بھٹو کی سالگرہ پر پیپلزپارٹی کا تحفہ !

کل ذوالفقار علی بھٹو کی 96ویں سالگرہ تھی، اور سالگرہ کے دن ہی پیپلزپارٹی سمیت سینیٹ میں موجود دیگر جماعتوں نے بل پیش کیا کہ الیکشن کے لیے حالات ساز گار نہیں ہیں اس لیے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کو ملتوی کر دیا جائے۔ اور پھر پوری قوم نے دیکھا کہ یہ قرارداد ”کثرت رائے“ سے منظور بھی کر لی گئی۔کثرت رائے کا مطلب 14اراکین میں سے 12نے اس کے حق میں اور 2نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ حالانکہ سینیٹ اس وقت 100اراکین پر مشتمل ہے، جن میں سب سے زیادہ تحریک انصاف کے اراکین 27 ، پیپلزپارٹی کے 22، پی ایم ایل این کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 12، جے یو آئی ایف کے 5، ایم کیو ایم کے 3 ، اے این پی اور نیشنل پارٹی کے دو دو جبکہ پی ایم ایل کیو، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، بی این پی ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور جماعت اسلامی کا ایک ایک سینیٹر اور 3آزاد سینیٹرز ہیں۔ (یاد رہے یہ وہی آزاد سینیٹرز ہیں جنہوں نے 2018ءکے سینیٹ کے الیکشن میں ن لیگ کی سیٹ پر الیکشن لڑا تھا مگر سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد الیکشن کمیشن نے انہیں آزاد اُمیدوار کے طور پر ڈکلیئر کیا تھا)۔ خیر سوال یہ ہے کہ اب ان 100اراکین کی سینیٹ میں ایک اہم ترین قرارداد صرف 14اراکین (سینیٹر دلاور، بہرہ مند تنگی، افنان اللہ، منظور کاکڑ، گردیپ سنگھ، عبدالقادر، ثمینہ ممتاز، ہلال الرحمان، نصیب اللہ، کامل علی آغا، کہدہ بابر، ثنا جمالی، پرنس احمد عمرزئی، احمد عمر وغیرہ )کی موجودگی میں کیسے منظور ہوگئی؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کس طریقے سے چیئرمین نے اسے منظور کیا؟ مجھے چیئرمین کا کردار بھی عجیب بلکہ مشکوک لگ رہا ہے، مشکوک اس لیے کہ عینی شاہدین کے مطابق قرار داد منظور ہونے سے کچھ دیر پہلے تک قرارداد منظور کرنے والے تمام سینیٹر چیئرمین سینیٹ کے آفس میں موجود تھے اور کسی کو بھی اس حوالے سے نہیں پتا تھا کہ اس قسم کی کوئی قرارداد آنے والی ہے۔تمام سینیٹرز کہہ رے تھے کہ سینیٹ الیکشن ملتوی نہیں ہونا چاہیے لیکن سینیٹر افنان اللہ کہہ رہے تھے مجھے لگ رہا ہے کہ کوئی سازش ہونے والی ہے۔پھر اچانک چیئرمین سینیٹ اوپر چلے گئے اور آناً فاناً قرار داد پیش ہوئی اور منظور بھی ہوگئی۔ کیا اس رویے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف قرارداد نہیں لانی چاہیے؟ یہ ایک سوچا سمجھا پلان تھا، یہ ایک سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے۔اور پھر جن اراکین نے یہ قرارداد پیش کی ان کا بیک گرا¶نڈ دیکھ لیں، جہاں تک بلوچستان کی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا تعلق رہا ہے تو ہم سب جانتے ہیں کہ باپ پارٹی کس کے اشاروں پر چلتی ہے۔یہ وہی جماعت ہے جن کے کرتا دھرتا آج ہمارے نگران وزیر اعظم بنے ہوئے ہیں، کیا ان کی کوئی حیثیت ہے؟ لیکن اس کا پروپیگنڈا ویلیو دیکھیں کہ آج ساری ہیڈلائنز اسی کی بن رہی ہیں، اس کا نفسیات پر اثر پڑتا ہے۔اس کا تاثر یہ جائے گا کہ الیکشن ہی متنازعہ بنا دیے جائیں تاکہ نا رہے گا بانس اور نا بجے گی بانسری۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ قرارداد جو سینیٹر دلاور خان نے پیش کی،اُس قرارداد میں موجود مسائل جن کی وجہ سے الیکشن ملتوی کا کہا گیا ہے، وہ چیک کریں کہ ملک کے بعض علاقوں میں شدید سردی کا موسم ہے، اس وجہ سے ان علاقوں کی الیکشن کے عمل میں شرکت مشکل ہے۔الیکشن کے انعقاد کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا جائے، چھوٹے صوبوں میں بالخصوص الیکشن مہم کو چلانے کیلئے مساوی حق دیا جائے اور الیکشن کمیشن شیڈول معطل کر کے سازگار ماحول کے بعد شیڈول جاری کرے۔مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں صورتحال خراب ہے، جے یو آئی ف کے ارکان اور محسن داوڑ پر بھی حملہ ہوا، ایمل ولی خان اور دیگر سیاسی رہنما¶ں کو بھی تھریٹ ملے ہیں، الیکشن ریلی کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تھریٹ الرٹ ہیں، کووڈ کا معاملہ بھی اس وقت ہے، 8 فروری کے الیکشن شیڈول کو ملتوی کیا جائے، الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرانے پر عمل کرے۔حالانکہ کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد ہونے والے الیکشن نارمل حالات میں ہوئے ہیں؟ اور پھر کیا 2013ءمیں ہونے والے الیکشن کے دوران حالات سازگار تھے؟ کیا اُس وقت ہر دوسرے روز دھماکے ہو رہے تھے۔ اب تو پھر بھی حالات 90فیصد تک کنٹرول میں ہیں توایسا اقدام کیوں؟ کیا یہ کسی ایک جماعت کو دیوار سے لگانے کے لیے کیا جا رہا ہے؟ بہرحال سینیٹ کے اس اقدام سے پتہ چلتا ہے کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، اور پھر جس طرح نگران حکومتیں کام کر رہی ہیں، اُس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ جانے کے لیے نہیں آئیں، بلکہ یہ بات تو فی الوقت سچ لگ رہی ہے، کہ نگر ان حکومت کے کسی عہدیدار سے کسی نے پوچھے کہ آپ کیوں سیاست میں آگئے ہیں، اور وہ بھی نگران حکومت میں جو تین مہینے کی مہمان ہوتی ہے، تو اُن صاحب نے برملا کہا تھا کہ بھائی یہ نگران حکومت تین ماہ والی نہیں ہے۔ لہٰذاآپ دیکھتے جائیں۔ بلکہ میں تو 21دسمبر کے کالم میں یہ بات لکھ دی تھی، کہ الیکشن نہ کرنے کے حوالے سے کسی نہ کسی طرح ٹال مٹول کی جاسکتی ہے۔ مثلاََ راقم نے لکھا تھا کہ ”پاکستان کے ایک بڑے عہدیدار بھی امریکا میں شاید اسی قسم کی یعنی الیکشن کے التوا کی بات کر کے آئے ہیں،،، اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کی بدقسمتی ہوگی!اس لیے میں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ بادی النظر میں اُس وقت بھی بھٹو کو اُن کا تکبر لے بیٹھا تھا، اور اب بھی خدانخواستہ ایسا ہو سکتا ہے۔ اور پھر تکبر ایسی چیز ہے،،، جو کبھی آپ کو آگے نہیں چلنے دیتی ۔آپ دیکھ لیں،،، کہ یہ تکبر ہی ہے کہ جو ایک جماعت کی سرکوبی کر رہا ہے، حالانکہ آپ خود دیکھ لیں اس وقت لیول پلیئنگ فیلڈ کیا ہے؟ اور اب جب پورے ملک کی وکلاءبارز نے الیکشن کے لیے تمام جماعتوں کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنے کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے تو مجھے علم ہے کہ یہ تحاریک بھی کامیاب نہیں ہونے دی جائیں گے۔ کیوں کہ انہی کے اندر سے ہی دھڑے بنا دیے جائیں گے۔ لہٰذاالیکشن کے بعد دھاندلی کی تحریک ایسے انداز میں شروع ہوں گی، کہ جنہیں روکنا مشکل ہوجائے گا۔کیوں کہ ابھی تک کے جو حالات اور سروے ہیں ، وہ یہی بتا رہے ہیں کہ اس وقت نواز شریف کی اپنی سیٹ پر الیکشن لڑنا مشکل ہو چکا ہے۔ “ بہرحال فی الوقت تو ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ سب نورا کشتی لڑ رہے ہیں، کہ ایک جماعت مخالفت اور دوسری اُس کی حمایت کر رہی ہے، جبکہ پیپلزپارٹی جیسی جماعت جو اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوری چیمپئن سمجھ رہی ہے۔ اور تحریک انصاف تو فی الوقت ویسے ہی مخالفت کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیوں کہ اُسے تو ویسے ہی دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ عمل انتہائی افسوس ناک، شرمناک اور قابل مذمت ہے، جس طرح آج کی قرارداد کا دفاع کیا جارہا ہے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ اگر ملک کی منتخب پارلیمان انتخابات کو ملتوی کرنے کی بات کرے تو یہ حیران کن ہے۔اور ہم بھی اسی حیرانگی میں ہیں کہ الیکشن کو متنازع بنا کر ملک میں ایک نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے، کیوں کہ انتخابات کی تاریخ میں ایسی خاموشی کبھی نہیں دیکھی گئی جیسی آج دیکھی جا رہی ہے، اور خاموشی ہمیشہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہو اکرتی ہے۔ لہٰذاہمیں اس خاموشی کو توڑنا ہوگا، اور فیصلہ کرنے والی قوتوں کو مائل کرنا ہوگا کہ جمہوریت ہزار درجے آمریت سے بہتر ہوتی ہے، ملک نے اگر ترقی کی ہے تو یقینا جمہوری دور میں ہی کی ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود اگر وہ سیمی مارشل لاءلگانا چاہتے ہیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو کو بھی بہت مان تھا اپنی کرسی کا، لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے؟ کہ اُن کا انجام کیا ہوا ہے؟ خیر آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ ملکی صورتحال میں کچھ استحکام پیدا ہوچکا ہے‘ معیشت بھی سنبھلنے لگی ہے‘ باہر سے انویسٹمنٹ نہ بھی آ رہی ہو لیکن اُس کا چرچا بہت ہو رہا ہے۔ ایسے میں فنکار لوگوں کی کمی نہ ہوگی جو حکمرانوں کے کانوں میں یہ کھسرپھسر کریں کہ حضور اب تو حالات ٹھیک ہونے جا رہے ہیں اورآپ کو الیکشنوں کی پڑی ہوئی ہے۔انتخابات ہوئے توپھر سے ملک میں افراتفری پھیلے گی اور جن شرپسند عناصر سے سختی سے نمٹا گیا ہے اُن کو پھر فری ہینڈ مل جائے گا۔لہٰذا انتخابات کا تصورذہن سے نکالیں‘ حالات صحیح طور پر سنبھلیں گے تو انتخابات بھی ہو جائیں گے۔ یعنی سوچ وہی پنپ رہی ہے جو ضیا الحق کے زمانے میں کار فرما تھی۔لہٰذاحکمران اور فیصلہ کرنے والی قوتیں ہوش کے ناخن لیں اور تکبر کے غلاف سے نکلیں اور ملک اُنہی کے حوالے سے کردیں جنہیں عوام اقتدار میں لانا چاہتی ہے۔ ورنہ ملک مزید پیچھے چلا جائے گا۔