شیخ رشید گرفتار،،، سلسلہ ابھی بہت آگے تک جائے گا!

خبر ہے کہ سانحہ نو مئی کے مفرور ملزمان کی گرفتاریوں کے لیے ایک بار پھر سے کریک ڈاﺅن کاآغازکردیاگیاہے، 336 مفرور ملزمان کی لسٹ تیار کر لی گئی ہے۔اور سی سی پی او لاہور نے سی آئی اے اور انویسٹی گیشن ونگ کو گرفتاریوں کا ٹاسک سونپ دیاہے۔بادی النظر میں اس کا آغاز بھی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور تحریک انصاف کے حلیف شیخ رشید کی گرفتاری سے ہو چکا ہے۔ حالانکہ اُن کے بارے میں پنجاب پولیس نے لاہور ہائی کورٹ میں لکھ کر دیا ہوا ہے کہ شیخ رشید ہمیں کسی کیس میں مطلوب نہیں ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسلام آباد پولیس نے لکھ کر دیا ہوا ہے کہ وہ ہمیں کسی کیس میں مطلوب نہیں ہیں ، جبکہ شیخ صاحب نے پہلے دن سے نو مئی کے واقعات کی مذمت کی ہے۔لیکن پھر بھی گرفتاری یقینا اسی سلسلے کی ایک کڑی لگ رہی ہے۔ ایسا کرنے سے یقینا عوام اور سیاسی کارکنوں میں نفرت کا تاثر بڑھے گا ، بلکہ اس سلسلے میں متعدد پی ٹی آئی کارکنوں اور لیڈران سے بات ہوئی تو اُنہوں نے مایوسی کے عالم میں کہا کہ ’یہ کہنا کہ حالات ’مشکل‘ ہیں، بہت چھوٹی بات ہے۔‘’آج کل یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اگلی رات جیل میں گزرے گی یا عقوبت خانے میں۔‘ بلکہ میں تو کہوں گا کہ یہ مایوسی نہیں بلکہ بارودی سرنگ بچھائی جا رہی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں! بہرحال یقینا کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے یہ ایک انتہاکی مشکل ترین صورتحال ہے۔ لیکن سیاسی جماعتیں ایسے ہی میچور ہوا کرتی ہیں، وہ ظلم و جبر کے بعد ہی کسی ملک کو سنبھالنے کے قابل ہوتی ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سونا آگ میں تپ کر ہی کندن بنتا ہے ،انسان کو جب کندن کرنا مقصود ہوتا ہے تو اسے دکھ اور مصائب کی بھٹی میں ڈالا جاتا ہے اور بلآخر بہترین نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف سب دیکھ رہے ہیں کہ سیاست میں نئی صف بندیاں کی جا رہی ہیں، فیلڈنگ از سر نو سیٹ کی جا رہی ہے، 16 ماہ تک باہم شیر و شکم رہنے والے حلیف الیکشن کا اشارہ ملتے ہی حریف بن گئے ہیں، حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں 92نیوز ہی کی اتوار کے دن کی ”سپر لیڈ“تھی کہ ”نواز شریف آتے ہی جیل جائیں گے: پیپلزپارٹی، بھٹو مرچکا: ن لیگ“۔ لیکن اس کے برعکس ابھی تک الیکشن کا پتا بھی نہیں ہے ،اور جن کے ہاتھوں میں انتخابات کی رسی ہے وہ اسے معیشت کی بحالی اور سیاسی استحکام تک دراز کرنا چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن چپ سادھے بیٹھا ہے، انتخابات شاید جنوری یا شاید فروری میں ہوجائیں یا پھر شاید نہ ہوں۔ جبکہ اس تمام کارخیر میں نگران حکومت ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بنی بیٹھی ہے، نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کو ملک کے حالات ٹھیک کرنے کی اتنی جلدی ہے کہ اُن کے پاس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی سمری 15روپے اضافے کی جائے تو موصوف 25،30روپے کا اضافہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لیکن جب ایکشن لینے پر آئیں تو ”عوامی سطح“ پر ایسا ایسا ”ایکشن“ لیتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے، مثلاََ گزشتہ دنوں انہوں نے وزارت خارجہ سے رپورٹ طلب کی ہے کہ وہ ”مس پاکستان“ کا مقابلہ انعقاد کرنے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کی حکومت سے رابطہ کریں اور پتہ لگائیں کہ یہ مقابلہ کس کی اجازت سے منعقد کیا گیا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ پانچ پاکستانی خواتین کو عالمی مقابلہ حسن میں شرکت کیلئے نامزد کیا گیا ، اُن میں سے ایریکا روبن نامی خاتون مِس پاکستان منتخب ہوئیں اور اب وہ ال سلویڈورمیں عالمی مقابلے میں شرکت کریں گی۔اِس پر مذہبی حلقوں کی جانب سے ہلکا پھلکا شور مچا اور نگران ایکشن لینے پر مجبور ہوئے۔ ویسے یہ بھی عجیب منطق ہے کہ جب ملک بھر میں انڈر وئیر پہن کر مرد تن سازی کا مقابلہ کرتے ہیں تو اُس وقت ہمارے مفتیان نے کبھی ایکشن نہیں لیا۔ اُس وقت کبھی یہ خیال نہیں کیا گیا کہ اسلام میں ستر پوشی کا جو معیار مردوں کیلئے مقرر ہے، اِن مقابلوں میں اُس کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔لیکن یہاں ڈبل سٹینڈرڈ اور ڈبل مائنڈڈ لوگ ہیں اس لیے سب سے بہتر ”خاموشی“ ہے! خیر بات ہو رہی تھی نگران حکومت کی اعلیٰ ”کارکردگی“ اور گرفتاریوں کی توبے شک نگران حکمران ٹیکنوکریٹس کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں مگر اُنہیں اس ملک کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ اُنہیں آشیرباد حاصل کرنے کی اتنی جلدی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے یہ بھول جائیں کہ جنہیں وہ گرفتار کرنے میں پیش پیش ہیں وہ اسی ملک کے باسی ہیں اور کل کو انہی لوگوں نے اقتدار میں آنا ہے۔ اُنہیں اعتدال سے کام لینا چاہیے، یہ تاثر ہر گزنہیں دینا چاہیے کہ وہ کسی کے ایما پر کام کر رہے ہیں۔ اُنہیں اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنے کے لیے دونوں طرف کارروائی کرنی چاہیے، اور پھر مزہ تو تب ہے کہ جب بندیال صاحب کے آخری فیصلے (نیب ترامیم کالعدم) کی رو سے اُن کرپشن زدہ سیاستدانوں پر ہاتھ ڈالا جائے جن کے مقدمات اب نیب کے روبرو ہوں گے۔ بلکہ نواز شریف صاحب وطن آنے کا اعلان کر چکے ہیں، دیکھتے ہیں نگران حکومت اُن کے لیے اپنے آپ کو کس حد تک متحرک کرتی ہے۔ اُن کے لیے تو ایک ن لیگی نے ترنگ میں شعر الاپا۔ ”وہ آرہے ہیں وہ آئیں گے ان کو آنا ہے، خوشی کے دیپ جلاو¿ بڑا اندھیرا ہے“ ویسے اندھیرا تو اُسی دن شروع ہوگیا تھا جب کاروباری حلقے سیاست میں آئے تھے، اُسی دن سے ہی سیاست کی اُلٹی گنتی شروع ہوگئی تھی۔ اور آج حالت یہ ہیں کہ سیاسی عدم استحکام سے پوری قوم مایوسی اور اضطراب کا شکار ہے۔لیکن چونکہ وہ تین بار سابق وزیر اعظم رہے ہیں اس لیے اُنہیں یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ اس وقت اُن کے بارے میں زمینی حقائق مختلف نوعیت کے ہیں۔ اس وقت عوام کے دلوں میں البتہ مسلم لیگ (نون) کے خلاف شدید غصہ ابل رہا ہے اور ان کی کماحقہ تعداد ”اس دن کا انتظار “کررہی ہے جب وہ اپنے حلقے میں مسلم لیگ (نون) کے نامزد کرد ہ امیدوار کے خلاف” ووٹ دے کر اس جماعت کو سبق سکھائیں گے“۔مجھے کامل اعتماد ہے کہ نواز شریف کو ایسے جذبات سے غافل رکھا گیا ہے۔وہ اس ضمن میں باخبر ہوتے تو اگلے ماہ وطن لوٹ کر اپنی جماعت کی انتخابی مہم چلانے کو آمادہ نہ ہوتے۔ان کا ووٹ بینک 16مہینوں کی حکومت کی وجہ سے تباہ کرنے والے اب اپنی ساکھ اور سیاست بچانے کیلئے انہیں انتخابی مہم میں جھونک رہے ہیں۔ بہرکیف اس وقت مقتدرہ قوتیں گرفتاریوں اور مار ڈھاڑ کو چھوڑیں، ملک کا سوچیں۔ ریاست ماں ہوتی ہے، اور ماں ہمیشہ اپنے بچوں سے نرمی سے پیش آتی ہے، اُن کی خطاﺅں کو درگزر کرتی ہے۔ ”ماں“ کبھی اپنے بچوں کو پاﺅں تلے نہیں روندتی۔ اس لیے ریاست کو یہ سوچنا چاہیے کہ کتنے گھروں کے چولہے مزید ٹھنڈے پڑیں گے، کتنی بھوک بڑھے گی اور کب تک آنتوں کی آگ بھڑکتی رہے گی، کتنی ہڈیاں کلپیں گی، نہ آئی ایم ایف کو پرواہ نہ مقتدرہ کو خبر، نہ ہی اشرافیہ کو فکراور نہ ہی ”ماں“ کو پرواہ۔قصور کس کا ہے؟ گریبان کس کا پکڑیں اور جواب کس سے مانگیں۔ جس در جواب چاہیے وہاں بھی سوال ہیں اور جہاں سوال خود سوالی ہوں وہاں جواب کیا ملے گا۔سوال یہ بھی ہے کہ معیشت کی بہتری کے بغیر ریاست آگے نہیں بڑھ سکتی اور ریاست سیاست کے بغیر کچھ کر نہیں سکتی جبکہ سیاست میں عدم استحکام ہے اور استحکام کے لیے مائنس، پلس کا فارمولا ہے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز ممکن بنائیںاور جلد یا بدیر الیکشن کے لیے بھرپور تیاری پکڑیں۔ایسا کرنے سے اداروں کو یہ پیغام ضرور جائے گا کہ سیاستدانوں نے راہ پکڑ لی ہے۔ اور وہ اپنے فیصلے خو دکرنا جانتے ہیں۔ میرے خیال میں قلیل المدتی اور طویل المدت اصلاحات کے لیے قومی رہنماو¿ں اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک جگہ بیٹھنا گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ اس کے لیے سینئر ترین سیاستدانوں کو منتخب کیا جائے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو بھی کسی کا مہرہ بننے کے بجائے سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔ اگر آج وہ خود استعمال ہو کر دوسروں کے لیے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں تو کل کلاں بلکہ بہت جلد اُن کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا جائے گا۔ اور پھر ان سیاستدانوں کے لیے نہ تو واپسی کا راستہ ہی رہے گا اور نہ ہی آگے جانے کا۔ جبکہ رہی بات شیخ رشید کی تو انہوں نے پہلی بار جیل نہیں دیکھی۔ وہ اور اُن کے ساتھ جب تک تحریک انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ، یقینا گرفتاریوں کا سلسلہ بہت آگے تک جائے گا۔ لہٰذاسیاستدان خود فیصلہ کرلیں کہ مہرہ بننا ہے یا ان گرفتاریوں کے آگے بند باندھنا ہے!