اعظم خان، سائفر اورپاکستان کی ایک ہی” کہانی “

امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے کہ ”آپ تھوڑے لوگوں کو ہمیشہ کے لئے اور سارے لوگوں کو تھوڑے وقت کے لئے بیوقوف بنا سکتے ہو مگر سارے لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بیوقوف نہیں بنا سکتے“۔یہ قول آج کی حکومت پر مکمل فٹ بیٹھتا ہے کہ اُس کی آخری حد تک خواہش ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت جو 9مئی کے واقعات کی زد میں آچکی ہے، یا لائی گئی ہے کو الیکشن سے دور رکھا جائے یا کم از کم اس کے چیئرمین کو الیکشن سے دور رکھا جائے۔ اس حوالے سے اب حال ہی میں ایک اور پتہ کھیلا گیا ہے کہ بیوروکریٹ اعظم خان نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کا سائفر والا معاملہ فراڈ تھا وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اعظم خان کون ہے؟ اور اسے وعدہ معاف گواہ بنانے کے بعد تحریک انصاف کو کیا نقصان پہنچے گا لیکن اس مکاری کو تسلیم کرنے سے ہم بہت دور ہیں کہ ایک شخص (اعظم خان) جس کے بارے میں گزشتہ ماہ 16جون کو تھانہ کوہسار میں درخواست دی جاتی ہے کہ اعظم خان کل شام کو گھر سے نکلنے کے بعد واپس نہیں آئے۔اور اُن کا موبائل نمبر بھی بند ہے۔درخواست اعظم خان کے بھتیجے کی طرف سے دی جاتی ہے۔جس کے بعد پولیس بیان کرتی ہے کہ معاملے کی تفتیش کی جارہی ہے جس کے بعد مقدمے کا فیصلہ ہو گا۔اور پھر اب 34دن بعد اعظم خان نمودار ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ سائفر ایک سوچا سمجھا ڈرامہ تھا جسے قائد تحریک انصاف نے سیاسی مقاصد کیلئے رچایا۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ جب عمران خان نے سائفر کو دیکھا تو خوشی کا اظہار کیا اور اس کی زبان کو بلنڈر قرار دیتے ہوے کہا کہ اب اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے خلاف بیانیہ تیار کرنے کیلئے سائفر کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بندہ پوچھے وہ 34دن کہاں تھے؟ بقول اعظم خان کہ وہ دوست کی طرف تھے، اب آپ بتائیںکہ کیا آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں ایسا ممکن ہے؟ اور پھر ہماری پولیس یا اداروں سے کوئی بھی شخص ڈھکا چھپا ہے؟ ہماری پولیس نے تو تحریک انصاف کے کارکنوں کو ایسے تلاش کیا ہے کہ دنیا حیران ہے کہ یہ لوگ کیسے کام کرتے ہیں؟ مطلب! کسی کو گرفتار کرنے کے لیے ٹیم گئی اور موصوف اگر گھر میں نہیں پائے گئے تو اُس کے کسی خونی رشتے کو اُٹھا لائے اور ایسے میں بندہ خود بخود گرفتاری کے لیے آجاتا ہے۔ تو ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ اعظم خان کو تلاش نہیں کیا جا سکا۔ چلیں مان لیا کہ وہ 34دن تک اپنے دوست کے ہمراہ تھے، تو کیا اُن کے ”دوست“ نے اُنہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟ کہ وہ ایک دم نمودار ہوئے۔ اور یہ بیان جمع کروا دیا۔ مطلب! ہمارے ملک میں اس وقت ہو کیا رہا ہے؟ اور پھر حد تو یہ ہے کہ جس طریقے سے پاکستان کے 70سے زائد چینلزنے اس خبر کو ”بریک“ کیا۔ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ حالانکہ موجودہ حالات میں مجھے اس میں ”خبر“ والی کوئی بات ہی نظر نہیں آئی ۔ لہٰذاخدارا! ایسی کہانیوں کو اس وقت ملک سے نکالا جائے اور اصل مسائل کی طرف توجہ دی جائے، ورنہ ہم مزید تباہ ہو جائیں گے، وطن عزیز میں رہنے والے ہر اُس شخص کو علم ہے کہ دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے، سٹریٹ کرائم بڑھتا جا رہا ہے، کرائم بڑھ رہا ہے، مس مینجمنٹ کے عوامل بڑھتے جا رہے ہیں، کرپشن میں اضافہ ہر گزرتے دن ہو رہا ہے، ملک کے ائیرپورٹس تک گروی رکھے جا رہے ہیں، ملک کا پاسپورٹ ایک بار پھر بدترین پاسپورٹس میں شمار ہو رہا ہے، یعنی دنیا ہمیں شام، افغانستان اور عراق کے بعد چوتھے بدترین ملک میں گن رہی ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے، بھوک کے ہاتھوں گھروں کے گھر اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں، لوگ چھوٹی موٹی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایپس سے قرضے لے کر دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں، عوام میں Purchasingپاور ختم ہو چکی ہے، 70فیصد تک کاروبار ختم ہو چکے ہیں، ملک مانگے تانگے کے پیسوں سے چلایا جا رہا ہے، عوام کا بنکوں میں پڑا پیسہ ڈی ویلیو ہو رہا ہے۔ نوجوان ملک سے باہر بھاگ رہے ہیں، ہمسایہ ملک سیٹلائیٹ کے ذریعے خطے کو کنٹرول کر رہا ہے، چاند پر مشن بھیج رہا ہے، جبکہ ہم دم درود سے آگے نہیں بڑھ پار رہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی حالت دیکھ لیں، ہسپتالوں کی حالت قابل رحم ہو چکی ہے۔ لیکن یہ سب ”کسی “کی ایماءپر ایک دوسرے کونااہل کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور جس کے ایما پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ اس میں ایکسپرٹ ہے، نہیں یقین تو پوری تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں، نواز شریف کو پرویز مشرف نے غداری کے کیس میں ملک سے باہر بھیجا، لیکن وہ دوبارہ وزیر اعظم بن گئے اور اب ایک بار پھر انہیںوزیر اعظم بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں،پھر بے نظیر کو سکیورٹی رسک قرار دیا گیا ، لیکن وہ بھی وزیر اعظم بن گئیں۔ زرداری کو دنیا کا کرپٹ ترین شخص قرار دیا گیا، لیکن ہم اتنے طاقتور ہونے کے باوجود آج تک اُس کے بیرون ملک پڑے پیسوں کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکے۔ پھر ہم سینکڑوں قسم کی کرپشن پکڑتے رہے، مگر کسی سے ایک روپیہ بھی نہیں نکلوا سکے۔ بلکہ گزشتہ روز تو وزیر اعظم کے خلاف آخری اکا دکا مقدمات بھی ختم ہو رہے ہیں ، جیسے گزشتہ روز کی بڑی خبر پڑھ لیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف ، نصرت شہباز،حمزہ شہباز و دیگر ملزمان کو نیب منی لانڈرنگ ریفرنس میں بری کر دیا۔ عدالت نے تمام ملزمان کی فریز جائیدادیں ڈی فریز کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔حالانکہ اسی کیس کی پیروی میںاور اس جیسے درجنوں کیسز کی پیروی میں گزشتہ دور حکومت میں کروڑوں نہیں اربوں روپے خرچ کیے گئے۔ یہ پیسے ان سیاستدانوں کے اپنے نہیں بلکہ عوام کے پیسے تھے۔ لیکن ان جیسے درجنوں کیسز میں شریف خاندان کی بریت کے بعد میرے خیال میں یوں لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس خاندان کی ایمانداری دیکھتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ انہیں مکہ معظمہ کا کنٹرول بھی دے دیا جائے۔ بہرکیف حکومت گزشتہ ڈیڑھ سال سے اسی کام میں لگے ہوئی ہے کہ وہ تحریک انصاف یا اُس کی قیادت کے اثر کو کیسے کم کرے۔ اور اسی چکر میں ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اور پھر شاید کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ جس طرح اعظم خان کو ”غائب“ کرکے مرضی کا بیان لیا گیا، اسی طرح میرے خیال میں یہ اب روایت قائم ہوگی کہ جس سے مرضی کا بیان اگلوانا ہو، سب سے پہلے اُس کے اعصاب کو توڑا جائے۔ پھر اُس کی فیملی کو ہٹ کیا جائے، پھر جب وہ سرنڈر کردے تو اُسے منظر عام لایا جائے۔ اور آنے والے دنوں میں آپ دیکھیے گا کہ موجودہ سیاستدانوں کی بھی فائلیں تیار ہیں، انہیں بھی اسی طرح کے کیسز میں پھنسایا جائے گا، ان کے خلاف بھی کئی ایک وعدہ معاف گواہ بنیں گے، یعنی اس وقت 80ارب روپے کے لیپ ٹاپ تقسیم کیے جا رہے ہیں، کیا ان میں کرپشن نہیں ہو رہی ہوگی؟ آپ ان روایتی سیاستدانوں کو چھوڑیں، اپنی نگران حکومت کو دیکھیں، نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کانفیڈنس لیول چیک کریں کہ ان کاکام صرف شفاف الیکشن کروانا ہے ، لیکن وہ دیدہ دلیری سے گرفتاریاں بھی کروا رہے ہیں، پراجیکٹس کا اعلان بھی کر رہے ہیں اور پولیس کو بھی مرضی کے مطابق استعمال کر رہے ہیں۔ بہرکیف سائفر والا معاملہ اس وقت ماضی کا حصہ بن چکا ہے، کسی عام سفارتی مراسلے یا خط کے برعکس سائفر کوڈڈ زبان میں لکھا جاتا ہے۔ سائفر کو کوڈ زبان میں لکھنا اور اِن کوڈز کو ڈی کوڈ کرنا کسی عام انسان نہیں بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے دفترخارجہ میں گریڈ 16 کے 100 سے زائد اہلکار موجود ہیں، جنھیں ’سائفر اسسٹنٹ‘ کہا جاتا ہے۔بقول دفتر خارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم ،دفتر خارجہ کی مختلف اصلاحات ہیں مگر بنیادی طور پر سائفر بھی ٹیلی گرام، خط یا فیکس ہی کی ایک شکل ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں حکومتیں ایسے سائفرز کو پبلک بھی کر دیتی ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ دفترخارجہ کوئی بھی سائفر، ٹیلی گرام یا مراسلہ پیرافریزنگ کے بعد ہی مختلف دفاتر کو بھیجتا ہے یعنی الفاظ اور پیراگراف کی ترتیب تبدیل کر دی جاتی ہے یعنی ماسٹر کاپی دفتر خارجہ میں ہی رہتی ہے اور باقی عہدیداروں کے پاس پیغام منٹس اور تجزیے کی صورت میں پہنچتے ہیں۔تسنیم اسلم کے مطابق جب یہ اصل دستاویز ہی نہیں ہے تو پھر ایسے میں یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا معاملہ بھی نہیں بنتا۔لیکن اس کے باوجود اگر بقول حکومت چیئرمین تحریک انصاف کو 14سال قید دینی ہے یا کم از کم سزا 2سال دینی ہے اور فیصلہ کرنے والی قوتیں اس حوالے سے فیصلہ بھی کر چکی ہیں تو بقول شاعر اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا