ہم قومی کھیل ہاکی سمیت ساری ”کھیلوں“کو لے ڈوبے !

کہتے ہیں جب ملک زوال پذیر ہوتے ہیں تو وہ کھیلوں میں بھی بہت پیچھے چلے جاتے ہیں، جیسے ایک دور تھا جب روس اور امریکہ اولمپک کھیلوں میں آگے ہوتے تھے اور یہ دونوں ملک بڑی عالمی طاقتیں، یعنی سپر پاورز تھیں۔ روس زوال پذیر ہوا تو کھیلوں میں بھی پیچھے چلا گیا۔ جس کے بعد اب اولمپک میں امریکہ ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی ، چین ہوتے ہیں جبکہ روس کا نمبر ان کے بعد میں آتا ہے، پاکستان بھی 1994تک دنیا میں ہاکی، کرکٹ، اسکوائش اور اسنوکر میں دنیا کے اُفق پر راج کر رہا تھا، اور اولمپکس میں بھی ہاکی، باکسنگ، کراٹے اور دیگر کھیلوں میں تمغے لے ہی آتا تھا مگر اب تو کانسی کے تمغے کے لیے بھی جان جوکھم میں ڈال دیں تو نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے، جبکہ اولمپکس میں نمبر ون ملک امریکا 2800سے زائد تمغے لے اُڑتا ہے۔پاکستان میں چھوٹے بڑے 48 اقسام کے کھیل کھیلے جاتے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر رجسٹرڈ بھی ہیں مگر کرکٹ کے علاوہ ہم کسی بھی کھیل میں ٹاپ 10 پوزیشن میں شامل نہیں ہیں۔ قومی کھیل ہاکی میں ہم 17ویں، اسکواش میں 20 ممالک کی فہرست میں 19ویں اور فٹ بال میں ہم 210ممالک میں 200ویں نمبر پرہیں۔یعنی پاکستان میں تو ایسے لگ رہا ہے کہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے کھیلوں میں ریورس گیئر لگا ہوا ہے، اور اس وقت میری نظر سے جو سب سے بری خبر گزری اور جس خبر نے مجھے کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ تھی کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے فنڈز نہ ہونے کے باعث قومی کھیل ہاکی کو ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔مزید برا یہ کہ جامعات نے ہاکی کی بنیاد پر داخلے اور سکالرشپ بھی بند کر دیئے ہیں۔یہ تجویز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں سامنے آئی تھی جس میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری آصف باجوہ نے پیسے نہ ہونے پر قومی کھیل ہاکی کو ختم کرنے کی تجویز دی تھی۔اب اس سے برا کھیلوں میں اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارا قومی کھیل ہی ختم کر دیا جائے، یعنی اگر سرکار ہی اس کی سرپرستی نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟ ہم آنے والی نسلوں کو کیا بتائیں گے کہ ”ہمارا قومی کھیل ہاکی ہوا کرتا تھا“یا شاید ہم یہ بتایا کریں گے کہ ہاکی کو لے کر ہم کبھی دنیا پر راج کیا کرتے تھے، پھر ”دادا جی “ اس کھیل کو جنوں اور پریوں کے ساتھ جوڑ دیا کریں گے، کہ کبھی اس کھیل میں پاکستان کو کیا مقام نصیب تھا، پھر اچانک جن اور پریاں زمین پر اُتریں اور اس کھیل کو ساتھ لے اُڑیں، یا اس کھیل کو لے کر افسانوی اور من گھڑت کہانیاں لکھی جائیں گی کہ یہ کھیل ہمارا تھا،ہم نے اس کھیل کے قوانین بنائے اور ایک سازش اور دھوکے بازی کے ذریعے ہم سے انگریزوں نے یہ کھیل چھین لیا جس سے ہمارے ”آباﺅ اجداد“کی ساری قربانیاں رائیگاں گئیں! ویسے یہ واقعی افسانہ ہی لگتا ہے کہ کبھی ہم اس قومی کھیل کے بادشاہ ہوا کرتے تھے، ہاکی میں پاکستان کی شرکت 16 اولمپکس میں رہی ہے جن میں سے 10 اولپمکس میں قومی ٹیم ابتدائی تین پوزیشن پر براجمان رہی ہے۔ یعنی 3 (1960,1968,1984)میں سونے، 3 میں چاندی اور چار اولمپکس میں کانسی کے ایوارڈ جیتے۔ لیکن المیہ دیکھیے کہ جس ٹیم نے ہمیشہ ہی حریفوں کو پریشان کیے رکھا، وہی ٹیم گزشتہ اولمپکس میں کوالیفائی ہی نہ کرسکی۔پھر پاکستان دنیا کی واحد ٹیم ہے جس نے ہاکی ورلڈ کپ 4مرتبہ(1971,1978, 1982, 1994) جیتا۔ پھر اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ جس کی3دفعہ چیمپئن اور 6بار رنر اپ ری اُس کے گزشتہ ٹورنامنٹ میں پاکستان کو شامل ہی نہیں کیا گیا، اس کے علاوہ ماضی میں قومی ٹیم نے 3 بار چیمپئنز ٹرافی، 8 بار ایشیئن گیمز، 3 بار ایشیاءکپ، 2 مرتبہ ایشیئن ہاکی چمپئین ٹرافی کے ٹائٹل میں گولڈ میڈلز اور بڑے مقابلوں کی تاریخ میں تقریباً 70 میڈلز اپنے نام کئے۔ لیکن اب ہمیں گزشتہ ایک عرصہ سے کسی بڑے ٹورنامنٹ میں کھیلنے کے لیے کوالیفائنگ راﺅنڈ کھیلنا پڑتا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن فی الوقت تو قصور ہاکی فیڈریشن کا ہے جہاں عہدوں کے حصول کی خاطر لڑی جانے والی لڑائیوں میں شدت آتی گئی اورکھیل کے تانے بانے بکھرتے چلے گئے۔اِس لڑائی میں کسی کو یہ سوچنے کی فرصت ہی نہ رہی کہ اِس کھیل کی بہتری کی بابت بھی سوچنا چاہیے۔ سب غفلت کی نیند سوتے رہے اور ہمارا قومی کھیل برباد ہوگیا۔ ہم نے نہ تو اس کھیل کو وقت کے ساتھ ساتھ پروموٹ کیا اور نہ ہی جدید ہاکی کے معیار کو سمجھنے کی کوشش کی۔ حتیٰ کہ کئی گراﺅنڈز ہی ختم کر دیے گئے، آسٹرو ٹرف ہی نہیں دی گئیں، ”گراسی“ گراﺅنڈ سے آسٹرو ٹرف کی طرف جانے کے لیے کھلاڑیوں کو تیار ہی نہیں کیا گیا ، پہلی بات تو یہ ہے کہ آسٹرو ٹرف پر جانے کا فیصلہ ہی ایشین ممالک میں جن میں پاکستان انڈیا، ملائشیا وغیرہ کا غلط تھا، لیکن اگر چلے گئے ہیں تو اپنے آپ کو اُس میں ڈھالنا بھی چاہیے تھا۔ اور ویسے بھی 1994کا ورلڈ کپ بھی ہم نے آسٹرو ٹرف پر جیتا تھا، لیکن افسوس ہم اس کامیابی کو آگے لے کر نہ چل سکے اور بھٹک گئے۔ پھر ہم نے سکولوں سے ہاکی کو بالکل ختم کردیا جبکہ کالج اور جامعات سے بھی اسے جلد یا بدیر ختم کر دیا جائے گا۔ سکول کی گراﺅنڈز تک تو ختم کردیا گیا، لاہور کے سنٹرل ماڈل سکول میں گراﺅنڈز کو ختم کرکے وہاں مزید بلڈنگز بنا دیں، حالانکہ آبادی کے حساب سے نئے سکول و کالج بننے چاہیے ، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ گراﺅنڈز ختم کردیے جائیں اور 3ہزار کی تعداد والے سکول کو ہی 6ہزار طلباءوالا سکول بنانے کے لیے وہاں کے گراﺅنڈز پر ہی کلہاڑے چلا دیے جائیں۔ حد تو یہ ہے کہ سابقہ دور میں 64گراﺅنڈ زختم کی گئیں، اور موجودہ حکومت اُسے بحال کروانا تو دور کی بات اس مسئلے کو بھی کسی فورم پر نہیں اُٹھا رہی ۔ خیر جو حال ہاکی کا ہوا، یہی کچھ اب کرکٹ کے ساتھ ہورہا ہے۔ہمارے موجودہ وزیراعظم، جن کی قیادت میں کرکٹ ٹیم نے 1992ءکا واحد ورلڈ کپ جیتا تھا اور جن کے بدولت دنیائے کرکٹ میں پاکستان کا نام روشن ہوا تھا،انہوں نے آتے ہی اگست 2018ءمیں احسان مانی کو بطور 34ویں چیئرمین پی سی بی بنا دیا۔ کفایت شعاری کا نعرہ لگا کر آنے والے چیئرمین نے مہنگے افسران بھرتی کیے۔ وسیم خان کو ایم ڈی اور پھر چیف ایگزیکٹو بنا دیا گیا۔ کوالٹی کرکٹ کا آئیڈیا متعارف کرایا گیا۔ ڈومیسٹک سٹرکچر تبدیل کیا گیا جس سے متعدد کرکٹرز بے روزگار ہو گئے۔ پاکستان کرکٹ کو بڑے بڑے لیجنڈز اور سپر سٹارز دینے والے ڈیپارٹمنٹس اور ادارے پی آئی اے، نیشنل بینک، سوئی سدرن گیس، سوئی ناردرن گیس، پورٹ قاسم، کے آر ایل اور پاکستان ریلویز سمیت بارہ ڈیپارٹمنٹس کی ٹیمیں ختم ہوئیں۔ تقریباً دو ہزار کرکٹرز بے روزگار ہو گئے۔ الغرض باصلاحیت کھلاڑی فاقے کاٹنے، رکشے چلانے، ٹھیلے لگانے، مزدوریاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔اور گراﺅنڈ کارکردگی کے بارے میں بات کریں تو اس ہم نے اب ساتویں، آٹھویں اور نویں پوزیشنز پر دھکیل دیے گئے ہیں، اور حالیہ نیوزی لینڈ سے دلبرداشتہ شکست الگ صدمہ ہے۔ اور تو اور کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ بھی کسی پرکشش عہدے سے کم نہیں ہے تبھی تو ہر بندہ کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننا چاہتا ہے، سابق جج اورسابق جرنیل بھی اس سیٹ کا مزہ لے چکے ہیں، کیوں کہ یہ ایک ایسی پرکشش سیٹ ہے جس سونے کی چڑیا کانام بھی دیا جا سکتا ہے۔ باکسنگ کا حال دیکھ لیں ، ماضی میں ایشین گیمز کے باکسنگ مقابلوں میں پاکستان نے 6 طلائی 20 چاندی اور 35 کانسی کے تمغے جیتے۔ ایشین باکسنگ چیمپئن شپ میں پاکستان کے حاصل کردہ طلائی تمغوں کی تعداد 17 ہے چاندی کے 9اور کانسی کے 16 تمغے اس کے علاوہ ہیں۔کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان نے باکسنگ میں ایک طلائی چاندی کے 3 اور کانسی کے4 تمغے حاصل کیے ہیں۔اولمپکس میں پاکستان نے ہاکی کے علاوہ جن دو کھیلوں میں تمغے جیتے ہیں ان میں ایک پہلوانی اور دوسرا باکسنگ ہے۔ 1988 کے سول اولمپکس میں باکسر حسین شاہ نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ساو¿تھ ایشین گیمز میں پاکستانی باکسرز کی کارکردگی بہت شاندار رہی ہے۔ ان کھیلوں میں پاکستان نے 62 طلائی 28 چاندی اور 19 کانسی کے تمغے جیتے ہیں۔ حسین شاہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے لگاتار پانچ ساو¿تھ ایشین گیمز میں طلائی تمغے جیتے ہیں۔لیکن پھر یہی باکسرز جنھوں نے ملک کا نام روشن کیا معاشی پریشانیوں میں ایسے پھنسے کہ ان میں سے کچھ گمنامی میں گم ہوگئے اور کچھ بہتر مستقبل کی خاطر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔حسین شاہ برملا کہتے ہیں کہ”اگر آج میں پاکستان میں ہوتا تو گدھا گاڑی چلارہا ہوتا“۔ آپ سکواش کو دیکھ لیں 50 سال تک سکواش کی دنیا پر راج کرنے والے ملک پاکستان کی قسمت نہ بدلی۔ لیجنڈری جان شیر خان ، محب اللہ سر، اعظم خان، جہانگیر خان، ہاشم خان، روشن خان ، قمر زمان جیسے سپر سٹارز کے نقش قدم پر کوئی نہیں چل سکا۔ فٹ بال کو تو چھوڑیں اُس میں تو ہم کسی کھاتے میں بھی نہیں آتے، لیکن ہم فیفا سے ملنے والے اربوں روپے ضرور ڈکار جاتے ہیں تبھی تو فٹ بال فیڈریشن پر تگڑی سفارشوں سے افسران بھرتی کیے جاتے ہیں، پھر روایتی اکھاڑے ختم کر دیے گئے، کبڈی جیسی سرگرمیوں کو سرکاری سرپرستی ناملنے کے وجہ سے ختم ہو رہی ہے۔ الغرض ہم نے قومی کھیل ہاکی سمیت ساری ”کھیلوں“کو سیاست کی نذر کردیا، اس میں وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن یہ بات ضرور دیکھی جاتی ہے کہ حکومت وقت اس جانب کتنی توجہ دے رہی ہے، ایک فیصد سے بھی کم بجٹ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس قدر صحت مندانہ سرگرمیوں میں مشغول ہے۔ لہٰذاحکومت کو یا تو اپنی ترجیحات بدلناہوں گی یا قومی کھیل کو بدل کر کسی اور کھیل کو قومی کھیل بنانا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں مکمل جانفشانی کے ساتھ اُس کھیل پر توجہ دیں ، کیوں کہ ہم ہاکی میں بہت زیادہ پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں جہاں سے اُٹھنے میں بھی ہمیں سالوں لگ سکتے ہیں۔