تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب ہو گئی تو !

حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا غلغلہ ہے۔اس سلسلے میں حکومت کے اتحادی خاصی اہمیت اختیار کرچکے ہیںان میں سب سے پہلے چودھری پرویز الٰہی جو اپوزیشن اور حکومت دونوں کے لیے ”مرکز“ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، ایم کیو ایم بھی اپنا ریٹ لگوا رہی ہے، جبکہ دوسری طرف جہانگیر ترین نے علیم خان کے ساتھ ہاتھ ملا لیا اور پنجاب سے کم و بیش 70اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دے دیا ہے، جو حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ اس پر وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ تین ہفتوں میں تمام معاملات سیٹ کر لیے جائیں گے۔ حالانکہ اُنہیں کوئی بتائے کہ سیاست میں اتنا طویل اور صبر آزما انتظار نہیں کروایا کرتے۔ مشکل حالات کو ختم کرنے کے لیے جو کرنا ہے گھنٹوں نہیں تو دنوں میں کروا لیا جاتا ہے۔ ہفتوں مہینوں کی بات کرو تو سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ خیر جو بھی ہے یہ بات تو طے ہو چکی ہے کہ اتنی بڑی ہانڈی چڑھی ہے، کچھ نہ کچھ تو نکلے گا! اس تحریک کا خاتمہ کہاں ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ہم بھی پاکستان بھر کے عوام کی طرح چلیں مفروضے قائم کر لیتے ہیں کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو پھر کیا ہوگا؟ چلیں مان لیا کہ مہنگائی، معیشت اور دیگر عوامی مسائل کو لے کر اس وقت حالات عمران خان کے حق میں نہیں جا رہے،چلیں یہ بھی مان لیا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی اگلے آرمی چیف کو لے کر کہیں نہ کہیں کھچڑی پک رہی ہوگی، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت دنیا کا جھکاﺅ امریکا کی طرف جبکہ پاکستان کا جھکاﺅ اینٹی امریکا ممالک کی طرف ہے اور اس کا ثبوت خود خان صاحب نے حالیہ دورہ روس کر کے دے دیا ہے جس سے مغرب یہ سوچتا ہے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ نہیں بلکہ چین، روس ، ایرانی بلاک میں جابیٹھا ہے۔ تبھی مغربی قوتوں کو عمران خان کھٹکنا بھی شروع ہوگیا ہے اس لیے قصہ مختصر کہ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے 80فیصد چانسز ہیں۔ لہٰذاسوال یہ ہے کہ اگر اُس کے بعد تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر اُس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا وہی لوگ پھر اقتدار میں ہوں گے جو گزشتہ 35سال تک آپس میں لڑتے رہے ہیں، جنہوں نے ملک کو قرضے کی دلدل میں ڈبو دیا ہے، جن کے بیرون ملک سوئس بنکوں میں اربوں ڈالر کے اکاﺅنٹس ہیں، جن کے پوری دنیا میں کرپشن کے چرچے ہیں، جن پر نیب نے اربوں روپے کے کرپشن کے کیسز بنا رکھے ہیں۔ جنہیں تبدیلی سرکار نے بڑی مشکل سے عوام اور ”غیبی“مدد سے نیچے اُتارا تھا۔ مطلب! کیا ہم انہیں دوبارہ اقتدار دینے جا رہے ہیں؟ کیا اُنہیں اقتدار دینے جا رہے ہیں جن کے پاس اگلا کوئی پلان نہیںہے؟ جنہیں یہ تک علم نہیں کہ اگلا وزیر اعظم کون ہو سکتا ہے؟ جن کی آپس کی صفوں میں اتفاق نہیں ہے؟ اور پھرکیا نئے حکمران اگلے ڈیڑھ سال کے لیے ہم پر حکومت کریں گے؟ چلیں یہاں تک بھی ٹھیک ہے۔ لیکن یہ اگلے دیڑھ سال تک کریں گے کیا؟ کیا یہ اگلے ڈیڑھ سال تک یہی رونا روئیں گے کہ عمران خان یہ کرگیا ، عمران خان وہ کرگیا ، یا آپ نے ڈیڑھ سال کرنا کچھ نہیں اور آپس میں ریوڑھیاں بانٹنی ہیں اور آپس میں صرف الزامات لگانے ہیں اور صرف اپنے میڈیا ہاﺅسز کو استعمال کرنا ہے تو پھر یہ پاکستان کے ساتھ ظلم ہے،لہٰذا ایسی صورتحال میں مجھے نہیں لگتا کہ انہیں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنی چاہیے۔ کیوں کہ اگر وہ اپوزیشن کی نظر میں کچھ نہیں کر رہا تو اُسے پانچ سال پورے کرنے دیں۔ اُسے خود طبعی موت مرنے دیں۔ بقول شاعر میں آپ اپنی موت کی تیاریوں میں ہوں میرے خلاف آپ کی سازش فضول ہے ورنہ اگر خان صاحب کا اقتدار ختم ہوتا ہے تو بادی النظر میں یہ اُن کے لیے سود مند ہوگا، وہ سیاسی شہید کہلائیں گے، وہ اگلے الیکشن کے لیے بھرپور تیاری کے ساتھ آسکتے ہیں۔ اور پھر اگر واقعتا اُنہیں اقتدار سے الگ کر دیا گیا تو اُن کی متوقع تقریر یہ ہوگی کہ اُنہیں کھل کر کھیلنے اور کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، جب اُن کی حکومت کا کچھ ڈلیور کرنے کا موقع آیا تو اُنہیں اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔ اس کے بعد سب سے پہلے وہ اس قوم کی جذباتی رگ پکڑیں گے۔ وہ کہیں گے میں وہ پہلا حکمران تھا جس نے امریکی تسلط کے آگے قومی غیرت کا سودا کرنے سے انکار کر دیا۔ میں وہ پہلا حکمران تھا جس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو قومی غیرت کی بنیاد پر استوار کیا۔ میں وہ پہلا حکمران تھا جس نے امریکی دباﺅ کو پاﺅں کی ٹھوکر پر رکھا اور روس کا دورہ کیا۔میں وہ پہلا حکمران تھا جس نے امریکی دباﺅ کو برداشت کیا اور اقوام متحدہ میں روس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ یہ میں ہی تھا جس نے اس خطے میں امریکی سامراج کی غلامی قبول کرنے سے انکار کیا اور امور خارجہ میں متبادل راستے اختیار کیے۔وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔ اس کے بعد وہ کہیں گے کہ یہ درست ہے کہ میں نے شروع میں معیشت کی دنیا میں غیر مقبول فیصلے کیے۔لیکن یہ مجبوری تھی کیونکہ مجھے حکومت ملی تو اس مالی سال کے 9مہینے باقی تھے لیکن اس مالی سال کا بجٹ شاہد خاقان عباسی کی حکومت دے کر جا چکی تھی ا ور اس بجٹ کے مطابق صرف اس سال کے معاملات چلانے کے لیے 13 ارب ڈالر قرض لینا لازمی تھا۔ ان حالات میں ، میں کیا کرتا۔لیکن پھر بھی ان مشکل حالات میں ، معیشت کو میں وہاں تک لے آیا کہ اب آ کر پٹرول دس روپے فی لٹر سستا کر دیا۔ مجھے ہٹا یا نہ جاتا تو میں نے پٹرول مزید سستا کر دینا تھا۔ پھر وہ کہیں گے کہ اے نوجوانوں اگر تم امریکی غلامی سے نکلنا چاہتے ہو اور اگر تم مزید سستا پٹرول اور مزید بہتر معیشت چاہتے ہو تو اب کی بار مجھے دو تہائی اکثریت سے واپس لاﺅ۔ یہ امریکی ایجنٹ جو مجھے اقتدار سے نکال رہے ہیں اور ملکی معیشت کو مغربی اداروں کے آگے گروی رکھنا چاہتے ہیں ان سے نبٹنے کے لیے مجھے دو تہائی اکثریت چاہیے۔ تاکہ میں کھل کر فیصلے کر سکوں، اور یہ فیصلے ملکی مفاد میں ہوں گے ۔ پھرایک مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ خان صاحب موصوف حزب اختلاف کے لیڈر بن جائیں گے تو ایسی صورت میں بقول اُن کے وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور پھرایسی صورتحال میں یقینا اُن کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوگا، وہ پروٹوکول سے آزاد ہوںگے، وہ کسی کے پابند نہیں ہوں گے اور تو اور وہ کسی سے ڈکٹیشن بھی نہیں لے رہے ہوں گے تو ایسی صورت میں وہ اپنی تمام تر توانائیاں اپوزیشن کے خلاف صرف کریں گے، اُن کے ہر ہر اقدام کو بغور جائزہ خود دیکھیں گے اور پھر تنقید کریں گے۔ اور پھر سوہنے پر سہاگہ یہ کہ ان کا مزاج ہی احتجاج اور حزب اختلاف کا ہے۔ امریکہ مخالفت ، سامراج دشمنی اور آخر وقت پر سستا پٹرول یہ وہ چیزیں ہیں جو عمران خان کے لیے ایک محفوظ ٹارگٹ سیٹ کر چکی ہیں۔لہٰذاایک امکان یہ بھی ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اگلے الیکشن میں عمران خان دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں کیوں کہ عوام کی یاد داشت کی طبعی عمر تین چار ماہ ہی ہوتی ہے۔ اگلی حکومت آئے گی ، پٹرول مہنگا کرے گی اور لوگ کہیں گے : یار ان سے تو عمران اچھا تھا۔یہ ہماری قومی تاریخ کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر آنے والے کا نامہ اعمال دیکھ کر ہر جانے والا اچھا لگنے لگتا ہے۔ جیسے مشرف حکومت ختم ہوئی اور زرداری حکومت نے اقتدار سنبھالا تو عوام مشرف کو یاد کرنے لگے۔ پھر ن لیگ کا دور آیاتو لوگ زرداری دور کو یاد کرنے لگے اور اب جب خان صاحب کا دور آیا ہے تو لوگ ن لیگ کے دور کو اچھا کہہ رہے ہیں۔ بہرکیف ملکی سیاسی حالات کچھ بھی ہوں مگر ایک بات تو طے ہے کہ کوئی ملک اگر دہائیوں سے سیاسی کھیل تماشوں کا اکھاڑا بنا ہوا ہو تو عوام اور غریب کے کون سے مسائل حل ہوں گے، ترقی کیونکر ہو گی، کوئی سکھ کا سانس کیسے لے گا اورخوشحالی کے خواب کیوں پورے ہوں گے؟ نظام جو بھی ہو، جمہوری، آمرانہ، صدارتی یا ہمارے جیسا پارلیمانی، چلتا صرف استحکام سے ہی ہے۔ سعودی عرب اور عرب امارات کوئی جمہوری، آئینی نہیں۔ چین میں ہمارے جیسے انتخابات نہیں ہوتے، اور جدید سنگاپور کے بانی لی کوان یو تو مغربی جمہوری نظام کو ایشیائی معاشروں کے لیے غیر موزوں قرار دیتے تھے۔ بات سادہ سی ہے کہ اگر حکومتیں محلاتی سازشوں سے بنائی اور گرائی جائیں، ہر حکومت کو عوام دشمن قرار دے کر مختلف گروہ اور جماعتیں، سڑکوں پر مارچ کرتے رہیں، تو نظام کمزور، بیکار اور ناکام ہو جاتے ہیں۔ آپ دنیا کے بہترین ماہرین، نوکر شاہی چلانے کے لیے اعلیٰ کردار کے حامل اہل لوگ اور وزارتوں میں جتنے بھی پ±رخلوص لوگ جمع کر لیں، استحکام نہ ہو گا تو ناکام ہو جائیں گے۔ سرکاری دفتروں میں کام کرنے والوں سے لے کر سرمایہ کاروں اور غیر ملکی کمپنیوں تک، سب کام چھوڑ کر سیاسی تماشوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ”کون بنے گا اگلا وزیر اعظم“ کی باتیں ہوتی رہیں یا”کب جا رہے ہیں وزیر اعظم“ تو وہ حالات پیدا نہیں ہو سکتے جن سے کوئی ملک ترقی کے مراحل طے کر سکے۔ ہماری اپنی مثال موجود ہے۔ ایوب خان کا دور جمہوری نہیں آمرانہ تھا۔ صرف دس سال استحکام رہا تو ترقی کی مثال قائم کر دی۔ لہٰذااپوزیشن ، حکومت اور فیصلہ کرنے والی قوتوں سے گزارش ہے کہ وہ ملک میں استحکام لے کرآئیں، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام دونوں صورتوں میں ملک میں عدم استحکام آئے گا۔ لہٰذامذکورہ بالا قوتیں خود سوچیں کہ اس ساری لڑائی اور کھینچا تانی میں عوام کہاں ہیں؟ اور ان کی امنگیں کہاں ہیں؟ یہ سب حکمران خاندانوں کا کھیل تماشا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس لیے ہوش کے ناخن لیے جائیں اور اندرونی لڑائیاں چھوڑ کر ایک دوسرے کا برداشت کرنا اور پوراموقع دینا سیکھیں اسی میں ملک کی بقاءبھی ہے اور ترقی بھی!