نئی قومی پالیسی اچھا اقدام مگر” آپریشنل “کون کرے گا؟

بلآخر پہلی قومی سلامتی کی پالیسی (National Security Policy) کو مرتب کر لیا گیا اور لگے ہاتھوں وزیر اعظم عمران خان نے اس کا افتتاح بھی فرمادیا۔ اور بڑا دعویٰ بھی کر دیا کہ 74برس میں پہلی قومی سلامتی پالیسی (NSP) مرتب کرلی گئی ہے ، ویسے جب بھی موجودہ حکومت کوئی کام کرتی ہے تو وہ ہمیشہ کی طرح ”پہلی بار“ ہی ہوتا ہے۔ خیر بقول وزیر اعظم ، قومی سلامتی پالیسی شہریوں کی فلاح و بہبود کے گرد گھومتی ہے۔ یعنی ملکی معاملات کو اب صرف ایک زوایے سے نہیں بلکہ ایک تکون کی صورت میں دیکھا جائے گا۔ اور یہ تکون معیشت، قومی سلامتی اور انسانی سلامتی ہے۔ اور بقول حکومت ،ریاست کا اپنے وجود اور بقا کے تناظر میں ایک جامع اور متوازن نقطہ نظر سامنے آیا ہے اور ،جلد یا بدیر ،اس کی جھلک پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں میں ملنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ اس پالیسی کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس قرض مانگنے جانے کے نتیجے میں کسی نہ کسی پہلو سے ملکی سلامتی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا ’ ’ہم مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں اور قرض لینے کے لیے اس کی کڑی شرائط ماننی پڑتی ہیں اور جب شرائط مانتے ہیں تو کہیں نہ کہیں قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے جو لازمی نہیں کہ سیکورٹی فورسز سے متعلق ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ آپ کو اپنے عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے جبکہ سب سے بڑی سکیورٹی یہ ہوتی ہے کہ عوام آپ کے ساتھ کھڑے ہوں۔“ لہٰذاحکومت جس قومی پالیسی پر خوشی کے ڈھول پیٹ رہی ہے آئیے اُس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا یہ بھی وقت گزاری کے لیے تو نہیں، کیوں کہ مذکورہ رپورٹ کا ایک حصہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا اور نہ ہی یہ بات منظر عام پر آئی ہے کہ اس قومی پالیسی کو ”آپریشنل“ کرنے کے لیے کون کون میدان عمل میں آئے گا؟ کیا اس پالیسی میں اپوزیشن کا بھی کوئی کردار ہوگا یا اُنہیں سرکار یہاں بھی ”اچھوت“ کا درجہ دے گی۔ خیر آگے چلنے سے پہلے اس پالیسی کے چیدہ چیدہ نکات پر اگر روشنی ڈالی جائے تو یہ پالیسی 62صفحات پر مشتمل ہے، جس کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ جب تک ملک معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوگا، تب تک روایتی سلامتی بھی خطرے میں رہے گی، اس لیے سب سے پہلے معاشی مضبوطی کی ضرورت ہوگی۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بیرونی سکیورٹی بہتر کرنے سے پہلے اندرونی سکیورٹی کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے۔ پھر تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اس چیلنجنگ دنیا میں خارجہ پالیسی کو ہر صورت بہتر بنایا جائے، اور دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت چہرہ رکھا جائے، تاکہ بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری کو آسانی سے پاکستان میں کھپایا جا سکے۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ انسانی سلامتی، ریاستوں کی سلامتی کے برعکس، لوگوں اور انسانی برادریوں کی سلامتی اور ان کے بنیادی حقوق کا تقاضا کیا جائے الغرض پوری قومی پالیسی میں سارے کا سارا زور دفاع پر ہے جس کے لیے معیشت کی ترقی و توانائی ضروری پیشگی شرط کے طور پر تسلیم کرلی گئی ہے۔وغیرہ وغیرہ میں ابھی یہ پالیسی گھر بیٹھا موبائل پر ابھی پڑھ رہی رہا تھا یا یوں کہیں کہ مذکورہ پالیسی کو کھول کر اس کا سرسری جائزہ لے ہی رہا تھا کہ میرا بڑا بیٹا جو فرانس سے پاکستان آیا ہوا تھا، اُس کی تعلیم مغربی ممالک سے ہی ہے کے ساتھ میں یہ پالیسی شیئر کر بیٹھا، موصوف نے پالیسی کی فہرست دیکھی اور ایک آدھ باب کا مطالعہ کیا اور کہا کہ یہ کسی قوم کی نیشنل سکیورٹی پالیسی کم اور کسی طالب علم کا تھیسز زیادہ لگ رہا ہے، میں نے اُس کی طرف حیرانی سے دیکھا اور اپنے ملک کی قومی پالیسی پر تنقید پر تھوڑا سا برا بھی منایا۔ لیکن اُس کے دلائل واضح تھے کہ جس پالیسی کو لے کر وزیر اعظم اور اُن کے مشیر معید یوسف دن رات کریڈٹ لے رہے ہیں، اُس میں خاص بات ہے کیا؟ یعنی بیٹے کی بات کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکہ، برطانیہ یا کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والا کوئی طالب علم بھی جو اس مضمون میں تعلیم حاصل کر رہا ہو یا کر چکا ہو ایسی دستاویز تیار کرسکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو ان پالیسیوں کو لاگو کرنے کے لیے پوری حکمت عملی درکار ہوتی ہے، پوری قوت درکار ہوتی ہے، ریاست کے بہترین ذہن درکار ہوتے ہیںجن کا پاکستان میں ہر دور میں بحران رہا ہے۔ خیر مسئلہ یہ نہیں کہ اس قومی پالیسی کی سرکاری سطح پر کیا حیثیت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دستاویزات تو ہم نے بہت سی تیار کی ہیں جیسے سانحہ اے پی ایس کے بعد قومی پلان بنایا تھا اُس کا کیا بنا؟ کہتے ہیں کچھ شقوں پر عمل ہوا، کچھ پر نہیں مگر اس کی روح باقی رہی۔ یہ پالیسی قوم کے استصواب رائے سے بنی تھی۔ کوئی اوپر سے ہم پر نازل نہیں کی گئی تھی۔ پھر کئی کمیٹیوں کی رپورٹس کا یہاں چھپا لیا گیا، مطلب سب سے بڑی رپورٹ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پر آج تک عمل نہیں کیا گیا، پھر اُس کے بعد بہت سے کمیشن بنے مگر کسی پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اور پھر یہاں قومی سلامتی کی پالیسیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم شروع سے ہی اپنے فیصلے خود نہیں کرتے بلکہ اس کا دوسروں پر انحصار کرتے ہیں جیسے جب ہم آزاد ہوئے تھے تو ہماری معیشت کا مکمل انحصار زراعت پر تھا۔ وراثت میں ملنے والے دفاعی ڈھانچے کی بقا اور جلد بازی میں کی گئی تقسیم ہند کے معاشی نتائج (سندھ طاس کی تقسیم جس کی وجہ سے تین مشرقی دریا بھارت کے نرغے میں آگئے) سے نمٹنے کے لیے ہم امریکہ کے اتحادی بن گئے۔پورے چالیس سال سوویت یونین کے خلاف صف اول کی ریاست کا کردار ادا کرتے رہے۔ ہمارا عمومی رویہ ایک سکیورٹی سٹیٹ کا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد، دنیا تاہم بدل گئی۔ اصولی طور پر ہمیں بھی تبدیل ہوجانا چاہیے تھا۔اس حوالے سے سوچ بھی موجود تھی اور کوششیں بھی ہوئیں لیکن کچھ تو اشرافیہ کی ہوسِ اقتدار اور پرانے نظام سے جڑے طاقتور مفاد آڑے آئے اور کچھ معروضی حالات کہ بھلائی کی صورت ہی نکل نہ پائی۔ سب سوچیں اور تدبیریں دھری کی دھری رہ گئیں اور ہم یکے بعد دیگرے بحرانوں کی دلدل میں پھنستے چلے گئے۔ 90 کی دہائی اشرافیہ کی باہمی چپقلش کی نذر ہوئی تو اکیسویں صدی کی دو دہائیاں سیاسی استحکام کے حصول اور افغان جہاد کا ملبہ صاف کرنے میں لگ گئیں۔ اس دوران ہم عدل ومساوات کے زریں اصولوں سے منہ موڑے رہے۔ ملک بھی دولخت کرایا اور نسلی ، لسانی اور مذہبی کدورتوں کے نشانے پر بھی رہے۔ یقین مانیں جب یہ واقعات ہو رہے تھے تب بھی ملک میں کوئی نہ کوئی قومی سلامتی پالیسی موجود تھی لیکن فرق یہ ہے کہ وہ ”آپریشنل“ نہیں تھی، کیوں کہ آپریشنل کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے قومی مفاد دیکھنا ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بقول وزیر اعظم آپ آئی ایم ایف کے تابع ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ آپ کوئی بھی قومی پالیسی بنا سکتے ہیں۔ ہاں البتہ راقم نے اس بات کا کئی مرتبہ ذکر اپنے کالموں میں کیا ہے کہ ملک کے اندر ایک ایسا ”تھنک ٹینک“ہونا چاہیے جو ملک کی تقدیر کے فیصلے کرے، اُس کا حکومتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے، بس سینئر ترین افراد پر مشتمل ایسے افراد ہوں جن کا ماضی داغدار نہ ہو۔ اُس کے ہونے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ آہستہ آہستہ اپنی پالیسیوں میں تسلسل لے آئیں گے۔ لیکن معذرت کے ساتھ مذکورہ بالا پالیسی کا ماسوائے اس کے کہ ایک نیا سیاسی شوشہ کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا، کیوں کہ ابھی تک تو کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس وقت اس پالیسی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ بہت سی باتیں ہیں جو ہمیں اچانک یاد آ رہی ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس پالیسی میں کہاگیا ہے کہ قومی سلامتی کی بنیاد معیشت پر ہے۔ انہی دنوں ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ ملک کی معیشت کے استحکام کے لیے سٹیٹ بینک کی خودمختاری ضروری ہے۔ اس خودمختاری کو بعض لوگ بینک کی غلامی قراردیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ سٹیٹ بینک کے گورنر کو آئی ایم ایف کی طرف سے ملک کا اقتصادی وائسرائے بنانے کے مترادف ہے۔ یہ سب باتیں جوڑ کر دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ تشویش کس بات کی ہے۔ خدا میرے ملک کوسلامت رکھے اور اس کی سلامتی کا ضامن بھی وہی ہے مگر یہ جو بحث ہورہی ہے یہ یونہی نہیں ہے۔ ہمیں اسے خوامخواہ کا تنازع نہیں سمجھنا چاہیے۔ بہرکیف ہمیں اچھے کی اُمید کرنی چاہیے کیوں کہ حکومت کی نظر میں نئی قومی سلامتی پالیسی اصل میں نقطہ آغاز ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی مشراءکا کہنا ہے کہ جو کام ہم نے اپنی آزادی کے وقت کرنا تھا ، وہ کام شاید اب ہونے جارہا ہے۔ یعنی، ایک متحد ،آزاد اور خود مختار قوم کا بننا اور دنیا سے ایسا تسلیم کرانا۔اللہ کرے ایسا ہی ہو کیوں کہ بادی النظر میں پاکستان کے خلاف اس وقت ایک نئے ہائبرڈ یا طفیلی نظام کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ جو پچھلے تمام نظاموں سے زیادہ خوفناک ثابت ہو رہا ہے۔اس کے مطابق ہمیں معاشی طور پر اتنا مفلوج کر دیا جائے کہ ہم دنیا کے سامنے بھیک منگے رہیں اور دنیا ہم سے اپنی مرضی کے کام کرواتی رہے ، لہٰذاہمیں ایسی خفیہ جنگوں سے بچنے کے لیے صرف اور صرف ان پالیسیوں کو آپریشنل کرنے کی ضرورت ہے، ناکہ نئی پالیسیاں مرتب کرنے کیں! اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو سکا تو اگلے چند سالوں میں ہمیں اپنے ایٹمی ہتھیار بھی گروی رکھنے پڑ جائیں گے، جس کے بعد کہاں کی قومی سلامتی اور کہاں کی سکیورٹی پالیسی !!! #Pakistan #national security policy #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan