شکست دی۔ اسی طرح 2013 اور 2018 کے انتخابات میں یہ سیٹ ن لیگ کے پاس رہی۔ 2018میں ملک پرویز نے یہاں سے 89678 ووٹ حاصل کیے، اعجاز احمد چوہدری تحریک انصاف کے امیدوار نے 77231ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے جبکہ ٹی ایل پی کے مطلوب احمد نے 13235ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے اور پیپلز پارٹی کو صرف پانچ ہزار ووٹ ملے تھے۔ پرویز ملک کی وفات کے بعد ضمنی الیکشن میں شائستہ پرویز ملک 46 ہزار 811 ووٹ لے کر کامیاب رہی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری محمد اسلم گُل 32ہزار 313 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیداوار کے بھاری ووٹوں کی وجہ سے ہی بلاول بھٹو نے اس حلقے کا انتخاب کیا ہے۔اور شائد یہ وہ لاہور کا واحد حلقہ ہے جہاں سے پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک مضبوط ہو سکتا ہے۔ اس حلقے میں دو بڑی مسیحی بستیاں بہار کالونی اور مریم کالونی واقع ہیں۔ ان کا ووٹ فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔ اپنے آپ کو لبرل جماعت قرار دینے والی پیپلزپارٹی کے لیے اس ووٹ کو سمیٹنا بظاہر آسان ہدف ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب طاہرالقادری اس حلقے سے جیتے تھے تو انہوں نے اپنی وکٹری سپیچ میں کہا تھا کہ ان کو 54 ہزار مسیحیوں نے ووٹ ڈالا ہے۔ یہاں 35 چرچ ہیں اور بلاول نے ان گرجا گھروں کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان سے حمایت کی درخواست بھی کی ہے۔ دوسرا بڑا فیکٹر اس حلقے میں منہاج القران کا مرکزی سیکرٹریٹ کا ہونا بھی ہے۔اسی حلقے سے طاہر القادری خود بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔اس لیے منہاج القران تنظیم کا یہاں اثر رسوخ ہے۔اسی اثر رسوخ کو بھی پیپلز پارٹی اپنے حق میں کرتے دکھائی دیتی ہے۔گزشتہ دنوں ہی بلاول بھٹو نے منہاج القران کا دورہ کر کے ان کی حمایت حاصل کی اور سیکرٹری جنرل پی اے ٹی خرم نواز گنڈاپور نے اپنے بیان میں کہا کہ پیپلز پارٹی کیلئے ہماری حمایت اس حلقے میں نظر آئے گی، ہماری مخالفت صرف (ن) لیگ سے ہے کیونکہ وہ سانحہ ماڈل ٹا¶ن میں ملزم ہے۔یہی وہ فیکٹر ہے جس کی وجہ سے سابق صدر آصف علی زرداری کو یقین ہے کہ وہ این اے 127 سے بلاول بھٹو زرداری کو پہلے ایم این اے اور پھر وزیر اعظم بنائیں گے۔ لیکن یہاں کی لوکل سیاست اور زمینی حقائق کی بات کریں تو یہاں ابھی بھی ن لیگ کا ووٹ زیادہ ہے ، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بلاول کا الیکشن مہم انچارج چوہدری سرور اور فاطمہ ملہی ہیں،،، اور حیرت کی بات ہے کہ دونوں نے ہی آج تک الیکشن نہیں لڑا۔ چوہدری محمد سرور اسکاٹ لینڈ پلٹ ہیں اور لوکل سیاست کے بجائے شاہی سیٹوں جیسے گورنر پنجاب جیسی سیٹوں پر براجمان رہے جبکہ فاطمہ ملہی ق لیگ میں رہیں اور حال ہی میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوئیں۔ لہٰذاانہیں لوکل پالیٹیکس کا اندازہ ہی نہیں ہے،،، اور نہ ہی وہ لاہور کے مزاج کو اُس انداز میں جانتے ہیں جیسے ایک مہم جو کو جاننا چاہیے۔اور پھر لاہور کے جیالوں کا ان دونوں رہنماﺅں کے ساتھ کوئی کمفرٹ زون نہیں ہے۔ بلکہ ان سے ملاقات کے لیے بھی جیالے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ لوگ اشرافیہ کے لوگ ہیں۔ بلکہ بہت سے جیالوں سے میری بات ہوئی وہ کہتے ہیں کہ یہ ”ہائی جیکر“ ہیں، جوہر الیکشن میں مسلط کیے جاتے ہیں حالانکہ ان کے مقابلے میں چوہدری منیر ، اونگ زیب برکی، اسلم گل جیسے لوگ بہترین آپشن تھے۔ بہرحال ہماری خواہش ہے کہ بلاول جیتے،،، کیوں کہ وہ پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں اور قومی و بین الاقوامی سطح کے رہنما بھی ہیں اور بی بی کے بیٹے بھی ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اُن کی جس انداز میں مہم چلائی جا رہی ہے، اور جن لوگوں کے سپرد ہے،، اس سے لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اُنہیں جتوانے میں خود بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ ابھی بھی وقت ہے،،، پیپلزپارٹی تھوڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے،،، اور ایسے لوگوں کو وہاں پر مہم کا انچارج بنائے جن کا ایک سیاسی بیک گراﺅنڈ ہو، جنہیں لاہور کی سیاست کا علم ہو۔ پیپلزپارٹی ایک بڑی پارٹی ہے، ہم اُس کے ویل وشر ہیں۔ عطاءتارڑ کو ایسی سیاسی جماعت کی سپورٹ حاصل ہے، جو اس علاقے کی پارٹی ہے،،، تو ایسی صورت میں اگر بلاول یہاں سے ہار جاتے ہیں تو یہ اُن کے لیے سبکی ہوگی۔ خیر ویسے تومیں موروثی سیاست کے سخت خلاف ہوں، مگر بلاول کی قیادت اور اُس کی سمجھ بوجھ بہت سے سنجیدہ عوام کو متاثر کر رہی ہے۔ بلاول کا ایک سب سے بڑا فائدہ عوام کو یہ ہے کہ اُسے پیسوں کی ضرورت نہیں! اُسے ننھیال اور ددیال سے اتنی وراثت ملی ہے کہ اُسے کرپشن کرنے کی ضرورت ہی نہیں اس لیے جو بھوکا ننگا سیاستدان ہوگا وہ سب سے زیادہ کرپشن کرے گا۔لہٰذابلاول کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اُن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو جب پنجاب کا رخ کرتے تھے تو کسان کوسوں میل دور سے پیدل چل کر ان کی ایک جھلک دیکھنے آیا کرتے تھے، ذوالفقار علی بھٹو عوام کی آنکھ کا تارا تھے۔ یہ مقام انہوں نے اپنی ذہانت اور عمل سے حاصل کیا تھا۔ اگرچہ بھٹو کی سیاسی وراثت کے لیے بلاول ایک فطری اور منطقی انتخاب ہیں تاہم انہیں اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں اور ان سے پیدا حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دیگر جماعتوں کی طرح پیپلزپارٹی میں قیادت کا فقدان ہے، میرے خیال میں پی پی پی اس وقت بھی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، قابل ترین افراد کی ٹیم رکھتی ہے، اس کے پاس کم و بیش 5ہزار کے قریب سیاسی شہید ہیں۔ان لوگوں نے پاکستان کے لیے جنگیں لڑی ہیں، کوڑے کھائے ہیں، قید کی صعوبتیں جھیلی ہیں،ن لیگ ، یا تحریک انصاف میں مجھے ایک بھی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا جو حقیقی لیڈر ہو۔ جبکہ پی پی پی میں قمر الزمان کائرہ ، چوہدری منظور ، رضا ربانی، فاروق ایچ نائیک، اعتزاز احسن ، خورشید شاہ، حنا ربانی، احمد مختار، شیری رحمن، منور علی تالپور وغیرہ نمایاں لیڈر ہیں۔ لیکن لگتا ہے اس نے اپنے شہید بھی بیچ دیے ہیں؟اب بھی وقت ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے آپ میں سدھار پیدا کر لے، پیپلزپارٹی جتنا اچھا کام کرے گی، پاکستان اُتنا ہی ترقی کرے گا۔ اور رہی بات بلاول بھٹو کی تو وہ یقینا نوجوان خون ہیںاوران کے خون میں خوب تڑپ بھی ہے ،للکار بھی ہے ، جب ذوالفقار علی بھٹو نے اس پارٹی کی بنیاد رکھی تو انہوں نے عوام کو نعرہ دیا تھا کہ روٹی،کپڑا اور مکان تو جناب بلاول صاحب تھوڑی سی تاریخ پر نظر دوڑا لیں کہ آپ کے دور حکومت میں غریب کتنا سکھی تھا۔کیا اس کو دو وقت کی روٹی مل جاتی تھی۔ ایک پاکستان پیپلز پارٹی وہ تھی جس نے ذوالفقارعلی بھٹو کی قیادت میں عام لوگوں کو متحرک کیا اور لاکھوں کے مجمعے لگائے۔بلاول کو بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے ، وہ حلقہ این اے 127 سے جیت کر وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو میرے خیال میں اُنہیں ضرور جیتاچاہیے، اور اگر خدانخواستہ بلاول ہار گئے تو یہ پیپلزپارٹی کو ایک صوبے تک محدود کرنے کے لیے کافی ہوگا۔