مولانا فضل الرحمن.... ابھی بہت سے لوگ ”ایکسپوز “ہوں گے!

اس وقت کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا، کہ ملک کس سمت جا رہا ہے....پہلے کہا جا رہا تھا کہ انتخابات ہوں گے تو ملک مستحکم ہو جائے گا۔ ملک میں تھوڑا استحکام آجائے گا، معیشت سنبھل جائے گی، انویسٹرز کا اعتماد بڑھے گا، اسٹاک مارکیٹ بہتر ہوگی، ڈالر نیچے آئے گا جس کے بعد پٹرول و گیس کی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ لیکن یہ محض خام خیالی نکلی۔ نگران حکومت نے نئی آنے والی حکومت کے لیے ”آسانیاں“ پیدا کرنے کے لیے نہ جانے کس کے اشارے پر پہلے گیس کو 70فیصد تک مہنگا کردیا، پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ کردیا۔ پھر الیکشن ہوئے اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا، ہر طرف دھاندلی کا شور،،، بلکہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ انتخابات میں شامل 100فیصد جماعتوں نے دھاندلی کا شور کیا ہے۔ اس ضمن میں جہاں تحریک انصاف نے اپنی سیٹیں چوری ہونے کا الزام لگایا ہے،،، وہیں سندھ اسمبلی والے یعنی پیپلزپارٹی الزام لگا رہی ہے کہ پنجاب خصوصاََ لاہور میں اُن کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے، ن لیگ کہہ رہی ہے کہ کے پی کے اور بلوچستان میں اُن کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے، بلکہ نوازشریف نے مانسہرہ والی سیٹ کے حوالے سے تو درخواست تک دائر کر دی تھی۔ پھر جماعت اسلامی پورے ملک میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کا پروگرام رکھتی ہے اور پھر رہی سہی کسر مولانا فضل الرحمن نے نکال دی جو پہلے ہی اپنی دونوں نشستوں سے ہار چکے تھے،،، انہوں نے ایسی دھواں دار پریس کانفرنس کر ڈالی کے مقتدرہ سمیت اپنی ماضی کی حلیف پارٹیوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو بھی دھو ڈالا۔ پھر یہی نہیں بلکہ ماضی کی سب سے مخالف جماعت تحریک انصاف کے ساتھ بھی مذاکرات کا عمل شروع کردیا۔ خیر اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں مگر آپ یہ دیکھیں کہ اس وقت مفروضے بھی ایسے ایسے گھڑے جا رہے ہیں اور میڈیا ، سوشل میڈیا پر ایسی ایسی کمپین چلائی جا رہی ہیں کہ خداکی پناہ .... بلکہ مولانا کہ بارے میں ہی کہا جا رہا ہے کہ موصوف شور اسی لیے مچا رہے ہیں کہ اُن کی ڈیمانڈ ہے کہ بلوچستان کی حکومت دے دو یا پھر صدر مملکت بنادوورنہ سارے راز کھول دوں گا،،، بلکہ یہ بھی شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ یہ مت سمجھنا نواز شریف کو کھڈے لائن کیا ہے تو میں بھی ہوجا¶ں گا.... وغیرہ وغیرہ پھر کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو مقتدرہ نے خود اقتدار سے الگ کیا ہے اور کہا ہے کہ ابھی آپ عوام میں نہ جائیں۔ اور پھر میرے دوست صحافی کو ایک ایم پی اے خط لکھتے ہیں کہ ....ووٹ میاں نواز شریف کو ملا اور اقتدار شہباز شریف اور مریم نواز کو.... جلا وطن میاں نواز شریف رہا لیکن اقتدار کے ایوانوں میں میاں شہباز شریف کا طوطی بولتا رہا.... ایک منصوبہ بندی کے تحت میاں نواز شریف کو اخباروں اور ٹیلی ویژن کا وزیر اعظم بنایا گیا جبکہ اصل اقتدار کی باری کسی اور کو دے دی گئی....جس نواز شریف کے نام پہ ووٹ ملے اسے ہروا دیا گیا اور جو اسکے نام کے بغیر ایک ووٹ نہیں لے سکتے انہیں جتوا دیا گیا.... قریب ترین اور مشکل وقت کے حلیف مولانا فضل الرحمن سے میاں نواز شریف کی جیتی ہوئی ایک سیٹ کو بھی متنازعہ بنادیا گیا۔الغرض یہ تمام مفروضے اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ 8فروری کو ہونے والے الیکشن کے بعد کیا ملک سنبھل گیا ہے؟ کیا الیکشن ایسے ہوتے ہیں؟کیا اس قدر جدید دور میںرزلٹ کمپائل کرنا اتنامشکل ہو چکا ہے؟کیا رزلٹ بدلنے کا رواج اس قدر اوپن ہوگیا ہے کہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ کیا ہوا؟ اور پھرکیا عوام نے جس کو مینڈیٹ دیا، اقتدار اُس جماعت کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے؟ ؟ پھر آپ ساری باتیں چھوڑیں یہ بتائیں کہ اس سارے کام میں جو مقتدرہ نے ابھی رچایا یا ماضی میں ایسے کام کیے تو اس میں عوام کا کیا قصور ہے؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ ابھی بھی ووٹ پر یقین رکھتے ہیں؟ خیر آج ہمارا موضوع محض تنقید کرنا نہیں بلکہ آج کل ہونے والی ہر زبان زد عام گفتگو کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت اور تحریک انصاف آپس میں مل نہیں سکتے کو ثابت کرنا ہے کہ پاکستان میں آج تک جتنے بھی اتحاد بنے وہ Un-Pridictableتھے۔ نہیں یقین تو پاکستان کی ”اتحادی سیاست“ کا آغاز 1952 میں ہوا جب ڈیموکریٹک یوتھ لیگ اورایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف اتحاد بنایا تھا، 1953 میں دی یونائیٹڈ فرنٹ کے نام سے اتحاد بنایا گیا، یہ اتحاد چار پارٹیوں پر مشتمل تھا۔پاکستان میں تیسراسیاسی اتحاد ایوب خان دور میں ”متحدہ اپوزیشن“ کے نام سے بنا، جس کی قیادت مادر ملت فاطمہ جناح نے کی۔ چوتھا اتحاد30 اپریل 1967کونوابزادہ نصراللہ خان نے پانچ پارٹیوں پر مبنی ”پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ“ کے نام سے بنایا۔ اس اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا،،، جبکہ یہ پارٹیاں اس سے پہلے سخت اپوزیشن پارٹیاں رہی تھیں۔ پھر پانچواں اتحاد پیپلز پارٹی کے خلاف 9سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کرپاکستان قومی اتحادکے نام سے بنایا،اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے خلاف6 فروری 1981کو جمہوریت کی بحالی کے لیے ”ایم آر ڈی“ کی شکل میں چھٹے اتحاد کی بنیاد رکھی گئی۔ایم آرڈی میں موجود تمام پارٹیوں کی تاریخ پڑھ لیں۔ تمام جماعت لیفٹ اور رائیٹ سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس اتحاد میں 10سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ ساتواں اتحاد اسلام کے نام پر بنایا گیا، یہ اتحاد 1988 میں وجود میں آیا جس کا نام ”اسلامی جمہوری اتحاد“ (آئی جے آئی) رکھا گیا۔ پھر 1990میں آٹھواں سیاسی اتحاد ”پیپلز ڈیموکریٹک الائنس“ بنا جس کی قیادت بے نظیر جب کہ آئی جے آئی کی قیادت نواز شریف کر رہے تھے۔ اس کے بعد 1997 میں ”گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس“ کے نام سے ایک نیا اتحاد بنا جس کی قیادت نصراللہ خان کررہے تھے،یہ اتحادنواز شریف کی حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا۔پھر دسواں اتحاد مشرف حکومت کے خلاف بنا جس میں 15سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا اور اس کا نام ”تحریک بحالی جمہوریت“ رکھا گیا۔ پھر گیارہواں اتحاد ”متحدہ مجلس عمل“ کے نام سے 6مذہبی جماعتوں نے تشکیل دیا،پھر اسی دوران نیشنل الائنس اور ”ملی یکجہتی کونسل“ وغیرہ کے نام سے بھی اتحاد بنے لیکن یہ زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے۔پھر گزشتہ سال تحریک انصاف کے خلاف ن لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت 11جماعتوں کی اے پی سی ہوئی۔ اس آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں اپوزیشن نے حکومت مخالف نیا اور بارہواں اتحاد بنا لیا۔جس کا نام ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“ (PDM) رکھا گیا۔اس میں موجود ن لیگ اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی حریف جماعتوں نے تحریک انصاف کے خلاف نہ صرف اتحاد بنایا اور 16مہینے حکومت بھی کی۔ لہٰذااگر تحریک انصاف اور جے یوآئی آپس میں مل بیٹھے ہیں تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ میرے خیال میں اگراس سیاسی اتحاد کو جمہوری انداز سے چلایا جائے تو یہ ملک کے لیے کارگر بھی ثابت ہوسکتاہے۔ جیسے ملائشیا کے سیاسی اتحادوں UMNOاور PASنے کرپٹ حکومت کو ختم کیا اور ملائشیا کو ترقی کی راہ پر چلایا۔اور پھر اتحاد تو ہمیشہ قربانی مانگتے آئے، اور قربانی بھی ہمیشہ بڑی پارٹی کو ہی دینا پڑی ہے۔ آج تک جتنے بھی دنیا میں اتحاد دیکھے گئے ہیں، سب میں قربانی بنیادی شرط سمجھی جاتی ہے۔ بہرکیف کوئی بھی اتحاد Give and Take سے چلتا ہے،کسی اتحاد کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کسی ایک پارٹی کا زور چلے۔جب اتحاد بنتے ہیں، تو سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، سب کو برداشت کرتے ہیں، اب اگر پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ ہر کوئی تحریک انصاف کے رولز کو فالو کرے، اور جو وہ کہے وہی پتھر پر لکیر ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اور اگر تحریک انصاف واقعی تحریک چلانے میں سنجیدہ ہے تو اس کے لیے اُسے اپنے اندر جرا¿ت پیدا کرنا ہوگی، کیوں کہ اُس نے جانے انجانے میں بہت سی غلطیاں کی ہیں۔ اُس نے کئی مذاکراتی دروازے بھی بند رکھے۔ لیکن سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا۔ ہمیشہ اپنے ”در“ کو کھلا رکھتے ہیں۔ اور مولانا فضل الرحمن نے جو آخری پریس کانفرنس کی ہے یا انٹرویوز دیے ہیں اُس سے تو بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ دونوں مذکورہ جماعتیں ایک ہی بات کہہ رہی ہیں۔ا ور ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑی ہیں۔ اس لیے اگر یہ پلیٹ فارم تو آچکے ہیں تو اکٹھی ٹرین پکڑنے میں کیا حرج ہے! بقول شاعر زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ وعدے وعید ہی پورے نہیں ہوںگے،،، تو ناں ہوں!لیکن رسک تو لیں وعدوں کا ایک شہر تھاجس میں گزر رہے تھے دن آنکھیں کھلیں تو دور تک پھیلے ہوئے سراب تھے ایک تھا موسمِ وفا جس کی ہمیں تلاش تھی اپنے نصیب میں مگر، اور ہی کچھ عذاب تھے