” کمائیاں“ کیسے ہوتی ہیں؟

کیا آپ کو علم ہے کہ پچھلے دنوں جب چینی کے ریٹ چند دن کے لیے ڈیڑھ سو روپے فی کلو سے اوپر چلے گئے تو شوگر مافیا نے ان چند دنوں میں کم از کم 60ارب روپے کما لیے تھے، اور پھر جب اس سال کے آغاز میں آٹا بحران لایا گیا تو اُس وقت بھی مافیا نے 100ارب روپے سے زائد کما لیے تھے، اس کے علاوہ جب پٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا تب بھی ایک رپورٹ کے مطابق 130ارب روپے کا ناجائز منافع کمایا گیا۔ یہ ہوتی ہیں کمائیاں، یہ ہوتا ہے سمارٹ ورک، یہ ہوتا ہے وژن اور یہ ہوتا ہے اثرورسوخ۔ یقین مانیں ہم تو گدھوں کی طرح ساری زندگی محنت کرتے رہے ، ہمیں بھی علم ہوتا کہ پیسہ کمانا اتنا آسان ہے تو ہم بھی ایک آدھ فلور مل، شوگر مل، دوائیاں بنانے کی فیکٹری یا پٹرول پمپ بنا لیتے یا پھر سیاستدان بن جاتے ۔تو ہم دنوں میں لکھ پتی سے کروڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی ہو جاتے۔ پھر اگر ایک آدھ انکوائری لگ بھی جاتی تو کوئی بات نہیں تھی، انکوائری ہینڈلنگ کے لیے لوئیر سٹاف رکھ لیتے ، پھر اللہ اللہ خیر صلہ! لیکن اس کے برعکس پیسہ اتنا کما لیتے کہ پوری دنیا میں جہاں چاہتے لگژری لائف گزار لیتے! پھر لوگ ہمیں مافیا کہتے تو ہمارا سینہ اور بھی چوڑا ہوجاتا اور فخر سے ”مافیا“ ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ! کیوں کہ یہاں جو جتنا بڑا مافیا ہوتا ہے اُس کی اتنی ہی عزت ہوتی ہے، ملک کے تمام ادارے اُس کے سامنے جھکے رہتے ہیں، تمام بڑی شخصیات گھٹنوں کے بل اُن کے سامنے بیٹھی رہتی ہیں اور پھر جب یہ لوگ پارلیمنٹ میں چلے جاتے ہیں یا سینیٹ کا حصہ بنتے ہیں تو پھر انہیں مزید” ترقی“ کرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا! پھر یہ لوگ مافیا سے ”ڈان“ بن جاتے ہیں اور یہ لوگ ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ جی ہاں یہ ہے پاکستان، جہاں سے اربوں روپے کمانا اتنا مشکل نہیں رہا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو ”سمارٹ ورک“ یا ”شارٹ کٹ“ آتا ہو۔ جیسے آپ زرعی اجناس کی مثال لے لیں کہنے کو تو یہ زرعی ملک ہے مگر یہ جب زرعی پراڈکٹ پیدا کرتا ہے تو اسے سستے داموں باہر بیچ دیا جاتا ہے اور جب یہاںضرورت پڑتی ہے تو دوگنا قیمت پر واپس منگوا کر سبسڈی دی جاتی ہے اور ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ آپ چینی ہی کی مثال لے لیں ملک میں مجموعی طور پر سالانہ 60 لاکھ ٹن چینی استعمال ہوتی ہے جسے 91 شوگر ملوں میں تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں چینی کی فی کس کھپت میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ 1999ءمیں پاکستان میں سالانہ فی کس چینی کی کھپت 23 کلو گرام تھی جو 2021ءمیں بڑھ کر 26.52 کلو گرام ہوگئی ہے۔یعنی بیکری آئیٹمز میں اضافے کے باعث چینی کی کھپت بھی بڑھ چکی ہے اور پھر جب چینی، گندم، پٹرول یا ادویات جیسی چیزیں جنہیں خریدنا عوام کی مجبوری ہوتی ہے۔ تو ان چیزوں کو حکومت اپنی تحویل میں لے کر عوام میں تقسیم کرتی ہے اور پھر جب حکومت مافیاﺅں کی آجاتی ہے تو پھرعوام نہ صرف بلیک میل ہوتے ہیں بلکہ بے بس بھی ہو جاتے ہیں۔ اور حکومت میں بیٹھا مافیا ایسی ایسی ”کمائیاں“ کرتا ہے کہ آپ کے ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ اور اور پھر جب یہی حکومتی ایوانوں میں بیٹھے افراد پکڑے جاتے ہیں تو کوئی نہ کوئی کمیشن بن جاتا ہے یا کمیٹی بنا دی جاتی ہے جس سے زیادہ طاقتور یہ مافیا ہوتا ہے اور پھران کمیشنوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔ جیسے فروری 2020ءمیں حکومت کی جانب سے شوگر اسکینڈل کے خلاف ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاکی سربراہی میں 7رکنی اعلیٰ سطح انکوائری کمیشن، جس میں نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کے اعلیٰ افسران شامل تھے، کی رپورٹ میںچینی کی قیمتوں اور سپلائی کے بارے میں بے ضابطگیوں کا انکشاف اور اسکینڈل میں ملوث شوگر ملوں کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی تھی، جسے سندھ ہائیکورٹ نے مئی 2020ءمیں میر پور خاص اور 19دیگر شوگر ملوں کی درخواست پر عملدرآمد اور کارروائی سے روک دیا تھا۔ اس دوران انکوائری کمیشن کے سربراہ واجد ضیا کو دھمکیاں دی گئیں کہ اگر انہوں نے شوگر ملوں کے خلاف انکوائری نہیں روکی تو ملک میں چینی کی کمی کا شدید بحران پیدا کردیا جائے گا جس سے چینی کی قیمت 110روپے فی کلو تک جاسکتی ہے، جو گزشتہ دنوں بڑھ کر 150روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ پھر سابق ڈی جی ایف آئی اے اور انکوائری کمیشن کے سربراہ یہ تمام معاملات وزیراعظم آفس کے علم میں لائے لیکن شوگر مافیا جس کے پیچھے بڑے بڑے سیاستدان ہیں، زیادہ طاقتور نکلا اور چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا جبکہ حکومتی مشینری ان ذخیرہ اندوزوں کے کارٹیل کے سامنے بے بس نظر آئی۔ وزیراعظم نے خود بتایا کہ ان ذخیرہ اندوز شوگر ملوں نے جولائی 2021 سے کورٹ سے حکمِ امتناعی لے رکھا ہے جس کی وجہ سے حکومت ان ذخیرہ اندوز شوگر ملوں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی۔کمپی ٹیشن کمیشن، پاکستان جو کارٹیل کے خلاف کارروائی کرتا ہے، نے ایسی شوگر ملوں پر 40 ارب روپے کے جرمانے عائد کئے تھے مگر اس کے خلاف بھی شوگر ملوں نے ہائیکورٹ سے حکمِ امتناعی حاصل کرلیا۔ وزیراعظم کے مطابق ایف بی آر نے اِن شوگر ملوں پر بغیر حساب(Offbooks) چینی فروخت کرنے پر500 ارب روپے کے ٹیکسز عائد کئے تھے لیکن شوگر مافیا کی طاقتور لابی نے بڑے وکلاءکے ذریعے ایف بی آر کے خلاف عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرلئے۔وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے عدالتوں سے حکم امتناعی ختم کرانے کو کہا ہے لیکن حکومت شوگر مافیا کےسامنے بے بس نظر آتی ہے۔ سندھ میں 2شوگر ملوں نے کرشنگ شروع کرکے اپنی ملز بند کردیں تاکہ سازش کے تحت ملک میں چینی کی قلت پیدا کی جاسکے جس کی وجہ سے چینی اور کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا طوفان آگیا۔اور بقول شاعر عام آدمی غربت کی چکی میں پس گیا۔ غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارف امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی پھر آپ ادویات کو دیکھ لیں، پٹرولیم مصنوعات کو دیکھ لیں ایسی ایسی کمائیاں ہو رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ یقین مانیں بار بار سوچتا ہوں کہ اس ملک کے مسائل کا حل کس بات میں ہے۔ کیا ہمارے نظام میں کوئی خرابی ہے یا قیادت میں کمی ہے۔ آخر اس کا علاج کیا ہے۔ نظام کیسے بدلا جا سکتا ہے یا قیادت کہاں سے لائی جا سکتی ہے یا پھر ہم بحیثیت قوم ہی ایسے ہیں کہ اسی مقدر کے سزاوار ہیں جوہم پر عذاب الٰہی کی شکل میں مسلط کر دیا گیا ہے۔ ہم کاہل ہیں، سست ہیں، بددیانت ہیں یا جھوٹے ہیں۔ کیا خرابی ہے ہم میں۔ آخر سوچنا تو ہے ہم کب تک ان اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ سچ پوچھئے تو ہماری کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ ہمارے سارے ادارے تباہ ہو چکے ہیں جو تباہ نہیں ہوئے وہ ان کاموں میں پڑ گئے ہیں جو ان کے کرنے کے لیے نہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ جنت کا راستہ اچھی نیتوں سے اٹا پڑا ہے۔ ہو سکتا ہے سب کچھ حب الوطنی کے جذبے سے ہو رہا ہو مگر یہ سب کچھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں بحث ہوتی تھی کہ ہمیں بار بار جمہوریت کی پٹڑی سے اتارا جاتا رہا جس کی وجہ سے ہم درست راہ پر نہیں چل سکے۔ہرکوئی اس کا الزام سیاست دانوں کو دیتا کہ وہ حکومت چلانے کے اہل نہ تھے۔ حالانکہ آپ اس بات پر غور کریں کہ اگر ہم اپنے ادارے ٹھیک کرنا چاہیں تو کر بھی سکتے ہیں مگر ہم یہ نہیں کر پا رہے! چلیں زراعت ہی کی بات کریں تو ان تین سالوں میں جتنی رقم ہم نے چین اور سعودی عرب سے قرض لی اس سے دگنی رقم ہم نے ایک ڈیڑھ سال میں چینی اور گندم خریدنے پر لگا دی۔ پاکستان کو اللہ نے 21 ملین ہیکٹر قابل کاشت زمین دے رکھی ہے اور توجہ کے ساتھ تھوڑی جدت کے ساتھ اس صلاحیت کو دگنا کیا جا سکتا ہے۔اسرائیل اپنی خوراک میں خود کفیل ہو چکا ہے جب کہ اس کے پاس صرف 2 فیصد زمیں قابل کاشت ہے۔ہماری 40 فیصد کے قریب قابل کاشت ہے لیکن اس کے باوجود ہم اربوں ڈالر کی گندم اور چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل کا 60 فیصد صحرا ہے اور 40 فیصد بارانی جب کہ پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام اور اول درجے کی زرخیز زمین ہے اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ اسرائیل ہر سال دس ارب ڈالر کی زرعی اشیاءدنیا کو فروخت کرتا ہے اور ہم دس ارب ڈالر کی چینی اور گندم وغیرہ خریدتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ اسرائیل کی آبادی میں10 گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی بارشیں نصف رہ گئی ہیں۔ اس کے باوجود وہ مختصر سے بارانی رقبے سے اتنی پیداوار حاصل کر لیتا ہے کہ قریب قریب خود کفیل ہو چکا ہے۔اسرائیل نے 12 فیصد کم پانی سے 26 فیصد زیادہ پیداوار حاصل کی ہے۔ اور ایک ہم ہیں کہ بارشیں بھی ہیں ، دریا بھی ہیں نہریں بھی ہیں اور زرخیزز مین کی بھی کمی نہیں۔کمی ہے تو بہترین پلاننگ کی ۔ بہترین حکمت عملی کی اور بہترین ذہنوں کی۔ یقین مانیں کہ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں جہاں تحقیق میں حکومت کی معاونت کرتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں ریسرچ یونیورسٹیاں صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ اور پھر پبلک سیکٹر کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ ہم نے زرعی یونیورسٹی فیصل آبادبنا رکھی ہے اور بارانی یونیورسٹی بھی لیکن کمالات یہ ہیں کہ بارانی یونیورسٹی میں قانون اور صحافت کے شعبے کھول دیے گئے اور فیصل آباد یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس اور جانے کون کون سے شعبے قائم کر دئیے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اتنے بھاری اخراجات چولہے میں ڈالنے کے بعد ملک اور قوم کو اس ادارے اور اس کی تحقیق سے کیا مل رہا ہے؟لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے اندر یہ بات رچ بس گئی ہے کہ ہم نے ”کمائیاں“ کیسے کرنی ہیں۔ اور یہ عادت یقین مانیں ہمارے اندر اس قدر سراعیت کر چکی ہے کہ ہمارے آفسز میں بھی یہی حال ہو چکا ہے کہ اگر کوئی چیز خریدکرنی ہوتو ہمارے سٹاف کا سب سے پہلے یہ ذہن بن جاتا ہے کہ ”کمائی“ کیسے کرنی ہے۔ معذرت کے ساتھ اگر حالات ایسے ہوں تو یقین مانیں پھر صرف انقلاب ہی کی ضرورت رہ جاتی ہے صرف انقلاب کی۔ #Pakistan #Sugar mafia #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan