پی ٹی آئی الیکشن سے باہر: اب مسئلہ کیا ہے؟

بھلا الیکشن کی کیا ضرورت ،،، غریب ملک کے 50ارب روپے بچائیں،،، کیوں کہ سبھی جانتے ہیں کہ رزلٹ کیا آئے گا! اور پھر سب سے اہم بات کہ اس فعل کا تعلق نہ تو جمہوریت سے ہے اور ہی آئین و قوانین سے۔ بلکہ یہ تو محض ایک مذاق ہے اور وہ بھی پوری قوم کے ساتھ۔ پوری قوم 9مئی جیسے واقعات کے خلاف ہے، کوئی بھی اس پر Appreciateنہیں کر رہا۔ بلکہ پکڑے جانے والے افراد اور اُن کے لواحقین بھی اس واقعہ کی مذمت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ اُن کے خلاف بھی سازش ہوئی ہے۔ لیکن اُس کی آڑ میں اس قسم کا الیکشن کروانا کیسی دانشمندی ہے۔ اور پھر چلیں یہاں تک بھی سب نے مان لیا کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروایا اور اُسے الیکشن سے باہر کر دیا گیا مگر کیا یہ بھی درست ہے کہ آزاد حیثیت میں لڑنے والے اُمیدواروں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں۔ اُن کے کیمپ اُکھاڑ دیے جائیں ، اُن کے پوسٹرز کوپھاڑ دیا جائے، اور اُنہیں اور اُن کی فیملی کو ہراساں کیا جائے؟ کیا آئین و قانون کی نظر میں تحریک انصاف ایک قانونی جماعت نہیں ہے؟ اگر نہیں یقین تو آپ حلقہ بہ حلقہ خود وزٹ کر لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ جیسے آپ قصور کے حلقہ این اے 132کی بات کر لیں، یہ میرا آبائی حلقہ ہے، یہاں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپنے کاغذات جمع کروائے ہیں۔ جبکہ اس حلقے میں تحریک انصاف کے رہنما راشد طفیل نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے کاغذات جمع کروانے سے پہلے ہی ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح مریم نواز سرگودھا کے حلقہ پی پی 80 سے بھی انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ لاہورکے علاوہ مسلم لیگ ن کے لیے یہ دونوں نئے حلقے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حلقوں میں کاغذات ایسے وقت میں جمع کروائے گئے جب ان حلقوں سے پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدواران مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں اور وہ میدان میں موجود نہیں ہیں۔ ضلع سرگودھا میں تحریک انصاف کی ضلعی قیادت مکمل طور پر منظر سے غائب ہے۔ پھر آپ حلقہ پی پی 80میں مریم نواز کھڑی ہیں، جہاں سے کوئی مخالف اُمیدوار سامنے نہیں آیا۔ یہاں بھی تحریک انصاف کی مقامی قیادت غائب ہے۔ اسی طرح حلقہ این اے 131 کے تحریک انصاف کے امیدوار مہر سلیم نے بھی شہباز شریف کے مقابلے میں اپنے کاغذات جمع کروا دیے ہیں۔مگر وہ بھی اپنے ویڈیو پیغامات کے ذریعے الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ خیر اگر ان آزاد اُمیدواروں کے حوالے سے ہی بات کر لیں تو اس بار الیکشن میں سیاسی جماعتوں سے دو گنا زیادہ آزاد اُمیدوار میدان میں اُتریں گے۔یعنی قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر کل 17 ہزار 816 اُمیدوار میدان میں ہیں۔جن میں سے 11 ہزار 785 آزاد اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔اگر اتنی تعداد میں سے 100سے زائد اُمیدوار جیت جاتے ہیں تو میرے بھائی فائدہ کس کو ہوگا؟ یقینا جس نے حکومت بنانی ہے، اُسی کو فائدہ ہوگا۔ یعنی آزاد اُمیدوار جتنے بھی جیتیں گے، وہ تو حکومت میں جائیں گے،،، خواہ حکومت ن لیگ کی بنے یا پیپلزپارٹی کی۔ تو ایسے میں ڈر کس چیز کا ہے، کیا ماضی میں کبھی ایسے ہوا کہ کوئی اُمیدوار جیتا ہواور وہ حکومت کے ساتھ شامل نہ ہوا ہو؟ آپ زیادہ دور نہ جائیں،،، 2018ءکے الیکشن میں دیکھ لیں کہ تحریک انصاف کی حکومت بننے جا رہی تھی، تو کس طرح جہانگیر ترین جہاز بھر بھر کر ایم این ایز اور ایم پی ایز کو لا کر حکومت میں شامل کر رہے تھے۔ اگر ایسا ہے تو بتایا جائے کہ ان آزاد لڑنے والوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ کیوں نہیں دی جارہی ۔یعنی الیکشن کا ماحول تو درست رکھیں، اگر یہ خوف کا ماحول ختم ہوگا تو آپ دیکھیں گے کہ ملک میں الیکشن کی گہما گہمی ہوگی۔ لہٰذاتحریک انصاف کے جو اُمیدواران ہیں، اُن کے بارے میں سب کو علم ہے کہ جب وہ جیت جائیں گے تو اپنی مرضی کریں گے۔ وہ اپنا مفاد دیکھیں گے،،، چلیں یہ بھی مان لیا کہ زیادہ نہیں تو کم و بیش 30،40فیصد اراکین اپنی جماعت کے لیے اڑ جاتے ہیں تو کیا اُنہیں علم نہیں کہ پھر اُن کے ساتھ کیا ہوگا؟ لہٰذاحل یہی ہے کہ ان آزاد اُمیدواروں کو آرام سے الیکشن لڑنے دیا جانا چاہیے۔ ان کے لیے مسائل بڑھانے سے جنرل الیکشن 2024ءمتاثر ہو سکتے ہیں، ہمارا ٹرن آﺅٹ پہلے ہی 50فیصد سے بھی کم رہتا ہے، لہٰذااگر اس بار بھی مزید کم ہوگیا تو کیا کریں گے؟ کیا ایسی جمہوریت ہم دنیا کو دکھائیں گے۔ حالانکہ دنیا بھر میں ٹرن آﺅٹ 50فیصد سے کم ہو تو ویسے ہی الیکشن ملتوی کر دیتے ہیں، مثلاََ ترکی میں الیکشن کا ٹرن آﺅٹ 86-90فیصد رہتا ہے، سنگاپور میں 94فیصد ، مالدیپ میں 90فیصد ،سری لنکا جیسے ملک میں 84فیصد، برازیل میں 80فیصد، امریکا میں 71فیصد رہتا ہے اور انڈیا میں الیکشن ٹرن آﺅٹ 67-70فیصد رہتا ہے۔ بلکہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں 85فیصد ممالک میں ووٹنگ ٹرن آﺅٹ 50فیصد سے زیادہ ہی رہتا ہے۔ اور اب اگر حالات ایسے رہتے ہیں تو ایسی صورت میں ٹرن آﺅٹ بہتر ہوگا؟ اور جب تحریک انصاف الیکشن سے ہی بار ہو چکی ہے، تو اس جماعت کا 25، 30فیصد ووٹرز خراب ہوگیا ہے، اتنا ہی ووٹر مایوس ہوکر گھر بیٹھ گیا ہے، تو ایسی صورت میں آپ کے ملک میں جنرل الیکشن کا ٹرن آﺅٹ خطرناک حد تک کم ہو جائے گا۔ اور پھر خدارا جب اس جماعت کے 60،70فیصد ووٹر گھر بیٹھ گئے ہیں تو پھر میرے خیال میںنیٹ اینڈ کلین الیکشن کروانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اب تو میدان خالی ہے، اب تو سب کو علم ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، بلاول سب جیت جائیں گے۔ تو ایسے میں مسئلہ کیا ہے؟ بلکہ پیپلزپارٹی میں تو اتنا دم خم بھی نہیں ہے کہ وہ پنجاب میں ن لیگ کا مقابلہ کر سکے۔ اور پھر سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں آزاد اُمیدوار ”احکامات“ پر چلتے ہیں، تاریخ میں بہت کم آزاد اُمیدوار ہوں گےجو حکومت میں نہیں بیٹھے ہوں گے، اور ایسا اس لیے نہیں ہے کہ تمام کیسز میں اُمیدوار پر دباﺅ ہی ڈالا جاتا ہوگا۔ بلکہ آپ یہ دیکھیں کہ ہر جیتنے والے ایم این اے ، ایم پی اے کو علاقے میں ڈپٹی کمشنر، کمشنر، ایس پی، تحصیل دار کی ضرورت ہوتی ہے، اُسے ترقیاتی فنڈز چاہیے ہوتے ہیں۔ وہ کیسے حکمران جماعت سے الگ ہو سکتا ہے؟ اور پھر یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی آسان ہو رہا ہے کہ اس بار آزاد اُمیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے کے چانسز بڑھ گئے ہیں۔ تو پھر اب انتخابی ماحول کو خراب کیوں کیا جا رہا ہے۔؟ بے شمار ویڈیوز آرہی ہیںکہ پوسٹرز پھاڑے جارہے ہیں، کارکنان کو پکڑا جا رہا ہے، میرے خیال میں اب تو پولیس کے دیے گئے اندھا دھند اختیارات کو واپس لیا جانا چاہیے۔ اب تو کسی اُمیدوار کو 9مئی کے کیس میں گرفتار بھی نہیں کرنا چاہیے۔ پولیس سے بے شمار اختیارات واپس لینے کا میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ اب تو پولیس اور بیوروکریسی نئی آنے والی حکومت کے سامنے نمبر بنانے اور آنے والے دنوں میں اچھی پوسٹنگ لینے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ بہرکیف وہ سیاسی جماعتیں جو بڑے یقین سے حکومت بنانے پر یقین رکھتی ہیں یعنی مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی ،وہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ایک اور بات بھی بڑی صاف الفاظ میںدرج کردوں کہ انتخابات والے دن کسی دھاندلی کا کوئی امکان نہیں اور نہ ہی نتائج میں کوئی رد وبدل ہوگا۔وہی لوگ جیتیں گے جنہیں لوگ ووٹ دیں گے۔ووٹ کسے ملنے والے ہیں یہ لیڈر شپ کو معلوم ہو یا نہ ہو۔عوام سب جانتے ہیں۔ووٹ دینے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے کسے ووٹ دینا ہے۔ انتخابی نشان کی حیثیت تو صرف آسانی فراہم کرنے کےلئے ہوتی ہے مگراب یہ آسانیاں سوشل میڈیا نے فراہم کرنا شروع کردی ہیں جیسے پی ٹی آئی نے ایک ایپ بنا دی ہے کہ آپ اگر اپنے حلقے میں پی ٹی آئی کا امیدوار تلاش کرنا چاہتے ہیں تو اس ایپ میں اپنے حلقے کا نمبر درج کریں۔امیدوار کا نام سامنے آجائے گا۔جہاں تک ان پڑھ لوگوں کا تعلق ہے۔اب موبائل فون ان کے پاس بھی ہیں اور وہ بھی انہیں استعمال کرنا جانتے ہیں۔ پھر یہ نوجوانوں کا الیکشن ہے۔ستر فیصد ووٹر نوجوان ہیں۔ان پر ان کے بزرگ موجودہ صورتحال میں اثر انداز نہیں ہو سکتے بلکہ نوجوانوں کے بزرگوں پر اثر انداز ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں نون لیگ کے پانچ امیدوار سامنے بیٹھے تھے اور جلسے میں تقریر کرنے والا شخص کہہ رہا تھا کہ ہمیں سب سے زیادہ دھیان اپنے گھروں پر دینا ہو گا۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہمارے گھروں سے ہی ہمیں ووٹ نہ ملیں۔یعنی انہیں معلوم ہے کہ نوجوان نسل کیا سوچتی ہے۔ لہٰذاالیکشن کمیشن کو بھی اس حوالے سے ایکشن لینے کی ضرورت ہے کہ وہ اس طرف دھیان دے ورنہ یہ الیکشن تاریخ کا بدترین الیکشن کہلائے گا۔ چونکہ اب بہت کچھ ہو چکا ہے، اب محض چند دن باقی ہیں، تو کبھی آن لائن جلسہ ہونے پر سوشل میڈیا کو بند کر دیا جاتا ہے تو کبھی پورا انٹرنیٹ ہی بند کر دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے یقینا بدمزگی پھیلے گی، نفرت بڑھے گی اور عوام کا حکومتی اداروں سے اعتبار اُٹھ جائے گا!